ایسی صفات والوں کی پیر وی نہ کرو

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 24
پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے عظیم اخلاق کاذکر کرنے کے بعد کہ جو گز شتہ آ یات میں بیان ہُوئے تھے، ان آ یات میں ان کے دشمنوں کے اخلاق کوبیان کررہاہے تاکہ ان میں موازنہ کرنے سے ان دونوں کافرق کامل طور سے آشکار ہوجائے ۔
پہلے فر ماتاہے :ان تکذیب کرنے والوں کی ، جوخدا ،پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)،قیامت کے دن اور خدا کے دین کی تکذیب کرتے ہیں ، اطاعت اور پیروی نہ کرو (فَلا تُطِعِ الْمُکَذِّبینَ )۔
وہ خود گمراہ اوردوسروں کوگمراہ کرنے والے لوگ ہیںاورانہوں نے حق کے تمام اصول اپنے پائوںتلے روند ڈالے ہیں.ایسے لوگوں کی صرف ایک بات میں اطاعت بھی گمراہی اور بدبختی کے علاوہ اورکوئی نتیجہ نہیں رکھتی ۔
اِس کے بعد پیغمبر کواپنے ساتھ ملانے اوراپنی طرف مائل کرنے کی ساز باز میںان کی کوششوں کی طرف اشارہ کرتے ہُو ئے مز ید کہتاہے : وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ تم کچھ نرمی اختیار کرلو تاکہ وہ بھی کچھ نرمی کریں (وَدُّوا لَوْ تُدْہِنُ فَیُدْہِنُونَ)۔
نرمی اور جھکا ئو کامعنی یہ ہے کہ ان کی خدا کے فرامین کے ایک حصّہ سے صرف ِ نظر کرے ۔
مفسّرین نے نقل کیاہے کہ یہ آ یات اس وقت نازل ہُوئیں جب رئو سائِ مکہ نے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کواپنے بزرگوں کے دین ،شرک اور بُت پرستی کی دعوت دی تو خدانے آپ کوان کی اطاعت سے منع کیا(١)۔
بعض دوسروں نے یہ نقل کیاہے کہ ولید بن مغیرہ ،جوشرک کے بہت بڑے سرغنوں میں سے تھا ، اس نے بہت زیادہ مال پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی خدمت میں پیش کیااورقسم کھائی کہ اگرآپ اپنے دین سے پھر جائیں تو یہ سارامال آپ کودے دے گا ( ٢)۔
آ یات کے لب ولہجہ اور تاریخوںمیں درج واقعات سے اچھی طر ح معلوم ہوجاتاہے کہ جب دل کے اندھے مشرکین نے دین اسلام کی پیش رفت کی سرعت کامشاہد ہ کیاتووہ اس فکر میں پڑ گئے کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کوکچھ امتیازات لے لیں اورانہیں سازش کے ذ ریعہ اپنی طرف کھینچ لیں .جیساکہ طول تاریخ میں سب ہی طرفدارانِ باطل کا طریقہ رہاہے . لہٰذاکبھی توبہت زیادہ مال کی ،کبھی خوبصورت عورتوں کی اور کبھی اعلیٰ عُہدے اور مقام کی پیش کش کرتے .حقیقت میں وہ روحِ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کوبھی اپنے وجود کے تر ازو میں تول رہے تھے ۔
لیکن قرآن پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کوبار بار خبر دار کرتاہے کہ انحرافی پیشکشوں کے مقابلہ میں اپنی طرف سے معمولی سے جھکا ئو کابھی اظہار نہ کریں اور اہل باطل کی خاطر ہرگز نرمی نہ کریں. جیساکہ سورۂ مائدہ کی آ یت ٤٩میں آ یاہے :وَ أَنِ احْکُمْ بَیْنَہُمْ بِما أَنْزَلَ اللَّہُ وَ لا تَتَّبِعْ أَہْواء َہُمْ وَ احْذَرْہُمْ أَنْ یَفْتِنُوکَ عَنْ بَعْضِ ما أَنْزَلَ اللَّہُ ِلَیْک ان (اہل کتاب )کے درمیان خُدا کے نازل کہ وہ فرمان کے مُطابق حکم کرو اوران کی ہواو ہوس کی پیروی نہ کر و اور اس بات سے ڈرتے رہو کہ وہ تمہیں ان تعلیمات سے جوخدانے تم پر نازل کی ہیں منحرف نہ کردیں ۔
ید ھنون مداھنہ کے مادہ سے اصل دمیں دھن بمعنی روغن لیاگیاہے ، اور اس قسم کے مواردمیں نرمی کرنے اورجھکائو کے معنی میں استعمال ہوتاہے .عام طورپر یہ تعبیر مذموم اورمنا فقانہ نہ جھکائو کے مواردمیں استعمال ہوتی ہے ۔
اس کے بعد دوبارہ ان کی اطاعت سے منع کرتے ہُوئے نومذموم صفات کو جن میں سے ہر ایک اکیلی ہی اطاعت اورپیر وی کرنے سے مانع ہوسکتی ہے ،ان کو شمار کرتا اور فر ماتاہے اورایسے لوگوں کی جوپست اور بہت زیادہ قسمیں کھانے والے ہوں اطاعت نہ کرو (وَ لا تُطِعْ کُلَّ حَلاَّفٍ مَہین)۔
حُلّاف اس شخص کوکہتے ہیں جوبہت زیادہ قسمیں کھاتا ہواورہر چھوٹے بڑے کام کے لیے قسم کھانے لگے .عام طور پر اس قسم کے لوگ اپنی قسموں میں سچے نہیں ہوتے ۔
مھین مہا نت سے حقارت وپستی کے معنی میں ہے .بعض نے اس کی کم عقل یاجھوٹے یا بہت زیادہ شریر افراد کے ساتھ تفسیر کی ہے ۔
اس کے بعد مزیدکہتا ہے : وہ شخص جوبہت ہی زیادہ عیب جُو اورچغلخور ہے (ہَمَّازٍ مَشَّاء ٍ بِنَمیمٍ )۔
ھمّاز ھمز( بروزن طنز)کے مادّہ سے غیبت اور عیب جُوئی کرنے کے معنی میں ہے ۔
مَشَّاء ٍ بِنَمیمٍ ایساشخص جوتعلقات خراب کرنے ، فساد پھیلانے اور لوگوںمیں دشمنی پیدا کرنے کے لیے آمدورفت رکھتاہو ( اس بات پر توجہ رکھنی چاہیے کہ یہ دونوں اوصاف صیغہ مبالغہ کی صُورت میں آ ئے ہیں جواس قسم کے قبیح کاموں میں ان کے انتہائی اصرار کی ترجمانی کرتے ہیں)۔
پانچویں چھٹی اور ساتوین صفت میں کہتاہے : وہ شخص جونیک کاموں میں بہت زیادہ رکاوٹیں ڈالنے والا ، تجاوز گر اور گنہگار ہے (مَنَّاعٍ لِلْخَیْرِ مُعْتَدٍ أَثیمٍ)۔
نہ صرف خود کو ئی اچھاکام نہیں کرتا اوراچھائی کاراستہ نہیں دکھاتا، بلکہ دوسروں کی خیر وبرکت کے مقابلہ میں بھی ایک رکاوٹ بناہُوا ہے .علاوہ ازیں وہ ایک ایساانسان ہے جوحدودِالہٰی اوران حقوق سے جوخدا نے ہرانسان کے لیے معیّن کردیئے ہیں ، تجاوز کرنے والا ہے . ان صفات کے علاوہ ہرقسم کے گناہ میں بھی آلودہ ہے ،اس طرح کہ گناہ اس کی طبیعت اورمزاج کاجُز ء بن چکاہے ۔
آخر کار ان کی آٹھویں اور نویں صفت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فر ماتاہے : وہ ان سب باتوں کے علاوہ پرخورو بدنام ہے (عُتُلٍّ بَعْدَ ذلِکَ زَنیمٍ)۔
عتل جیساکہ راغب نے مفردات میں کہاہے ،ایسے شخص کوکہتے ہیں جو غذابہت کم کھاتاہو، ہر چیز کواپنی طرف کھینچتاہو اور دوسروں کواس سے محروم کردیتاہو ۔
بعض دوسروں نے عتل کوایک بدخُو ،کینہ پرور ،سخت مزاج انسان یابے حیا اور بد خلق انسان کے معنی میں تفسیر کیاہے ۔
زنیمایسے شخص کوکہتے ہیں جِس کاحسب ونسب واضح نہ ہو اوراسے کسِی قوم کی طرف نسبت دیتے ہیں، حالانکہ وہ ان میں سے نہیں ہوتا .اصل میں زنمہ (بروزن قلمہ )گوسفند کے کام کے اس حصّہ کوکہتے ہیں جولٹکا ہوا ہوتاہے گویا وہ کام کاجزء نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ وابستہ کر دیاگیاہے ۔
بعد ذالک کی تعبیر اس معنی کی طرف اشارہ ہے کہ یہ دونوں صفات سابقہ صفات سے زیادہ قبیح اور مذموم ہیں ، جیساکہ مفسّرین کی ایک جماعت نے اس کاتذ کرہ کیاہے ۔
خلاصہ یہ ہے کہ یہاں خدا نے جھٹلا نے والوں ، ان کی قبیح صفات ،اوراخلاقِ رذ یلہ کی ایسی تصویر کشی کی ہے کہ شاید سارے قرآن میں اس کی مِثل ونظیر نہ ہو .وہ اس طرح سے یہ واضح کرناچاہتاہے کہ اسلام و قرآن کے مخا لفین اور پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی ذات کے مخالفین خودکِس قسم کے لوگ تھے .جھُوٹے ،پست ،عیب جُو ، جُغلخور، حد سے تجاوزکرنے والے ،گنہگار اور بے اصل ونست افراد اورواقعاً اِس قسم کے افراد کے علاوہ اور کسِی سے اِس قسم کے عظیم مصلح کی مخالفت کی توقع نہیں کی جاسکتی ۔
بعد والی آیت خبر دار کرتاہے : کہیں ایسا نہ ہو کہ جب وہ زیادہ مال اور اولاد رکھتے ہیں ،اس بناء پر تم ان کے مقابلہ میں نرم پڑ جائواور سر تسلیم خم کرکے ان کی اطاعت کرنے لگو (أَنْ کانَ ذا مالٍ وَ بَنینَ )۔
اس میں شک نہیں کہ پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)ہرگز ان کی اطاعت و پیروی نہ کرتے ،لیکن یہ آ یات حقیقت میں اس امر پر ایک تاکید ہیں تاکہ آپ کے مکتب کی راہ اور عملی روش سب پر آشکار ہو جائے اور دوست و دشمن میں سے کوئی بھی شخص اِس کی تو قع نہ رکھّے۔
اِس بناء پر اوپر والاجُملہ آ یت و لا تطع کل حلّاف مھین کا تتمہ ہے ،لیکن بعض نے کہاہے کہ یہ آ یت حقیقت میں ان صفات کی پیدائش کی علّت کابیان ہے .یعنی دولت وثروت اورافرادی قوت سے پیداہونے والا غرُور تکبّر انہیںان اخلاقی رذائل کی طرف کھینچ لے جاتاہے .چنانچہ بہت سے بے ایمان دولت مندوں اورقد رت رکھنے والوں میںیہ صفات نظر آ تی ہیں .لیکن آ یات کالب ولہجہ پہلی تفسیر کے ساتھ زیادہ مناسب ہے ،اوراسی وجہ سے اکثر مفسّرین نے بھی اس کوانتخاب کیاہے ۔
بعد والی آ یت میں اس قسم کی پست صفات کے حامل افراد کاآیات الہٰی کے مقابلہ میں عکس العمل دکھاتے ہُوئے کہتاہے : جب ہماری آ یات اس کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تووہ کہتاہے کہ یہ تو گذ رے ہُوئے لوگوں کے بے فائدہ افسانے ہیںذا تُتْلی عَلَیْہِ آیاتُنا قالَ أَساطیرُ الْأَوَّلینَ)۔
وہ اس بہانے سے اور اس قبیح نسبت کی وجہ سے آیات خداسے دور ہوجاتاہے اورانہیںفراموش کر دیتاہے .نیز دوسروں کوبھی گمراہ کرتاہے .اسی بناء پر اس کے افراد کی اطاعت وپیروی نہیں کر ناچاہیئے اوریہ اس قسم کے افراد کی اطاعت سے نہی میں ایک تکمیل ہے ۔
آخری زیر بحث آ یت ، اس گروہ کی ایک سزاسے پردہ اٹھائے ہُوئے مزید کہتی ہے : ہم عنقریب اس کی ناک پرننگ وعار داغ اور نشانی لگادیں گے (سَنَسِمُہُ عَلَی الْخُرْطُومِ )۔
یہ ان کواتنہائی ذلیل کرنے کے لیے ایک منہ بولتی تعبیر ہے .کیونکہ اول توناک کی خرطوم سے تعبیر جوصرف سورۂ اورہاتھی کے لیے بولی جاتی ہے ،ان کے لیے ایک واضح تحقیر وتذلیل ہے .دُوسرے لغت عرب میں ناک عام طورپر بزرگی اورعزّت سے کہایہ ہوتاہے ، جیساکہ فارسی میں بھی جس وقت ہم یہ کہتے ہیں کہ اس کی ناک کو مٹی میں رگڑ دو ، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس کی عزّت کوبرباد کردو ( اردو میں ناک کاکٹنا بے عزتی کے معنی میں آتاہے )تیسرے نشان وعلامت لگا نا جانوروں کے ساتھ مخصوص ہے،لیکن جانوروںمیں بھی ان کے چہر وںخصوصاً ان کے ناک پرعلامت نہیں لگا ئی جاتی ،اوراسلام میں بھی اس کام سے رو کاگیاہے .یہ سب چیزیں واضح بیان کے ساتھ کہتی ہیں کہ خدا اس قسم کے طغیان گر ، خود خواہ ، متجا وز اور سرکش افراد کواس طرح سے ذلیل کرتاہے اورہر جگہ ان کی رُسوائی کاڈھنڈورا پٹو ادیتاہے تاکہ سب کے لیے عبرت ہو ۔
تاریخ اسلام بھی اس معنی پر گواہ ہے کہ ہٹ دھرمی مخا لفین کا یہ گروہ اسلام کی پیش رفت سے اس طرح ذلیل و رُسوا ہُوا کہ جس کی کوئی مثال اور نظیر نہیں ملتی.آخرت کی رُسوائی اس سے بھی زیادہ ہے ۔
بعض مفسّرین نے کہاہے کہ اس سورہ کی زیادہ ترآیات شرک کے ایک مشہور سرغنہ ولید بن مغیرہ کے کے بارے میںآ ئی ہیں.لیکن یہ بات آیات کی عمومیّت ، وسعت اوراس کی تعبیرات کے شمول سے مانع نہیں ہے (٣)۔
زیربحث آیت کی طرف توجہ کرتے ہُوئے خدا کہتا ہے ہم اس کی خرطوم پر علامت لگائیں گے یہ تعبیر ایک عمدہ معنی رکھتی اور بتاتی ہے کہ خدا کایہ ارادہ اس کے مخصوص بندہ علی علیہ السلام کے ہاتھ سے پورا ہُوا ۔
١۔فخر رازی جلد ٣٠ ،صفحہ ٨٥ ومراغی جلد ٢٩ ،صفحہ ٣١۔
٢۔ تفسیر قرطبی ،جلد ١٠،صفحہ ٦٧١٠۔
٣۔بعض نے کہاہے کہ ناک پرعلامت لگانا جنگ بد ر میںعملی طورپر صورت پذیر ہوگیا کہ کفر کے بعض سرغنوں کی ناک پراس طرح سے ضرب لگی کہ اس کی علامت باقی رہی . اگریہاںولید بن مغیرہ ہی مُراد ہوتو تاریخ یہ کہتی ہے کہ وہ جنگِ بدر سے پہلے ہی ذلت وخواری کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوگیاتھا .لیکن اس کے علاوہ کوئی اور شخص مراد ہوتوپھر وہ بات ممکن ہے جوامام علی علیہ السلام بن الحسین علیہ اسلام کے شام کے مشہور خطبہ میں بھی آ ئی ہے "" انا ابن من ضرب خراطیم الخلق حتی قالوا لاالہٰ الااللہ "" ! میں اس کابیٹا ہوں جس نے مشر کین کی نا کوں پر ضرب لگا ئی ، یہاں تک کہ انہوں نے لاالہٰ الااللہ پڑ ھ لیا(اس سے مراد امیر المو منین علی علیہ السلام ہیں ۔بحارالانوارجلد ٤٥ ،صفحہ ١٣٨)۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma