جہاں تک ہوسکتا ہے اسلام طلاق سے روکتاہے اوراس کی جڑوں کو کاٹتاہے لیکن جب معاملہ یہاں تک پہنچ جائے کہ ہرطرف کے راستے بندہوجائیں اور طلاق و علیٰحدہ گی کے علاوہ اورکوئی چارۂ کار نہ ہوتوپھراس بات کی اجازت نہیں دیتاکہ کہ اس کشمکش میں اولاد یاعورتوں کے حقوق پامال ہوجائیں ، یہاں تک کہ علیٰحدگی کاطریقہ کار بھی اس طرح سے پیش کرتاہے کہ عام طورپر رجوع اور بازگشت کا امکان موجود رہے ۔
معروف طریقہ سے روکے رکھنا اورمعروف سے جُدائی ،عورتوں کونقصان اورضر ر کا نہ پہنچانا اورتنگی اور سخت گیری نہ کرنا ، نیز بچّوں کی سرنوشت کومحفوظ کرنے کے لیے شائستہ اور مناسب مشورہ کرنا، اوراسی قسم کے دُوسرے احکام جواوپر والی آ یت میں آ ئے ، وہ سب اس بات کے گواہ ہیں ۔
لیکن افسوس کی بات ہے کہ ان امُور سے بہُت سے مسلمانوں کی لا علمی یاعلم کے باوجود عمل نہ کرنا ، اس بات کاسبب ہوتاہے کہ طلاق اورعلیٰحدہ گی کے وقت گھرانوں اورخصاصاً اولا د کے لیے بہت سی مشکلات پیدا ہوجائیں . اس کاسبب سوائے اس کے اور کچھ نہیں ہے کہ مسلمان قرآن کے فیض بخش چشمہ سے دُور ہوگئے ہیں . مثلاً اس بات کے باجود کہ قرآن صراحت کے ساتھ یہ کہتاہے کہ عورتیں عدّت کے دوران شوہر کے گھر سے باہر نہ جائیں ، اور نہ ہی شوہر کویہ حق ہے کہ و ہ انہیں گھر سے نکالے . یہ ایساعمل ہے کہ اگراسی طرح انجام پاجائے تواکثر عورتوں کے ازدواجی زندگی کی طرف لوٹ آ نے کی بہت زیادہ اُمید ہے .لیکن آ پ بہت کم مسلمان مرد اور مسلمان عورت کو دیکھیں گے ، جوطلاق وجُدائی کے بعد اس اسلامی حکم پرعمل کرتے ہوں . یہ امر واقعی طوپر قابلِ افسوس ہے ۔