پیغمبر(ص) کی بعض ازواج کی شدید سرزنش

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 24

اِس میں شک نہیں کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جیسے عظیم انسان صرف اپنی ذات سے ہی تعلّق نہیں  رکھتے تھے بلکہ ان کا تعلّق پوراے اسلامی مُعاشرے اور عالمِ انسانیّت سے تھا ، اس بناء پر اگران کے گھر کے اندران کے خلاف سازشیں ہوں ، چاہے وہ کِتنی ہی چھوٹی اور معمولی کیوں نہ ہوں ، تواُن کے قریب سے آسانی کے ساتھ نہیں گزرجا نا چاہیئے . یعنی پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی حیثیت ، مقام اورمرتبہ کو نعوذباللہ کسِی کے بھی ہاتھ میں کھلو نا نہیں بننا چاہیئے .اگراس قسم کا کوئی معاملہ پیش آ ئے تو قا طعیّت کے ساتھ اس کا سامنا کرناچاہیے ۔

 اوپر والی آ یت حقیقت میں خدائے بزرگ و برتر کی طرف سے اس قسم کے واقعہ کے مقابلے اوراپنے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیثیت و مقام کی حفاظت کے لیے ایک قطعی اور دوٹوک فیصلہ ہے ۔

 سب سے پہلے خود پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف رُوئے سخں کرتے ہُوئے کہتاہے : اے پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! جوچیز خُدا نے تیرے لیے حلال کی ہے اُسے اپنی بیویوں کوخوش رکھنے کے لیے اپنے اوپر حرام کیوں کرتے ہو ؟ (یا أَیُّہَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ ما أَحَلَّ اللَّہُ لَکَ تَبْتَغی مَرْضاتَ أَزْواجِکَ ) ۔ 

 معلوم ہے کہ یہ شرعی تحریم نہیں تھی بلکہ جیسا کہ بعد والی آ یت سے معلوم ہوتاہے ، پیغمبر کی طرف سے قسم کھائی گئی تھی،اورہم یہ بھی جانتے ہیں کہ بعض مباح چیزوں کے ترک کرنے کی قسم کھانا کوئی گناہ نہیں ہے ۔

 اس بناء پر لم تحرم (اپنے اوپرحرام کیوں کرتے ہو ) کاجملہ عتاب اورسرزنش کے عنوان سے نہیں بلکہ ایک قسم کی ہمد ردی اور شفقت کا اظہار ہے ۔

 ٹھیک اس طرح کہ جیسے ایک شخص جواپنی معاش حاصل کرنے کے لیے بہت زیادہ زحمت اٹھاتاہے لیکن خُود اس سے کچھ زیادہ فائدہ نہیں لیتا، ہم اس سے کہتے ہیں کہ تم اپنے آپ کواتنی زحمت کیوں دیتے ہو، اور اس زحمت کے ثمر ے سے فائدہ کیوں نہیں اُٹھا تے ۔

 بعد آیت کے آخر میں مزید کہتاہے : خدا غفور ورحیم ہے (وَاللَّہُ غَفُور رَحیم ) ۔ 

 یہ عفو ورحمت کی بات ان بیویوں کے بارے میں ہے ، جنہوں نے اس واقعہ کے اسباب مُہیّا کیے ہیں . یعنی اگرواقعی وہ توبہ کرلیں تووہ اس کی مشمُول ہوں گی . یایہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بہترتھا پیغمبراس کی قسم نہ کھا تے ،کیونکہ یہ ایک ایساکام تھا جواحتمالا آنحضرت کی بعض بیویوں کی جُرأت اورجسارت کاسبب بن جاتا۔

 بعد والی آ یت میں اجافہ کرتاہے : خدانے (ایسے معو قعوں کے لیے ) تمہاری قسمیں کے کھولنے کی راہ کوواضح کردیاہے (قَدْ فَرَضَ اللَّہُ لَکُمْ تَحِلَّةَ أَیْمانِکُمْ )(۱) ۔ 

اس کے بعد مزیدکہتاہے: خداتمہارامولا اورتمہارا محافظ ومددگار ہے ، اور وہ علیم و حکیم ہے (وَ اللَّہُ مَوْلاکُمْ وَ ہُوَ الْعَلیمُ الْحَکیمُ ) ۔

 البتّہ اگرقسم کسِی ایسے امر کیے لیے ہوجس میں کسِی کام کاترک کرنابرتری رکھتا ہو تو پھر قسم پر عمل کرناچاہیے اِس کاتوڑنا گناہ ہے اوراس کاکفّار ہ ہے . لیکن اگروہ قسم کسِی ایسی چیز کے لیے ہو جس کاترک کرنامناسب نہ ہو ( زیرِ بحث آ یت کی مانند ) توپھر اس صورت میں اس کوتوڑ ناجائز ہے ، لیکن اِس قسم کے احترام کی حفاظت کے لیے بہتر ہے کہ کفّار ہ بھی دیاجائے ( ۲) ۔

اِسی لیے اس نے اس قسم کی قسموں سے نجات کی راہ تمہارے لیے ہموار کردی ہے اوراپنے علم و حکمت کے مطابق تمہارے لیے مشکل کشائی کی ہے ۔

 روایات سے معلوم ہوتاہے کہ پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اِس آ یت کے نزول کے بعدا یک غلام آزادکیا ، اورجو کچھ اپنے اوپر قسم کی وجہ سے حرام کیا ہواتھا، اُسے حلال کرلیا۔

 بعد والی آ یت میں اس واقعہ کے سلسلے میں مزید تشریح کرتے ہُوئے فر ماتاہے : اس وقت کو یاد کرو جب پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا ایک راز اپنی بیویوں میں سے بعض کوبتلایا ،لیکن اس نے راز داری نہ کی اوردوسری کو خبر دے دی ، خدانے پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کواس افشائے راز سے آگاہ کیاتوپیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا ایک حصّہ تواس سے بیان کیا اورایک حصّہ بیان نہ کیا (وَ ِذْ أَسَرَّ النَّبِیُّ ِلی بَعْضِ أَزْواجِہِ حَدیثاً فَلَمَّا نَبَّأَتْ بِہِ وَ أَظْہَرَہُ اللَّہُ عَلَیْہِ عَرَّفَ بَعْضَہُ وَ أَعْرَضَ عَنْ بَعْض) ۔

 یہ راز کیاتھا جوپیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی بیویوں میں سے بعض کوبتلایاتھا اوراس نے راز داری نہ کی .مذکورہ شانِ نزول کے مُطابق یہ راز دومطالب پرمشتمِل تھا، ایک اپنی بیوی زینب بنت ِ حجش کے پاس شہد کا پینا اور دوسرا آئندہ کے لیے اس کے پینے کواپنے اوپرحرام کرلینا ، اِس آ یت میں بیوی سے مراد بی بی حفصہ تھی جو راز داری نہ کرسکی اوراس نے یہ بات سن کربی بی عائشہ سے بیان کردی ۔

پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آ وسلم) چونکہ وحی کے ذریعے اس افشائے راز سے آگاہ ہوچکے تھے ،لہٰذا ا پ نے اس کا ایک حصّہ بی بی حفصہ سے بیان کیا اوراِس بناء پر کہ وہ زیادہ شرمندہ ہو دوسرا حصّہ بیان نہ کیا.( ممکن ہے پہلا حصّہ اصل شہد کاپینا ہو ، اور دوسراحصّہ اسے اپنے اوپر حرام کرنا ہو) ۔

 بہرحال جب پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بی بی حفصہ کواس افشائے راز کی خبر دی تواس نے کہا: آپ کواس بات سے کِس نے آگاہ کیا (فَلَمَّا نَبَّأَہا بِہِ قالَتْ مَنْ أَنْبَأَکَ ہذا ) ۔

 آپ نے فرمایا: علیم وخبیر خُدا نے مجھے اِس بات سے آگاہ کیاہے (قالَ نَبَّأَنِیَ الْعَلیمُ الْخَبیرُ ) ۔

اِس تمام آیت سے مجموعی طورپر معلوم ہوتاہے کہ پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی بیویوں میں سے بعض ، نہ صرف انہیں اپنی باتوں سے دُکھ پہنچاتی تھیں ، بلکہ راز داری کا مسئلہ جوایک باوفا بیوی کی اہم ترین خوبیوں میں ہے ، وہ بھی ان میں نہیں تھا ، ان تمام باتوں کے باوجود ، ان کے ساتھ پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کاسلوک ایسا فراخد لانا تھاکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس تمام راز کوجواس نے فاش کیاتھا، اس کے سنہ پرکہنے کے لیے تیّار نہ ہُوئے اورصرف اس کے ایک حصّے کی طرف اشارہ کیا .اِسی لیے ایک حدیث میں امیرالمومنین علیہ السلام سے آیاہے :

 ما استقصی کریم قط ، لان اللہ یقول عرف بعضہ واعرض عن بعض ۔

شرف اور بڑے آدمی اپنے احقاقِ حق کے لیے آخر ی مرحلے تک آ گے نہیں جاتے کیونکہ خدا اس مقام پر پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے متعلق کہتاہے ، انہوں نے ایک حصّے کی خبردی اورایک حصّہ بیان نہ کیا (۳) ۔

اس کے بعد ان دوبیویوں کی طرف ،جواوپروالی سازش میں شریک تھیں ، رُوئے سُخن کرتے ہُوئے کہتاہے : اگرتم اپنے فعل سے توبہ کرلو اور پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کودُکھ دینے اورآزار پہُنچانے سے دستبر دار ہوجائو تویہ بات تمہار ے فائدہ میں ہے ، کیونکہ تمہارے دل اس عمل کی بناء پر حق سے مُنحرف اور گناہ سے آلودہ ہوچکے ہیں نْ تَتُوبا ِلَی اللَّہِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُکُما) ۔

ان د و بیویوں سے مراد بالا تفاق مفسّر ین شیعہ واہل سنّت بی بی حفصہ اور بی بی عائشہ ہین جو بالتّرتیب عمربن خطاب اور ابو بکر بن قحافہ کی بیٹیاں تھیں ۔

صفت (صفو)کے مادّہ سے (عفو کے وزن پر )کسِی چیز کی طرف متمائل ہونے کے معنی میں ہے .اسی لیے کہتے ہیں : صغت النجوم یعنی ستارے مغرب کی طرف متمائل ہُوئے اوراسی لیے اصفاء کسِی دوسرے کی بات کان دھر کے سننے کے معنی میں آ یاہے ۔

زیرِ بحث آ یت میں صغت قلوبکما سے مراد ان کے دلوں کاحق سے گناہ کی طرف انحراف تھا ( ۴) ۔

اِس کے بعد مزید کہتاہے : اگرتم دونوں نے اس ( پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے برخلاف اتّفاق کرلیاتو بھی تم کچھ نہ کرسکو گی .کیونکہ خدا اس کامولا و یاور و مدد گار ہے ، اسی طرح جبرئیل ، صالح مومنین اوران کے علاوہ تمام فرشتے اس کے پشتیبان ہیں (وَ اِنْ تَظاہَرا عَلَیْہِ فَِنَّ اللَّہَ ہُوَ مَوْلاہُ وَ جِبْریلُ وَ صالِحُ الْمُؤْمِنینَ وَ الْمَلائِکَةُ بَعْدَ ذلِکَ ظَہیر ) ۔

یہ تعبیر اس بات کی نشانہدکرتی ہے کہ اس ماجر ے نے پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے پاک دِل اور عظیم رُوح میں کسِ حد تک منفی اثر چھوڑا تھا ، یہاں تک کہ خود خدا کوان کادفاع کرناپڑا ، باوُجود اس کے کہ اس قدرت ہر لحاظ سے کافی ہے . جبرئیل ،صالح المومنین اور دُوسرے فرشتوں کی حمایت کابھی اعلان کررہاہے ۔

قابل توجّہ بات یہ ہے کہ صحیح بخاری ، میں ابن عباس سے نقل ہُوا ہے کہ اُنہوں نے فرمایا:میں نے عمربن خطاب سے پوچھا: پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ بیویاں کون تھیں جنہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے خلاف کرلیاتھا ؟ انہون نے جواب دیا وہ حفصہ اورعائشہ تھیں .اس کے بعد مزید کہا: خدا کی قسم !ہم جاہلیّت کے زمانے میں عورتوں کے کسِی چیز کے قائل نہیں تھے . یہاں تک کہ خُدانے ان کے بارے میں آ یات نازل کردیں اوران کے لیے کچھ حقوق مقرر کردیئے (اوروہ جسور ہوگئیں ) (۵) ۔

تفسیر دُر لمنثور میں بھی اِن عباس سے ایک مفصّل حدیث میں ہے کہ عمربن خطّاب کہتے ہیں : اس ماجرے کے بعد مجھے معلُوم ہُوا کہ پیغمبر نے سب بیویوں سے کنارہ کشی کرلی ہے اورمُشربۂ ام ِ ابراہیم نامی مقام پر ٹھہر ے ہُوئے ہیں .میں آپ کی خدمت میںحاضر ہُوا اورعرض کیا: یارسول اللہ ! کیا اپ نے اپنی بیویوں کوطلاق دے دی ہے ؟ آپ نے فرمایا: نہیں ! میں نے عرض کیا : اللہ کا اکبر! ہم جمعیت قریش ہمیشہ اپنی بیویوں پرمُسلّط رہتے تھے ،لیکن جب سے ہم مدینہ میں آ ئے ہیں توہم نے کچھ لوگوں کودیکھا کہ ان کی عورتیں ان پر مُسلّط ہیں اورہماری عورتوں نے بھی اُن سے یہ چیز سیکھ لی ہے .ایک دن میں نے دیکھاکہ میری بیوی مُجھ سے جھگڑرہی ہے تومیں نے اس عمل کوعجیب اور بُرا سمجھا.اس نے کہا کہ تجھے تعجّب کیوں ہو رہاہے ؟ خدا کی قسم ! پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی بیویاں بھی اُن کے ساتھ ایسا ہی کرتی ہیں .یہاں تک بعض اوقات ان سے زیاد تی کرتی ہیں .تب میں نے اپنی بیٹی حفصہ کونصیحت کی کہ وہ ایسانہ کرے اور میں نے اس سے کہاکہ اگر تیری ہمسائی ( مراد بی بی عائشہ ہے ) ایساکرے ،تو بھی تُو ایسانہ کرنا ، کیونکہ اس کے حالات تجھ سے مختلف ہیں (۶) ۔

صالح المومنین کے بارے میں بھی ایک بحث ہے جوانشاء اللہ نکات کے بیان میں آ ئے گی ۔

آخری زیر بحث آیت میں خدا تمام ازواجِ پیغمبر کی طرف روئے سخن کرتے ہُوئے تہدید آمیز لب ولہجہ میں فر ماتاہے : اگروہ تمہیں طلاق دے دے تواُمید ہے کہ پروردگار تمہاری جگہ اس کے لیے تم سے اچھی بیویاں قرار دے ، ایسی بیویاں جومُسلمان ،مومن ،متواضع ، توبہ کرنے والیاں ، عبادت گزار ، خداکی اطاعت شعار ، غیر باکرہ اور باکرہ عورتیں ہوں گی (عَسی رَبُّہُ ِنْ طَلَّقَکُنَّ أَنْ یُبْدِلَہُ أَزْواجاً خَیْراً مِنْکُنَّ مُسْلِماتٍ مُؤْمِناتٍ قانِتاتٍ تائِباتٍ عابِداتٍ سائِحاتٍ ثَیِّباتٍ وَ أَبْکاراً ) ۔

اِس طر ح انہیں خبردار کرتاہے کہ تم یہ خیال نہ کرنا کہ پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)تمہیں ہرگز طلاق نہیں دے گا، اوریہ بھی تصوّر نہ کرنا کہ اگروہ تمہیں طلاق دے دے توتمہاری جگہ آنے والی بیویاں تم سے بہتر نہیں ہوں گی ، لہٰذا تم سازش جھگڑے اور آزاد وازیّت سے باز آ جائو ورنہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زوجیت کے اعزاز وافتخار سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوجائو گی اور تم سے بہتر اور بافضیلت عورتیں تمہاری جگہ لے لیں گی ۔

۱۔ راغب "" مفردات "" میں کہتا ہے : "" جہاں کہیں "" فرض "" علیٰ کے ساتھ ہووہاں "" وجوب""  کے معنی دیتاہے اورجہاں لام کے ساتھ ہو ، وہاں عدم ممنُوعیّت کے معنی میں ہے .اس بناء پر زیر بحث آ یت میں "" فرض "" وجوب کے معنی میں نہیں بلکہ اجازت کے معنی میں ہے . اس بناء پر زیر بحث آ یت میں "" فرض "" وجوب کے معنی میں نہیں بلکہ اجازت کے معنی میں ہے "" تحلة "" ( باب تفعیل کا مصدر ہے ) حلال کرنے کے معنی میں ہے یادوسرے لفظوں میں ایسا کام جوقسم کی گرہ کو کھول دے یعنی کفّارہ ۔

۲۔ جیساکہ تفسیر نمُونہ جلد ٥،سورہ مائدہ کی آ یت ٨٩ کی تفسیر سے معلوم ہوتاہے . قسم کاکفّارہ دس مسکینوں کوکھانا کھلانا . یادس افراد کو لباس پہنا نا  یا ایک غلام کوآزاد کرناہے .جوان میں سے کوئی کام نہ کرسکتا ہو وہ تین روزے رکھّے ۔

 ۳۔المیزان ،جلد١٩ ،صفحہ ٣٩٢۔

 ۴۔اس تفسیر کے مُطابق جوہم نے اوپر بیان کی اورجسے بہُت سے مفسّرین نے اختیارکیاہے ، اس آ یت میں کچھ محوزوف ہے،اورتقدیرمیں اس طرح تھی : ان تتو با الی اللہ کانت خیرلکما ( یا اسی معنی کے مشابہ کوئی اوردوسری تقدیر )لیکن بعض نے یہ احتمال دیاہے . کہ شاید آیت میں کوئی محذوف نہ ہو اورصغت قلوبکما کاجملہ شر ط کی جز اء ہوں (اس قید کے ساتھ کامفہوم حق کی طرف تمائل ہوناکہ باطل کی طرف )کاذکر جمع کے صیغہ کے ساتھ نہ تثنیہ کے صیغہ کے ساتھ اس بناء پر ہُوا ہے کہ دوتثنیوں کا ایک ساتھ ہونافصاحت کے لحاظ سے نامناسبت اور نا پسند یدہ ہے .اِس لیے جمع کی صورت میں ذکرہُوا اوراس کامعنی تثنیہ ہے ۔

 ۵۔صحیح بخاری جلد ٢ ،صفحہ ١٩٥ (سورہ تحریم کے ذیل میں ) ۔

۶۔ درّالمنثور ،جلد ٦،صفحہ ٢٤٣(تلخیص کے ساتھ ) ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma