اپنے سر کے اوپر ان پرندوں کی طرف دیکھو

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 24
اس سورة کی ابتدائی آ یات میں جب خداکی قدرت اور مالکیّت کے بارے میں بحث تھی توساتوں آسمانوں ، ان کے ستاروںاور کواکب کے بارے میں گفتگو تھی .لیکن یہاں پہلی زیربحث آیت میں اسی مسئلہ قدرت کوعالم ہستی کے بظاہر ایک چھوٹے سے موجود کے ذکر کے ذ ریعہ بیان کیا جارہا ہے .فر ماتاہے :
کیا انہوں نے ان پرند وں کی طرف نہیں دیکھا جوان کے سروںکے اوپر کبھی اپنے پر وں کو پھیلا ئے ہُوئے ہوتے ہیں اور کبھی سمیٹے ہُوئے ہوتے ہیں (أَ وَ لَمْ یَرَوْا ِلَی الطَّیْرِ فَوْقَہُمْ صافَّاتٍ وَ یَقْبِضْنَ)(١)۔
یہ سنگین جِسم قانون جاذبہ کے برخلاف زمین سے اُٹھتے ہیں اور آرام کے ساتھ آسمان کی بلندی پر گھنٹوںتک اور بعض اوقات ہفتوں اور مہینوںتک مسلسل اپنی سریع اور نرم حرکت کوجاری رکھتے ہیں ،اور انہیں اس میں کوئی مشکل پیش نہیں آ تی ۔
پر و از کرتے وقت اکثر پرندے اپنے روں کوکھولے ہوئے ہوتے ہیں صافات گویاایک پُر اسرار قوّت انہیں چلارہی ہوتی ہے ۔
جبکہ بعض ہمیشہ پر ما رتے رہتے ہیں ( ممکن ہے یقبضن اسی معنی کی طرف اشارہ ہو )۔
بعض دوسر ے کبھی پر مارتے ہیں اور کبھی پرون کوپھیلا لیتے ہیں ۔
چوتھا گروہ ایک مدّت تک پر مار تاہے اور جب تیری پکڑ لیتاہے تواپنے پر وں کو کُلّی طور پر سمیٹ لیتا ہے اورفضا کے سمندر میں غوطہ لگالیتاہے (مثلاً چڑ یا)خلاصہ یہ ہے کہ با وجُودیکہ وہ سب پرواز کرتے ہیں لیکن ان میں سے ہر ایک کااپنا ایک مخصوص انداز ہے ۔
ان کے جسم کوکِس نے اِس طرح سے پید اکیاہے کہ وہ آرام وسکون کے ساتھ فضامیں سیرکرتے ہیں ؟ان کے پروں کویہ قدرت کِس نے عطا کی اور انہیں پرواز کاعلم سکھایا ہے ؟خصوصاً مُہاجر پرندوں کی پیچید ہ قسم کی اجتماعی پرواز جوبعض اوقات کئی کئی ماہ تک طول کھینچتی ہے اورہز اروں کلو میٹر کاراستہ طے کرکے بہت سے ملکوں، پہاڑ وں ، درّوں، جنگلوں اور سمند روں کے اُوپرسے گزر کر اپنے تک پہنچتے ہیں، وا قعتا ایسی قوت اور آگا ہی انہیں کِس نے عطاکی ہے ؟
لہٰذا آ یت کے آخر میں مزید کہتا ہے : خُدائے رحمن کے سواکوئی انہیں آسمان کی بلند ی پررو کے ہُوئے نہیں ہوتا . کیونکہ وہ ہر چیز کودیکھتاہے اور ہر مخلُوق کی نیاز اور حاجت کوجانتا ہے (ما یُمْسِکُہُنَّ ِلاَّ الرَّحْمنُ ِنَّہُ بِکُلِّ شَیْء ٍ بَصیر )۔
وہی توہے کہ جس نے انہیں پر واز کے لیے مختلف وسائل اور استعداد یں عطاکی ہیں . ہاں !خدائے رحمن جِس کی رحمت عامّہ نے تمام موجودات کوگھیرا ہُوا ہے ،اسی نے پر ندوںکوبھی ان کی ضرورت کی چیزیں بخشی ہیں. جو ہستی آسمان اور عضا میں پرندوںکورو کے ہُوئے ہے ، وہی زمین اور دوسری موجودات کی بھی نگہد ار ہے ، جب وہ ارادہ کرلے تونہ پرندہ پرواز کرسکتاہے ،اور نہ ہی زمین سکون کومحفوظ رکھ سکتی ہے ۔
صافات و یقبضن ( پروں کوپھیلا تے اور سمیٹتے ہیں )کہ تعبیر ، ممکن ہے مختلف پرندوںکی طرف یا ایک ہی پرندہ کے مختلف حالات کی طرف اشارہ ہو (٢)۔
ہم نے پرندوںکی دنیا اوران کی پرواز کی عجا ئبات کے بارے میں تفسیر نمونہ جلد ١١ (سورة نحل کی آ یت ٧٩کے ذیل میں )تفصیل کے ساتھ بحث کی ہے ۔
بعد والی آ یت میں اس معنی کی طرف اشارہ کرتاہے کہ کفار خداکی قدرت کے مقابلہ میں کسِی قسم کا کوئی یار و مددگار نہیں رکھتے ، فرماتاہے : کیا وہ جوتمہارالشکر ہے ،وہ خدا کے مقابلہ میں تمہاری مدد کرسکتا ہے ؟(أَمَّنْ ہذَا الَّذی ہُوَ جُنْد لَکُمْ یَنْصُرُکُمْ مِنْ دُونِ الرَّحْمن)(٣)۔
نہ صِرف یہ کہ وہ مصیبتوں میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتے بلکہ اگروہ چاہے توانہیں کوتمہار ے عذاب اور نابودی پر مقرر کردے . کیاپانی ،ہوا ، مٹی اور آگ تمہارے خدمت اور تمہاری زندگی کے ارکان نہیں ہیں ؟
لیکن خدا نے انہیں کوسرکش اقوام کی نابودی پرمامور کردیا. تاریخ میں بہت سے ایسے واقعات محفوظ ہیں کہ بادشا ہوں ،فراعنہ اور سرکش حکمرانوں کے نزدیک افراد ہی ان کی موت کاسبب بن گئے ، موجودہ زمانہ کی تاریخ میں بھی یہ ماجرا دیکھنے میں آ یاہے کہ حکومتوںکی وفا دار ترین طاقتوں نے ہی ان کے خلاف بغاوت کردی ،اوران کی موت کافرمان جاری کیا۔
لیکن کافر صرف دھو کہ ،فریب اور غفلت میں گرفتار ہیں ِنِ الْکافِرُونَ اِلاَّ فی غُرُورٍ)۔
دھو کہ ، فریب اورجہالت کے پردے ان کی عقلوں پرپڑے ہُوئے ہیں. وہ انہیں اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ تاریخ کے صفحات پر یااپنی زندگی کے گوشہ وکنار میں یہ درس عبرت دیکھیں۔
جنداصل میں ناہموار اورایسی سخت زمین کے معنی میں دہے جس میں بہت زیادہ پتھّرجمع ہوگئے ہوں . اسی منا سبت سے بہت زیادہ لشکر کوبھی جندکہتے ہیں ۔
بعض مفسّرین زیربحث آ یت میں جند کوبتوںکی طرف اشارہ سمجھتے ہیں کہ وہ قیامت میں مشرکین کی مدد پرہر گز قدرت نہیں رکھتے .لیکن ظاہر یہ ہے کہ آ یت ایک وسیع مفہوم رکھتی ہے اوروہ بُت بھی اس کاایک مصداق ہوسکتے ہیں ۔
پھر مزید تاکید کے لیے کہتاہے : کیاوہ ہستی جوتمہیں روزی دیتی ہے ،اگروہ اپنی روزی تم سے روک لے تو تمہیں کون بے نیاز کرسکتاہے ؟(أَمَّنْ ہذَا الَّذی یَرْزُقُکُمْ ِنْ أَمْسَکَ رِزْقَہُ)(٤)۔
٤۔آیت میں جزا ء کی شرط محذوف ہے تقدیر میں اس طرح ہے ان امسک وزقہ من یرز قکم غیرہ (اگر وہ اپنا رزق روک لے تو اس کے علاوہ کون تمہیں رزق دے گا )۔
اگر وہ آسمان کوحکم دے دے کہ وہ ب ارش نہ برسائے اور زمین سبزہ نہ اُگا ئے یامختلف قسم کی نباتی آفات پھلوںکونابود کردیں توکِس یہ طاقت ہے کہ تمہارے لیے کوئی غذا مہیّا کردے ؟نیز اگر وہ معنوی روزیاںاورآسمانی وحی تم سے منقطع کرلے توکِس میں یہ طاقت ہے کہ تمہاری راہنمائی کرے ؟
یہ واضح حقائق ہیں. لیکن ہٹ دھرمی اور گستاخی انسان کے ادراک اورشعور کے آگے ایک حجاب بن جاتی ہے .اس لیے آ یت کے آخر میں فر ماتاہے :
لیکن وہ توسرکشی اور حقیقت سے فرار کرتے ہُوئے ہٹ دھرمی سے کام لیتے ہیں (بَلْ لَجُّوا فی عُتُوٍّ وَ نُفُورٍ )۔
اِس موجودہ . زمانہ میں بھی جبکہ انسان کی زندگی کے مختلف جہات میں ، خصُو صا غذائی مصنو عات میں بہت ہی ترقی ہوچکی ہے ،اگرصرف ایک ہی سال کے لیے مطلقاًبارش نہ ہو توساری دُنیا میں کیسی مصیبت کھڑی ہو جائے گی ، یاٹڈ ی دل کالشکر اور آفاتِ نباتی ہرجگہ کوگھیر لیں توکیسی مصیبت واقع ہوجائے گی ۔
١۔"" الطیر ""طائر کی جمع ہے .اسی لیے اس کافعل اورصفت جمع کی صورت میں آ یاہے .بعض نے جویہ تصور کیا ہے کہ طیر مفرد ہے تویہ ارباب لغت کی تصریح کے خلاف ہے ۔
٢۔اس بارے میں کہ """ صافات ""وصفی صورت میں اوریقبضن فعل مضارع کی صورت میں آ یاہے ،ممکِنہے یہ اس وجہ سے ہو کہ پروں کاپھیلا ناایک خاص انداز ہے جبکہ کھولنا اور بند کرنا پروں کی تکرار ہے ۔
٣۔"" ام ""اس جملہ میں حرفِ عطف ہے "" من""مبتداء "" ھٰذا ""دوسرا متبداء او ر"" الذی ""اس کی خبر ہے "" ھوجند لکم""اس کاصلہ ہے اس کا صلہ ہے او ر ""ینصر کم "" "" جند ""کی صفت اور جملہ کے پہلے مبتداء کی خبرہے ( البیان فی غریب اعراب القرآن ، جلد ٢ ، صفحہ ٤٥٩)لیکن مناسب یہ ہے کہ الذی عطف بیان ہواور"" ینصر کم ""خبرہو .کیونکہ اس کے بغیر جملہ ناقص ہے (غور کیجیے)۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma