مؤ من اورکافر عورتوں کے نمونے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 24

چونکہ منافقین پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے گھر کے اندر کے رازوں کے فاش ہونے اورآپ کی بیویوں کے درمیان جھگڑے اور اختلافات کے ظاہر ہونے پر جن کی طرف گزشتہ آ یات میں اشارہ ہواتھا ، خوش تھے بلکہ انہیں اورہوا دیتے تھے ، شاید اسی مناسبت سے پہلی زیربحث آ یت میں ان کے بارے میں شدّتِ عمل کاحکم دیتے ہُوئے فر ماتاہے : اے پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کفّار اور منافقین کے ساتھ جہاد کرواوران پر سختی کرو ، ان کاٹھکا نہ جہنّم ہے اور وہ بُرا ٹھکانہ ہے (یا أَیُّہَا النَّبِیُّ جاہِدِ الْکُفَّارَ وَ الْمُنافِقینَ وَ اغْلُظْ عَلَیْہِمْ وَ مَأْواہُمْ جَہَنَّمُ وَ بِئْسَ الْمَصیرُ) ۔

یہ جہاد کفّار کے مُقابلے میں توممکن ہے کہ مسلّح یاغیر مسلّح ہو لیکن منافقین کے مقابلے میں شک نہیں کہ یہ مسلح جہاد نہیں ہے . کیونکہ کسِی بھی تاریخ میں یہ نقل ہوا ہے کہ پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے منافقین کے ساتھ مسلّح جنگ کی ہو . لہٰذا ایک حدیث میں امام صادق علیہ السلام سے آ یاہے کہ آپ نے فر مایا:

ان رسول اللہ لم یقاتل منافقاً فط انما کا ن یتأ لفھم ۔

رسولِ خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے ہرگز کسِی منافق سے جنگ نہیں کی ، بلکہ آپ ہمیشہ ان کی تالیف ِ قلوب کی کوشش میں لگے رہتے تھے ۔

اس بناء پر ان کے ساتھ جہاد کرنے نئے مُراد وہی ،سرزنش ، انداز ، ڈر انا اور انہیں رُسوا کرنا ہے ، یابعض موارد میں ان کی تالیف ِقلوب کرناہے،کیونکہ جہاد ایک وسیع وعریض معنی رکھتاہے .اورہرقسم کی جدّ وجہد اورسعی و کوشش کوشامل ہے وَ اغْلُظْ عَلَیْہِمْ (ان پرسختی اورخشونت کرو ) کی تعبیر بھی گفتگو میں سختی اورافشاگری تہدید ، دھمکی اوراس قسم کی چیزوں میں سختی کی طرف اشارہ ہے ۔

منافقین کے ساتھ یہ مخصوص وضع وکیفیّت اِس بناء پر تھی کہ وہ ظاہر اً اسلام کا دم بھرتے اور مسلمانوں کے ساتھ مکمّل طورپر آمیزش رکھتے تھے ، لہٰذا یہ ممکِن نہیں تھا کہ ان کے ساتھ ایک کافر جیساسلوک کیاجائے ۔

البتّہ یہ اس صورت میں تھاکہ وہ ہتھیاروں کی طرف ہاتھ ، بڑھا ئیں ،اگروہ یہ کام کرتے تویقینا ان کے ساتھ مقابلہ بالمثل ہوتا، کیونکہ اس صورت میں وہ محارب کاعنوان اپنے لیے لے لیتے ۔

 اگرچہ یہ مسئلہ پیغمبر کے زمانہ میں واقع نہیں ہُوا ، لیکن آنحضرت کے بعد خصوصاً امیرالمو منین کے زمانہ میں رُونما ہوا اور آپ مسلّح جنگ کے لیے کھڑے ہُوئے ۔

 بعض نے کہاہے کہ اوپر والی آ یت میں منافقین سے جہاد کرنے سے مُراد ان کے بارے میں حُدود شرعی کا اجراء ہے ، کیونکہ وہ لوگ جن پر  حد جاری ہُوئی اکثر منا فقین تھے . لیکن اس تفسیر اوراس دعوے کے لیے کہ اس زمانہ میں زیادہ ترحدُود شرعی ان ہی لوگوں پرجاری ہُوئی ہیں، ہمار ے پاس کوئی دلیل موجُود نہیں ہے ۔

 قابلِ توجّہ بات یہ ہے کہ اوپروالی آیت بعینہ اور بغیر کسی کمی وزیادتی کے سورۂ توبہ آ یت ٧٣ میں بھی آ ئی ہے ۔

اِس کے بعد دوبارہ پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی بیویوں کے ماجر ے کی طرف لوٹتاہے .اِس بناء پر کہ انہیں عملی اورندہ سبق دے ، دوبے تقویٰ عورتوں کی سرنوشت جود وبزرگ پیغمبروں کے گھر میں تھیں، اور دومومن وایثار گرخواتین کی سرنوشت بیان کرتاہے جن میں سے ایک تاریخ کے جابر ترین شخص کے گھر میں تھی۔

 پہلے فرماتاہے : خدانے کافروں کے لیے ایک مثال بیان کی ہے .نوح علیہ السلام کی بیوی کی مثال اورلوط علیہ السلام کی بیوی کی مثال (ضَرَبَ اللَّہُ مَثَلاً لِلَّذینَ کَفَرُوا امْرَأَتَ نُوحٍ وَ امْرَأَتَ لُوط)(١) ۔

وہ دونوں ہمارے دوصالح بندوں کے ماتحت تھیں لیکن انہوں نے اُن سے خیانت کی (کانَتا تَحْتَ عَبْدَیْنِ مِنْ عِبادِنا صالِحَیْنِ فَخانَتاہُما ) ۔

لیکن ان دوعظیم پیغمبروں میں سے ان کے ارتباط نے عذابِ الہٰی کے مقابلہ میں انہیں کوئی نفع نہیں دیا اُن سے کہاگیا کہ تم بھی آگ میں داخل ہونے والے لوگوں کے ساتھ آگ میں داخل ہوجائو (فَلَمْ یُغْنِیا عَنْہُما مِنَ اللَّہِ شَیْئاً وَ قیلَ ادْخُلاَ النَّارَ مَعَ الدَّاخِلین) ۔

اِس طرح سے پیغمبراسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ان ددوبیویوں کوجنہوں نے افشاء ِراز کیا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ  وسلم)کوتکلیف و آزا رپہنچا یاتھا خبردار کرتاہے کہ وہ یہ گمان نہ کربیٹھیں کہ صرف پیغمبر کی بیوی ہونا انہیں عذاب سے پچا لے گا ، جس طرح نوح علیہ السلام اور لوط علیہ السلام کی بیوی کارابط خیانت کی وجہ سے خاندان ِنبوت ووحی سے منقطع ہوگیا اوروہ دونوں عذاب الہٰی میں گرفتار ہوگئیں ۔

ضمنی طورپر یہ تمام طبقات کے مومنین کوایک تنبیہ ہے کہ وہ گناہ وعصیان کی صُورت میں اولیاء اللہ کے ساتھ اپنے رشتوں اور تعلقات کوعذابِ الہٰی سے مانع نہ سمجھ بیٹھیں۔

 مفسّرین کے بعض کلمات میں آ یاہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کی بیوی کانام والھة اور حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی کانام والعة تھا ( ٢) اور بعض نے اس کے برعکس لکھاہے ، یعنی نوح علیہ السلام کی بیوی کانام والعة اورلوط علیہ السلام کی بیوی کانام واھلة کہا ہے ( ٣) ۔

بہرحال ان دونوں عورتوں نے ان دونوں عظیم پیغمبروں کے ساتھ خیانت کی،البتہ ان کی خیانت جادۂ عفّت سے انحراف ہرگز نہیں تھا،کیونکہ کسِی پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی بیوی ہرگز بے عفتی سے آلود ہ نہیں ہوتی جیساکہ پیغمبر اسلام سے ایک حدیث میں صراحت کے ساتھ آ یاہے :

  مابغت امراة النتی قط ۔

  کسی بھی پیغمبر کی بیوی ہر گز منافی ، عفت عمل سے آلودہ نہیں ہُوئی ( ٤) ۔

حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی کی خیانت یہ تھی کہ وہ اس پیغمبر کے دشمنوں کے ساتھ تعاون کرتی تھی اورآنحضرت کے گھر کے راز انہیں بتاتی تھی ، اورحضرت نوح علیہ السلام کی بیوی بھی ایسی ہی تھی ۔

راغب مفردات میں کہتاہے  : خیانت اور نفاق حقیقت میں ایک چیزہیں ،سوائے اس کہ خیانت عہدو امانت کے مقابلہ میں ہوتی ہے ، اور نفاق مسائل ِ دینی میں ۔

اس داستان کی پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمم)کے گھر کے افشانے راز کی داستان کے ساتھ منا اسبت بھی اسی بات کاتقاضا کرتی ہے کہ خیا نت سے مراد یہی ہو ۔

بہرحال اوپر والی آیت ان افراد کی جھوٹی اُمیدوں کوجو یہ گمان کرتے ہیں کہ پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)جیسے عظیم شخص سے تعلّق اور رشتہ  داری ہی ان کی نجات کاسبب بن جائے گی ( چاہے عمل کتناہی بُرا کیوں نہ ہو)منقطع کردیتی ہے ، تاکہ کوئی بھی شخص اس لحاظ سے اپنے لیے نجات کاقائل نہ ہو ، اِس لیے آ یت کے آخر میں کہتاہے : ان سے کہاجا ئے گا تم بھی تمام دوزخیوں کے ساتھ جہنم میں داخل ہوجائو یعنی تمہاراے اور دُوسروں کے درمیان اِس لحاظ سے کوئی امتیاز نہیں ہے ۔

اس کے بعد با ایمان افراد کے لیے دومثالیں بیان کرتے ہُوئے کہتاہے : خدا نے مومنین کے لیے ایک مثال بیان کی ہے : یہ فرعون کی بیوی کی مثال  ہے ، جس وقت  اس نے ب ارگاہِ خداوند ی میں عرض کیا: میرے پروردگار !مریے لیے اپنے نزدیک جنّت میں ایک گھر بنا دے اور مجھے فرعون اوراس کے کاموں سے نجات دے اور مجھے اس ظالم قوم سے نجات عطافر ما (وَ ضَرَبَ اللَّہُ مَثَلاً لِلَّذینَ آمَنُوا امْرَأَتَ فِرْعَوْنَ ِذْ قالَتْ رَبِّ ابْنِ لی عِنْدَکَ بَیْتاً فِی الْجَنَّةِ وَ نَجِّنی مِنْ فِرْعَوْنَ وَ عَمَلِہِ وَ نَجِّنی مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمینَ)۔

مشہور یہ ہے کہ فرعون کی بیوی کانام آسیہ اوراس کے باپ کانام مزاحم تھا کہتے ہیں کہ جب اُس نے جادو گر وں کے مقابلے میں موسٰی علیہ السلام کے معجزہ کودیکھا تواس کے دل کی گہرائیاں نورِ ایمان سے روشن ہوگئیں ، وہ اسی وقت مُوسیٰ علیہ السلام پرایمان لے آ ئی .وہ ہمیشہ اپنے ایمان کی خبر ہُوئی تواس نے اُسے بارہا سمجھایا اورمنع کیا اور یہ اصرار کیاکہ موسٰی علیہ السلام کے دین سے دستبردار ہوجائے اوراس کے خدا کوچھوڑ دے ،لیکن یہ باتاستقامت خاتون فرعون کی خواہش کے سامنے ہرگز نہ جھکی ۔

 آخر کارفرعون نے حکم دیا کہ اس کہ ہاتھ پائوں میخوں کے ساتھ باندھ کراسے سُورج کی جلتی ہُوئی دھوپ میں ڈال دیاجائے اور ایک بہت بڑا پتھراس کے سینہ پر رکھ دیں ، جب وہ خاتون اپنی زندگی کے آخری لمحے گزار رہی تھی تواس کی دُعا یہ تھی :

  پروردگارا !میرے لیے جنّت میں اپنے جوارِ رحمت میں ایک گھر بنا دے .مجھے فرعون .اوراس کے اعمال سے رہائی بخش اور مجھے اس ظالم قوم سے نجات دے ۔

 خدانے بھی اس پاکبازاور فدا کار مومنہ خاتون کی دعاقبول کی اوراسے مریم علیہ السلام جیسی دنیاکی بہترین خوتون قرار دیاجیساکہ وہ ان آ یات میں مریم علیہ السلام کے ہم ردیف قرار پائی ہے ۔

 ایک روایت میں رسول ِخدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آ یاہے :

  افضل نساء اھل الجنة خدیجة بنت خو یلد وفا طمة بنت محمد (ص) ومریم بنت عمران ، واٰ سیة بنت مزاحم امرأةفرعون !

  اہل جنّت میں افضل ترین اور برترین عورتیں چار ہیں ، خویلد کی بیٹی ،خدیجہ علیہ اسلام محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی بیٹی فاطمہ علیہ اسلام اور عمران کی بیٹی مریم علیہ السلام اورمزاحم کی بیٹی آسیہ علیہ اسلام جوفر عون کی بیوی تھی ( ٥) ۔

قابل ِ توجہ بات یہ ہے کہ فرعون کی بیوی اپنی اس بات سے فرعون کے عظیم قصر کی تحقیر کررہی ہے ، اور اُسے خُدا کے جوار ِ رحمت میں گھر ، کے مُقابلے میں کوئی اہمیّت نہیں دیتی ، اس گفتگو کے ذ ریعے ان لوگوں کوجو اُسے یہ نصیحت کرتے تھے کہ ان تمام نمایاں وسائل وامکانات کوجوملکۂ مصر ہونے کی وجہ سے تیرے قبضہ و اِختیار میں ہیں موسیٰ علیہ السلام جیسے چروا ہے پرایمان لاکر ہاتھ سے نہ دے ، جواب دیتی ہے ؛

 اور وَ نَجِّنی مِنْ فِرْعَوْنَ وَ عَمَلِہ کے جُملے کے ساتھ خُود فرعون سے اوراس کے مظالم اور جرائم سے اپنی بیگانگی کا اظہار کرتی ہے ۔

 زندگی کے آخری لمحات میں اس با معرفت اورایثار گرعورت کے یہ تینوں جملے کِس جچے تلے اور حساب شدہ ہیں ، ایسے جملے جوپوری دنیا کی سب عورتوں اورمردوں کے لیے نفع بخش اور باعث ہدایت ہوسکتے ہیں .ایسے جملے جو پوری دنیاکی سب عورتوں اورمردوں کے لیے نفع بخش اور باعث ہدایت ہوسکتے ہیں ۔

 ایسے جملے ،جوان تمام افراد کے ہاتھوں سے ، جو ماحول یازوج کے دبائو کوخداکی اطاعت اور تقویٰ کوترک کرنے کا ایک جو از شمار کرتے ہیں فضول بہانوں کوچھین لیتے ہیں ۔

مسلّمہ طورپر فرعون کے درمیان سے بڑھ کررزق برق اورجلال وجبرو ت موجود نہیں تھا. اسی طرح فرعون جیسے جابر وظالم کے شکنجوں سے بڑھ کرفشار اور شکنجے موجود نہیں تھے .لیکن نہ تووہ رزق برق اور نہ ہی وہ فشار اور شکنجے اس مومنہ عورت کے گھٹنے جھکا سکے . اس نے رضائے خدامیں اپناسفر اسی طرح سے جاری رکھا. یہاں تک کہ اپنی عزیز جان اپنے حقیقی محبوب کی راہ میں فدا کردی ۔

 قابلِ توجّہ بات یہ ہے کہ وہ یہ استد عا کرتی ہے کہ اے خداجنّت میں اوراپنے جوار میں اس کے لیے ایک گھر بنادے جس کاجنت ہونا توجنبۂ جسمانی ہے اور خدا کے جوارِرحمت میں ہونا جنبۂ روحانی ہے اس نے ان دونوں کوایک مختصر سی عبادت میں جمع کردیاہے ۔

اس کے بعد دوسری باشخصیت خاتون کی طرف ،جوصاحب ایمان لوگوں کے لیے نمونہ شمار ہوتی ہیں ، اشارہ کرتے ہُوئے فرماتاہے : اورخدا نے مریم بنت عمران کی مثال بھی بیان کی ہے جس نے اپنے دامن کوپاک رکھا (وَ مَرْیَمَ ابْنَتَ عِمْرانَ الَّتی أَحْصَنَتْ فَرْجَہا )(٦) ۔

اور ہم نے اپنی رُوح میں سے  اس میں پھونکا (فَنَفَخْنا فیہِ مِنْ رُوحِنا) ۔

اوراس نے خد ا کے حکم سے شوہر کے بغیر بچہ جناجو پروردگار کا اولوالعزم پیغمبر بنا۔

اس کے بعد مزیدکہتا ہے : اس نے پروردگار کے کلمات اوراس کی کتابوں کی تصد یق کی اور ان سب پر ایمان لائی (وَ صَدَّقَتْ بِکَلِماتِ رَبِّہا وَ کُتُبِہِ ) ۔

اور وہ خُدا کے حکم کی اطاعت کرنے والوں میں سے تھی (وَکانَتْ مِنَ الْقانِتین) ۔

وہ ایمان کے لحاظ سے اعلیٰ مرتبے پر تھی . تمام آسمانی کتابوں اوراوامر الہٰی پرایمان رکھتی تھی اور عمل کے لحاظ سے ہمیشہ احکامِ الہٰی کی مطیع تھی . وہ خدا کی ایک ایسی کنیز تھی جواپنی جان ودل ہتھیلی پر لیے ہُوئے آنکھ اس کے حکم پر اورکان اس کے فرمان پرلگائے رکھتی تھی ۔

 کلمات اورکتب میں فرق ممکِن ہے اس لحاظ سے ہو کہ کتب کی تعبیر سے توان تمام آسمانی کتابوں کی طرف اشارہ ہو جو پیغمبر وں پرنازل ہُوئی ہیں اورکلمات کی تعبیر سے مراد وہ الہام ہوں جو کتاب آ سمانی کی صورت میں نہیں آ ئے تھے ۔

 مریم علیہ السلام ان کلمات اور کتابوں پرایسا ایمان رکھتی تھی کہ قرآن نے سورة مائدہ کی آ یت ٧٥ ، میں اُسے صدیقہ )(بہت زیادہ تصدیق کرنے والی )کے عنوان سے یاد کیاہے ۔

 قرآنی کی مختلف آیات میں اس با ایمان خاتون کی شخصیّت اوراس کے مقام ِوالا کے سلسلہ میں بہت زیادہ مطالب نظر آتے ہیں.ان کا ایک اہم حصّہ تواس سورہ میں ہے جواسی کے نام سے موسُوم ہے ( ایک گروہ نے صدّیقہ کی توصیف زیادہ سچ بولنے والی کے ساتھ کی ہے ) ۔

 بہرحال قرآن ان تعبیروں کے ساتھ مریم علیہ اسلام کے دامن کوان نارواباتوں سے ، جو آ لودہ اورجنا یتکا ریہود یوں کی ایک جماعت اس کے بارے میں کہتی تھی اوروہ لوگ اس کی شخصیت اوراس کی پاک دامنی کے خلاف جوبھی باتیں بناتے ہیں ، ان سے اس کوپاک وپاکیزہ شمار کرتاہے اور بدگوئی کرنے والوں کے مُنّہ پرایک سخت طمانچہ رسید کرتاہے ۔

فنفخنا فیہ من روحنا(ہم نے اپنی روح میں سے اس میں پُھو نکا) کی تعبیر سے ، جیسا کہ ہم اُس سے پہلے بھی اشارہ کرچکے ہیں ، ایک با عظمت اوربلند رُوح مُراد ہے ، یادوسرے لفظوں میں خُدا کی طرف روح کی اضافت ایک اجافہ ٔتشریف ہے کہ جوکسِی چیز کی عظمت کوبیان کرنے کے لیے آ تی ہے ، مثلاًبیت اللہ کی تعبیر میں ، گھر کی اضافت خدا کی نہ رُوح ہے نہ گھر اور نہ بیت ۔

 تعجب کی بات یہ ہے کہ بعض مفسرین نے خدا کے ہاں باشخصیت اور والا مقام عورتوں کے بارے میں ایک حدیث نقل کی ہے جس میں بی بی عائشہ کوان سب سے برتر ، وافضل ترین شمار کیاہے . کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ اس حدیث کوسورہ تحریم کی تفسیر میں ذکر نہ کرتے ، کیونکہ سورہ تحریم تواس گھڑ ی ہوئی حدیث کے برخلاف پکار پکار کرپیغام دے رہی ہے . جیساکہ ہم نے دیکھ لیاہے کہ اہل سنّت کے بہت سے مفسّرین اور مُوّرخین نے صراحت کے ساتھ بیان کیاہے ،کہ وہ دوعوتیں جن کی اس سورہ کی آیات شدّت کے ساتھ مذمّت کررہی ہیں اورجوخُدا اوراس  کے رسُول (صلی اللہ علیہ وآ لہ وسلم) کے غیظ وغضب کا سبب بنی ہیں ، وہ حفصہ وعائشہ تھیں، اور یہی بیان صراحت کے ساتھ صحیح بخاری میں بھی آ یاہے ( ٧) ۔

ہم ان تمام لوگوں سے جو آزا دانہ اورغیرجانبد ار انہ طورپر غور وخوض اورسوچ بچار کرتے ہیں ، یہ درخواست کرتے ہیں کہ وہ پھر سے اس سورہ کی آ یات کامُطالعہ کریں اوراس کے بعد اس قسم کی حدیثوں کی قدرو قیمت کوواضح اور روشن کریں ۔

خداوندا!ہمیں بے ثبوت اور تعصّب آمیز حبّ وبغض سے محفوظ رکھ اورایسا کرکہ ہم قرآن مجید کی آیات کے مقابلہ میں اپنے سارے وجُود کے ساتھ سرتسلیم خم کردیں اورخاضع رہیں ۔

 پروردگارا!وہ دن نہ آ ئے کہ تیراعظیم پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے اعمال سے ناخوش اورہماری زندگی کی روش سے ناراض ہو ۔

 با رالہٰا !ہمیں ایسی استقامت عطافر ما کہ سارے جہان میں زمانہ کے فر عونوں کے دبائو اور شکنجے ہماری روح اورایمان پرمعمولی سے معمولی اثر بھی نہ کریں ۔

١۔ضرب کے یہاں دو مفعُول ہیں "" امرأة نوح "" مفعُول اواّل ہے  جومُؤ خّر ہوگیاہے ، اور مثلاً دوسرامفعول ہے یہ احتمال دیاگیاہے کہ "" ضرب "" کا ایک ہی مفعول ہواوروہ مثلاً ہے اور "" امرأة "" نوح اس کابدل ہے ( البیان فی غریب اعراب القرآن ،جلد ٢،صفحہ ٤٤٩) ۔

 ٢۔قرطبی جلد، ١٠ ،صفحہ ٨٠ ٦٦۔

٣۔روح البیان ،جلد ٢٨صفحہ ١٤٢ (بعض نے نوح علیہ السلام کی بیوی کانام "" واغلہ"" یا "" والغہ "" بھی بیان کیاہے ) ۔

 ٤۔دُر المنثور ،جلد ٦،صفحہ ٢٤٥۔

 ٥۔درالمنثور ،جلد ٦،صفحہ ٢٤٦۔

٦۔اس بارے میں کہ "" فرج""کی تعبیر سے کیامُراد ہے ؟ ہم نے ایک تفصیلی بیان ،تفسیر نمونہ کی جلد ١٣ میں صفحہ ٤٩٤ پر(سورہ انبیاء کی آ یت ٩١ کے ذیل میں پیش کیاہے ۔

 ٧۔صحیح بخاری ،جلد ٦،صفحہ ١٩٥۔

 

 آمین یارب العالمین

سورہ تحریم کی تفسیر تمام ہوئی۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma