خلقت عالم کا مقصد معرفت ہے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 24
سورة طلاق کی یہ آخری آیت آسمانو ں اور زمینوں کوخِلقت میں اللہ کی قدرت کی عظمت اوراس خلقت کے مقصدِ اصلی کی طرف ایک پُر معنی اور واضح اشارہ ہے .نیز یہ ان مباحث کی تکمیل کررہاہے جن مین پرہیزگار مومنین کے لیے ثواب ِ عظیم کے وعد ے کے سلسلے میں اوراسی طرح ان وعدوں کے سلسلے میں جوان کی مشکلات کی گرہ کھولنے کے بارے میں کیے تھے . یہ بات واضح ہے کہ وہ خُدا جواس عظیم خلقت پر قدرت رکھتاہے ، وہ اس جہان میں اور دوسرے جہان میں بھی ان وعدوں کوپورا کرنے کی طاقت اورقوت رکھتاہے ۔ 

 پہلے فر ماتاہے : خداوہی ہے جس نے ساتوں آسمان پیدا کیے :(اللَّہُ الَّذی خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ) ۔

  اوراتنی ہی زمین پیداکی ہیں :(وَ مِنَ الْأَرْضِ مِثْلَہُن) ۔

 یعنی جس طرح آسمان سات ہیں اسی طرح زمینیں بھی ساتھ ہیں ۔

 یہ قرآن مجید کی واحد آیت ہے جوسات زمینوں کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔

 اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ان سات آسمانوں ہی زمنیوں سے کیامُراد ہے ؟ اس سلسلے میں ہم نے تفسیر نمونہ جلداوّل میں ،سورہ بقرہ کی آ یت ٢٩ کے ذیل میں سورہ حم سجدہ کی آ یت ١٣ کے ذیل میں تفصیلی بحث کی ہے . لہٰذایہاں ایک مختصر سے اشارہ پرقناعت کرتے ہیں اوروہ یہ ہے :

  ممکن ہے کہ سات کے عدد سے مُراد وہی کثرت ہو، کیونکہ یہ تعبیرقرآن مجید میں اوراس کے علاوہ بھی کثرت کے معنی میں آ تی ہے ، جیسے ہم کہتے ہیں اگرتم سات سمندر بھی لے آ ئو توکافی نہیں ہوں گے ۔

 اس بناء پر سات آ سمانوں اور سات زمینوں سے مُراد آسمانی کواکب اور زمین سے مشابہ کُرّوں کی عظیم و کثیر تعداد ہے ۔

 لیکن اگرہم ساتھ کے عدد کوتعداد اورگنتی کے لیے سمجھیں تواس کامفہوم سات آسمانوں کاوجود ہوگا . چنانچہ سورۂ صافات کی آ یت ٦ کہتی ہے : انا زینا السماء الدنیا بز ینة ن الکواکب ہم نے نزدیکی آسمان (پہلے آسمان ) کوکواکب اور ستاروں سے زینت بخشی ہے ۔

 اس کی طرف توجّہ کرنے سے واضح ہوجاتاہے کہ جوکچھ ہم دیکھ رہے ہیں اورانسانی علم ودانش جس پر احاط رکھتی ہے وہ سب کچھ پہلے آسمان سے مربُوط ہے .لیکن ان ثوابت واشارات کے علاوہ اور بھی چھ عالم موجود ہیں جوہمارے علم کی دسترس سے باہر ہیں ۔

 یہ بات تو سات آسمانوں کے بارے میں تھی . باقی رہا سات زمینوں کے بارے میں توممکن ہے کہ یہ کرّہ زمین کے مختلف طبقات کی طرف اشارہ ہو. کیونکہ اِس وقت یہ بات ثابت ہوچکی ہے . کہ زمین طرح طرح کے پردوں اورتہو سے بنی ہے . یایہ زمین کے ساتھ برّ اعظموں  کی طرف اشارہ ہے . جیساکہ آج کے زمانے میں اور گزشتہ زمانے میں بھی کرّہ زمین کوسات منطقوں میں تقسیم کرتے تھے.(البتّہ گزشتہ اور موجودہ زمانے کے طرزِ تقسیم میں فرق ہے.موجودہ زمانہ مین دومنجمدمنطقوں شمالی وجنوبی،دو معتدل منطقوں ،دوگرم منطقون اورایک استوائی منطقہ میں تقسیم ہوتی ہے . لیکن گزشتہ زمانے میں سات اقلیمیں ( براعظم ) دوسری شکل میں تقسیم ہوتی تھیں ۔

 لیکِن ممکن ہے کہ یہاں بھی سات کاعدد جو مثلھن کی تعبیر سے معلوم ہوتاہے ، تکثیر کے لیے ہی ہو ، اور یہ بھی متعدد زمینوں کی طرف اشارہ ہوکہ جوعالم ہستی میں موجود ہیں .یہاں تک کہ بعض ماہرین فلکیات کہتے ہیں کہ کرّۂ زمین سے مشابہ وہ کرّے جواس عظیم عالم میں مختلف آفتابوں کے گرد گردش کررہے ہیں ، ان کی کم از کم تعداد تین سو ملین ہے ( ١) ۔

اگرچہ منظومۂ شمسی کے علاوہ اجرام کے بارے میں ہم جو معلومات رکھتے ہیں .ان کے نا کافی ہونے کی باعث ان کی تعداد مقرّر کرناخاص مشکلِ ہوجاتاہے .لیکن بہرحال دوسرے ماہرین فلکیات بھی اس بات کی تائید کرتے ہیں ، کہ اس کہکشاں میں ، کہ منظومہ شمسی جِس کا ایک خُزء ہے ، کئی ملین کرّے موجود ہیں ،جوکرّۂ زمین سے مشابہ اورحیات و زندگی کامرکز ہیں ۔

 البتہ ممکن ہے کہ آگے چل کرعلم ودانش میں انسان کی پیش رفت ، اس قِسم کی آ یات کے بارے میں ہمیں مزید اطلاعات مہیّا کرسکے ۔

 اس کے بعد خُدا کے حکم وفرمان کے ذریعے اس عظیم عالم کی تدبیر کے مسئلہ کی طرف اشارہ کرتے ہُوئے مزید کہتاہے : اس کاحکم وفرمان ہمیشہ ان کے درمیان نازل ہوتارہتاہے (یَتَنَزَّلُ الْأَمْرُ بَیْنَہُن) ۔

  یہ بات واضح ہے کہ یہاں امر سے مُراد وہی خدا کاحکم وامر تکوینی ہے جووہ اس عالمِ بزرگ اور ساتوں آسمانوں اور زمینوں کی تدبیر کے سلسلے میں جاری کرتاہے،کیونکہ وہ ہمیشہ اپنے مخصوص حکم کے ساتھ ایک منظّم طریقے سے ہدایت و رہبری کرتاہے،حقیقت میں یہ آ یت سورہ سجدہ کی آ یت٤ کے مشابہ ہے جس میں فر ماتاہے : یدبّر الامرمن السّماء ِ الی الارض وہ آسمان سے لے کرزمین تک تدبیرِ امور کرتاہے ۔

 بہرحال اگراس کی تدبیر ایک لمحہ کے لیے بھی اس عالم سے جُدا ہوجائے توسارانظام درہم برہم ہوجائے ، اور سب کے سب فنا ہو جائیں ۔

 آخر میں اس عظیم خلقت کے ہدف کی طرف اشارہ کرتے ہو ئے کہتاہے : یہ سب کچھ اس بناء پر ہے تاکہ تم  جان لو کہ خداہر چیزپر قادر ہے اوراس کاعلم وآگہی ہرچیز پر مُحیط ہے (لِتَعْلَمُوا أَنَّ اللَّہَ عَلی کُلِّ شَیْء ٍ قَدیر وَ أَنَّ اللَّہَ قَدْ أَحاطَ بِکُلِّ شَیْء ٍ عِلْما) ۔

 کِتنی عمدہ تعبیر ہے کہ وہ اس عظیم خلقت کاہدف یہ قرار دیتا ہے کہ انسان خدا کے علم اوراس کی قدرت کی صفات سے آگاہ ہوجائے کیونکہ ان دوصفات سے آ گا ہی انسان کی تر بیّت کے لیے کافی ہے ۔

 انسان کویہ جان لینا چاہیے کہ خدا اس کے وجود کے تما م اسرار پر احاطہ رکھتاہے ، اوراس کے تمام اعمال سے باخبرہے ، نیزاسے یہ بھی جان لیناچاہیے کہ معاد وقیامت ،جزاو سزا اورمومنین کی کامیابی کے بارے میں خدا کے وعدوں میں کسِی تخلّف کا شائبہ تک نہیں ہے ۔

 ہاں ! وہ خدا جواس قسم کاعلم وقدرت رکھتاہے اورعالم ہستی کے نظام کا ارادہ کرتاہے .اگر اس نے انسانوں کی زندگی کے بارے میں طلاق اور عورتوں کے حقوق سے مربُوط کچھ احکام صادر فرمائے ہیں تووہ سب کے سب دقیق اور پختہ حساب پر مبنی ہیں ۔

  ہدف ِ آ فرینش کے سلسلے میں ہم نے تفسیر نمونہ کی جلد ٢٢ سورہ ذاریٰت کی آ یت ٥٦ کے ذیل میں ایک تفصیلی بحث کی ہے ۔

 قابلِ توجّہ بات یہ ہے کہ قرآن کی مختلف آ یات میں انسان کی خلقت کے ہدف کی طرف یا اس جہان کی خلقت کے ہدف کی طرف ایسے اشارے ہُوئے ہیں جو ابتداء میں مختلف دکھائی دے سکتے ہیں .لیکن اگرہم غور سے دیکھیں تووہ سب ایک ہی حقیقت کی طرف لوٹتے ہیں ۔

 ١:  سورہ ٔ ذاریات کی آ یت ٥٦ میں انسان اور جنّ کی خلقت کامقصد عبادت کو قرار دیاہے ، وَ ما خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الِْنْسَ ِلاَّ لِیَعْبُدُون ۔

٢: سورہ ہو د کی آیت ٧ میں آسمانوں اور زمین کی عظیم خلقت کا ہدف ومقصد انسان کی آ زمائش بتائی گئی ہے . وَ ہُوَ الَّذی خَلَقَ السَّماواتِ وَ الْأَرْضَ فی سِتَّةِ أَیَّامٍ وَ کانَ عَرْشُہُ عَلَی الْماء ِ لِیَبْلُوَکُمْ أَیُّکُمْ أَحْسَنُ عَمَلا۔

٣: سورہ ہود کی آ یت ١١٩ میں ہدف ومقصد خداکی رحمت کوقرار دیاہے ولذالک خلقھم ۔

 ٤: آخر میں زیر بحث آ یت میں خدا کی صفات کے علم و آگہی کوہدف بتایاہے ( لِتَعْلَمُوا أَنَّ اللَّہَ عَلی کُلِّ شَیْء ٍ قَدیر )

 ان آیات می ں تھوڑا ساغور کرنے سے معلوم ہوجاتاہے کہ ان میں سے بعض بعض کے لیے مقدمہ ہیں .آ گا ہی و معرفت ، بندگی وعبادت کے ایک مقدمّہ ہے . وہ انسان کی آزمائش اور تربیّت کے لیے ایک مقدّمہ ہے اور وہ خدا کی رحمت سے فیض یاب ہونے کے لیے ایک مقدمہ ہے ( غور کیجئے  ) ۔

 خداندا ! اب جبکہ تونے ہمیں اپنی عظیم خلقت کے ہدف سے آشنا کردیاہے اس عظیم ہدف تک پہنچنے کے سلسلہ میںہماری مدد فرما!

 پروردگارا! تیراعلم وقدرت بے پایاں ہے اور تیری رحمت بھی غیر متناہی ہے ،ہمیں اس بے انتہا رحمت کا ایک حصّہ عنایت فرما!

 بارِ الہٰا ! تونے قرآن وپیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کوظلمات سے نور کی طرف لانے والے بناکر بھیجا ہے ہمیں گناہ اور ہوائے نفس کی ظلمت اور تاریکی سے باہر نکال لے اور ہمارے دلوں کونور ایمان و تقویٰ سے منوّر کردے ! ۔
١۔ "" تفسیر مراغی "" جلد٢٨ ، صفحہ ، ١٥١ .ایک حدیث جو امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام سے نقل ہُوئی ہے ، اس میں کبھی آ یاہے ہے :"" لھذہ النجوم التی فی السماء مد ائن مثل المدائن التی فی الارض "" : "" ان ستاروں میں بھی جوآسمان پرہیں روئے زمین کے شہروں کی طرف ہے شہر میں "" ( تفسیر برہان ،جلد٤،صفحہ ١٥) ۔

 آ مین یارب العالمین 

سورہ طلاق کا اختتام 
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma