طلاق اور علیحد گی کی شرائط

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 24

ہم بیان کرچکے ہیں کہ اس سورہ کی اہم ترین بحث وہی طلاق کے بارے میں ہے کہ جواس کی پہلی آ یت سے شروع ہورہی ہے ،مسلمانوں کے عظیم پیشوا و رہبر کے عنوان سے رُوئے سخن پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی طرف کیا، اوراس کے بعد ایک عمومی حکم جمع کے صیغہ کے ساتھ بیان کرتے ہُوئے فرماتاہے : اے پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! جب تم عورتوں کوطلاق دیناچاہوتو انہیں عدّت کے زمانہ میں طلاق دو (یا أَیُّہَا النَّبِیُّ ِذا طَلَّقْتُمُ النِّساء َ فَطَلِّقُوہُنَّ لِعِدَّتِہِنَّ) ۔

یہ ان پانچ احکام میں سے پہلاحکم ہے جواس آ یت میں آئے ہیں جیساکہ مفسّرین نے اِس سے استفادہ کیا .اِس سے مُراد یہ ہے کہ صیغہ ٔ طلاق ایسے زمانہ میں جاری کیاجائے جب عورت اپنی ماہانہ عادت سے پاک ہوگئی ہواوراپنے شوہر سے اس کی نزدیکی نہ ہوئی ہو.کیونکہ سورہ بقرة کی آ یت ٢٢٧ کے مطابق عدت طلاق ثلاثة قروء (تین مرتبہ پاک ہونے )کی مقدار میں ہونی چاہیے .اب یہاں یہ تاکید کرتاہے کہ طلاق عدّت کے آغاز کے ساتھ ہو .اور یہ صُورت میں ممکِن ہے کہ جب طلاق پاکیزگی کی حالت میں اختلاطِ جنسی کے بغیر متحقّق ہو . اگر طلاق حیض کے زمانہ میںواقع ہوجائے توعدّت کے زمانہ کا اغاز ،طلاقِ کے آغاز سے جُدا ہوجائے گا . اور عدّت کا اغاز پاک ہونے کے بعد ہوگا۔

 اسی طرح سے اگرعورت ایسی طہارت کی حالت میں ہو کہ اس نے اپنے شوہر سے نزدیکی کی اورجدا ہونا مُسلّم ہُوا ہو ،کیونکہ اس قسم کی پاکیز گی اختلاط جنسی کی بناء پر رحم میں نطفہ کے نہ ہونے کی دلیل نہیں ہے ( غور کیجیے ) ۔

بہرحال یہ طلاق کی پہلی شرط ہے ۔

 متعدّد روایات میں پیغمبرگرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل ہُوا ہے کہ :

  جب کوئی شخص اپنی بیوی کواس کی ماہانہ عادت میں طلاق دے تواس طلاق کی پروانہیں کرنی چاہیے اورپلٹ آنا چاہیئے ،یہاں تک کہ عورت پاک ہو جائے اس کے بعد اگر وہ طلاق دیناچاہتا ہے تودے دے ( ١) ۔

 یہی مطلب روایات اہل سبت علیہم السلام میں بھی بارہا بیان ہوا . یہاں تک کہ آ یت کی تفسیر کے عنوان سے بھی ذکر ہُوا ہے ( ٢) ۔

 اس کے بعد دُوسرے حکم کو ،جوعدّت کاحساب رکھنے کامسئلہ ہے ،پیش کرتے ہُوئے فرماتاہے : عددکاحساب رکھو ( وَ أَحْصُوا الْعِدَّة) ۔

غور کے ساتھ ملاحظہ کیجیے کہ عورت تین مرتبہ اپنی پاکیز گی کے دن ختم کرے اورماہانہ عادت دیکھے ، جب تیسرادورِ پاکیز گی ختم ہو اور تیسری ماہانہ عادت میں داخل ہوتواس کے ایّام عدّت کی مُدّت آخر کوپہنچی اورختم ہُوئی۔

 اگراس امر میں غور نہ کیاجائے توممکِن ہے کہ عدّ ت کادور ضروری مقدار سے زیادہ شمار ہوجائے ، اور عورت کے اصلی ہدف کی رعایت نہیں ہوگی کہ جوپہلے ازدواج کے حریم کی حفاظت اورانعقادنطفہ کامسئلہ ہے ۔

 احصوا ، احصاء کے مادہ سے شمار کرنے کے معنی میں ہے،اوراصل میں حصی سے لیاگیا ہے جس کے معنی سنگریزہ کے ہیں .کیونکہ قدیم زمانہ میں بہت سے لوگ جبکہ وہ پڑھنے لکھنے سے آشنا نہیں تھے ،مختلف موضوعات کاحساب کتاب سنگریزوں کے ذ ریعے رکھتے تھے ۔

 قابلِ توجّہ بات یہ ہے کہ : عدّت کاحساب رکھنے کے مخاطب مرد ہیں، اس ک یوجہ یہ ہے کہ نفقہ اور مسکن کامسئلہ ان کے ذمّہ ہے . اسی طرح حقِ رجُوع،بھی انہیں کوحاصلِہے ورنہ عورتیں بھی مؤ ظف ہیں کہ وہ اپنی ذمہ داری کے واضح ہونے کے لیے پورے غور کے ساتھ عدّت کاحساب رکھیں ۔

اس حکم کے بعد تمام لوگوں کوتقویٰ اورپرہیزگاری کی دعوت دیتے ہُوئے فرماتاہے : اس خُدا سے ڈ رو جوتمہارا پروردگار ہے اور تقویٰ اختیار کرو (وَ اتَّقُوا اللَّہَ رَبَّکُم) ۔

وہ تمہارا پروردگار اورمُربّی ہے اوراس کے احکام تمہاری سعادت کے ضامن ہیں اِس بناء پر اس کے فرامین پر کاربند ہوجائو ، اوراس کی نافرمانی سے پرہیز کرو ،خصوصاً طلاق اور عدّت کاحساب رکھنے میں دقّت سے کام لو۔

اس کے بعدتیسرے اور چوتھے حکم کے بارے میں،جن میں سے ایک شوہروں اور دوسرابیویوں سے مربوط ہے .فرماتاہے : تم انہیں ان کے گھروں سے نہ نکالو، اور وہ بھی عدّت کے دوران گھروں سے باہر نہ نکلیں (لا تُخْرِجُوہُنَّ مِنْ بُیُوتِہِنَّ وَ لا یَخْرُجْنَ) ۔

اگرچہ بہُت سے بے خبراس حکمِ اسلامی کوطلاق کے وقت اصلاً جاری نہیں کرتے اور محض صیغہ ٔ طلاق کے جاری ہوتے ہی مرد بھی خود کوآمادہ کرتاہے کہ عورت کوگھر سے باہر نکال دے اورعورت بھی اپنے آپ کوآزادسمجھ لیتی ہے ،کہ شوہر کے گھر سے نکل کر اپنے عزیزوں کے گھر واپس چلی جائے ، لیکنیہ اسلامی حکم بہت ہی اہم فلسفہ کاحامل ہے ،کیونکہ یہ عورت کے احترام کے علاوہ عام طور پرشورہر وں کی طلاق سے باز گشت اور رشتہ ٔزوجیّت کے استحکام کے لیے بھی اسباب فراہم کرتاہے ۔

اِس اہم اسلامی حکم کونظر انداز کردینے سے ،جوقرآن کے متن میں آ یاہے ، بہُت سی طلاق دائمی جدائی کاسبب بن جاتی ہیں . حالانکہ اگراس حکم کا اجرا ہوتا تویہ اکثر زوجین کی صُلح اور نئے سرے سے بازگشت پر منتہی ہوتا۔

 لیکن بعض اوقات ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں کہ طلاق کے بعد عورتوں کوگھر میں رکھنامشکل ہوجاتاہے . لہٰذاپانچویں حکم کا استثناء کی صورت میں اضافہ کرتے ہُوئے کہتاہے : سوائے اس صورت کے کہ وہ عورتیں کسِی واضح برُئے کام کوانجام دیں لاَّ أَنْ یَأْتینَ بِفاحِشَةٍ مُبَیِّنَةٍ) ۔

مثلاً وہ شوہر اوراس کے رشتہ داروں کے ساتھ اس قدر ناساز گا زی ، بد خلقی اور بد زبانی کرے کہ اُسے گھر میںرکھنا زیادہ مشکلات کاباعث بن جائے ۔

 یہ بات کئی ایک روایات میں نظر آتی ہے ،جوآئمہ اہل ِ بیت سے نقل ہوئی ہیں ( ٣) ۔

البتّہ اس سے مُراد ہر قسم کی مخالفت اور جُزئی ناسازگاری نہیں ہے ، کیونکہ لفظ فاحشہ کے مفہوم کاتقاضا ہے کہ کوئی بہت بُراکام ہوگیاہے ، خاص طورپر جب کہ وہ مُبیّنہ کی صفت سے بھی موصوف ہُوا ہے ۔

یہ احتمال بھی ہے کہ فاحشة سے مُراد عفّت اورپاکدامنی کے منافی عمل ہے ، اور یہ ایک روایت میں امام صادق علیہ السلام سے بھی نقل ہوا ہے .اس صورت میں خارج کرنے سے مُراد اجراء حد کے لیے باہر لے جانا اورواپس گھر میں لے آ ناہے ۔

 ان دونوں معانی کے درمیان جمع کرنابھی ممکِن ہے ۔

ان احکام کے بیان کرنے کے بعد پھر تاکید کے عنوان سے مزید کہتاہے :یہ خدائی حدُود ہیں اورجوشخص حدُود الہٰی سے تجاوز کرے تواُس نے اپنے اوپر ظلم کیاہے (وَ تِلْکَ حُدُودُ اللَّہِ وَ مَنْ یَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّہِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہ) ۔

کیونکہ یہ قوانین اوراحکام ِالہٰی خود مکلّفین کے مصالح کے ضامن اور ان سے تجاوز کرنے سے ، چاہے وہ مرد کی طرف سے ہو یاعورت کی طرف سے ، خود ان کی سعادت پرضرب لگتی ہے ۔

آ یت کے آخر میں عدّت کے فلسفہ اورعورت کے گھر اوراصلی اقامت گاہ سے باہر نہ نکلنے کی علّت کی طرف ضمنا اشارہ کرتے ہُوئے فرماتاہے : تونہیں جانتا کہ خدا اس واقعہ کے بعد نئی وضع اور اصلاح کا ذ ریعہ فراہم کردے (لا تَدْری لَعَلَّ اللَّہَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذلِکَ أَمْراً) ۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ غیظ وغضب کاوہ طُوفان رُک جائے گاجو عام طورپر طلاق وجدائی کے معاملہ میں ناگہانی فیصلوں کاموجب بن جاتاہے ،چنانچہ عدّت کی مُدّت میں عورت کاہر وقت مرد کے ساتھ ہونا ،نیزخصوصاًجہاں اولاد کامعاملہ بھی درمیان میں ہو یا ایسے میں ایک دُوسرے سے محبت کا اظہار رجوع کرنے کاسبب بن جاتاہے اور دشمنی و عداوت کے تیرہ و تاربادلوں کو ان کے آسمانِ زندگی سے ڈر سے کردیتاہے ۔

یہاں قابلِ توجہ بات یہ ہے اور امام باقر علیہ السلام سے بھی مروی ہے :

  المطلقة تکتحل وتختضب و تطیب وتلبس ماشائت من الثیاب لان اللہ عزّ وجل یقول لعل اللہ یحدث بعد ذالک امراً لعلھا ان تقع فی نفسہ فیر اجعھا۔

مطلقہ عورت اپنی عدت کے دوران أرائش کرے ، انکھ میں سُرمہ لگائے ، اپنے بالوں کورنگین کرے ، اپنے آپ کو مُعطّرکرے اور ہر وہ لباس جواُسے پسند ہوپہنے .کیونکہ خدا فر ماتاہے : شاید خدا اس واقعہ کے بعد کوئی نئی کیفیّت فراہم کردے اورممکِن ہے کہ اس طریقہ سے عورت دوبارہ شوہر کے دل کومسخّر کرے اور مرد رجوع کرے ( ۴) ۔

جیساکہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ عام طورپر علیحٰدگی اورطلاق کا ارادہ جلدگز رجانے والے ہیجانوں کو وجہ سے ہوتاہے ،جووقت کے گز رنے اور مرد وعورت کے ایک مدّت تک ،جونسبتاً طولانی (عدّت )ہوتی ہے ،مسلسل معاشرت کرنے اور انجام کار غور وفکر کرنے سے معاملہ کلّی طورپر بدل جاتاہے .اور بہت سی علیٰحدگیوں اورطلاقوں میں صُلح ہوجاتی یہ لیکن اس شرط سے ساتھ کہ مذکورہ اِسلام احکام عدّت کے زمانہ میں عورت کے سابق شوہر کے گھر میں رہنے پردِقّت کے ساتھ عمل ہو ، انشاء اللہ ہم بعد میں بتائیں گے کہ یہ سب امور طلاق رجعی کے بارے میں ہیں ۔

١۔یہ روایات کتاب "" اطلاق "" صحیح مسلم جلد٢،صفحہ ١٩٠٣ کے بعد نقل ہُوئی ہیں ۔

٢۔وسائل الشیعہ،جلد ١٥ صفحہ ٣٤٨ "" باب کیفیة طلاق العدّة ""۔

٣۔تفسیر نورالثقلین ،جلد٥،صفحہ ٣٥٠، ٣٥١ حدیث ١٧ ،١٨ ١٩، ٢٠۔

۴۔تفسیرنورالثقلین ،جلد٥،صفحہ ٣٥٢،حدیث ٢٤۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma