سرکشوں کادرد ناک انجام

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 24
قرآن کاشیوہ یہ ہے کہ اکثر مواقع پر عملی احکام کے ایک سلسلے کوبیان کرنے کے بعد گذشتہ ٔ امّتو ن کے حالات کی طرف اشارہ کرتاہے ، تاکہ مُسلمان ان کی سرگز شت میں اطاعت وعصیاں کانتیجہ اپنی آنکھ سے دیکھ لیں اور یہ مسئلہ بطور خودایک حسِی صورت اختیار کرلے .اِسی لیے اس سورہ میں بھی طلاق وعلیٰحدگی کے موقع پر مردوں اورعورتوں کے وظائف اورذمّہ داریاں بیان کرنے کے بعد اسی مطلب کوپیش کرکے گنہگار وں اورسرکشی کرنے والوں کوخبردار کرتاہے ۔

 پہلے فر ماتاہے : کتنے ہی شہر اور آبا دیاں ایسی تھیں جن کے رہنے والوں نے خُدا اوراس کے رسولوں کے فرمان سے سر پیچی کی توہم نے بھی ان کاحساب شدت کے ساتھ چکایا اورانہیں بہت ہی بُرے عذاب میں گرفتار کردیا (وَ کَأَیِّنْ مِنْ قَرْیَةٍ عَتَتْ عَنْ أَمْرِ رَبِّہا وَ رُسُلِہِ فَحاسَبْناہا حِساباً شَدیداً وَ عَذَّبْناہا عَذاباً نُکْراً )(١) ۔

قریة سے مُراد ،جیساکہ ہم نے پہلے بھی بیان کیاہے ، انسانوں کے اجتماعی کی جگہ ہے ، چاہے وہ شہر ہویاگائوں .اوریہاں مُراد اس میں رہنے والے ہیں ۔

  عتت عتو (بروزن غلو) کے مادّہ سے اطاعت سے ر وگرادنی کرنے کے معنی میں ہے ۔

  نکر (بروز ن شکر ) کے معنی میں ہے کہ جس کی مثال نہ ہویابہت کم پائی جاتی ہو ۔

  حساباً شدیدا یا تو دقیق اورسخت گیری کے ساتھ حساب لیے نے کے معنی میں یاشد ید عذاب کے معنی میں ہے کہ جودقیق حساب کانتیجہ ہے . بہرحال یہ ان سرکش اقوام کے اس دنیامیں عذاب کی طرف اشارہ ہے کہ کسِی قوم کی طوفان کے ساتھ ،کسِی گروہ کی تباہ کرنے والے زلزلے کے ساتھ اور کسی گروہ کی صاعقہ یعنی بجلی اوراسی قسم کی چیزوں کے ساتھ بیخ کنی کی گئی ، اوران کے تباہ اورویران شدہ شہر و دیار آ نے والے لوگوں کے لیے درسِ عبرت کی صُورت میں باقی رہ گئے ۔

 لہٰذابعد والی آ یت میں مزید کہتاہے : انہوں نے اپنے کفر وگناہ کاعذاب چکھا اوران کا انجام کارخسارہ اورنقصان تھا (فَذاقَتْ وَبالَ أَمْرِہا وَ کانَ عاقِبَةُ أَمْرِہا خُسْراً) ۔

 اس سے بڑھ کرخسارہ اور کیا ہوگا کہ وہ خدا داد سرمایہ کوہاتھ سے گنوابیٹھے .اوراس دُنیا کے بازار تجارت سے نہ صرف یہ کہ انہوں نے کوئی مال ومتاع نہیں خرید ابلکہ انجام ِ کارعذاب الہٰی سے نابود ہوگئے ۔

بعض نے یہاں حساب شدید اور عذاب نکر کوعذابِ قیامت کی طرف اشارہ سمجھا ، اور فعل ماضی کومستقبل کے معنی میں لیاہے ،لیکن ایساکرنے کاکوئی سبب موجُود نہیں ہے ، بالخصوص جبکہ عذاب قیامت کے سلسلہ میں بعد والی آ یت میں بات کی جائے گی ، اوریہ بات خودایک زندہ گواہ ہے کہ یہاں عذاب سے مُراد عذابِ دنیا ہی ہے ۔

اس کے بعد اُن کے اُخروی عذاب کی طرف اشارہ کرتے ہُوئے فرماتا ہے : خکدانے ان کے لیے شدید عذاب تبّار کررکھاہے (أَعَدَّ اللَّہُ لَہُمْ عَذاباً شَدیدا) ۔

ایک درد ناک ،شدید، وحشت انگیز، ذلیل کرنے والا اوررُسوا کرنے والا عذاب اوران کے لیے دوزخ میں ہمیشہ رہنے کی جگہ ابھی سے فراہم ہے ۔

جب یہ بات ہے تو اے صاحبانِ عقل اوراے ایمان لانے والو! خُدا کے حکم کی مخالفت ہے پرہیز کرو (فَاتَّقُوا اللَّہَ یا أُولِی الْأَلْبابِ الَّذینَ آمَنُوا) ۔

ایک طرف سے غور وفکر اور دُوسری طرف سے ایمان اور آیاتِ الہٰی تمہیں خبردار کرتی ہیں کہ تم سرکش اور رُو گرادنی کرنے والے قوموں کی سرنوشت کودیکھو اوراس سے عبرت حاصل کرو ، کہیں ایسانہ ہوکہ تم بھی ان کی صفت میں جاکھڑے ہو، پھر تمہیں اس جہان میں بھی ہولناک اور بے سابقہ عذاب میں گرفتار کردے گا، اور آخرت کاشدید عذاب بھی تمہارے انتطار میں ہوگا۔

اس کے بعد غوروفکر کرنے والے مومنین کومخاطب کرتے ہُوئے مزید کہتاہے : خُدا نے تم پر ایسی چیز نازل کی ہے جوتمہارے لیے باعثِ نصیحت ہے (قَدْ أَنْزَلَ اللَّہُ ِلَیْکُمْ ذِکْراً ) ۔

اورایک رسُول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)تمہاری طرف بھیجاہے ، جوخدا کی واضح آیات کی تمہارے سامنے تلاوت کرتاہے تاکہ ایمان لانے والوں اورعملِ صالح بجالانے والوں کی تاریکیوں سے نور کی طرف ہدایت کرے : (رَسُولاً یَتْلُوا عَلَیْکُمْ آیاتِ اللَّہِ مُبَیِّناتٍ لِیُخْرِجَ الَّذینَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ مِنَ الظُّلُماتِ ِلَی النُّور ) ۔

یہاں ذکر سے کیا مُراد ہے ؟ اوررسُول سے کون مُراد ہے ؟ اس بارے میں مفسّرین کے درمیان اختلاف ہے ۔

 مفسّرین کا ایک گروہ ذکر کوقرآن کے معنی میں لیتاہے ،جبکہ ایک جماعت نے اس کی رسُول ِ خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے ساتھ تفسیر کی ہے ، کوینکہ آ پ لوگوں کے لیے یاد آوری کاسبب ہیں . اِس تفسیر کے مُطابق اس کے بعد لفظ رسولا آیاہے اس سے پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی ذات مُراد ہے (اوراس کلام میں کوئی محذوف نہیں ہے )لیکن یہاں نازل کرنے سے مُراد خداکی طرف سے امّت کوپیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے وجود کاعطا کرناہے ۔

لیکن اگرذکر کوقرآن مجید کے معنی میں لیں تو رسولاً اِ س کابدل نہیں ہوسکتا ،لہٰذا اس جملے میں ایک محذُوف ہے . اور تقدیرمیں اِس طرح ہے انزل اللہ الیکم ذکرا ً وارسل رسولاً خُدا نے ایک نصیحت والی چیزنازل کی اورایک رسُول بھیجا۔

 بعض نے رسول کی جبرئیل کے ساتھ تفسیر کی ہے ، اس صُورت میں اس کانزول ِ حقیقی ہوگا، کیونکہ وہ آسمان سے نازل ہوتاتھا .لیکن یہ تفسیر یتلوا علیکم اٰ یات اللہ وہ خدا کی آ یات تمہارے سامنے پڑھتاہے کے جُملہ کے ساتھ ساز گارنہیں ہے ،کیونکہ جبرئیل براہ ِ راست مومنین کے سامنے نہیں پڑ ھتا تھا۔

 خلاصہ یہ کہ ان سے ہرایک تفسیر میں ایک اضافہ اورایک مشکِل موجُود ہے ،لیکن مجموعی طوپر پہلی تفسیر (یعنی ذکر کا معنی قرآن اور رسول کامعنی پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں ) سب سے بہتر ہے .کیونکہ قرآن مجید کی بہت سی آ یات میں لفظ ذکر کاقرآن پراطلاق ہُوا ہے ،خصوصاً جہاں لفظ انزال کے ساتھ ہو، اِس طرح سے کہ جب نزوِلذکر کہاجا ئے تویہ قرآن کے معنی کاہی ادعا کرتاہے ۔

سورۂ نحل کی آ یت ٤٤ میں آ یاہے : وَ أَنْزَلْنا ِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ ما انُزِّلَ اِلَیْہِمْ ہم نے ذکر کوتجھ پر نازل کیاہے ، تاکہ تو لوگوں کے لیے اس چیزکو بیان کرے جو ان پر نازل ہُوئی ہے ۔

نیز سورۂ حجر کی آیت٦میں آیا ہے : وَ قالُوا یا أَیُّہَا الَّذی نُزِّلَ عَلَیْہِ الذِّکْرُ اِنَّکَ لَمَجْنُون دشمنوں نے کہا: اے وہ شخص کہ جس پر ذکر نازل ہُوا ہے توایک دیونہ ہے ۔

اگرآ ئمہ اہل بیت علیہ اسلام سے بعض روایات میں آ یاہے کہ ذکر ہے مُراد حضرت رسُول ہیں اور ہم اہل ذکر ہیں ،توممکِن ہے کہ یہ آ یت کے بطون کی طرف اشارہ ہو ، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اہل الذکر جو آ یت فَسْئَلُوا أَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لا تَعْلَمُون ( اگر تم نہیں جانتے  تواہل ذکر سے پوچھ لو ) (نحل ٤٣)میں آ یا ہے یہ خاص طورپر اہل بیت کے معنی میں نہیں ہے ، بلکہ اس کی شانِ نزول میں علماء اہل کتاب آ تے ہیں ،لیکن اس بات کی طرف توجہ رکھتے ہُوئے کہ ذکر ایک وسیع معنی رکھتا ہے کہ جو پیغمبراسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کوشامل ہے تویہ بھی اس کا ایک مصداق ہوگا (٢) ۔

بہرحال اس رسُول کے بھیجنے اوراس کتاب آسمانی کے نازل کرنے کا اصلی مقصد یہ ہے کہ وہ انہیں آ یات الہٰی کی تلاوت کے ذ ریعے کفر و جہالت ،معصیّت اوراخلاقی فساد کی تاریکیوں سے باہر نکالتے ہُوئے ایمان ، توحیداور تقوٰی کے نُور کی رہنمائی کرے . جبکہ حقیقت میں بعثتِ پیغمبراور نزولِ قرآن کے تمام اہداف و مقاصد کاخلاصہ اسی ایک جملہ میں آ گیاہے : یعنی حقیقت میں بعثتِ پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور نزول قرآن کے تمام اہداف و مقاصدکاخلاصہ اسی ایک جملہ میں آ گیاہے : یعنی تاریکیوں سے باہر نکال کر نور کی طرف لانا، اورقابلِ توجہ بات یہ ہے کہ کہ ظلمات کاصیغہ جمع کے ساتھ اور نور کاصیغہ واحد کے ساتھ ذکر ہُوا ہے،کیونکہ شرک وکفر وفساد ، پراگندگی وکثرت کے عامل ہیں،جبکہ ایمان وتوحید و تقوٰی،وحدت ویگانگت کے عامل ہیں ۔

آیت کے آخر میں ان لوگوں کے اجر و ثواب کی طرف ، اشارہ کرتے ہُوئے جوایمان وعملِ صالح رکھتے ہیں ،مزید کہتاہے : جوشخص خداپر ایمان لائے ، عمل صالح بجالائے اوراسی راستے پر چلتا رہے ،توخُدا اُسے جنّت کے ان باغات میں داخل کرے گاجن کے درختوں کے نیچے نہریں جاری ہیں .وہ ہمیشہ ہمیشہ وہیں پر رہے گا ، اور خُدا نے اس کے لیے اچھی روز ی قرار دی ہے :(وَ مَنْ یُؤْمِنْ بِاللَّہِ وَ یَعْمَلْ صالِحاً یُدْخِلْہُ جَنَّاتٍ تَجْری مِنْ تَحْتِہَا الْأَنْہارُ خالِدینَ فیہا أَبَداً قَدْ أَحْسَنَ اللَّہُ لَہُ رِزْقا) ۔

  یومن اور یعمل کی تعبیر فعل مضارع کی صُورت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کا ایمان اور عملِ صالح کسِی خاص زمانہ کے ساتھ محدُود نہیں بلکہ استمرار ودوام رکھتاہے (۳) ۔

خالدین کی تعبیر جنّت کی ہمیشگی کی دلیل ہے ، اس بناء پر اس کے بعد ابداً کے لفظ کا ذکر خلود کے لیے ایک تاکید شمار ہوتاہے ۔

  رزقا کی تعبیر نکرہ کی صورت میں ان اچھی اچھی روزیوں کی عظمت واہمیّت کی طرف اشارہ ہے جوخدا ان لوگوں کے لیے فراہم کرے گا. یہ ایک وسیع مفہوم رکھتاہے جوآخر ت میں ہرقسم کی خدائی نعمت ، یہاں تک کہ دنیاوی موہبت کو بھی اپنے اندر لیے ہُوئے ہے ، کیونکہ ایمان وتقوٰی کانتیجہ صرف آ خرت کے ساتھ مربُوط نہیں بلکہ مومن و پر ہیز گار لوگ اس دنیامیں بھی پاکیزہ تر، آرام وہ زیادہ لذّت بخش زندگی رکھتے ہیں ۔

١۔ "" کأین "" مشہور عُلمائے ادب کے نظر یہ کے مطابق یہ ایک مرکب اسم ہے "" کاف"" تشبیہ اور "" ی "" سے جوتین کے ساتھ توام ہے . چونکہ تنوین کے ساتھ توام ہے .چونکہ تنوین اس اسم کی بناء میں داخل ہے اس لیے حالتِ وقف میں بھی پڑھی جاتی ہے ، اورقرآن کی کتابت میں بھی لکھی جاتی ہے .اوراس کامعنی ""کم "" خبریہ کے مانند ہے ، اگرچہ اس کے ساتھ فرق ہے ، ایک غیر مشہور نظر یہ ہے کہ یہ ایک اسم بسیط ہے اوراس کا "" کاف"" اور"" نون "" جزوِ حکمہ ہے ۔

 ٢۔ مزید ضاحت کے لیے تفسیر نمونہ جلد ١١ سے رجوع کریں ۔

 ٣۔توجّہ رکھنی چاہیے کہ جوضمیر یں آ یت میں استعمال ہُوئی ہیں بعض توجمع کی صورت میں ہیں اوربعض مُفرد کی صورت میں ہیں . یہ اس بناء پر ہے کہ جہاں مفرد کی صورت میں ہیں وہاں وہ جنس اورجمع کے معنی میں ہیں ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma