صلح یاپسندِ خدا علیٰحد گی

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 24
طلاق سے مربُوط مباحث جوگزشتہ آ یات میں آ ئے ہیں ان کو جاری رکھتے ہُوئے پہل یزیر بحث آیت میں چند مزید احکام کی طرف اشارہ کرتے ہُوئے پہلے فرما تاہے : جب ان کی عدّت کی مدّت آخر کو پہنچ جائے توانہیں شائستہ طورپر ، رجوع کے طریق سے ، روک لویاشائستہ  طورپر،رجوع کے طریق سے ، روک لویاشائستہ طورپران سے الگ ہوجائو (فَِذا بَلَغْنَ أَجَلَہُنَّ فَأَمْسِکُوہُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فارِقُوہُنَّ بِمَعْرُوفٍ ) ۔

بلوغ اجل (مدّت کے آخر کوپہنچنے ) سے مُراد یہ نہیں ہے کہ عدت کی مدت پُورے طوپر ختم جانے پررجُوع کرناجائز ہی نہیں ہے .مگریہ کہ انہیں روک رکھنا عقدِ جدید کے صیغہ  کے ذ ریعہ ہو ،لیکن یہ معنی آ یت سے بہت بعید نظر آ تاہے ۔

 بہرحال اس آیت میں ازدواجی زندگی سے مربُوت ایک اہم ترین اور مناسب ترین حکم پیش ہوا اوروہ یہ ہے کہ عورت اور مرد یاتوشائستہ طورپر آپس میں زندگی بسر کریں یاپھر شائستہ طریقے سے ایک دوسرے سے جُدا ہوجائیں .جس طرح مشترک زندگی کوصحیح اصول ، انسانی طرز اور شائستہ اورمناسب طور پر ہونا چاہیے . اسی طرح سے جدائی بھی ہرقسم کے نزاع اور جھگڑے ،بدگوئی اور ناسزا کہنے ، ظلم وستم اوعرحقوق ضائع کرنے سے خالی ہونی چاہیے .اہم بات یہ ہے کہ جس طرح تعلقات صلح صفائی کے ساتھ انجام پا ئیں اسی طرح علیٰحد گیا ں بھی افہام و تفہیم کے ساتھ ہوں . کیونکہ ممکِن ہے یہ مرد اورعورت مستقبل میں دوبارہ مشترک زندگی کی سوچ لیں لیکن جُدائی کے وقت بدسلوکیاں ان کی فکری فضا کواس طرح سے تیرہ وتاریک بنادیتی ہیں کہ بازگشت کی راہ ان کے لیے بندکردیتی ہیں اور بالفرض اگروہ نئے سر ے سے ازدواج کرنابھی چاہیں تو مناسب فکری اورعاطفی ذ ریعہ موجود نہیں ہوتا. دوسری طرف آ خر وہ مسلمان ہیں اورایک ہی معاشر ے سے تعلّق رکھتے ہیں ،لہٰذامخاصمت اور ناشائستہ طریقے سے جدائی نہ صرف انہیں میں اثر انداز ہوگی ، بلکہ دونوں کے خاندانوں میں بھی نقصان وہ اثرات چھوڑ ے گی .اوربعض حالات میں آ ئندہ کے لیے بھی ان کی ہمکاریوں کاسلسلہ کلّی طور پر برباد کردے گی ۔

 واقعاً یہ کتنی اچھی بات ہے کہ نہ صرف از دواجی زندگی میں بلکہ ہرقسم کی دوستی اور مشترک عمل میں بھی جہاں تک ہو سکے ، انسان شائستہ اورمناسب ہمکاری کوجاری رکھے . اگرایسانہ ہوسکے تو پھر شائستہ طورپر جدا ہوجائے ،کیونکہ شائستہ طوپر جُدائی بھی طرفین کے لیے ایک قسم کی کامیابی اور موفقیت ہے ۔

ہم نے جوکچھ بیان کیاہے اس سے معلوم ہوگیا کہ امساک بمعروف اور فراق بہ معروف وسیع معنی رکھتے ہیںیہ ہرقسم کے واجب مستحب شرائط اوراخلاقی کاموں کواپنے اندرلیے ہُوئے ہیں اوراِسلامی واخلاقی آداب کے ایک مجموعہ کوذہن میں مجسّم کرتے ہیں .اس کے بعد دُوسرے حکم کی طرف اشارہ کرتے ہُوئے مزید کہتاہے : تم طلاق اورجدائی کے وقت اپنے ( مُسلمانوں ) میں سے شاہد گواہ بنالو :(وَ أَشْہِدُوا ذَوَیْ عَدْلٍ مِنْکُم) ۔

تاکہ اگرآئندہ کوئی اختلاف پیدا ہوجائے توطرفین میں سے کوئی انکارنہ کرسکے ۔

 بعض مفسّرین نے یہ احتمال دیاہے کہ گواہ بناناطلاق کے سلسلہ میں اور رجوع کرنے کے سلسلہ میں بھی ہے .لیکن چونکہ رجوع بلکہ تزویج کے وقت بھی گواہ بنانا قطعاً واجب نہیں ہے ،لہٰذا اس بناء پر اگرہم فرض کربھی لیں کہ اوپر والی آ یت رجوع کوبھی شامل ہے تویہ اِس سلسلہ میں مستحبی حکم ہوگا۔

 تیسرے حکم میں گواہ ہوں کی ذمّہ داری کواس طرح بیان کرتاہے : شہادت کوخدا کے لیے قائم کرو (وَ أَقیمُوا الشَّہادَةَ لِلَّہِ ) ۔

کہیں ایسانہ ہوکہ تمہارا دونوں میں سے کسِی ایک طرف قلبی میلان ، حق کی شہادت سے مانع ہوجائے،لہٰذا رضائے خُدا اورحق کوقائم کے سوا اور کسِی چیز کو اس میں راہ نہیں پاناچاہیے .یہ ٹھیک ہے کہ گواہوں کو عادل ہوناچاہیے ،لیکن عدالت کے باوجود بھی گناہ کاصدُور محال نہیں ہے .اِس بناء پر انہیں خبر دار کرتاہے کہ وہ اپنے نگران ہوں اورجان بوجھ کریا نادانستہ طور پر حق کی راہ سے مُنحرف نہ ہوں ۔

ضمناً ذ وی عدل منکمکی تعبیراس بات کی دلیل ہے کہ دونوںگواہ مُسلمان ،عادل اورمرد ہونے چاہئیں ۔

 آ یت کے آخر میں تاکید کے عنوان سے تمام گزشتہ احکام کے متعلق مزید کہتاہے : صرف وہ لوگ جوخُدا اور روز قیامت پرایمان رکھتے ہیں ، اس وعظ ونصیحت سے سبق حاصل کرتے ہیں (ذلِکُمْ یُوعَظُ بِہِ مَنْ کانَ یُؤْمِنُ بِاللَّہِ وَ الْیَوْمِ الْآخِر)۔

بعض ذالکم کوصرف خدا کی طرف توجّہ کرنے اور گواہوں کی طرف سے عدالت کی رعایت کرنے کے مسئلہ کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں .لیکن ظاہر یہ ہے کہ یہ تعبیر ایک وسیع معنی رکھتی ہے اور طلاق کے بارے میں گزشتہ تمام مسائل کواپنے اندر لیے ہُوئے ہے ۔

 بہرصُورت یہ تعبیران احکام  کی حد سے زیادہ اہمیّت کی دلیل ہے ، اس طرح کہ اگر کوئی شخص ان کی رعایت نہیں کرتا اوران سے وعظ ونصیحت حاصِل نہیں کرتاتو گویا وہ خدا اورقیامت کے دن پر ایمان نہیں رکھتا۔

 چُونکہ بعض اوقات آئندہ کی معیشت اور زندگی سے مربُوط مسائل یادوسری گھر یلو مجبوریاں، اس بات کاسبب بن جاتی ہیں کہ میاں بیوی طلاق کے وقت یارجوع کے وقت یا دونوں گواہ شہادت دینے کے وقت حق وعدالت کی راہ سے منحرف ہو جائیں ، لہٰذا آ یت کے آخر میں فرماتاہے : جوشخص خُدا سے ڈ رے اور گناہ کوترک کردے توخُدا اس کے لیے نجات کی راہ قرار دے دیتا ہے اوراس کی زندگی کی مشکلات کوحل کردیتاہے (وَ مَنْ یَتَّقِ اللَّہَ یَجْعَلْ لَہُ مَخْرَجاً ) ۔

اوراس کوایسی جگہ سے جس کا اسے گمان بھی نہ ہوگا روزی دے گا (وَ یَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لا یَحْتَسِبُ ) ۔

  اور جوشخص خداپر توکّل کرے اور اپنا امر اس کے سپرد کردے تو خدا اس کی کفایت کرتا ہے(وَ مَنْ یَتَوَکَّلْ عَلَی اللَّہِ فَہُوَ حَسْبُہُ ) ۔

لیکن خُدا نے ہر کام اور ہر چیز کے لیے ایک اندازہ اورحساب قرار دیاہے (قَدْ جَعَلَ اللَّہُ لِکُلِّ شَیْء ٍ قَدْراً) ۔

 اِس طرح سے وہ مردوں،عورتوں اور گواہوں کوخبر دار کرتا ہے کہ وہ حق کی مشکلات سے نہ گھبرائیں اورعدالت کو جاری کریں .پھر اپنے مشکل کاموں کی کشائش خُدا سے چاہیں کہ خدا نے یہ ضمانت لی ہے،کہ وہ پر ہیزگاروں کی مشکل کوحل کرے گا اورانہیں ایسی جگہ سے روزی دے گاجہاں سے خود انہیں بھی گمان نہیں ہوگا ۔

خدانے ضمانت دی ہے کہ جوتوکّل کرے گا وہ مصیبت میں گرفتار نہیں رہے گا، اور خدا اس ضمانت کے اداکرنے پر قادر ہے ۔

 یہ صحیح ہے کہ یہ آ یات طلاق اوراس سے مربُوط احکام کے سلسلہ میں نازل ہُوئی ہیں ،لیکن ان کامضمون وسیع ہے جودیگر موارد کوبھی شامل ہے.یہ خداکی طرف سے تمام پرہیزگار وں اور توکّل کرنے والوں کے لیے ایک امید بخش وعدہ ہے کہ انجام کارلطفِ الہٰی انہیں اپنی پناہ میں لے لے گا ، انہیں مشکلات کے پیچ وخم سے گزار دے گا ،سعادت کے تانباک افق کی طرف ان کی رہنمائی کرے گا، معیشت کی سختیوں کوبرطرف کردے گا اور مشکلات کے تیرہ وتاریک بادلوں کوان کی زندگی کے آسمان سے ہٹا دے گا ۔

  قَدْ جَعَلَ اللَّہُ لِکُلِّ شَیْء ٍ قَدْراًکاجملہ اس نظام کی طرف ایک لطیف اشارہ ہے جوعالم ِ تشریع وتکوین پر حاکم ہے . یعنی یہ احکام جوخدانے طلاق وغیرہ کے بارے میں صادر فرمائے ہیں سب کے سب ایک حساب اوردقیق حکیمانہ انداز ے کے مطابق ہیں ۔

 اسی طرح سے وہ مشکلات جوانسان کی زندگی میں ازدواجی مسئلہ میں یاکسِی اور مسئلہ میں رُو نما ہوں ، ان میں سے ہرایک کا اندازہ وحساب اور مصلحت واختتام ہوتاہے ، انہیںحوادث کے ظاہر ہونے پر گھبرانانہیں چاہیے اورزبان پر گلہ اور شکوہ کے الفاظ نہیں لانے چاہئیں .نیز مشکلات کے حل کے لیے خلاف تقوٰی اُمور سے متوسّل نہیں ہونا چاہیے ، بلکہ تقوٰی کے ساتھ ان سے جنگ کرنی چاہیے .اوران کاحل خداسے طلب کرناچاہیے ۔

12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma