عالِم آفر ینش کی عظمت

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 24
باوجود یکہ قرآن مجید عرب کے زمانہ جاہلیّت کے پسماند ہ ماحول میں اُترا ،لیکن وہ اکثر تاکید کرتا ہے ،کہ مُسلمان عالم ِ ہستی کے باعظمت اسرار میں غوروفکر کریں .وہ مطلب جس کازمانۂ جاہلیّت میں کوئی مفہُوم ہی نہیں تھا، یہ خود اس بات کی ایک واضح دلیل ہے ، کہ قرآن ایک دوسرے مبدی سے صادر ہُوا ہے .اب علم ودانش جس قدر آ گے بڑھتے جارہے ہیں ، ا،س سلسلہ میں قرآنی تاکیدوں کی عظمت اسی قدر آشکار ترہوتی جارہی ہے ۔
ہم جانتے ہیں کہ یہ کرّہ زمین جس میں ہم زندگی گزار رہے ہیں ،اتنابڑاہونے کے باوجودمنظومٔہ شمسی کے مرکز یعنی سُورج کی ٹکیہ کے مقابلہ میں اس قدر چھوٹی ہے کہ اگر بارہ لاکھ کرّہ زمین کوایک دوسرے کے اوپر رکھیںتوپھر وہ سورج کی ٹکیہ کے برابر ہوگی ۔
دوسری طرف سے ہمار ا منظومٔہ شمسی ایک عظیم کہکشاں کاایک جُزء ہے ، وہی کہکشاں جسے راہ شیری کہتے ہیں ( 1) ۔
ماہرین علم الا فلاک کے حساب کے مطابق صرف ہماری کہکشاں میں ایک کھرب (٠٠٠،٠٠٠،٠٠٠،1٠٠)سے زیادہ ستارہ موجود ہیں، اورہمارا سُورج اپنی تمام عظمت کے باجود ، اس کے متوسط ستاروں میں سے ایک شمار ہوتا ہے ۔
تیسری طرف اس عظیم جہان مین اس قدر کہکشاں ئیں موجُود ہیں جوحساب وکتاب اور شمار وقطار سے باہر ہیں . نیز ستاروں کودیکھنے والی دور بینیں جتنی عظیم اور آراستہ ہوتی جارہی ہیں اتنی ہی نئی سے نئی کہکشا ئیں کشف ہورہی ہیں کِس قدرعظیم وبرزگ ہے وہ خدا جس نے یہ عظیم مقصُومہ ایسے دقیق نظام کے ساتھ بنایا ہے ۔
1۔کہکشائیں ستاروں کے مجموعے ہیں جوستاروں کے شہروں کے نام سے مشہور ہیں اورایک دوسرے سے نزدیک ہونے کے باوجود بعض اوقات ان کے درمیان کئی ملین نوری سالوں کافاصلہ ہوتا ہے ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma