١: مشکلات سے نجات اورتقوٰی

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 24

اوپر والی آ یات قرآنی مجید کی سب سے زیادہ امّید دلانے والی آ یات ہیں .ان کی تلاوت دل کو صفائی اورروح کو نور وروشنی بخشتی ہے .یہ تلاوت یاس ونا امید ی کے پردوں کوچاک کردیتی ہے ،دل میں امید کی حیات بخش شعاعیں چمکاتی ہے اورتمام پرہیزگار اور باتقوٰی افراد کونجات اورحل مشکلات کا وعدہ دیتی ہے ۔

ایک حدیث میں ابوذر غفاری سے نقل ہُوا ہے کہ پیغمبر ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے فر مایا:

انی لاعلم اٰیة لواخذ بھا الناس لکفتھم ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجاً ... فما زال یقولھا و یعید ھا۔

میں ایک ایسی آ یت کوپہچانتاہُوں کہ اگر تمام انسان اس کے دامن کوتھام لیں تووہ ان کی مشکلات کے حل کے لیے کافی ہے اس کے بعد آپ نے آیتہ ومن یتق اللہ کی تلاوت فرمائی اوراس کی بار بار تکرار فرماتے رہے ( ١) ۔

 ایک اورحدیث میں رسُول ِ خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل ہُوا ہے کہ آپ نے اس آ یت کی تفسیر میں فر مایا:

من شبھات الدّ نیا ومن غمرات الموت وشد ائد یوم القیا مة ۔

خداپرہیزگاروں کادُنیا کے شبہات ،موت کی سختی اور روزِقیامت کے شدائدسے رہائی بخشے گا (٢) ۔

یہ تعبیر اس بات کی دلیل ہے کہ اہل تقوٰے کے لیے اُمور کی کشائش دنیا میں ہی منحصر نہیں بلکہ قیامت کو بھی شامل ہے ۔

ایک اور حدیث میں بھی آ نحضرت (صلی اللہ علیہ آلہ وسلم) سے آیاہے :

من اکثر الا استغفار جعلہ اللہ لہ من کل ھمّ فرجاً ومن کل ضیق مخرجاً ۔

جوشخص کثرت سے استغفار کرے گا ( اورلوحِ دل کوگناہوں کے زنگ سے دھوئے گا)توخُدا اس کے لیے ہر غم ونداوہ سے کشائش اورہر تنگی سے نجات کی راہ قرار دے گا ( ٣) ۔

مفسّرین کی ایک جماعت نے کہا ہے کہ اوپر والی پہلی آ یت عوف بن مالک کے بارے میں نازل ہُوئی ہے جواصحابِ پیغمبرمیں سے تھا اور دشمنانِ اِسلام نے اس کے بیٹے کوقید کر لیاتھا .وہ پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی خدمت میں آ یا، اس واقعے اور فقر وفاقہ ، نیز تنگدستی کی شکایت کی . آپ نے فر مایا تقوٰی اختیار کر ،صبر کر ، اور لاحولا ولا قوّة الاباللہ کابہت زیادہ ذکر کیاکر .اس نے اس کام کوانجام دیاتو اچانک جبکہ وہ اپنے گھر میں بیٹھا ہُواتھا اس کابیٹا دروازے سے اندر آ یامعلوم ہواکہ وہ دشمن کی غفلت کے ایک لمحہ سے فائدہ اُٹھا کربھاگ آیا ہے ، یہاں تک کہ دشمن کا اونٹ بھی اپنے ساتھ لے آ یا ہے . یہ وہ مقام تھاجس پر اوپروالی آیت نازل ہوئی اوراس باتقوٰی شخص کی مشکِل کی کشائش اورجہاں سے توقع نہیں تھی وہاں سے روزی کی خبردی ( ٤) ۔

اِس بات کاذکر کرنابھی ضروری ہے کہ آ یت کامفہوم ہرگز یہ نہیں ہے کہ انسان سعی و کوشش کو بالکل ہی تر ک کردے اور یہ کہے کہ میں گھر میں بیٹھ جائوں گا، تقوٰی اختیار کروں گا اورلاحولا ولا قوّة الاباللہ کاذکر کرو نگا یہاں تک کہ جہاں سے مجھے گُمان بھی نہیں ہے میری روزی پہنچ جائے گی .نہیں ! آ یت کا یہ مفہوم ہرگز نہیں ہے ، تقوٰی وپر ہیز گاری کامقصد سعی وکوشش کے ساتھ ہے ، اگراس حالت میں انسان پردر وازے بندہوں گے توخُدا نے انکے کھولنے کی ضمانت لی ہے ۔

اسی لیے ایک حدیث میں آیاہے کہ امام ِ صادق علیہ السلام کاصحابی عمربن مسلم ایک مُدّت تک آپ کی خدمت میں نہ آ یا .حضرت نے اس کے حالات دریافت فر مائے تولوگوں نے بتلایا کہ اس نے تجارت چھوڑ دی ، او رعبادت کی طرف رُخ کر لیا ہے ، آپ نے فر مایا : وائے ہواس پر :

  اما علم ان تارک الطف لایستجاب لہ ۔

  کیا وہ یہ نہیں جانتا کہ جوشخص سعی و کوشش اورروزی طلب کرنے کوترک کردے تواس کی دُعا قبول نہیں ہوتی ۔

اس کے بعد مزید فر مایا:

اصحابِ رسول میں سے ایک جماعت نے جب آ یت ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجاًویر زقہ من حیث لایحتسب نازل ہوئی تواپنے در وازے بند کرلیے ،عبادت میں مصروف ہوگئے ، اورانہوں نے کہا:خُدا نے ہماری روزی کاذمّہ لے لیاہے .اس واقعہ کی اطلاع پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کو ہُوئی تو آپ نے کسِی کوان کے پاس بھیج کربُلوایا اوراُن سے کہا:تم نے ایساکیوں کہاہے؟انہوں نے جواب دیا:یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)چُونکہ خداہماری روزی کاکفیل ہوگیاہے لہٰذاہم عبادت میں مشغول ہوگئے ہیں پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے فرمایا:

انہ من قبل ذالک لم یستجب لہ، علیکم بالطلب

جو شخص ایسا کرے گا اس کی دُعا قبول نہیں ہوگی.تم پر لازم ہے کہ سعی وکوشش اور جدّو جہد کرو( ٥) ۔

 

١۔مجمع البیان ،جلد١٠ ،صفحہ ٣٠٦۔

٢۔ نورالثقلین ، جلد٥،صفحہ حدیث ٤٤۔

 ٣۔نورالثقلین ،جلد ٥،صفحہ ٣٥٧ حدیث ٤٥۔

 ٤۔مجمع البیان جلد١٠،صفحہ ٣٠٦ یہی ماجرا "" تفسیر فخر رازی "" اوررُوح البیان میں بھی تھوڑے سے فرق کے ساتھ آ یا ہے اوربعض نے ایک سواونٹ کی تعداد لکھی ہے ۔

 ٥۔""کافی "" مُطابق نقل نورالثقلین ،جلد٥،صفحہ ٣٥٤( حدیث ٣٥) 
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma