٢: پیغمبر (ص) کے اخلاق کاایک نمونہ

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 24
پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کامیابی اگرچہ خدائی تائید و امداد کے ساتھ ہُو ئی تھی ، لیکن آپ ظاہر ی لحاظ سے بھی اس کے لیے کئی عوامل رکھتے تھے . جن میں سے اہم ترین پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کاجاذبۂ اخلاقی تھا . اعلیٰ انسانی صفات اورمکارمِ اخلاق آپ میں اس طرح سے جمع تھے جوسخت ترین دشمنوں کوبھی متاثر کردیتے ، انہیں سرِ تسلیم خم کرنے پرابھارتے ہیں اور دوستوں میں شدید جذب ومحبت پیداکردیتے تھے ۔
بلکہ اگرہم اسے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کااخلاق معجزہ کہیں توکوئی مبالغہ نہیں ہوگا.چنانچہ اس اخلاق معجزہ کاایک نُمونہ فتح مکّہ میں نمایاں ہواجب وہ خونخوار اورجرائم پیشہ مشرکینِ مکّہ جنہوں نے سالہا سال تک اسلام اوراپیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے خلاف اپنی پوری قوّت صرف کی تھی .مسلمانوں کے چُنگل میں گرفتار کا فرمان جاری کردیا، اوران کے تمام جرائم کومعاف کردیا . یہی چیزاس بات کاسبب بنی کہ وہ ید خلون فی دین اللہ افواجا کے مصداق بن کر فوج درفوج مسلمان ہوجائیں ۔
پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے حُسنِ خلق ، عفود درگزر ، عطوفت ومہربانی ، ایثار وفدا کاری اورتقوٰی وپرہیزگار ی کے بارے میں تفسیر اور تاریخ کی کتابوں میں بہت زیادہ واقعات لکھے ہُوئے ہیں. ان سب کابیان ہمیں تفسیر ی بحث سے خارج کردے گا .لیکن ہمارے لیے اتنا لکھنا ہی کافی ہے کہ ایک حدیث میں حضرت امام حسین علیہ السلام ابن علی علیہ السلام سے آ یاہے ، کہ آپ نے فرمایا:
میں نے اپنے پدرِ بزرگوار امیر المومنین علی علیہ السلام سے پیغمبر کی زندگی کی خصوصیا ت اور آپ کے اخلاق کے بارے میں سوال کیاتومیرے والد نے تفصیل کے ساتھ مجھے جواب دیا .اس حدیث کے ایک حصّہ میں آ یاہے :
اپنے پاس بیٹھنے والوں کے ساتھ پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رفتار اس طرح تھی کہ آپ خوشرو، خنداں ، خلیق اور نرم رہتے تھے ،اور کبھی بھی سخت مزاج ،سنگدل ، پُرخاش رکھنے والے ، سخت زبان ،عیب جو اور تعریف پسند نہ تھے . کوئی شخص آپ سے مایُوس نہ ہوتاتھا،جوشخص بھی آپ کے گھر کے در وازے پر آ تا مایوس وناامید نہ لوٹتا تھا .تین چیزوں کوآپ نے اپنے سے الگ کررکھا تھا ،گفتگو میںجھگڑنا،زیادہ باتیں کرنا، اورایسے کام میں دخل دینا جوآپ سے مربُوط نہ ہو .اسی طرح تین چیزوں کولوگوں کے بارے میں چھوڑ رکھاتھا ، کسِی کی مذمّت نہیں کرتے تھے ، کسِی کو سرزنش نہیں کرتے تھے اورلوگوں کے پوشیدہ عیوب اورلغز شوں دکی جستجو نہیں کرتے تھے .آپ ہرگز کوئی گفتگو نہیں کرتے تھے سوائے ان امور کے بارے میں جن میں حصولِ ثواب کی اُمید ر کھتے تھے ، گفتگو ایسی موثر ہوتی تھیں کہ تمام سننے والے لوگ سکوت اختیا کر لیتے تھے اوراراپنی جگہ سے ہلتے تک نہیں تھے .جب آپ خاموش ہوجاتے توپھر وہ لوگ بولتے ، لیکن وہ آپ کے پاس نزاع اورجھگڑانہیں کرتے تھے ، جب کوئی اجنبی اورنا واقف آدمی سختی سے بات کرتا اور درخواست کرتاتوآپ تحمّل سے کام لیتے اوراپنے اصحاب سے فر ماتے : جب کسِی کو دیکھو کہ وہ کوئی حاجت رکھتاہے تواس کی حاجت پُوری کرو ، آپ ہرگز کسِی کی بات کونہیں کاٹتے تھے جب تک کہ اس کی بات ختم نہ ہوجا تی (١)۔
ہاں ! اگریہ اخلاِق کریمہ اور یہ ملکاتِ فاضلہ نہ ہوتے تووہ پسماندہ اور جاہل قوم اوروہ سخت اوراثر ناپذیر گروہ آغوشِ اسلام میں ہرگزر نہ آتا،اور نفضوا من حولک کامصداق بن کرسب پراگندہ ہوجاتے ۔
کیا ہی اچھاہو کہ یہ اسلامی اخلاق آج زندہ ہو ں اورہر مسلمان میں پیغمبراسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے اخلاق و عادات کاعکس نظر آئے ۔
اس سلسلہ میں اسلامی روایات بھی چاہے وہ خود پیغمبر کے بارے میں ہوں یا سب مسلمانوں کی ذمّہ داری کے بارے میں ،بہت زیادہ ہیں جِن میں سے چندہ روایات کی طرف ہم یہاں اشارہ کرناضروری سمجھتے ہیں ۔
ایک حدیث میں آیا ہے کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے فر مایا:
١: انما بعثت لا تمم مکارم الاخلاق
میں اس لیے مبعوث ہُوا ہوں کہ اخلاقی فضائل کی تکمیل کروں (٢)۔
اِسی طرح پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی بعثت کاایک اصلی ہدف یہی اخلاق فاضلہ کی تکمیل ہے ۔
ایک حدیث میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے آ یاہے :
٢: انما المؤ من لید رک بحسن خلقہ درجة قائم اللّیل وصائم النھار (٣)۔
مومن اپنے حُسنِ خلق کی وجہ سے اس شخص کے درجہ تک پہنچ جاتاہے جو راتوں کوعبادت کے لیے کھڑا ہوتاہے اور دنوںمیں روزے رکھتاہے ۔
٣: آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے یہ بھی آ یاہے کہ آپ نے فر مایا:
مامن شی ء اثقل فی المیزان من خلق حسن ۔
کوئی چیز میزان عمل میں قیامت کے دن اچھے اخلاق سے زیادہ وزنی نہیں ہوگی (٤)۔
٤: آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے یہ بھی نقل ہواہے کہ آپ نے فرمایا:
احبکم الی اللہ احسنکم اخلا قا المو طؤ اکنافاً ،الذین یألفون و یؤ لفون،وابغضکم الی اللہ المشائون بالمنیمة المفر قون بین الاخوان، الملتمسون للبراٰ ء العثرات ۔
تم سب میں سے خداکے ہاں زیادہ محبوب وہ شخص ہے جس کے اخلاق سب سے بہتر ہوں ، وہی لوگ جومتواضع ہیں ، دُوسروں سے جوشِ محبت کے ساتھ ملتے ہیں .تم میں سے خدا کے نزدیک سب سے زیادہ مبغوض وہ لوگ ہیںجوچغلیاں کرتے ہیں کہ بھائیوں کے درمیان جُدائی ڈال دیں اوربے گناہ لوگوں کے لیے لغزش کی جستجو میںلگے رہتے ہیں ( 5)۔
٥:ایک اورحدیث میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے آ یاہے :
اکثر ماید خل النامن الجنةتقوی اللہ وحسن الخلق۔
وہ چیز جوسب سے زیادہ لوگون کو جنّت میںداخل کرے گی ، تقوٰی اور حُسنِ خلق ہے (6)۔
٦: ایک حدیث میں امام باقر علیہ السلام سے آ یاہے :
ان اکملالمؤ منین ایماناً احسنھم خلقاً ۔
مومنین میں سے اس کا ایمان سب سے بہتر ہے جس کے اخلاق زیادہ کامل ہیں (٧)۔
٧: ایک حدیث میں امام علی علیہ السلام بن موسیٰ رجا سے آ یا ہے کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے فر مایا :
علیکم بحسن الخلق،فان حسن الخلق فی الجنةلا محالة وایاکم و سوء الخلق ،فان سوء الخلق فی النار لا محالة ۔
تمہارے لیے لازم ہے کہ حُسن ِخلق اختیار کرو ،کیونکہ حُسنِ خلق والا انجام کار جنّت میں ہے .سوء خلق سے بچو ، کیونکہ سُوء ِخلق والا انجامِ کار جہنم میں ہے ( ٨)۔
اوپر والی روایت سے اچھی طرح معلوم ہوجاتاہے کہ حسن خلق جنّت کی کلیداوررضائے خدا کے حاصل کرنے کاایک وسیلہ ہے ،قُدرتِ ایمانی
کی انشانی ہے ، دن رات کی عبادتوں کے ہم پلّہ ہے اوراس سلسلہ میں احادیث بہت زیادہ ہیں ۔
١۔ معانی الاخبار ،صفحہ ٨٣ ( تھوڑی سی تلخیص کے ساتھ ) ۔
٢۔ تفسیر مجمع البیان ، جلد ١٠،صفحہ ٣٣٢۔
٣۔ تفسیر مجمع البیان ، جلد ١٠،صفحہ ٣٣٢۔
٤۔مجمع البیان ، جلد ١٠،صفحہ٣٣٣۔
5۔مجمع البیان ، جلد ١٠،صفحہ٣٣٣۔
6۔سفینہ "" البحار جلد ١،صفحہ ٤١٠( یہی مضمون وسائل الشیعہ جلد ٨ ،صفحہ ٥٠٤ میں بھی آ یاہے .اسی طرح تفسیر قرطبی جلد ١٠ ،صفحہ ٦٧٠٧ میں ب بھی ہے )۔
٧۔رورح البیان ،جلد١٠ ،صفحہ ١٠٨۔
٨۔وسائل الشیعہ ،جلد ٨ ،صفحہ ٥٠٦ حدیث ٢١۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma