جاری پانی تمہارے اختیار میں کون دیتاہے ؟

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 24
اورپر والی آ یات جوسورةملک کی آخری آ یات میں اوروہ سب لفظ قل جو پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کوخطاب ہے شروع ہوتی ہیں ، انہیں باتوں کو جاری رکھے ہُوئے جوگزشتہ آ یات میںکفّار کے ساتھ ہُوئی ہیں اوران کے دُوسرے پہلُوان آ یات میں بیان ہُوئے ہیں ۔
سب سے پہلے ان لوگوںکے بارے میں جوغالباً پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)اوران کے اصحاب کی موت کے انتطار میں تھے .وہ یہ گُمان کرتے تھے کہ آپ کی وفات سے آپ کادین ختم ہوجائے گا اور باقی کچھ نہ رہے گا ، (عام طورپر شکست خُوردہ دشمن سچّے رہبروںکے بارے میںہمیشہ یہی توقع رکھتے ہیں)فرماتاہے : کہہ دیجیے اگرخُدا مجھے اوران تمام کو جومیرے ساتھ میں ختم کردے یاہم پر رحم کرے تو بھی کفّار کو درد ناک عذاب سے کون پناہ دے گا؟ (قُلْ أَ رَأَیْتُمْ ِنْ أَہْلَکَنِیَ اللَّہُ وَ مَنْ مَعِیَ أَوْ رَحِمَنا فَمَنْ یُجیرُ الْکافِرینَ مِنْ عَذابٍ أَلیمٍ )۔
بعض روایات میں آ یاہے کہ کفار مکہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)اورمُسلمانوںکے لیے بددعا (نفرین)کیاکرتے اوران کی موت کی دعائیں مانگا کرتے تھے ،ان کاگمان یہ تھاکہ اگرآنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دنیا سے چلے جائیں توآپ کی دعوت بھی ختم ہوجائے گی ، تب اوپر والی آ یت نازل ہُوئی اورانہیں جواب دیا۔
اس معنی کے مشابہ سورة طُور کی آ یت ٣٠ میں بھی آ یاہے ،جہان کہتاہے کہ: ام یقولون شاعر نتر بص بہ ریب المنون وہ کہتے ہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )ایک شاعر ہے جس کی موت کاہم انتظار کررہے ہیں ۔
وہ اس بات سے غافل ہیں کہ محمد مصطفٰے (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے الطاف حق تعالیٰ کاوعدہ ہے کہ اگر وہ مر بھی جائیں تواس سے حق کاپیغام نہیں مر ے گا . ہاں !اس دین کی کامیابی اور تمام جہان پر اس کے غلبہ کاانہیںوعدہ دیاگیاہے ،اورپیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی حیات اورموت کسِی چیز کونہیں بدلے گی۔
بعض نے اس آ یت کی ایک اور تفسیر بیان کی ہے کہ خداپیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے یہ فرمارہا ہے : کہہ دیجئے ، ہم خدا پرایمان رکھنے کی بناء ، پر خوف ورجاء کے درمیان ہیں، تم اپنے بارے میں کیا سوچتے ہو ؟
لیکن پہلی تفسیر زیادہ صحیح نظر آ تی ہے ۔
اسی بات کوجاری رکھتے ہُوئے مزیدکہتاہے : ان سے کہہ دیجئے کہ وہ خدا رحمن ہے ہم اس پر ایمان لا ئے ہیں اوراسی پر ہم اس پر ایمان لائے ہیں اوراسی پر ہم نے توکّل کیاہے ،اورعنقریب تم جان لو گے کہ واضح گمراہی میں کون ہے (قُلْ ہُوَ الرَّحْمنُ آمَنَّا بِہِ وَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْنا فَسَتَعْلَمُونَ مَنْ ہُوَ فی ضَلالٍ مُبین)۔
یعنی اگرہم خداپر ایمان لے آئے ہیں اوراسے اپناولی ، وکیل اور سر پرست سمجھا ہے تو اس کی دلیل واضح ہے ، وہ خدا ئے رحمن ہے .اس کی رحمت عمومی ہرجگہ پہنچتی ہُوئی ہے اوراس کے انعام کے فیض نے دوست اور دشمن سب کو گھیر رکھاہے کہ عالم ہستی اور صفحہ ٔزندگی پر مختصر سی نگاہ اس مُدّعاکی شاہد ہے . لیکن تمہارے معبودوں نے کون ساکام کیاہے ؟اگرچہ تمہاری ضلالت و گمراہی اسی سے واضح ہے لیکن آخرت میں اورزیادہ واضح ہوجائے گی،یااس دنیامیں جب اسلام خُدائی امدادوںسے لشکرِکفر پر کامیاب ہوجائے گا تواس معجزانہ کامیابی سے حقیقت اور زیادہ واضح ہوجائے گی ۔
یہ آ یت حقیقت میں پیغمبر اسلام اورمومنین کے لیے ایک قسم کی تسلّی ہے کہ وہ یہ خیال نہ کریں کہ وہ حق وباطل کے اس مبارزہ میں تنہا ہیں ، بلکہ بخشنے والا اورمہر بان خداان کایارومددگار ہے ۔
آخری آ یت میں خداکی رحمت ِ عامّہ کے ایک مصداق کے ذکر کے عنوان سے کہ جس سے لوگ ف غافل ہیں،کہتاہے : کہہ دیجئے : مجھے بتائو وہ پانی جس سے تم استفادہ کررہے ہو، اگر وہ زمین کے اند ر دُورتہ میں چلاجائے توکون تمہارے لیے جاری پانی لاسکتا ہے (قُلْ أَ رَأَیْتُمْ ِنْ أَصْبَحَ ماؤُکُمْ غَوْراً فَمَنْ یَأْتیکُمْ بِماء ٍ مَعینٍ )۔
ہم جانتے ہیں کہ زمین دوقسم کے مختلف قشروں سے بنی ہے نفوذ پذیر قشرجوپانی کواپنے اندرلے جاتاہے اوراس کے نیچے نفوذناپذیر قشر ہے جوپانی کو وہیں محفوظ رکھتاہے . تمام چشمے ،کنوئیں،ندی، نالے اسی خاص ترکیب کی برکت سے وجودمیں آ ئے ہیں.کیونکہ اگرتمام روئے زمین زیادہ گہرائیوں تک نفوذ پذ یرقشر ہوتی تو پانی اتنا نیچے چلا جاتاکہ ہرگز اس تک کسِی کی رسائی نہ ہوتی .اگروہ ساری کی ساری نفوذ ناپذیر ہوتی تو رُوئے زمین کے تمام پانی اس کے اوپر ہی کھڑے رہتے اور دلدل اورکیچڑ میں تبدیل ہوجاتے یاجلدی سمندر وں میں جاپڑ تے اوراس طرح سے پانی کے زیر زمین ذخیرے ہاتھ سے نکل جاتے ۔
خداکی رحمت کایہ ایک چھوٹا سانمونہ ہے کہ جس سے انسان کی موت وحیات شدّت کے ساتھ وابستہ ہے معین معن (بروزن طعن )کے مادہ سے پانی کے جاری ہونے کی معنی میں ہے اور بعض یہ کہتے ہیںکہ یہ عین سے لیاگیاہے اوراس کی میم زائدہ ہے .اِسی لیے بعض مفسّرین نے معین کواس پانی کے معنی میں لیا ہے جوآنکھ سے دیکھا جاسکے اگرچہ وہ جاری نہ ہو ۔
لیکن اکثر نے اس جاری پانی کے معنی میں ہی تفسیر کی ہے ۔
اگرچہ وہ پانی جو پیاجاتا ہے وہ جاری پانی میں مُنحصر نہیں ہے ،لیکن اس میں شک نہیں کہ جاری پانی ان کی بہترین قسم شمار ہوتاہے،چاہے وہ دریا ، نہروں،ندی ،نالوںاور ابلنے والے کنو ؤں کی صورت میں ہو۔
بعض مفسّرین نے نقل کیاہے کہ جب ایک کافر نے یہ آ یت سُنی جویہ کہتی ہے : اگرتمہارے استعمال میں آ نے والاپانی زمین کی تہ میں چلا جائے توکون تمہارے لیے آبِ جاری لادے گا تو اس نے کہا رجال شداد ومعاول حداد !(طاقتور مرد اورتیز کدال )پانی کوزمین کی گہرائیوں میں سے نکال لائیں گے .لیکن رات کوجب وہ سویاتواس کی آنکھ میں آبِ سیاہ ( کالاموتیا)اتر آ یا، اس حال میں اس نے ایک آوازاسُنی جوکہہ رہی تھی : ان قوی پنجرمردوںاور تیز کدالوںکو لے آ تاکہ وہ اس پانی کوتیر ی آنکھ سے باہر نکالیں ۔
لیکن موجودہ زمانہ میں ہم جانتے ہیںکہ اگر زمین کا نفوذ ناپذیر قشر ختم ہوجائے توکوئی قوی پنجہ انسان اورتیز کدال پانی کونہیں نکال سکتا (١)۔
١۔ابو الفتوح رازی ، جلد ١١ ،صفحہ ٢١٩۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma