تمہارے امو آل و آولادتمہاری آزمائش کاذ ریعہ ہیں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 24
چُونکہ گزشتہ آ یات میں خدا اوراس کے رسُول کی اطاعت کاحکم بلاکسِی قیدوشرط کے آ یاتھا اوراس راستہ کے اہم مو آنع میں سے ایک امو آل و ازو آج و آولاد کے ساتھ زیادہ لگائو ہے .لہٰذازیر بحث آیات میں مسلمانوں کو آس سلسلہ میں خبر دار کرتے ہُوئے پہلے کہتاہے : اے ایمان لانے و آلو! تمہاری ازو آج اوراولاد میں بعض تمہارے دشمن ہیں ان سے بچ کے رہو (یا أَیُّہَا الَّذینَ آمَنُو آ ِنَّ مِنْ أَزْو آجِکُمْ وَ أَوْلادِکُمْ عَدُو آ لَکُمْ فَاحْذَرُوہُمْ )۔
یقینا اس عدو آت کی نشانیاں کم نہیں ہیں، جب تم یہ چاہتے ہو کہ ہجرت جیسے کسِی مثبت کام کو آنجام ددوتو وہ تمہارادامن پکڑلیتے ہیں اوراس فیضِ عظیم میں رکاوٹ بنتے ہیں.نیز بعض اوقات تمہاری موت کا انتظار کرتے رہتے ہیں تاکہ تمہاری دولت کے مالک بن جائیں اوراسی قسم کی دوسری باتیں بھی ہیں ۔
اس میں شک نہیں کہ نہ توتمام اولاد اور نہ ہی تمام بیویاں ایسی ہوتی ہیں .اسی لیے من تبعیضیہ کے ذ ریعے اس معنی کی طرف اشارہ کرتاہے کہ ان میں سے بعض ایسے ہیں لہٰذاتم ان سے بچ کے رہو ۔
البتہ یہ دشمنی کبھی دوستی کے لباس میں اورخدمت کے گمان میں ہوتی ہے .کبھی سچ مچ بُری نیّت اور عدو آت و دشمنی کے ارادہ سے انجام پاتی ہے یا اپنے منافع کی غرض سے ہوتی ہے ۔
اہم بات یہ ہے کہ جب انسان دوراہے پرکھڑا ہوتاہے ،جن میں سے ایک راستہ توخدا کی طرف اوردوسرا بیوی اور اولاد کی طرف ہوتاہے اور یہ دونوں کبھی ایک دوسرے سے الگ ہوجائیں توپھر ضر وری ہے کہ ارادہ و تصمیم کرتے وقت شک و تردّد کو آپنے اندر راہ نہ دے ، بلکہ حق تعالیٰ کی رضا کوہرچیز پر مُقدّم کرے ، کیونکہ دُنیا و آخرت کی نجات اسی میں ہے ۔
اسی لیے سورہ توبہ آ یت ٢٣ میں آ یاہے :یا أَیُّہَا الَّذینَ آمَنُو آ لا تَتَّخِذُو آ آباء َکُمْ وَ ِخْو آنَکُمْ أَوْلِیاء َ ِنِ اسْتَحَبُّو آ الْکُفْرَ عَلَی الْیمانِ وَ مَنْ یَتَوَلَّہُمْ مِنْکُمْ فَأُولئِکَ ہُمُ الظَّالِمُون اے ایمان لانے و آلو اگرتمہار ے آبائو اجداد اوربھائی بند کفر کو آیمان پر مقدّم شمارکریں توتم انہیں اپنا دوست نہ بنائو ، وہ ظالم وستمگر ہیں ۔
چونکہ یہ ممکن ہے کہ یہ حکم آبائو اجداد ، شوہروں اورازو آج کی طرف سے خشو نت ، انتقام جُوئی اورافراط کابہانہ بن جائے ، لہٰذ اسی آ یت کے ذیل میں بلافاصلہ ان کے اعتدال میں رہنے کے لیے فرماتاہے : اوراگرتم معاف کردو صِرف نظر کر لو اوربخش دو تو خدابھی تمہیں اپنے عفوورحمت کا مورد قرار دے گا . کیونکہ خدا غفور ورحیم ہے (وَ ِنْ تَعْفُو آ وَ تَصْفَحُو آ وَ تَغْفِرُو آ فَِنَّ اللَّہَ غَفُور رَحیم) ۔
اس بناء پر اگروہ اپنے عمل سے پشیمان ہوجائیں اور عُذ رخو آہی کریں یاہجرت کے بعد تم سے آملیں تو آنہیں اپنے آپ سے دور نہ کرو ، اور عفو و در گزر کو آختیار کرو جیساکہ تم توقّع رکھتے ہوکہ خدا بھی تمہار ے ساتھ ایسا ہی سلوک کرے ۔
بی بی عائشہ کی داستانِ افک کے مُتعلّق سورہ نور کی تفسیر میں آ یاہے : جب مدینہ میں چرچا کرنے و آلوں کاکام اُونچا چلاگیا توبعض مومنین کہ جن کے رشتہ دار یہ چرچا کرنے و آلوں میں سے تھے ، انہوں نے یہ قسم کھا لی ، کہ انہیں کوئی مالی امداد نہیں دیں گے ، تب اسی سورہ ٔ نور کی آ یت ٢٢ نازل ہوئی : وہ لوگ جومالی برتری اور زندگی میں وسعت رکھتے ہیں اُنہیں یہ قسم نہیں کھانی چاہیئے کہ وہ اپنے عزیزوں ، حاجت مندوں اورراہِ خدا مین ہجرت کرنے و آلوں پرخرچ کرنے سے باز رہیں چاہیئے کہ عفو ودرگزر اورصرف نظر کریں ( الاتُحِبُّونَ أَنْ یَغْفِرَ اللَّہُ لَکُم) : کیاتم یہ نہیں چاہتے کہ خدا تمہیں بخش دے ۔
اس بارے میں کہ عفو صفح اور غفران کے درمیان کیافر ق ہے ؟ ان کے لغوی مفہُوم کی طرف توجہ کرنے سے و آضح ہوجاتاہے ، کہ بخشش ِ گناہ کے مراتب کے سلسلہ کوبیان کرتاہے . کیونکہ عفو سزا سے صرفِ نظر کرنے کے معنی میں ہے ، اورصفح اس سے بالاتر ہے ،یعنی ہرقسم کی سرزنش کوترک کرنا.اور غفران گناہ کی پردہ پوشی اوراسے فراموش کردینے کے معنی میں ہے ۔
اِس طرح اہل ایمان کو آپنے اعتقاد کی قطعِی حفاظت کرتے ہُوئے .اس اولاد اوربیوی کے سامنے جو آنہیں راہِ خطا کی دعوت دیتے ہیں ،سرتسلیم خم نہ کرتے ہُوئے جتنا ہوسکے تمام مراحل میں محبت اورعفو ودر گزر سے دریغ نہیں کرناچاہیئے ،کیونکہ یہ باتیں ان کی تربیّت اورانہیں خداکی اطاعت کی طرف لوٹانے کا ایک ذریعہ ہیں ۔
بعد و آلی آ یت میں ایک اوراصلِ کلّی کی طرف یعنی امو آل اوراولاد کے بارے میں اشارہ کرتے ہُوئے فرماتاہے : تمہارے امو آل اوراولاد تمہاری آزمائش کا ایک ذریعہ ہیں نَّما أَمْو آلُکُمْ وَ أَوْلادُکُمْ فِتْنَة ) ۔
اگر تم اس آ زمائش کے میدان میں کامیاب ہوجائو تو اللہ کے ہاں (تمہارے لیے ) عظیم اجروپاداش ہے (وَ اللَّہُ عِنْدَہُ أَجْر عَظیم) ۔
گزشتہ آیت میں انسان کے لیے صرف بعض بیویوں اوراولاد کی عداوت کی گفتگو تھی ،جو آسے خدا کی اطاعت کے راستے سے منحرف کرکے گناہ اور بعض اوقات کُفر کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں .لیکن یہاں تمام اولاد امو آل کی بات ہورہی ہے .کہ وہ انسان کی آزمائش کا ایک ذ ریعہ ہیں ۔
درحقیقت خدا انسان کی تربیّت کے لیے ہمیشہ اُسے امتحان کی گرم بھٹی میں ڈال دیتاہے اورمختلف امُور کے ساتھ اس کو آزماتاہے .لیکن یہ دونوں (امو آل و آلاد) اِس کے امتحان کے اہم ترین وسائل ہیں کیونکہ ایک طرف سے ایمان کی کشش اوردوسری طرف سے اولاد سے لگائو ، انسان میں اِس قسم کی قوی کشش پیدا کر یدتے ہیں ، ایسے مو آقع پر جب خداکی رضا ان کی رضا سے جُداہوجاتی تو آنسان سخت فشار اور دبائو میں ہوتاہے ۔
انما کی تعبیر جوعام طور پرحصر کے لیے لائی جاتی ہے ، اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ یہ دونوں موضوع دوسری ہرچیز سے زیادہ امتحان کاذریعہ ہین .اسی بناء پر امیر المؤ منین علیہ السلام نے فرمایا:
لایقولن احدکم اللھم انی اعوذ بک من الفتنة لا نہ لیس احد ا لا وھو مشتمل علی فتنہ ،ولکن من استعاذ فلیستعذ من مضلات الفتن فان اللہ سبحانہ یقول: و آعلمو ا انما امو آلکم و آولاد کم فتنة۔
تم میں سے کوئی شخص یہ نہ کہے کہ خداوندا! میں تجھ سے امتحان و آزمائش سے پناہ مانگتا ہوں ، کیونکہ ہر شخص کے پاس آ زمائش کاذ ریعہ ہوتاہے (اور کم از کم اس کے پاس مال و اولاد ہوتے ہیں ، اوراصُولی طورپر دُنیا کی زندگی کامزاج ، آزمائش اورامتحان کی کٹھالی ہے ) لیکن جوشخص یہ چاہتا ہے کہ خُدا سے پناہ لے تو وہ گمراہ کرنے و آلے امتحانوں سے پناہ لے . کیونکہ خداکہتا ہے : جان لو کہ تمہارے امو آل و آولاد آزمائش کا ایک ذ ریعہ ہیں ( 1) ۔
یہی مطلب تھوڑ ے سے فرق کے ساتھ سورہ انفال کی آ یت ٣٨ میں بھی نظر آتاہے (جوکچھ امیرالمو منین علی علیہ السلام کے کلام اور اوپر و آلی رو آیت کے ذیل میں بیان ہُو آ ہے ،وہی تعبیر ہے جوسورة انفال میں آ ئی ہے غور کیجئے ) ۔
اس موقع پر بہت سے مفسّرین اومحدّثین نے نقل کیاہے کہ ایک دن رسُول ِ خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) منبر پر خطبہ دے رہے تھے . حسن وحسین علیہما السلام ،جو دونوں بچے تھے ، مسجد میں و آرد ہُوئے .انہوں نے سُرخ رنگ کے کپڑے پہنے ہُوئے تھے اور چلتے چلتے کبھی پھسل کر گرجاتے تھے . جونہی رسُول ِ خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی نگاہ ان پر پڑی توخطبہ دیا اور منبرسے اُتر کرانہیں اپنی آغوش میں لےلیا ، پھران ان کو منبر پر لے گئے اوراپنی گود میں بٹھا کرفرمایا :خدائے عزّ و جّل نے درست فرمایا کہ جوکہتاہے : جب میری نظران دونوں بچّوں پرپڑی اورمیں نے دیکھا کہ وہ چلتے پھسل جاتے ہیں تومُجھ سے نہ رہاگیا اور میں نے اپنی گفتگو کوچھوڑ کرانہیں اٹھالیا اس کے بعد آپ نے اپنے خطبہ کوجاری کیا( 2) ۔
اس بات پرتوجہ رکھتی چاہیے کہ فتنہ اور آزمائش کبھی توخیر کی اور کبھی شرکی آ زمائش ہوتی ہے ، یہاں ممکن ہے خیر کی آزمائش مُراد ہو آس معنی میں کہ خدا چاہتا ہے اپنے پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو آ زمائے .کیا ایسا ہوسکتاہے کہ وہ منبر پر خطبہ دیتے وقت ان دونوں شہز ادوں کی حالت سے غافل ہوجائے جوجگر گوشہ زہرا اسلام اللہ علیہا ہیں اوران سے ہرایک آئندہ بلند مقام پر جائز ہونے و آلاہے . یاخطبہ کاجلال و شوکت ، محبت وعاطفت کے اظہار میں مانع تونہیں ہوتا. ورنہ مُسلّمہ طورپر پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) بچّوں کی محبت کی بناء پر ہر گز خدا کی یاد اورتبلیغ وہدایت کی بھاری ذمّہ داریوں کے انجام دینے سے غافل نہیں ہُوئے تھے ۔
بہرحال پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کایہ عمل تما م مسلمانوں کے لیے ایک تنبیہ تھاکہ وہ علی علیہ السلام اورفاطمہ سلام اللہ علیہا کے ا ن دونوں شہزادوں کی قدرو منزلت اورحیثیت کوپہچانیں ۔
اسی لیے ایک حدیث میں جو آہل سُنّت کے مشہُور منابع میں نقل ہُوئی ہے یہ آ یاہے کہ براء بن غازب (مشہور صحابی ) یہ کہتاہے :
رأیت الحسن بن علی علیٰ عاتق النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم وھو یقول : اللہم انی احبہ فاحبہ ۔
میں نے حسن علیہ السلام بن علی علیہ السلام کوپیغمبر کے دوش پردیکھا جب کہ آپ فرمارہے تھے:خدا یا میں اے دوست رکھتاہُوں .توبھی اسے دوست رکھ ( 3) ۔
دوسری رو آیات میں آیا ہے کہ بعض اوقات حسین علیہ السلام آ تے اور سجدہ کی حالت میں پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے دوش پرسو آر ہوجاتے ہیں اورحضرت انہیں نہ روکتے ( 4) ۔
چنانچہ یہ سب احادیث ان دو عظیم اماموں کی مقام کی عظمت کو بیان کرتی ہیں ۔
بعد و آلی آ یت میں نتیجہ کے عُنو آن سے فرماتاہے : اب جبکہ ایساہے توجتنا بھی تم سے ہوسکتاہے ، تقو آئے الہٰی اختیار کرو، اس کے فرامین کوسنو اوراطاعت کرو اوراس کی راہ میں انفاق کرو ، یہ تمہار ے لیے بہتر ہے ( فَاتَّقُو آ اللَّہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَ اسْمَعُو آ وَ أَطیعُو آ وَ أَنْفِقُو آ خَیْراً لِأَنْفُسِکُمْ ) ۔
پہلے گناہوں سے اجتناب کرنے کاحکم دیتاہے (کیونکہ تقویٰ کی زیادہ ترنظر گناہ سے اجتناب کرنے کی طرف ہے ) اس کے بعد اطاعت کرنے کاحکم اور سننے کافرمان جو آطاعت کامقدّمہ ہے پھر اطا عتوں میں سے خصوصیّت کے ساتھ ،مسئلہ انفاق پرتکیہ کرتاہے جوخدا کی اہم ترین آزمائشوں میں سے ہے .انجام کارکہتاہے کہ ان سب باتوں کافائدہ خود تمہیں کو ہے ۔
بعض مفسّرین نے خیراً کی تفسیر مال سے کی ہے جومثبت کاموں کے انجام دینے کا ایک ذ ریعہ ہے . جیساکہ آ یئہ وصیّت میں بھی اسی معنی میں ا یا ہے :کُتِبَ عَلَیْکُمْ ِذا حَضَرَ أَحَدَکُمُ الْمَوْتُ ِنْ تَرَکَ خَیْراً الْوَصِیَّةُ لِلْو آلِدَیْنِ وَ الْأَقْرَبینَ بِالْمَعْرُوف: تم پر و آجب ہے کہ جب تم میں سے کسِی کی موت کاوقت آ جائے تو آگروہ اپنی طرف سے یاد گار کے طورپر خیر چھوڑ جائے تو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں کے لیے شائستہ طورپر وصیّت کر جائے ( بقرہ : ١٨٠) ۔
بہُت سے مفسّرین نے خیر کی ایک وسیع معنیٰ میں بھی تفسیر کی ہے اوراسے انفاق کی قید سے مقیّد نہیں سمجھا ہے بلکہ اسے آ یت سے مربُوط سمجھا اورانہوں نے اس بارے میں یہ کہا ہے : اس سے مُراد یہ ہے کہ ان تمام احکام کی اطاعت خود تمہارے ہی فائدے میں ہے ( یہ تفسیر زیادہ مناسب نظر آتی ہے ) ( 5) ۔
اس نکتہ کاذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ طاقت کے مطابق تقویٰ کاحکم سورہ آ ل ِ عمران کی آ یت ١٠٢ سے کوئی منافات نہیں رکھتا .جویہ کہتی ہے : اتقو آ اللہ حق تقاتہ جیساکہ تقویٰ اورپرہیزگاری کاحق ہے ویساہی خدا سے ڈر و (بلکہ یہ دونوں حکم ایک دوسرے کی تکمیل کرتے .کیونکہ ای جگہ کہتاہے : جتنی تم میں طاقت ہے اتناتقویٰ اختیار کرو اور دوسری جگہ کہتاہے : تقویٰ کاحق اداکرو مُسلّم ہے کہ تقویٰ کاحق اداکرنا ، انسان کی قدرت اور تو آنائی کی مقدار پرمُنحصر ہے ،کیونکہ تکلیف مالایطاق کاکوئی معنی نہیں، اورہدف ومقصد یہ ہے کہ انسان اس رستے میں اپنی آخری کوشش کو کام میں لائے ۔
اس بناء پر جن لوگوں نے زیربحث آیت کو آل ِ عمران کی آ یت کاناسخ سمجھا ،وہ غلطی پر ہیں ۔
اس آ یت کے آخر میں مسئلہ انفاق پر تاکید کے عنو آن سے فرماتاہے : جولوگ اپنے بخل اورحرص سے بچ جائیں وہی رستگار و کامیاب ہیں ُُ (وَ مَنْ یُوقَ شُحَّ نَفْسِہِ فَأُولئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ ) ۔
شح بخل کے معنی میں ہے جوحرص سے تو آئم ہو ، جیساکہ ہم جانتے ہیں کہ یہ دوصفاتِ رذیلہ ، انسان کی نجات کے سخت پُورے وجُود کے ساتھ اس کی طلب کرے ،خود سازی اور تہذیب ِ نفس کی کوشش کرے اوران دونوں صفاتِ رذیلہ سے نجات حاصل کرلے توپھراس نے اپنی سعادت کی ضمانت حاصِل کرلی ہے ۔
اگرچہ رو ایات میں امام صادق علیہ السلام سے آیاہے :
من ادی الز کوٰة فقد وقی شح نسہ۔
جس شخص نے زکوٰة ادا کر دی اُس نے بخل اورحرص سے رہائی پائی ( 6) ۔
ایک اورحدیث میں آیاہے امام صادق علیہ السلام شام سے صبح تک خانہ خدا کاطواف بجالاتے اوریہ فرماتے رہتے تھے :
اللہم قی شح نفس
خداوندا!مجھے میرے حرص وبُخل سے بچا۔
آپ کے اصحاب میں سے ایک نے عرض کیا : میں اپ پر قربان جائوں .آج رات میں نے اس دعا کے علاوہ اورکچھ نہیں سُنا ،کوئی اور دعا بھی کیجیے آپ نے فرمایا :
نفس کے بخل اورحرص سے بڑھ کر اورکون سی چیز زیادہ خطرناک ہے ، جبکہ خدا فرماتاہے ۔
ومن یوق شح نفسہ فاو لٰئک ھم المفلحون ( 7) ۔
اس کے بعد انفاق کرنے کی تشویق اورنفس کوبُخل وشح سے روکنے کے لیے فرماتاہے : اگرتم خدا کوقرضِح حسنہ دو گے تووہ اسے کئی گنا کردے گا اور تمہیں بخش دے گا اورخدا قد ر دان اور بُرد بار ہے نْ تُقْرِضُوا اللَّہَ قَرْضاً حَسَناً یُضاعِفْہُ لَکُمْ وَ یَغْفِرْ لَکُمْ وَ اللَّہُ شَکُور حَلیم ) ۔
کتنی عجیب تعبیر ہے کہ جسے قرآن مجید میں انفاق فی سبیل اللہ کے بارے میں بارہا دُدہرایاگیاہے .وہ خداجو ہمارے وجود کی اصل وفرع کاپیدا کرنے و آلا ، تمام نعمتوں کابخشنے و آلا اور تمام ملکیّتوں کامالک ہے ،وہ ہم سے قرض طلب کر تاہے پھراس کے مقابلے میں اجرِ مضاعف اوربخشش کاوعدہ دیتا اورہمارا شکر یہ بھی اداکرتاہے .اس سے بالاتر کسِی لطف ومحبت کاتصوّر ہوہی نہیں سکتا اوراس سے بڑھ کر بزرگو آری اور رحمت ممکِن ہی نہیں ہے .ہم کیاہیں اورہمار ے پاس کیا ہے کہ ہم اس کوقرض دیں ؟اور سب سے انو کھی بات یہ کہ ہم یہ سب عظیم اجرو ثو آب کیوں لیں گے ۔
کیایہ سب کچھ ایک طرف سے مسئلہ انفاق کی اہمیّت او ر دُوسری طرف سے خدا کابندوں کے بارے میںلطفِ بے پایاں نہیں ہے ؟
قرض اصل میں قطع کرنے اور کاٹنے کے معنی میں ہے .اور جب لفظ حسن کے ساتھ ہوتو مال کو آپنے سے جدا کرنے اور راہِ خیر میں دینے کے معنی میں ہے ۔
یضا عفہضعف (بروزن شعر ) کے مادّہ سے ہے .جیساکہ ہم نے پہلے بھی بیان کیا ہے کہ یہ صرف دوگنا کے معنی میں نہیں بلکہ کئی گنا کے معنی میں بھی دیتاہے .یہ لفظ انفاق کے بارے میں سات سوگنا تک ،بلکہ اس سے زیادہ کے لیے بھی قرآن میں آ یا ہے (بقرہ ۔ ٢٦١) ۔
ضمنی طورپر ( یغفرلکم) کاجملہ اس بات کی دلیل ہے کہ انفاق گناہ کی بخشش کے بہت سے عو آمل میں سے ایک ہے ۔
شکور کی تعبیر کہ جوخدا کی ایک صفت ہے ، اس بات کی دلیل ہے کہ خدا اپنے بندوں کاعظیم اجرو اورثو آبوں کے ذ ریعے شکر یہ اداکرتاہے .نیزاس کاحلم ہوناگناہوں کی بخشش اور بندوں کوسزادینے میں جلدی نہ کرنے کی طرف اشارہ ہے ۔
یہاں تک کہ آخری آ یت میں فرماتاہے : وہ پنہاں و آشکار سے آگاہ اور قادر وحکیم ہے :(عالِمُ الْغَیْبِ وَ الشَّہادَةِ الْعَزیزُ الْحَکیمُ) ۔
وہ بندوں کے اعمال اورخصُوصاً ان کے پنہاں و آشکار انفاق سے باخبرہے .اگروہ ان سے قرض کاتقّاضا کرتاہے تویہ احتیاج ونیاز اورعدم قدرت کی وجہ سے نہیں ، بلکہ کمالِ لطف ومحبت کی وجہ سے ہے ، اگروہ ان کے انفاق کے مقابلہ میں ان تمام اجروں اور ثو آبوں کاوعدہ دیتاہے تو یہ بھی اس کی حکمت کا مققضٰی ہے ۔
اس طرح خداکے پنچگانہ اوصاف کہ جن کی طرف اس آ یت اوراس سے پہلی آ یت میں اشارہ ہو آ ہے ، یہ سب خدا کی راہ میں انفاق کے مسئلہ کے ساتھ ایک قسم کاربط رکھتے ہیں .لیکن خدا کی ان پانچ صفات کی طرف توجّہ ، انفاق کی تشویق کے مسئلہ کے علاوہ انسان کو کلّی طورپر پروردگار کی اطاعت اور گناہ سے رکنے میں زیادہ مصمّم بناتی ہے اوراس کوقوتِ قلب ، ارادہ کی طاقت اورروحِ تقویٰ بخشتی ہے ۔
1۔ نہج البلاغہ ،کلمات قصار ،جملہ ٩٣۔
2۔ "" مجمع البیان جلد ١٠ صفحہ ٣٠١ (زیر بحث آیت کے ذیل میں ) اسی حدیث کو تفسیر قرطبی ، روح المعانی ، فی ضلال قرآن اورالمیزان میں بھی مختصر اختلاف کے ساتھ نقل کیاگیاہے ۔
3۔ صحیح مسلم، جلد٤،صفحہ ١٨٨٣ ( باب فضائل الحسن و آلحسین علیہما السلام حدیث ٨٥) ۔
4۔ بحار ،جلد ٤٣ صفحہ ٢٩٦ حدیث ٥٧۔
5۔ پہلی تفسیر کی بناء پر "" خیرا"" ( انفقو آ) کامفعول ہے اوردوسری تفسیر کے مطابق ایک فعلِ مقدّر کی خبر ہے اورتقدیر میں اس طرح تھا . یکن خیراً لکم ۔
6۔مجمع البیان م،جلد ١٠ ،صفحہ ٣٠١۔
7۔نورالثقلین ،جلد ٥،صفحہ ٣٤٦۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma