اگرہم سننے والا کان اور بید ار فکررکھتے تودوزخ میں نہ ہوتے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 24
گذ شتہ آیات میں خدا کی عظمت وقدرت کی نشانیوں اورعالمِ آفرینش میں ان کے دلائل کے بارے میں گفتگوتھی، لہٰذا قرآن زیربحث آیات میں ایسے لوگوں کے بارے میں گفتگو کررہاہے جنہوں نے ان دلائل کی پروانہیں کی ،انہوں نے کفروشر کی راہ اختیار کر لی اور شیاطین کی طرح عذابِ الہٰی خرید بیٹھے ۔
پہلے فر ماتا ہے : ان لوگوں کے لیے جنہوں نے اپنے پروردگار کاکفر کیاعذابِ جہنم ہے اوروہ بری جگہ ہے (وَ لِلَّذینَ کَفَرُوا بِرَبِّہِمْ عَذابُ جَہَنَّمَ وَ بِئْسَ الْمَصیر) ۔
اس کے بعد اس وحشتناک عذاب کے ایک گوشہ کی تشریح کرتے ہُوئے مزید کہتا ہے : جس وقت کفّار اس میں ڈالے جائیں گے تووہ اس میں سے ایک وحشتناک صداسُنیں گے اوروہ ہمیشہ جوش مارنے کی حالت میں رہتی ہے ذا أُلْقُوا فیہا سَمِعُوا لَہا شَہیقاً وَ ہِیَ تَفُورُ) ۔
ہاں !جس وقت انہیں انتہائی ذلّت وحقارت کے ساتھ اس میں پھینکاجائے گا توجہنم کی وحشتناک اور طولانی صدا بلند ہوگی جوان کے تمام وجُود کووحشت میں غرق کردے گی ۔
شھیقاصل میں قبیح او ربُری آواز کے معنی میں ہے جیساکہ گدھے کی آواز ہے بعض اہل لغت نے یہ بھی کہاہے کہ یہ شھوق کے مادے سے طو لانی ہونے کے معنی میں لیاگیاہے ،(اسی لیے اُونچے اور بلند پہاڑ کوجبل شاہق کہتے ہیں ) اس بناء پر شحیق طولانی نالہ وفریاد کے معنی میں ہے ۔
بعض نے کہا ہے کہ زفیرتواس آواز کوکہتے ہیں جوگلے میںپیچ کھاتی رہے ،اور شھیق وہ آ واز ہے جوسینہ میں آ مدورفت کرتی ہے ،بہرحال یہ وحشت انگیز اور بے چین کردینے والی آ وازوں کی طرف اشارہ ہے ۔
اس کے بعد دُوزخ کے غیظ وغضب کی شدّت کومجسم کرنے کے لیے مزیدکہتا ہے : قریب ہے کہ وہ شدتِ غضب سے پارہ پارہ ہوجائے (تَکادُ تَمَیَّزُ مِنَ الْغَیْظِ ) (١) ۔
ٹھیک اس عظیم برتن کی طرح جسے حد سے زیادہ تیز حرارت والی آگ کے اوپر رکھا ہوا ہو اوروہ اس طرح جوش مارتاہو اورنیچے ہورہا ہوکہ ہرلمحہ اس کے ٹکڑ ے ہوجانے کاخوف لگارہتا ہو، یااس غصہ میں بھرے ہُوئے انسان کی طرح جوچیخ چلّا رہا ہو اوراس طرح کی آ وازین نکال رہا ہوجیسے ابھی پھٹ پڑے گا ۔
ہاں !خدائی غضب کے اس مرکز ،جہنّم کامنظر ایساہی ہے ۔
پھر وہی بات جاری ہے جس وقت کافروں کاکوئی گر وہ اس میں پھینکا جائے گاتودوزخ کے نگہبان تعجب اورسر زنش کے طور پراس سے سوال کریں گے کیاتمہاراکوئی رہبر وراہنما نہیں تھا؟ کیاخدا کی طرف سے کوئی ڈ رانے والا تمہارے پاس نہیں آ یا تھا؟ پھرتم اس بدبختی میں کیوں آن پڑے ہو ؟ (کُلَّما أُلْقِیَ فیہا فَوْج سَأَلَہُمْ خَزَنَتُہا أَ لَمْ یَأْتِکُمْ نَذیر ) ۔
انہیں اس بات کایقین ہی نہیں آ ئے گاکہ کوئی انسان جانتے بُو جھتے اور آسمانی رہبر کے ہوتے ہُوئے اِس قسم کی سرنوشت میں گرفتار ہوجائے .اوراپنے لیے اس قسم کی جگہ کاانتخاب کرے ۔
لیکن وہ جواب میں کہیں گے : ہاں ڈ رانے والا توہمارے پاس آیاتھا مگرہم نے اس کی تکذیب کی اورکہا کہ خُدا نے ہر گز کوئی چیز نازل نہیں کی ، اورخدا نے کسِی پروحی نہیں بھیجی ہے تاکہ ہم اپنی خواہش نفس کو جاری رکھیں .یہاں تک کہ ہم نے ان سے کہا کہ تم عظیم گمراہی میں مبتلا ہو (قالُوا بَلی قَدْ جاء َنا نَذیر فَکَذَّبْنا وَ قُلْنا ما نَزَّلَ اللَّہُ مِنْ شَیْء ٍ ِنْ أَنْتُمْ ِلاَّ فی ضَلالٍ کَبیر) ۔
نہ صرف یہ کہ ہم نے ان کی تصدیق نہیں کی اوران کے حیات بخش پیغام پرکان نہیںدھرا ،بلکہ ان کی مخالفت کے لیے کھڑ ے ہوگئے ،ان روحانی طبیبوں کوگمراہ کہہ کر اپنے سے دور کردیا ۔
اِس کے بعد اپنی بدبختی اور گمراہی کی اصل دلیل کی طرف اشارہ کرتے ہُوئے کہیں گے : اگر ہم سننے والے کان رکھتے اوراپنی عقل کوکام میں لاتے توہر گز دوزخیوں میں سے نہ ہوتے (وَ قالُوا لَوْ کُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ ما کُنَّا فی أَصْحابِ السَّعیرِ ) ۔
ہاں !اس موقع پراپنے گناہ کااعتراف کرلیں گے دُور ہوں دوزخی خداکی رحمت سے (فَاعْتَرَفُوا بِذَنْبِہِمْ فَسُحْقاً لِأَصْحابِ السَّعیرِ ) ۔
ان آیات میں دوزخیوں کی وحشت ناک سرنوشت کے بیان کے ضمن میں ان کی بدبختی کی اصل علّت کی نشان دہی کرتے ہُوئے کہتا ہے : ایک طرف تو خدا نے سننے والے کان اورعقل وہوش عطاکیا اور دوسری طرف واضح دلائل کے ساتھ اپنے پیغمبر بھیجے ، اگریہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کریں توانسان کی سعادت کی تکمیل ہوجاتی ہے ۔
لیکن اگرانسان کان تو رکھتا ہے ،مگران سے سنتا نہیں ، آنکھیں رکھتا ہے ، مگران سے دیکھتا نہیں، اور عقل رکھتا ہے مگر اس سے سوچتا نہیں ، تواب اگرخُدا کے تمام کے تمام پیغمبر اور آسمانی کتابیں اس کے پاس آجائیں تواس پرکچھ اثر نہیں ہوگا ۔
ایک روایت میں آیاہے کہ ایک گروہ نے پیغمبراکر م(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی خدمت میں ایک مسلمان کی مدح وثنا کی تورسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے فرمایا :
کیف عقل الرجل ؟
اس کی عقل کیسی ہے ؟
انہوں نے عرض کیا :
یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)ہم توعبادت اور طر ح طرح کے نیک کاموں میں اس کی جدّ وجہد کی بات کررہے ہیں اورآپ اس کی عقل کے بارے میں پوچھ رہے ہیں تب آپ نے فرمایا:
ان الاحمق یصیب بحمقہ اعظم من فجورالفا جر، وانما یرتفع العباد غداً فی الدرجات ،وینا لون الزلقی من ربھم علی قدر عقولھم !
احمق کی حماقت سے جومصیبت آ تی ہے وہ فاجروں کے فجور اور بد کاروں کے گناہ سے بدتر ہوتی ہے . کل قیامت کے دن خدا بندوں کوان کی عقل و خرد کے مُطابق درجات عطا فرمائے گا اوروہ اسی بُنیاد پرقربِ خدا وندی حاصِل کریں گے ۔
سحق(بروزن قفل) اصل میں پیسنے اورنرم کرنے کے معنی میں ہے اور پُرانے لباس کوبھی کہا جاتا ہے .لیکن یہاں رحمت ِ خُدا سے دوری کے معنی میں ہے تواس بناء پر فسحقاً لاصحاب السعیر کامفہُوم یہ ہے کہ دوزخی رحمت ِ خُدا سے دُور رہیں ، کیونکہ خداکی نفرین تحقّق ِ خارجی سے توام ہوتی ہے . تویہ جُملہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ گروہ کلّی طورپر رحمت ِخُدا سے دُور ہوگا۔
١۔تمیز متلاشی اور پراگندہ ہونے کے معنی میں ہے اوراصل میں تتمیز تھا ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma