مطلقہ عورتوں کے احکام اوران کے حقوق

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 24

منجملہ ان احکام کے جوگزشتہ آ یات سے معلُوم ہُوئے ہیں، طلاق کے بعد عدّت پوری کرنے کاضروری ہونا ہے .چُونکہ سورۂ بقرہ کی آ یت ٢٢٨ میں عدّت کے مسئلہ میں ان عورتوں کاحکم واضح ہوگیاہے جوماہانہ عادت دیکھتی ہیں کہ انہیں تین بار پاکیزہ ہوکر ماہانہ عادت دیکھنی چاہیے .جب وہ تیسری مرتبہ ماہانہ عادت میں وارد ہوں توان کی عدّت ختم ہوجائے گی ،لیکن انہیں میں سے کچھ ایسی عورتیں بھی ہیں جوکئی اسباب کی بناپر ماہانہ عادت نہیں دیکھتیں یاوہ حاملہ ہوتی ہیں ، تواوپر والی آ یات ان عورتوں کے حکم کوواضح کرتے ہُوئے عدّت کی بحث کی تکمیل کر رہی ہیں ۔

 پہلے فرماتا ہے : تمہاری عورتوں میں سے جوماہانہ عادت سے نا امید ہوگئی ہیں اگران کی وضع وکیفیّت میں ( حاملہ ہونے کے لحاظ سے ) شک کرو توان کی عدّت تین ماہ ہے (وَ اللاَّئی یَئِسْنَ مِنَ الْمَحیضِ مِنْ نِسائِکُمْ ِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُہُنَّ ثَلاثَةُ أَشْہُرٍ ) ۔

اوراسی طرح سے وہ عورتیں بھی جنہوں نے ماہانہ عادت دیکھی ہی نہیں وہ بھی تین ماہ عدّت رکھیں (وَ اللاَّئی لَمْ یَحِضْن) ۔

اس کے بعد تیسرے گروہ کی طرف اشارہ کرتے ہُوئے مزید کہتاہے : حاملہ عورتوں کی عدّت یہ ہے کہ وہ وضع حمل کریں (وَ أُولاتُ الْأَحْمالِ أَجَلُہُنَّ أَنْ یَضَعْنَ حَمْلَہُن) ۔

 اِ س طرح سے اوپر والی آ یت میں عورتوں کے دُوسرے تین گرو ہوں کے لیے حکم مشخّص ہوگیا ہے .یعنی دو گر وہوں کوتو تین ماہ تک عدّت رکھنی چاہیے اورتیسرے گروہ ، یعنی حاملہ عورتوں کی عدت وضع حمل کے ساتھ ہی ختم ہوجاتی ہے چاہے وہ طلاق کے ایک لمحہ بعد یا اٹھ ماہ بعد وضع حمل کریں ۔

 ان ارتبتمّ(اگر تمہیں شک اورتردّد ہو)کے جُملے سے کیامراد ہے ؟اس بارے میں تین احتمال بیان کیے گئے ہیں :

 ١:اس سے مراد وجود حمل میں احتمال اور شک ہے ، اس معنی میں کہ اگر سِن یاس (عام عورتوں میں پچاس سال کے سِن اورقرشی عورتوں میں ساٹھ سال کے سِن )کے بعد کسِی عورت میں وجود حمل کا احتمال ہوتواُسے عدّت گزار نی چاہیے .اگرچہ اس بات کابہت کم اتفاق ہوتاہے ،لیکن بعض اوقات ایساہُواہے (توجّہ رہے کہ روایات اور کلمات فقہا میں لفظ ر بیبة حمل میں شک کے معنی میں بار ہا آ یاہے(( ١) ۔

٢:ایسی عورتیں مُراد ہیں جن کے بارے میں ٹھیک طرح سے معلوم نہ ہو کہ سِن یا س کوپہُنچی ہیں کہ نہیں۔

 ٣:اس مسئلہ کے حکم میں شک اور تردّد مراد ہے .اِس بناء پر آ یت یہ کہتی ہے کہ اگرتم حکم خداکونہیں جانتے تووہ یہ ہے کہ اس قسم کی عورتیںعدّ ت گزاریں . لیکن ان تمام تفاسیر میں سے پہلی تفسیر زیادہ مناسب ہے . کیونکہ والّی یئسن کے جملہ کاظاہر یہ ہے کہ یہ عورتیں سِن یاس کوپہنچ گئی ہیں ۔

ضمناًجب عورتوں کی ماہا نہ عادت بیماریوںیادُوسرے عوامل کی بناء پرمنقطع ہو جائے تووہ اس حکم کی مشمول ہیں یعنی انہیں چاہیے کہ تین ماہ تک عدّت گزارین .(اس حکم کوقاعدۂ اولیّت کے طریق سے یالفظ آیت کے مشمول سے معلوم کیاجاسکتا ہے) (٢) ۔

واللا ئی لم یحضن ( وہ عورتیں جنہوں نے ماہانہ عادت نہیں دیکھی)کاجملہ ممکن ہے اِس معنی میں ہوکہ وہ سن بلوغ کو پہنچ گئی ہیں لیکن ابھی ماہانہ عادت شروع نہیں ہُوئی.اس صورت میں بلاشک وشبہ انہیں تین ماہ تک عدت گزارنی چاہیئے .ایک اوراحتمال جوعلماء نے آ یت کی تفسیر میں د یاوہ یہ ہے کہ اس سے مراد وہ تمام عورتیں ہیں جوماہانہ عادت نہیں دیکھیتں، چاہے وہ سن بلوغ تک پہنچی ہوں یا نہ پہنچی ہوں ۔

لیکن ہمارے فقہاء کے درمیان مشہور یہ ہے کہ اگرعورت سن بلوغ کونہ پہنچی ہوتو طلاق کے بعد اس کی عدت نہیں ہے ،لیکن اس مسئلہ کے مخالف بھی ہیں جنہوں نے اس سلسلے میں بعض روایات سے استد لال کیا اور اوپروالی آ یت کاظاہر بھی ان کے موافق ہے (اس مسئلہ کی مزید تشریح کابھی فقہ کی کتابوں میں مطالعہ کرنا چاہیئے ( ٣) ۔

وہ شان نزول جوآخری جُملوں کے لیے بیان کی گئی ہے .اِس سے بھی اوپروالی تفسیر ہی صحیح معلوم ہوتی ہے ،شان نزُول یہ ہے کہ ابی بن کعب نے حضرت رسو ل اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیاکہ بعض عورتوں کی عدّت قرآن میں نہیں آئی ہے،ان میں غیر بالغ لڑکیاں،کبیرہ ( یائسہ ٔ)عورتیں اورحاملہ عورتیں ہیں .تو اوپر والی آیت نازل ہُوئی اوران کے احکام بیان کیے گئے ( ٤) ۔

عدّت اس صورت میں ہے کہ اس بارے میں حمل کا احتمال ہو، کیونکہ اوپر والی آ یت میں یائسہ عورتوں پر عطف ہُوا ہے .اس کامعنی یہ ہے کہ دونوں کاحکم یکساں ہے ( ۵) ۔

پھر آ یت کے آخر میں نئے سر ے سے مسئلہ تقوٰی پرتکیہ کرتے ہُوئے فر ماتاہے:اور جوشخص تقوائے الہٰی اختیار کرے گا، خدا معاملے کواس پر آسان کردے گا (وَ مَنْ یَتَّقِ اللَّہَ یَجْعَلْ لَہُ مِنْ أَمْرِہِ یُسْراً ) ۔

وہ اس کی مشکلات کواس جہان میں اور دوسرے جہان میں بھی چاہے وہ علیٰحد گی ، مسئلہ طلاق اوراس کے احکام سے مربُوط ہوں اور چاہے دوسرے مسائل سے تعلّق رکھتی ہوں ، اپنے لطف وکرم سے حل کردے گا ۔

نیز بعد ولی آ یة میں تاکید کے لے ان احکام کے بارے میں جوطلاق اورعدّت کے سلسلہ میں گز شتہ آیات میں آ ئے ہیں ، مزید کہتاہے : یہ خداکاحکم ہے جسے اس نے تم پر نازل کیاہے (ذلِکَ أَمْرُ اللَّہِ أَنْزَلَہُ ِلَیْکُم) ۔

  اورجوشخص تقوا ئے الہٰی اختیار کرے گا اوراس کے فرمان کی مخالفت سے پرہیز کرے گا خدا اس کے گناہوں کوبخش دے گا، اوراس کے اجرو ثواب کوبہُت بڑھا دے گا (وَ مَنْ یَتَّقِ اللَّہَ یُکَفِّرْ عَنْہُ سَیِّئاتِہِ وَ یُعْظِمْ لَہُ أَجْراً) ۔

 بعض مفسّرین نے کہاہے کہ یہاں سیئات سے مُراد گناہانِ صغیرہ ، ہیں اور تقوٰی سے مُراد گناہان کبیرہ سے  پرہیز ہے .اوراس طرح کبائر سے پر ہیز صغائر کے بخشے جانے کا سبب بن جاتاہے . یہ بات اس کے مشابہ ہے جوسورۂ نساء کی آ یت ٣١ میں بیان ہُوئی ہے ، اس گفتگو کا لازمہ ہے کہ طلاق اور عدت کے سلسلہ میں گزشتہ احکام کی مخالفت گناہانِ کبیرہ میں شمار ہوتی ہے ( ٦) ۔

البتّہ یہ درست ہے کہ بعض اوقات سیئات صغیرہ گناہوں کے معنی میں بھی آ یاہے ،لیکن قرآن ِ مجید کی بہت سی آ یات میں تمام گناہوں کے لیے چاہے وہ صغیرہ ہوں یاکبیرہ لفظ سیئات کا اطلاق ہُوا ہے ۔مثلاً سورہ مائدة کی آ یت ٦٥ میں ا یا ہے : وَ لَوْ أَنَّ أَہْلَ الْکِتابِ آمَنُوا وَ اتَّقَوْا لَکَفَّرْنا عَنْہُمْ سَیِّئاتِہِمْ اگراہل کتاب ایمان لے آئیں اور تقوٰی اختیار کریں توہم ان کے تمام گزشتہ گناہوں کوبخش دیں گے (یہ معنی دوسری آ یات میں بھی آ یاہے ) ۔

 مُسلّمہ طو ر پرایمان اورقبولِ اسلام تمام گزشتہ گناہوں کی بخشش کاسبب ہے ۔

 بعد والی آیت طلاق کے بعد عورت کے حقوق کے بارے میں مسکن اور نفقہ کے لحاظ سے اور دوسرے جہات سے بھی وضاحت کرتی ہے ۔

  پہلے مطلقہ عورتوں کے مسکن کی کیفیّت کے بارے میں فرماتاہے:جہاں تم سکونت رکھتے ہواورتمہار ے وسائل تقاضا کرتے ہیں انہیں بھی وہیں سکونت دو (أَسْکِنُوہُنَّ مِنْ حَیْثُ سَکَنْتُمْ مِنْ وُجْدِکُمْ) ۔

  وجد  (بروزن حکم) توانائی اور تمکن کے معنی میں ہے .بعض مفسّرین نے اس کی اور تفاسیر بھی بیان کی ہیں ، جونتیجہ میں اسی معنی کی طرف لوٹتی ہیں. راغب بھی مفردات میں یہی کہتاہے کہ من وجدکم کی تعبیر کامفہوم یہ ہے کہ مطلقہ عورتوں کواپنی توانائی اور مقدُود کے مطابق رہنے کے لیے مناسب مکان دو ۔

 فِطری طور پر جب مکان شوہر کے ذمّہ ہے تو باقی اخراجات بھی اسی کے ذمّہ ہوں گے .آ یت کا اخری حصّہ جوحاملہ عورتوں کے نفقہ کے بارے میں ہے ، وہ اسی مدعا پر شاہد ہے ۔

 اس کے بعد ایک دُوسرے حکم کوپیش کرتے ہُوئے کہتاہے : انہیں کوئی نقصان نہ پہُنچائوکہ معاملے کو ان پر ایساتنگ کردو کہ وہ تمہارے مکان کوچھوڑ نے اور نفقہ کوترک کرنے پر مجبور ہوجائیں (وَ لا تُضآرُّوہُنَّ لِتُضَیِّقُوا عَلَیْہِن) ۔

 کہیں ایسانہ ہوکہ کینہ پروری ، عداوت اور نفرت تمہیں حق اور عدالت کے راستہ سے مُنحرف کردے ، تم انہیں ان کے مسلّمہ حقوقِ مسکن ونفقہ سے محرُوم کردو اوران پر اتنا دبائو پڑ ے کہ وہ ہرچیز کوچھوڑ کرنکِل کھڑی ہوں ۔

 چوتھے حکم میں دودھ پلانے والی عورتوں کے حقوق کے بارے میں فرمتاہے : اگروہ علیٰحدہ گی کے بعد بچّوں کودودھ پلانے پررضا مند ہو جائیں توان کی اُجرت انہیں دے دو (فَِنْ أَرْضَعْنَ لَکُمْ فَآتُوہُنَّ أُجُورَہُنَّ) ۔

 اتنی اُجرت جوعرف وعادت کے لحاظ سے دودھ پلانے کی مقدار اوروقت کے ساتھ مناسبت رکھتی ہو۔

 چونکہ ایسا اکثر ہوتاہے کہ طلاق کے بعد شوہر اوربیوی میں نوزاد بچّے کے سلسلے میں مصالحت کرنے پراختلاف پیدا ہوجاتے ہیں ،لہٰذاپانچویں حکم میں اس سلسلے میں ایک قاطع حکم صادر فرماتے ہُو ئے کہتاہے :اولاد کی سرنوشت کے سلسلے میں ایک دوسرے کے مشورے سے شائستہ فیصلہ کرو (وَ أْتَمِرُوا بَیْنَکُمْ بِمَعْرُوف) ۔

 کہیں ایسانہ ہوکہ شوہر اوربیوی کے اختلافات بچوں کے منافع پرایسی ضرب لگائیں کہ جس سے وہ جسمانی اور ظاہری لحاظ سے خسارے میں گرفتار ہوجائیں یاعاطفی لحاظ سے ضروری محبت اور شفقت سے محروم رہ جائیں .والدین کی ذمّہ داری یہ ہے کہ وہ خدا کونظر میں رکھیں اور دفاع نہ کرسکنے والے نو مؤ لود کواپنے اختلافات اور اغراض پرقربان نہ کردیں ۔

 وأتمرو کاجُملہ ایتمار کے مادّہ سے بعض اوقات کسِی دستور کوقبول کرنے اور کبھی مشاورت کے معنی میں آ تاہے .اوریہاں دوسرامعنی زیادہ مناسب ہے .نیزمعروف کی تعبیر بڑی جامع ہے جوہرقسم کے مشورے کوشامل ہے کہ جس میںخیر وصلاح ہو ۔

 چونکہ بعض اوقات طلاق کے بعد بچے کے مصالح اوراُسے دُودھ پلانے کے سلسلے میں بیوی اور شوہر میں ضر وری اور لازمی موافقت پیدانہیں ہوتی ، لہٰذاچھٹے حکم میں فر ماتاہے : اوراگرتم ایک دُوسرے کے لیے سخت ہوجائو اورموافقت نہ کرو ، توپھر کوئی دوسری عورت بچّے کو دودھ پلانے  کی ذمّہ داری لے سکتی ہے .تاکہ کشمکش جاری نہ رہے ( وَ اِنْ تَعاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَہُ أُخْری) ۔

یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اگر اختلافات طول پکڑ جائیں تو اپنے آپ کومُعطّل نہ رکھو اوربچے کوکسِی دوسری عورت کے سپرد کردو . پہلے درجہ میں تو ماں ہی کاحق تھاکہ وہ اس بچّے کودودھ پلائے ، لیکن جب سخت گیری اور کش مکش کی بناء پر یہ امر امکان پذیر نہیں رہاتو بچے کے منافع کوفراموشی کے سپرد نہیں کرناچاہیے ،لہٰذاس کی ذمّہ داری کسِی دایہ کے سپرد کردو۔ 

 بعد والی آیت اس سلسلہ میں ساتویں اورآخری حکم کوبیان کرتے ہُوئے مزیدکہتی ہے:وہ لوگ جووسیع وسائل رکھتے ہیں وہ اپنے وسائل اورامکانات کے مطابق خرچ کریں ، لیکن جوتنگ دست ہیں توجوکُچھ خدانے انہیں دے رکھا ہے وہ اس میں سے خرچ کریں . خداکسِی شخص کواس سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا کہ جواس کوعطا کیاہوا ہے (لِیُنْفِقْ ذُو سَعَةٍ مِنْ سَعَتِہِ وَ مَنْ قُدِرَ عَلَیْہِ رِزْقُہُ فَلْیُنْفِقْ مِمَّا آتاہُ اللَّہُ لا یُکَلِّفُ اللَّہُ نَفْساً ِلاَّ ما آتاہا ) ۔

  کیایہ حکم ،یعنی طاقت کے مطابق خرچ کرنا ان عورتوں سے مربُوط ہے جوطلاق کے بعد بچّوں کودودھ پلانے کی ذمّہ داری قبول کرلیتی ہیں یاعدّت کے دنوں کے ساتھ مربُوط ہے کہ جس کی طرف گزشتہ آ یات میں اجمالی طور پر اشارہ ہو ایایہ دونوں کے ساتھ مربُوط ہے ؟

 آخری معنی سب سے مناسب ہے .اگر چہ مفسرین کی ایک جماعت اسے صرف دُودھ پلانے والی عورتوں سے مربُوط سمجھتی ہے .حالانکہ گزشتہ آیات میں اس بارے میں اجر (اُجرت ) کی تعبیر آ ئی ہے ، نفقہ اور انفاق کی تعبیر نہیں ا ئی ۔

 بہر حال جن لوگوں میں کافی طاقت اور توانائی ہے انہیں تنگ دلی اور سخت گیری نہیں کرنی چاہیے .جن میں کچھ زیادہ مالی طاقت نہیں ہے وہ اپنی توانائی سے زیادہ پر مامورنہیں اور عورتیں ان پراعتراض نہیں کرسکتیں ۔

 اِسی طرح جو وسعت رکھتے ہیں انہیں بخل نہیں کرنا چاہیے ، اور جووسعت نہیں رکھتے ، وہ ملامت کے لائق نہیںہیں ۔

 معیشت کی تنگی لوگوں کے حق وعدالت کے راستہ سے خارج ہونے کاسبب نہ بنے اورکوئی بھی شخص شکایت کے لیے زبان نہ کھولے ، اس بناء پر آ یت کے آخر میں فرماتاہے : خداعنقریب سختی کے بعد راحت اور آسانی قرار دے گا(سَیَجْعَلُ اللَّہُ بَعْدَ عُسْرٍ یُسْراً) ۔

 یعنی غم نہ کھائو ، بیتابی نہ کرو، دنیا ایک حالت پر باقی نہیں رہتی ، کہیں ایسانہ ہوکہ منقطع ہوجانے والی اور جلدی سے گزر جانے والی مشکلات تمہارے صبرو شکیبائی کے رشتہ کوتوڑ کرپارہ پارہ نہ کردیں ۔

 یہ تعبیر ہمیشہ کے لیے،خصوصا ان آیات کے نزول کے وقت کو جب مسلمان معیشت کے لحاظ سخت تنگی میں تھے ،صابرین کے مستقبل کی ایک اُمید بخش بشارت ہے ،پھر اتفاق سے کچھ زیادہ دیرنہ گز ری تھی کہ خدانے اپنی رحمت وبرکت کے در وازے ان پر کھول دیئے ۔

١۔جواہر جلد ٣٢صفحہ ٢٤٩"" وسائل الشیعہ ""جلد ١٥ باب ٤ ، از ابواب عدد ، حدیث ٧۔

 ٢۔البتّہ فقہاء کے درمیان مشہور یہ ہے کہ عورت جب سِن یاس کو پہنچ جائے تواس کی عدت بالکل نہیں ، لیکن اس قول کے مُقابلہ میں علماء ِ قدیم کی ایک تھوڑی سی تعداد عدّت کی قائل ہے .اوربعض روایات بھی اس پر شاہد ہیں.اگرچہ دوسری روایات اس سے معارضہ کرتی ہیں جوبات اوپر والی آ یت کے ظاہر سے موافق ہے وہ یہ ہے کہ احتمالِ حمل کی صورت میںوہ عدت رکھتی ہیں.اس موضوع کی مزید تشریح فقہی کتابوں میں دیکھنی چاہیے ۔

 ٣۔"" جواہرالکلام "" جلد ٣٢ صفحہ ٢٣٢ ، اور فقہ کی دوسری کتابیں ۔

 ٤۔کنز العرفان ، جلد٢،صفحہ ٢٦٠۔

 ۵۔مرحوم طبرسی مجمع البیان میں کہتے ہیں : "" تقدیرہ واللائی لم یحضن ان ار تبتم فعد تھن ایضا ثلاثة اشھر ""۔

٦۔ المیزان ،جلد١٩،صفحہ ٣٦٧
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma