٢: روحِ توکّل

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 24

خداپر تو کّل کرنے سے مراد یہ ہے کہ انسان اپنے کام کی سعی وکوشش کواس کے سپرد کردے اور اپنی مشکلات کاحل اسی سے چاہے .وہ خدا جواس کی تمام احتیاجات سے آگاہ ہے،وہ خدا جواس کے بارے میں رحیم ومہربان ہے،اوروہ خُدا جوہرمشکل کوحل کرنے کی قدرت رکھتاہے ۔

اب جوشخص روحِ توکل کاحامل ہے ، وہ ہرگز یاس ونا امیدی کواپنے پاس پھٹکنے نہیں دیتا . مشکلات کے مقابلہ میں ضعف وزبوںحالی کا احساس نہیں کرتا اور سخت حوادث کے مقابلے میں ڈٹا رہتاہے،اس کایہی علم و عقیدہ اسے ایسی رُو حانی طاقت دیتاہے جس سے وہ مشکلات پر غلبہ حاصل کرسکتاہے .دوسری طرف سے غیبی امدادیں کہ توکّل کرنے والوں کوجن کی خوشخبری دی گئی ہے ، وہ اس کی مدد کو آ جاتی ہیں اوراُسے شکست و ناتوانی سے نجات بخشتی ہیں ۔

 ایک حدیث میں پیغمبر گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آیا ہے کہ آپ نے فرمایا:میں نے خدا کی وحی پہنچانے والے فرشتے جبرئیل سے پوچھا :توکّل کیاہے ؟ تواس نے کہا:

العلم بان المخلوق لایضر ولاینفع ، ولا یعطی ولا یمنع، و استعمال الیأس من الخلق ،فاذا کان العبد کذالک لم یعمل لاحد سوی اللہ و ولم یرج ولم یخف سوی اللہ ولم یطمع فی احد سوی اللہ فھٰذا ھو التوکل ۔

توکل کی حقیقت یہ ہے کہ انسان یہ جان لے کہ مخلوق نہ نقصان پہنچا سکتی ہے ، نہ ہی نفع، نہ کچھ عطا کرسکتی ہے ، نہ روک سکتی ہے ، مخلوق سے کوئی اُمید نہ رکھنا (اور خداہی سے لو لگا نا) جس وقت ایسا ہو جائے گا توپھر انسان خدا کے علاوہ کسِی کے لیے کام نہیں کرتا اوراس کے غیر سے اُمید نہیں کرتا، نہ اس کے غیر سے ڈ رتا ہے اور نہ ہی اس کے علاوہ کسِی اور کے ساتھ دل لگاتاہے ، یہ ہے توکّل کی روح ( ۱) ۔

اس عمیق مضمون کے ساتھ ، توکّل انسان کوایک نئی شخصیّت بخشتی ہے ، اوراس کے تمام اعمال میں اثر پیداکرتی ہے .اسی لیے ایک حدیث میں آیاہے کہ پیغمبراکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے شب معراج بارگاہِ خدا وندی میں سوال کیا :

 پرور دگار ا:ای الا عمال افضل ؟

کون ساعمل سب سے افضل و برتر ہے ؟

خداوند متعال نے فرمایا:

لیس شی ء عندی افضل من التو کل علیّ والرضا بما قسمت

میرے نزدیک مجھ پر توکّل کرنے اورجوکچھ میں نے تقسیم کیاہے اس پرراضی رہنے سے افضل و برتر کوئی چیز نہیں ہے ۔

یہ بات واضح ہے کہ اس معنیٰ میں توکّل ہمیشہ جہاد اورسعی وکوشش کے ساتھ ہوتی ہے ،سُستی اور ذمّہ دار یوں سے فرار کے ساتھ نہیں ہوتی ۔

 ہم نے اس سلسلہ میں تفسیر نمونہ کی جلد ١٠ میں ( سورۂ ابراہیم کی آ یت ١٢ کے ذیل میں ایک اور تشریح بھی پیش کی ہے ۔

 

۱۔بحارالانوار ،جلد٦٩ ،صفحہ ٣٧٣،حدیث ١٩۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma