تم عالم ہستی میں کسی قسم کانقص نہیں دیکھو گے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 24
یہ سورہ خداکی مالکیّت وحاکمیت اوراس کی ذات ِ پاک کے دوام اورہمیشگی جیسے اہم مسئلہ سے شروع ہوتا ہے جوحقیقت میں اس سورہ کے تمام مباحث کی کلید ہے ۔
فرماتا ہے : برکتوں والی اورزوال ناپذ یر ہے وہ ذات ، جس کے قبضہ قدرت میں عالمِ ہستی کی حکومت ہے ،اوروہ ہرچیز پرقادر ہے (تَبارَکَ الَّذی بِیَدِہِ الْمُلْکُ وَ ہُوَ عَلی کُلِّ شَیْء ٍ قَدیر) ۔
تبارک برکت کے مادّہ سے اصل میں برک ( بروزن برگ) ہے جواُونٹ کے سینہ کے معنی میں ہے . جب بر ک البعیر کہا جاتا ہے تواس کامفہوم یہ ہوتا ہے کہ اونٹ نے اپنا سینہ زمین پررکھ دیا، اس کے بعد یہ لفظ دوام ، بقاء اور زوال ناپذیر کے معنی میں اورہر اس نعمت کے معنی میں جوپائیدار ی و دوام رکھتی ہو، بولا جانے لگا. پانی کے خزانے کوبھی اس لیے برک کہتے ہیں کیونکہ پانی ایک طویل مدّت تک اس میں باقی اور محفوظ رہتا ہے ۔
اوپر والی آیت میں حقیقت میں خدا کی ذات پاک کے مبارک ہونے کی دلیل بیان کی گئی ہے ،اورعالم پراس کی مالکیّت و حاکمیّت اورہر چیز پراس کی قدرت ہے ،اسی بناء پر وہ زوال ناپذیر اور برکت سے پُر وجُود ہے ۔
بعد والی آیت میں انسان کی موت وحیات کی خلقت ،جوخدا کی مالکیّت وحاکمیّت کے شئون میں سے ہے ، اس کی طرف اشارہ کرتے ہُوئے فرماتا ہے : وہی توہے کہ جس نے موت وحیات کوپیدا کیاتاکہ تمہیں آز مائے کہ تم میں سے بہتر ین عمل کون کرتا ہے (الَّذی خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَیاةَ لِیَبْلُوَکُمْ أَیُّکُمْ أَحْسَنُ عَمَلاً ) ۔
موت اگرفنا اورنیستی کے معنی میں ہوتومخلوق نہیں ہے .کیونکہ خِلقت کاتعلّق اُمورِ وجُود ی کے ساتھ ہے ، لیکن ہم جانتے ہیں کہ موت کی حقیقت ایک جہان سے دُوسرے جہان کی طرف انتقال ہے اوریہ یقینا ایک وجُود ی امر ہے جومخلوق ہوسکتا ہے ۔
اگریہاں موت کا حیات سے پہلے ذکر ہُوا ہے تواس کی وجہ وہ گہری تاثیر ہے جوحُسنِ عمل میں موت کی طرف توجّہ سے ہوتی ہے .اِس سے قطع نظر کہ موت زندگی سے پہلے بھی تھی ۔
خداکی آزمائش سے مُراد ،جیساکہ ہم پہلے بھی بیان کرچکے ہیں ، ایک قسم کی تربیت ہے اس معنی میں کہ وہ انسانوں کومیدانِ عمل کی طرف کھینچتی ہے تاکہ تجربے اور آزمائش میں پاک وپاکیزہ ہو کرقربِ خدا کے لائق ہو ( ١) ۔
قابلِ توجّہ بات یہ ہے کہ آزمائش کاہدف حُسن عمل کوتبا یاگیاہے نہ کہ کثرت ِ عمل کویہ اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام کیفیّت کواہمیّت دیتا ہے کمیّت کونہیں . اہم بات یہ ہے کہ عمل خالص ہو، خُدا کے لیے اور مفید وجامع ہو ، اگر یہ کمیّت ومقدار کے لحاظ سے تھوڑا ہو ۔
اِس لیے اس بارے میں کہ احسن عملاً سے کیا مُراد ہے ؟ بعض اسلامی روایات میں پیغمبر گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل ہُوا ہے کہ آپ نے فرمایا:
اتمکم عقلا ، واشد کم للہ خوفاً ، واحسنکم فیما امراللہ بہ و نہی عنہ نظرا ، وان کان اقلکم تطو عا !
اس سے مُراد یہ ہے کہ تم میں سے کِس کی عقل وخرد کامل اورخدا ترسی زیادہ ہے اور خدا کے اوامر ونواہی سے کون زیادہ آگا ہی رکھتا ہے ، چاہے تمہارے مُستحبی اعمال کم ہی ہوں ( ٢) ۔
صاف ظاہر ہے کہ کامل عقل،عقل کوپاک تر ، نیّت کوخالص تر اور ا جر وپاداش کوزیادہ سے زیادہ کردیتی ہے ۔
ایک حدیث میں امامِ صادق علیہ السلام سے آ یاہے :
لیس یعنی اکثر عملا، ولکن اصوبکم عملا ، وانما الاصابة خشیة اللہ والنیة الصادقة، ثم قال الابقاء علی العمل حتی یخلص اشد من المعل ،والعمل الخالص الصالح لاترید ان یحمد ک علیہ احد الا اللہ عزوجل ۔
یہ مراد نہیں ہے کہ تم میں سے کون زیادہ عمل کرتا ہے بلکہ مُراد یہ ہے کہ تم میں سے زیادہ صحیح عمل کون کرتا ہے عمل صحیح وہ ہے جس میں خدا پرستی اورپاک نیت شامل ہو . اس کے بعدفر مایا: عمل کوآلود گی سے محفوظ رکھنا کود عمل سے زیادہ سخت ہے خالص وصالح عمل وہ ہوتا ہے جس میں تو یہ نہ چاہے کہ خداکے سواکوئی اور اس عمل پر تیری تعریف کرے ( ٣) ۔
انسان کی خِلقت کے ہدف کے بارے میں ہم سورہ ذاریٰت کی آیت ٥٦ میں وَ ما خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الِْنْسَ ِلاَّ لِیَعْبُدُونِ کے ذیل میں ایک تفصیلی بحث کرچکے ہیں ،وہاں ہدف عبودیت ِ خدا ذکر ہُوا ہے، اور یہاں حُسنِ عمل آزمائش یہ بات واضح ہے کہ آزمائش و امتحان کامسئلہ عبودیّت کے مسئلہ سے الگ نہیں ہے ،جیساکہ کمال عقل ،خداترسی اور نیّت خالص ، جن کی طرف اوپروالی روایات میں اشارہ ہُواہے رُوح ِ عبودیت ہیں ۔
اِس طرح یہ دُنیا تمام انسانوں کے لیے ایک عظیم آزمائش کامیدان ہے .آزمائش کاذریعہ موت وحیات ہے اوراس عظیم آزمائش کاہدف حسنِ عمل تک پہنچتا ہے . جس کامفہوم تکامِل معرفت اخلاصِ نیّت اورہرکارِ خیر کو انجام دینا ہے ۔
اگرہم یہ دیکھتے ہیں کہ بعض مفسّرین نے یہاں احسن عملا کی تفسیر موت کویاد کرنے یاموت کے لیے آ مادہ ہونے اوراسی قسم کے امُور سے کی ہے تووہ حقیقت میں اس معنی کلّی کے مصادیق میں سے ہے ۔
چُونکہ اس عظیم آزمائش کے میدان میں انسان بہت سی لغزشوں میں گرفتار ہوجاتا ہے ، یہ لغزشیں اسے مایوس نہ کردیں اوراس کی سعی وکوشِس سے اسے باز نہ رکھیں .لہٰذاآیت کے آخرمیں بندوں کومدد اوربخشش کا وعدہ دیتے ہُوئے کہتا ہے : اوروہ شکست ناپذیر اور بخشنے والا ہے (وَ وَ ہُوَ الْعَزیزُ الْغَفُورُ )۔
ہاں ! وہ ہر چیز پرقادر اورہر توبہ کرنے والے اِنسان کوبخشنے والا ہے ۔
موت وحیات کی نظام کوبیان کرنے کے بعد عالم کے نظامِ کلّی کوپیش کرتے ہُوئے انسان کومجموعہ عالم ہستی کے مُطالعہ کی دعوت دیتا ہے تاکہ وہ اس طریقہ سے اپنے آپ کواس عظیم آزمائش کے لیے آمادہ کرے ،فرماتا ہے : وہی خداجِس نے سات آسمانوں کوایک دُوسرے کے اُوپر پیدا کیا(الَّذی خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ طِباقاً ) ۔
سات آسمانوں کے بارے میں توہم اس سے پہلے تھوڑی سی بحث سورة طلاق کی آیت ١٢ کی تفسیر میں بھی کر چکے ہیں ، یہاں طباقا کے بارے میں ہم کچھ اضافہ کرتے ہیں .اس تعبیر کی بناء پر ساتوں آسمان ایک دُوسرے کے اوپر قرار پاتے ہیں ، کیونکہ مطابقة کامعنی اصل میں یہ ہے کہ کہ ایک چیز کودوسری چیز کے اوپر قر ار دیں ۔
اب اگرہم سات آسمانوں کومنظو مہ ٔ شمسی کے ساتھ کرّوں کی طرف اشارہ سمجھیں ،وجوبغیر کسِی آ لہ کے دیکھے جاسکتے ہیں ، ان میں سے ہر ایک کاسُورج کے ساتھ ایک معیّن فاصلہ ہے ، اوران میں سے ہرایک دُوسرے کے اُوپر ہے ۔
لیکن اگرہم ان تمام ثوابت وسیّار ستاروں کوجنہیں ہم دیکھتے پہلے آسمان کی جُز ء شمار کرلیں تواس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بالا ترمراحل میں کچھ دوسرے عوالم ہیں کہ جن میں سے ہرایک دوسرے کے اوپر قرار پاتا ہے ۔
اِس کے بعد مزید کہتا ہے : تم خُدا ئے رحمن کی مخلوق میں کوئی تضاد اور کسِی قسم کاعیب نہیں دیکھو گے (ما تَری فی خَلْقِ الرَّحْمنِ مِنْ تَفاوُت) ۔
عالم ہستی اِس ساری عظمت کے باوجود کچھ بھی ہے وہ نظم ونسق ، استحکام وانسحام جچی تلی اور ٹھیک ٹھیک حساب شدہ ترکیبات اور دقیق قوانین ہیں .اگراس عالم کے کسِی گوشہ میں بے نظمی واقع ہوجاتی تووہ اسے نابود کرکے رکھ دیتی ۔
اس عجیب وغریب نظام سے لے کرجوایک ایٹم کے ذرّہ اورالیکڑون و پروٹوں کے ذرّات پرحاکم ہے کل منظومہ ٔشمس اور دُوسرے منظوموں اور کہکشائوں پر حاکم نظامات تک ، سب کے سب دقیق قوانین کے زیر تسلّط ہیں جو انہیں ایک خاص راستہ پر چلا رہے ہیں . خلاصہ یہ ہے کہ ہرجگہ قانون وحساب ہے اورہرجگہ ایک نظم اور خاص ترکیب ہے ۔
آیت کے آخر میں مزیدتاکید کے لیے فرماتا ہے : پھر نظر دوڑا کردیکھو اوراس عالم کو غور سے دیکھو ، کیا تمہیں اس میں کوئی شگاف یاخلل اوراختلاف نظر آتا ہے ؟(فَارْجِعِ الْبَصَرَ ہَلْ تَری مِنْ فُطُور) ۔
فطور فطر (بروزن سطر )کے مادّہ سے ، طول میں شگاف کرنے کے معنی میں ہے اورتوڑنے کے معنی میں ( مثلاً روزہ کاافطار ) اور اختلال وفساد کے معنی میں بھی آ یاہے . زیربحث آیت میں اسی معنی میں ہے مُراد یہ ہے کہ اِنسان عالمِ آ فرینش میں چاہے جتنا بھی غور کرے کم سے کم خلل اورناموز ونیت بھی اس میں نہیں دیکھے گا ۔
اِسی لیے بعد والی آیت مین اس معنی کی تاکید کے لیے مزید کہتا ہے : پھر دوبارہ عالم ہستی کی طرف آنکھ کھول کردیکھ ،انجام کار تیری نظر خلل ونقص کوجستجومیں ناکام ہوکراور تھک ہار کرتیری طرف پلٹ آ ئے گی (ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ کَرَّتَیْنِ یَنْقَلِبْ ِلَیْکَ الْبَصَرُ خاسِئاً وَ ہُوَ حَسیر) ۔
کرتین کر( بروزن شر )کے مادّہ سے کسِی چیزکی طرف توجّہ کرنے اور بازگشت کرنے کے معنی میں ہے کرة کامعنی تکرار بھی ہے اور کرتین اس کا تثنیہ ہے .لیکن بعض مفسّرین نے کہاہے کہ یہاں کرتین سے تثنیہ کامعنی مُراد نہیں ، بلکہ اس سے مکّرر ، بار بار ، پے در پے اور متعدّد مرتبہ توجہ کرنا مُراد ہے۔
اس بناء پر قر آن ان آیات میں لوگوں کوکم ازکم تین مرتبہ عالم ِ ہستی کی طرف نظر کرنے اوراسرارِ خِلقت و آفرینش کامطالعہ کرنے کاحکم دیتا ہے کہ وہ ایک چیزمیں باربار غور کرین .پھر جب اس عجیب وغیریب نظام میں معمولی سے معمُولی اورکم سے کم خلل اورنقص نہ دیکھیں تو اس کارخانہ ٔعالم کے پیدا کرنے والے خالق اوراس کے بے پایاں علم و قدرت سے زیادہ سے زیادہ آشناہوں۔
خسیٔ خسأ اور خسوء ( بروزن مدح و خشوع )کے مّادہ سے . جب آنکھ کے لیے استعمال ہوتوخستہ اور ناتواں ہونے کے معنی میں ہے اور جب کتّے کے بارے میں استعمال ہوتواسے دُور کرنے کے معنی میں ہے ۔
حسر حسر (بروزنِ قصر )کے مادّہ سے برہنہ کرنے کے معنی میں ہے ،چونکہ اِنسان خستگی اور تکان کے وقت اپنی توانائی کھو بیٹھتا ہے اور گویا وہ اپنی توانائیوں سے برہنہ ہوجاتا ہے ،لہٰذایہ خستگی اور ناتوانی کے معنی میں آ یاہے .اِس بناء پر اوپر والی آیت میں خاسی ٔ اور حسیر دونوں ایک ہی معنی میں ہیں . یعنی عالم ہستی کے نظام میں کسِی نقص وعیب کے دیکھنے سے آنکھ کی در ما ندگی اور نا توانی کے موضوع میں تاکید کے لیے آئے ہیں ۔
بعض نے ان دونوں کے درمیان اس طرح فرق کیاہے کہ خاسئی ناکام ہونے کے معنی میں ، اور حسیر ناتواں کے معنی میں ہے ۔
بہرحال ان آیات سے دواہم نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں .پہلایہ کہ قرآن راہِ حق کے تمام رہرووں کوتاکید ی طورپر یہ حکم دیتا ہے کہ ان سے جتنا ہوسکتا ہے اِس عالِم ہستی کے اسرار اورجہان ِآفرینش کے عجائبات کامطالعہ کرتے ہُوئے ان میں غو روخوض کریں . نیز یہ کہ ایک مرتبہ اور دومرتبہ پر قناعت نہ کریں،کیونکہ بہُت سے ایسے اسرار ہیں جو پہل یادُوسری نگاہ میں اپنی نشان دہی نہیں کرتے .تیز بین نگا ہیں کئی مرتبہ نظر دوڑ انے کے بعد ہی اُن کودیکھ پانے میں کامیاب ہوتی ہیں ۔
دوسرایہ کہ انسان اس نظام میں جتنا زیادہ غوروخوض کرے گا اتناہی اس کے پردوں کو بہتر طورپر درک کرسکے گا . ایسا نظام ،ساخت اورترتیب جو ہر قسم کے نقص ، خلل ، کجی اور ٹیڑھے پن سے خالی ہے ۔
اگرسطحی اور ابتدائی نظر میںاس جہان کے بعض موجودات ، شرو ر وآفات اور فساد کے عنوان سے نظر آتے ہیں ( مثلاً زلز ے ،سیلاب بیماریاں اور نا گوار حوادث ، جو کبھی کبھی اِنسان کی زِندگی میں رُونما ہوتے رہتے ہیں )تو زیادہ دقیق مطالعات سے واضح ہوجاتا ہے کہ وہ بھی اپنے اندر بہت سے اہم اسرار ورُموز رکھتے ہیں ( ٤) ۔
یہ آیات بُرہان نظم کی طرف ایک واضح اشارہ ہے کہ جوکہتی ہیں:ہرکارخانہ میں نظم کاوجُود،اس کارخانہ کی پُشت پرعلم و قدرت کے وجود کی نشانی ہے .ورنہ اتّفاقی حوادث جوحساب شدہ نہ ہوں اندھے بہرے تصاد فات نظام وحساب کامبد ،نہیں ہوسکتے ،جیساکہ حدیث مفضل میں امام صادق علیہ السلام سےآ یاہے:
ان الاھمال لایأ تی بالصواب ، والتضاد لا یأ تی بالنظام ۔
مہمل کام کبھی درست نتیجہ نہیں دیتے ،اورتضاد کسِی نظام کا مبداء نہیں ہوسکتا ( ٥) ۔
آخر ی زیر بحث آیت نے صفحہ ٔآسمانی پرنگاہ ڈالی ہے جوخوبصورت اور چمکنے والے ستاروں کاذکر کرتے ہُوئے کہتی ہے : ہم نے نچلے آسمان کوچمکدار اورروشن ستاروں سے زینت بخشی ہے اور انہیں ہم نے شیٰطین کے لیے تیر قرار دیاہے ،اوران کے لیے جہنم کی آگ کاعذاب فراہم کیاہے (وَ لَقَدْ زَیَّنَّا السَّماء َ الدُّنْیا بِمَصابیحَ وَ جَعَلْناہا رُجُوماً لِلشَّیاطینِ وَ أَعْتَدْنا لَہُمْ عَذابَ السَّعیر) ۔
ایک تاریک اورتاروں بھری رات میں آسمانوں کی طرف ایک نگاہ دُو رتک دکھائی دینے والے عوالم کی طرف توجّہ اوران نظاموں کاتصوّر جوان پر حاکم ہے ، اس خوب صورتی نفاست ، عمدگی ،عظمت ہیبت اور پُر اسرار سکوت میں غور کہ جوان کے اوپر سایہ فگن ہے .انسان کوایک عرفان اور نورِ حق سے پُر جہان میں داخل کردیتا ہے .اسے عشقِ پر وردگار کے ان عوامل میں سیر کراتا ہے جن کی کسِی زبان سے تعریف وتوصیف نہیں ہوسکتی ۔
یہ آیت دوبارہ اس حقیقت کی تائید کرتی ہے کہ وہ تمام ستارے جنہیں ہم دیکھ رہے ہیں ، سب پہلے آسمان کاحصّہ ہیں . وہ آسمان جوسات آسمانوں میں ہم سے زیادہ قریب ہے .اسی بناء پر اسے السماء الدنیا (نزدیک اور نچلے آسمان)کے عُنوان سے تعبیر کیاگیاہے ۔
رجُوم (تیر)کی تعبیر ان شہابوں کی طرف اشارہ ہے جوتیر کی طرح آسمان کی ایک طرف سے دوسری طرف پھینکے جاتے ہیں . ہم جانتے ہیں کہ شھبان ستاروں کے باقی ماندہ اجزاء ہیں جوبعض حوادث میں تباہ ہوگئے ہیں .اس بناء پر اگروہ کواکب (ستاروں ) کوشیاطین کے لیے تیر قرار دینے کی بات کہتا ہے ،تو و ہ انہیں مخصُوص سنگریز وں کی طرف اشارہ ہے ۔
لیکن شیاطین شہا ب کے ان تیروں سے جوآسمانوں میں چھوٹے سرگرداں پتھر ہیں،کِس طرح نشانہ بنتے ہیں ؟ ہم اس کی تشریح تفسیر نمونہ جلد ١١ (سورة حجر کی آیت ١٨ کے ذیل میں ) اور جلد ١٩ (سورہ ٔ صافات کی آیت ٢٠ کے ذیل میں )تفصیل کے ساتھ بیان کرچکے ہیں ۔
١۔ خدائی آزمائشوں کے بارے میں مزمد تشریح کے لیے تفسیرنموجلد ١،سورہ بقرہ کی ١٥٥ کے ذیل میں ملاحظہ کریں ۔
٢۔تفسیر مجمع البیان ،جلد ١٠،صفحہ ٣٢٢۔
٣۔ تفسیر صافی زیربحث آیت کے ذیل میں ۔
٤۔ہم نے اس مطلب کی تشریح "" اثبات وجُود خُدا ""کے مباحث میں افات وبلیات کے سلسلہ میں ماد بین کے دلائل کے جواب میں کی ہے .کتاب "" آ فر ید گارِ جہاں ""کی طرف رُجوع کریں ۔
٥۔بحارالانوار ،جلد ٣،صفحہ ٦٣۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma