٢: اسبابِ طلاق

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 24

 دُوسرے اجتماعی امور میں پیدا ہونے والے اختلافات کی طرح طلاق کی بھی مختلف وجوہات ہوتی ہیں کہ جن کادقیق مطالعہ اورمقابلہ کیے بغیر ایسے حادثہ کوروکنا مشکل ہوتاہے . اِس لیے ہرچیز سے پہلے ضروری ہے کہ ہم طلاق کے عوامل کومعلوم کریں اورمعاشرے میں اس کی جڑوں کوختم کریں .اگرچہ یہ عوامل بہت زیادہ ہیں لیکن ان میں سے ذیل کے اُمور زیادہ اہم ہیں :

 الف: عورت یامرد کی غیر محدود توقعات ، جُدائی اورعلیحٰد گی کے اہم ترین عوامل میں سے ایک ہے ، اگران میں سے ہر ایک اپنی توقع کے دامن کومحدود کردے ، خواب وخیال کی دُنیا سے باہر نکل آ ئے،طرفِ مقابل کواچھی طرح سے سمجھ لے اور جتنی اس کی حدود مین ممکِن ہواتنی ہی توقع رکھے توبہت سی طلاقوں کو روکاجاسکتاہے ۔

 ب: بہت سے گھر انوں میں حُسن پرستی اوراسراف و تبذ یر کی رُوح کا کار فرما ہونا ایک اوراہم عامل ہے جو خاص طورپر عورتوں کوہمیشہ کے لیے ناراضی کی حالت میں رکھتا اور طرح طرح کے بہانوں سے طلاق و جُدائی کی راہ ہموار کرتاہے ۔

 ج: دونوں میاں بیوی کی خصُوصی زندگی خصُو صًا ان کے اختلافات میں عزیز واقارب اورجان پہچان والوں کی بے جامدا خلتیں طلاق کا ایک اوراہم عامل شمار ہوتی ہیں .تجربہ بتاتا ہے کہ اگروہ دونوں میاں بیوی کے درمیان اختلافات کے ظہور کے وقت انہیں ان کی حالت پرچھوڑ دیں اوراِس کی یا اس کی جانبداری میں اختلاف کی آگ کوہوانہ دیں تو زیادہ وقت نہیں گز رتا کہ وہ آگ خاموش ہوجاتی ہے ۔

 لیکن دونوں طرف کے لوگوں کی مداخلت کہ جواکثر تعصّب اورنا ر وا محبتوں کے ساتھ ہوتی ہے، وہ مُعاملے کودن بدن مشکل اور پیچیدہ تربناتی رہتی ہے ۔

 البتّہ یہ بات اس معنی میں نہیں ہے کہ عز یز واقارب ہمیشہ ہی اپنے آپ کو ان اختلا فات سے دور رکھیں ،بلکہ مُراد یہ ہے کہ وہ انہیں معمولی اختلافات میں ان کی حالت پرچھوڑ دیں . لیکن جب اختلافات کُلی صورت میں جڑ پکڑلیں توپھر طرفین کی مصلحت پرتوجّہ رکھتے ہُوئے اور ہر طرح کی تعصّب آمیز جانبدار ی سے اجتناب اورپر ہیز کرتے ہوئے مداخلت کریں اورفر یقین کی صلح کے مقدمات فراہم کریں ۔

 د: عورت اورمرد کا ایک دُوسرے کی خواہش کے بارے میں بے اعتنائی کرنا، خصوصاً ان چیزوں سے جو عاطِفی اورجنسی مسائل سے تعلّق رکھتے ہیں ،مثلاً ہرمرد یہ توقع رکھتاہے کہ اس کی بیوی پاک وصاف اور پُرکشش رہے . اسی طرح ہربیوی بھی اپنے شوہر سے یہی توقع رکھتی ہے .لیکن یہ ایسے امُور ہیں جن کے اِظہار کے لیے وہ عام طورپر تیّار نہیں ہوتے . یہ وہ مقام ہے کہ طرف مقابل کابے اعتنائی برتنا ، اپنی ظاہری وضع قطع کاخیال نہ رکھنا ، ضروری تز یئں کوترک کردینا ، اورپریشان بال اور گندہ رہنا، بیوی یاشوہر کواس قسم کی ازدواج زندگی سے سیر کر دیتاہے .خاص طوپر اگران کی زندگی کے ماحول میں ایسے افراد بھی رہتے ہوں جوان اُمور کی رعایت کرتے ہوں ، لیکن وہ اس مسئلہ سے بالکل ہی بے اعتنائی کریں ۔

 اسی لیے اسلامی روایات میں اِس مطلب کوبہت زیادہ اہمیّت دی گئی ہے جیساکہ ایک حدیث میں امام صادق علیہ السلام سے آیاہے :

  لاینبغی للمر ئة ان تعطل نفسھا ۔

  عورت کے لیے یہ بات سزاوار نہیں ہے کہ وہ اپنے شوہر کے لیے زینت وآرائش کیے بغیر رہے ( ۱) ۔

  ایک اورحدیث سے امام صادق علیہ السلام سے آ یاہے کہ آپ نے فرمایا:

  ولقد خرجن نساء من العفاف الی الفجور ما اخر جھن الا قلة تھیئة ازواجھن۔

  بہت سی عورتیں جاد ئہ عفّت سے خارج ہوگئیں اوراس کی وجہ اس کے علاوہ کُچھ نہیں تھی کہ ان کے شوہر اپنے آپ کوآمادہ نہیں کرتے تھے ( ۲) ۔

 

 ھ: عورت اورمرد کے گھر وانے کے تمدن اوررہنے سہنے کے طریقوں کا ایک دُوسرے سے مناسبت نہ رکھنا بھی طلاق کا ایک اہم عامل ہے. یہ ایک ایسامسئلہ ہے جس پربیوی یاشوہر کے انتخاب سے پہلے بڑی دقّت کے ساتھ توجّہ کرنی چاہیئے .انہیں کفوشروعی یعنی مسلمان ہونے کے علاوہ کفر فرعی بھی ہونا چاہیے ، یعنی ان دونوں کے درمیان مختلف جہات سے ضروری مناسبتوں کو رعایت ہونی چاہیئے ، اس اہتمام کے بغیر اس قسم کی شادیو ں کے ٹوٹ جانے پر تعجّت نہیں کرنا چاہیے ۔

 

۱۔مکارم الاخلاق ، صفحہ ٩١، ١٠٧۔

 ۲۔ مکارم الاخلاق ، صفحہ ٩١، ١٠٧۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma