اپنے گھروالوں کوجہنم کی آگ سے بچائو

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 24

 خداپیغمبر کی بعض بیویوں کوخبر دار کرنے اور انہیں سرزنش کرنے کے بعد زیربحث آ یات میں رُوئے سُخن تمام مومنین کی طرف کرتے ہُوئے بیوی ، اولاد اور گھر والوں کی تعلیم وتربیّت کے بارے میں کچھ احکام دیتا ہے . پہلے فرماتا ہے : اے ایمان لانے والو!اپنے آپ کواور اپنے گھر والوں کواس آگ سے بچائو کہ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں (یا أَیُّہَا الَّذینَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَکُمْ وَ أَہْلیکُمْ ناراً وَقُودُہَا النَّاسُ وَ الْحِجارَةُ) ۔

خود کوبچا ناتوگنا ہوں کوترک کرنے اور سرکش خواہشات کے سامنے سرِ تسلیم خم نہ کرنے کے ساتھ ہے ، اورگھروالوں کوبچانا تعلیم وتربیّت اورامر مالمعروف ونہی از منکر کرنا نیز گھر اور گھر انے کی فضا میں ایک پاک اورہرقسم کی آلود گی سے مبّراماحول فراہم کرناہے ۔

یہ وہ طریقہ ٔ کار ہے جوگھر انے کے سنگِ بنیاد ،یعنی ازدواج ِ کے مقدّمات سے اوراس کے بعد بچّے کی پیدائش کے پہلے لمحہ سے شرُوع ہوناچاہیے .ان تمام مراحل میں صحیح لائحہ عمل ترتیب دے کر پُورے انہماک سے اس پر عمل کرنا چاہیے ۔

دُوسرے لفظوں میں بیوی اوراولاد کاحق صرف ان کی ضرور یاتِ زندگی ، مکان اورکھانے پینے کی چیزوں کے فراہم کرنے سے پورا نہیں ہوجاتا.ان سے زیادہ اہم ان کی رُوح اورجان کی غذ اکامُہیّا کرنا اورصحیح اصولِ تعلیم وتربیّت کو عمل میں لا ناہے ۔

 قابلِ توجّہ بات یہ ہے کہ قوا ( بچائو )کی تعبیر اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اگرتم انہیں خود ان کی اپنی حالت پرچھوڑ دو گے تووہ خواہ نخواہ جہنّم کی آگ کی طرف بڑھیں گے ،صرف تمہیں ان کوجہنّم کی آگ میں گر نے سے بچا سکتے ہو ۔

  وقود (بروزن کبود)جیسا کہ ہم پہلے بھی اشارہ کرچکے ہیں،آتشگیر یعنی ایسے مادہ کے معنی میں ہے ، جو آگ پکڑ نے کے قابل ہو.مثلا ایندھن (آگ لگانے والے مثلاً دیا سلائی کے معنی میں نہیں ہے ) کیونکہ عرب اُسے زناد (چقماق ) کہتے ہیں ۔

 اِس لحاظ سے جہنّم کی آگ ونیاوی آگ کی مانند نہیں ہے .اس کے شعلے خود انسان کے وجُود کے ذریعے سے ہی بلند ہوتے ہیں ، (اورپتھر وں کے اندر سے بھی ) نہ صرف گندھگ کے پتّھر سے جس کی طرف بعض مفسرین نے اشارہ کیاہے ، بلکہ ہرقسم کے پتھر سے ، کیونکہ آ یت کالفظ مطلق ہے . موجود ہ زمانے میں ہم جانتے ہیں کہ پتھر کا ہرٹکڑا ایٹم کے اربوں ذرّات سے مُرکّب ہے اوراگران کے اندر موجود ذخیرہ آزاد ہوجائے توایسی آگ پیداکر دے کہ انسان دنگ رہ جائے ۔

 بعض مفسّرین نے یہاں حجارة کی تفسیر بتوں کے ساتھ کی ہے جوپتھر سے بنائے جائے تھے اورمشرکین انہیں پوجاکرتے تھے ۔

 اس کے بعد مزیدکہتاہے :اِ س آگ پرایسے فرشتے مقرر کیے گئے ہیں جو بہُت ہی سخت اورتند وتیز ہیں . وہ ہر گزخُدا کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے . وہ انہیں جوبھی حکم دیتاہے ، اس کی بے چوں وچرا تعمیل کرتے ہیں (عَلَیْہا مَلائِکَة غِلاظ شِداد لا یَعْصُونَ اللَّہَ ما أَمَرَہُمْ وَ یَفْعَلُونَ ما یُؤْمَرُون) ۔

اِس طرح نہ تو بھاگنے کی ہی کوئی راہ ہے اور نہ ہی گریہ وزاری ، التماس والتجا اور جزع وفزع ہی موثر ہے ۔

 یہ بات واضح ہے کہ ہرمامور جس بھی کا م پر مقرّر ہوتاوہ اس کے لحاظ سے مُناسب جذ بات رکھتا ہے .لہٰذا عذاب ، پرمامورافراد کوطبعی پرسخت اورتند وتیز ہوناچاہیے .کیونکہ جہنّم رحمت کامرکز نہیں ہے بلکہ خدا کے غیظ وعضب کامرکز ہے لیکن اس کے باوجود وہ مامورین ہرگز عدالت کی سرحد سے خارج نہیں ہوں گے اورحکمِ خداکو بے کم وکاست جاری کر یں گے ۔

 یہاں مفسّرین کی ایک جماعت نے ایک سوال پیش کیاہے کہ اوپر والی آ یت میں عدم عصیاں کی تعبیر قیامت میں عدم وجود تکلیف کے مسئلہ کے ساتھ کسِ طرح سازگار ہے ؟

 لیکن اس بات پرتوجّہ رکھنی چاہیے کہ فرشتوں کی اطاعت اور ترکِ عصیاں ایک قسم کی تکوینی اطاعت ہے نہ کہ تشریعی اوراطاعتِ تکوینی موجود رہتی ہے .دُوسرے لفظوں میں وہ اس طرح بنائے گئے ہیں کہ خدائی فرامین کا انتہائی میل ورغبت اورخاص لگائو کے ساتھ عین اختیار کے اجراء کرتے ہیں ۔ 

بعد و الی آ یت میں کُفّار کومخاطب کرکے اس دن کی وضع وکیفیت بیان کرتے ہُوئے فرماتاہے : اے کافرو ں آج عُذر ومعذ رت نہ کرو ،کیونکہ تمہیں توصرف تمہارے اعمال ہی کی جزادی جائے گی (یا أَیُّہَا الَّذینَ کَفَرُوا لا تَعْتَذِرُوا الْیَوْمَ ِنَّما تُجْزَوْنَ ما کُنْتُمْ تَعْمَلُونَ) ۔

 اِس آیت کاگزشتہ آیت کے بعد قرار پانا کہ جس میں مخاطب مومنین تھے ، اس واقعیّت کی طرف اشارہ ہے کہ اگر تم اپنی بیوی اولاد اور گھر والوں کی حالت کاخیال نہ کھوگے تو ممکن ہے تمہارا مُعاملہ حد تک پہنچ جائے کہ قیامت کے دن اس خطاب سے مُخاطب کیے جائو ۔

 ِنَّما تُجْزَوْنَ ما کُنْتُمْ تَعْمَلُون کی تعبیر دوبارہ کی تائید کرتی ہے کہ قیامت میں گنہگاروں کی جزاء خودانہیں کے اعمال ہیں جوان کے سامنے ظاہر ہوں گے اوران کے ساتھ ہوں گے .گزشتہ آیت کی تعبیر کہ جہنم کی آگ خود انسان کے اند رسے شعلہ زن ہوگی وہ اسی معنی کی تائید کرتی ہے ۔ 

 یہ نکتہ بھی قابلِ توجّہ ہے کہ وہاں عذر ومعذرت کاقبول نہ ہونا اس بناء پر ہے کہ عذر خواہی ایک قسم کی توبہ ہے اور توبہ صرف اس جہان میںہی امکان پذ یر ہے ، نہ کہ دوسرے جہاں میں اور نہ ہی جہنّم میں ورُود کے بعد توبہ کی کوئی گنجائش ہے ۔

 بعد والی آ یت حقیقت میں جہنّم کی آگ سے نجات کاراستہ بتاتی ہے ، ارشاد ہوتاہے : اے ایمان لانے والو ! اللہ کی طرف لوٹ آ ئو اور توبہ کرلو ،خالص توبہ (یا أَیُّہَا الَّذینَ آمَنُوا تُوبُوا ِلَی اللَّہِ تَوْبَةً نَصُوحاً) ۔

 ہاں ! نجات کے لیے پہلا قدم گناہ سے توبہ ہے ، ایسی توبہ جوہرلحاظ سے خالص ہو،  ایسی توبہ جس کا مُحرّ ک حکم خدا اور خوفِ گناہ ہو ، نہ کہ گناہ کے اجتماعی اور دنیاوی آثار سے وحشت ! ایسی توبہ جوانسان کوہمیشہ کے لیے معصیّت اورنافرمانی سے دور کردے اور پھر اس میںگناہ کی طرف بازگشت رونمانہ ہو ۔

 ہم جانتے ہیں کہ توبہ کی حقیقت وہی گناہ ہے ندامت وپشیمانی ہے .اس کالازمہ یہ ہے کہ وہ آئندہ کے لیے گناہ نہ کرنے کاپختہ ارادہ کرلے ، اگروہ کوئی ایسا کام تھا جس کی تلافی ہوسکتی ہے تواس کی تلافی کی کوشش کرے . استغفار کرنابھی اسی معنی کوظاہر کرتاہے .اوراس طرح سے توبہ کے ارکان کاپانچ باتوں میں خلاصہ کیاجاسکتاہے :

 ١:  ترکِ گناہ

٢:ندامت

٣: آئند ہ گناہ نہ کرنے کاپختہ ارادہ

٤: گزشتہ گناہوں کی تلافی

٥: استغفار

  نصوح نصح ( بروزن صلح ) کے مادّہ سے اصل میں خالص خیر خواہی کے معنی میں ہے .اسی لیے خالص شہد کو ناصح کہاجاتاہے .چونکہ حقیقی وواقعی خیر خواہی کومضبوطی کے ساتھ توأم ہوناچاہیئے ،لہذا نصح کالفظ بعض اوقات اس معنی کے لیے بھی آتاہے ۔

 اسی بناء پر محکم عمارت کو نصاح (بروزن کتاب) اور دوزی کوناصح کہاجاتاہے .اِس طرح یہ دونوں معنی یعنی خالص ہونا، اورمحکم ہونا، توبہ نصوح میں جمع ہونے چاہئیں( ١) ۔

 اس بارے میں کہ توبۂ نصُوح کیا ہوتی ہے ، مفسّرین نے ہبت زیادہ تفاسیر بیان کی ہیں ، یہاں تک کہ بعض نے ان تفاسیر کی تعداد ٢٣ بتائی ہے (٢) لیکن وہ سب تفاسیر ایک ہی حقیقت کی طرف لوٹتی ہیں یاوہ توبہ کی مختلف قسمیں اور مختلف اوصاف وصفات ہیں ۔

منجملہ ان کے یہ ہے توبۂ نصوح وہ ہوتی ہے جس میں چار اوصاف وشرائط ہوں ۔

 ١: قلبی پشیمانی

٢: زبانی استغفار

٣: ترک ِ گناہ

 ٤: آئندہ کے لیے ترک گناہ کا پختہ ارادہ

 بعض نے کہاہے کہ توبۂ نصُوح وہ ہوتی ہے جس میں تین اوصاف وشرائط ہوں :

 ١: اس بات کا خوف کہ شاید قبول نہ ہو ۔

 ٢: اس بات کی اُمید کہ قبول ہوجائے گی ۔

 ٣: خداکی اطاعت پر قائم رہنا ۔

 یاتوبۂ نصُوح یہ ہے کہ اپنے گناہ کوہمیشہ اپنی نظر کے سامنے رکھے اوراِس سے شرمندہ ہوتارہے ۔

 یاتوبۂ نصُوح یہ ہے کہ جوچیزیں ظلم کے ساتھ لی ہیں وہ ان کے مالکوں کوواپس کردے ، مظلوموں سے حلیت طلب کرے اورخدا کی اطاعت  کاپابند رہے ۔

 یاتوبۂ نصوح وہ ہوتی ہے جس میں یہ تین شرطیں ہوں :

 ١: کم بولنا ۔ ٢: کم کھان ۔ ٣: کم سونا۔

یا توبۂ نصوح وہ ہوتی ہے جو رونے والی آنکھ اور گناہ سے بیزار دل سے توائم ہو ... اور دیگراسی قسم کے امُور جوسب ایک ہی واقعیّت کے شاخ وبرگ ہیں اور یہ خاص وکامل توبہ ہے ۔

 ایک حدیث میں پیغمبر گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آ یاہے کہ جب معاذبن جبل نے توبۂ نصُوح کے بارے میں سوال کیاتوآپ نے جواب میں فر مایا:

  ان یتوب التائب ثم لایرجع فی ذنب کمالا یعود اللبن الی الضرع۔

  توبہ ی نصُوح یہ ہے کہ توبہ کرنے والا شخص پھرکسِی طرح بھی گناہ کی طرف نہ لوٹے ، جیساکہ دُو دھ کبھی پستان کی طرف نہیں لوٹتا ( ٣) ۔

یہ لطفِ تعبیر اس واقعیت کوبیان کرتی ہے کہ توبہ ٔ نصُوح کے اعلیٰ ترین درجہ کوبیان کرتاہے ، اور نہ نچلے مراحل میں تویہ ممکن ہے کہ گناہ کی طرف بازگشت ہوجائے اور توبہ کی تکرار کے بعدانجام کاردائمی ترک پر جا منتہی ہو ۔

 اس کے بعد توبہ نصوح کے آثار کی طرف اشارہ کرتے ہُوئے مزید کہتاہے : امید ہے کہ اس کام کی وجہ سے تمہارا پروردگار تمہارے گناہوں کوبخش دے اوران کی پر دہ پوشی کرے (عَسی رَبُّکُمْ أَنْ یُکَفِّرَ عَنْکُمْ سَیِّئاتِکُم) ۔

  اور تمہیں اس جنّت کے باغات میں داخل کرے جِن کے درختوں کے نیچے نہریں جاری ہیں (وَ یُدْخِلَکُمْ جَنَّاتٍ تَجْری مِنْ تَحْتِہَا الْأَنْہارُ) ۔

یہ کام اس دن ہوگا جس دن خدا پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اوران لوگوں کوجواس کے ساتھ ایمان لائے ہیں ذلیل وخوار نہیں کرے گا (یَوْمَ لا یُخْزِی اللَّہُ النَّبِیَّ وَ الَّذینَ آمَنُوا مَعَہُ) ۔

یہ اس حال میں ہوگاکہ ان کا(ایمان اورعمل صالح ) نوران کے آگے آگے اوران کی دائیں جانب چل رہا ہوگا، و ہ عرصۂ محشر کوروشن کردے گا اور بہشت کی طرف ان کی راہ کھول دے گا (نُورُہُمْ یَسْعی بَیْنَ أَیْدیہِمْ وَ بِأَیْمانِہِمْ) ۔

یہ وہ منزل ہے کہ جہاں وہ خدا کی بارگاہ کی طرف رُخ کرکے کہیں گے : پروردگارا! ہمارے نور کومکمل کردے اور ہمیں بخش دے کیونکہ توہرکام پرقدرت رکھتاہے (یَقُولُونَ رَبَّنا أَتْمِمْ لَنا نُورَنا وَ اغْفِرْ لَنا ِنَّکَ عَلی کُلِّ شَیْء ٍ قَدیر ) ۔

حقیقت میں اس توبۂ نصُوح کے پانچ عظیم ثمر ہیں ۔

پہلا: سیئات اور گناہوں کی بخشش۔

دوسرا : خداکی نعمتوں والی جنت میں داخلہ ۔

 تیسرا : اس دن رُسوائی اورذلّت کانہ ہونا جس دن سب پردے ہٹ جائیں گے اور جھوٹے تباہ ورُسوا اور ذلیل ہوجائیں گے .ہاں !اس دن پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مومنین آبُرو مند ہوںگے کیونکہ جوکچھ اُنہوں نے کہاتھا، وہ حقیقت بن جائے گا ۔

 چھوتھا:اُن کے ایمان او ر عمل کانور ان کے آگے آگے اوران کی دائیں جانب چلے گا اور جنّت کی طرف ان کی راہ کوروشن کردے گا( بعض مفسّرین نے اس نور کوجوان کے آگے آگے پہلے چلے گا عمل کانُور سمجھاہے .اس سلسلہ میں ہم ایک دوسری تفسیر بھی تفسیر نمُونہ کی جلد ٢٢ میں سورہ حدید کی آ یت ١٢ کے ذیل میں پیش کرچکے ہیں ) ۔

پانچواں : ان کی توجّہ خداکی طرف زیادہ ہوجائے گی .لہٰذاوہ بارگاہِ خدا کی طرف رُخ کرکے اس سے نور کی تکمیل اوراپنے گناہوں کی مکّمل بخشش کاتقاضا کریں گے ۔

١۔ بعض کاخیال یہ ہے کہ ""نصوح "" ایک خاص شخص کانام ہے اوراس سلسلہ میں انہوں نے ایک مفصّل داستان تو بہ ٔ نصوح کے عنوان سے نقل کی ہے لیکن اس بات کی طرف توجّہ رکھنی چاہیئے کہ نصُوح کسِی کانام نہیں ہے بلکہ ایک وضعی معنی ہے ، اگرچہ ممکن ہے کہ یہ مشہور واقعہ صحیح ہو۔

٢۔ تفسیر قرطبی ، جلد ١٠،صفحہ ٦٧٦٦۔

 ٣۔ مجمع البیان، جلد ١٠ ،صفحہ ٣١٨۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma