تمام مصائب اسی کے فرمان سے ہیں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 24
پہلی زیرِ بحث آ یت میں اس جہان کے درد ناک مصائب اورحو آدث کے بارے میں ایک اصلِ کلّی کی طرف اشارہ کرتاہے ، شاید اس وجہ سے کہ اس جہان میں مصائب کاوجُود کفّار کے لیے ہمیشہ نفی عدالت کے بارے میں ایک دستاویز رہاہے یا اس لحاظ سے کہ ایمان اور عمل کی انجام دہی کی راہ میں ہمیشہ مشکلات موجود رہتی ہیں ۔
جن کے مقابلہ میں مقاومت کے بغیر مومن کچھ بھی نہیں کرسکتا .اِس طرح سے ان آیات کا ربط گذشتہ آ یات سے و آضح ہوجاتاہے ۔
پہلے فرماتاہے : کوئی مصیبت رُو نما نہیں ہوتی مگر خُدا کے اذن (ما أَصابَ مِنْ مُصیبَةٍ ِلاَّ بِِذْنِ اللَّہ) ۔
اس میں شک نہیں کہ اس جہان کے تمام حو آدث اذنِ خُدا سے ہیں .کیونکہ توحید ِ افعالی کے مقتضیٰ کے مُطلابق سارے عالمِ ہستی میں کوئی چیز حق تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر تحقیق نہیں پاتی ، لیکن چونکہ مصائب ہمیشہ سے ایک سو آلیہ نِشان کی صُورت میں ذہنوں میں بیٹھے ہُوئے ہیں ، اس لیے خصُوصیّت کے ساتھ اس پر توجّہ ہُوئی ہے ۔
البتّہ یہاں اذن سے مُراد وہی خدا کا ارادہ تکوینی ہے نہ کہ ارادۂ تشر یعی ۔
یہاں ایک اہم سو آل سامنے آ تاہے اور وہ یہ کہ ان مین سے بہُت سے مصائب ظالموں اور جابروں کے ارادہ سے رو نما ہوتے ہیں ، یا انسان خود ہی اپنی کوتاہی یاجہالت سے کوئی کام کربیٹھے یاغلط کاری کی وجہ سے ان میں گرفتار ہو جاتاہے . توکیا یہ سب کے سب اذنِ خدا سے ہوتے ہیں ؟
اِس سو آل کاجو آب یہ ہے کہ وہ تمام آ یات جومصائب کے سلسلہ میں قرآن مجید میں آ ئی ہیں ان سے یہ معلوم ہوتاہے کہ مصائب دوقسم کے ہیں :
١: ایسے مصائب جو آنسانی زندگی کی طبیعت میں اورمزاج میں رچے بسے ہُوئے ہیں اورانسان کے ارادہ کا ان میں معمولی سابھی دخل نہیں ہے ، مثلاًموت اور کچھ دُوسرے طبیعی اور درد ناک حو آدث۔
٢:وہ مصائب جن میں انسان کاکسِی نہ کسی طرح دخل ہے ۔
قرآن پہلی قسم کے مصائب کے بارے میں کہتاہے کہ وہ سب اذنِ خُد اسے رُو نما ہوتے ہیں ۔دوسری قسم کے بارے میں کہتا ہے کہ وہ خود تمہارے اعمال کی وجہ سے تمہیں دامنگیر ہوتے ہیں(١) ۔
اس بناء پر کوئی شخص یہ بہانہ نہیں بنا سکتا کہ چُونکہ تمام مصائب خداکی طرف سے ہیں، لہٰذاظالموں کے مقابلہ میں خاموشی اختیار کرتے ہُوئے ان سے مبارزہ کے لیے نہیں اٹھناچاہیے . نیز انسان اس بہانے سے بیمار یوں اور آفات سے مُقابلہ کرنے اورفقر و جہالت سے مبارزہ کرنے سے بھی دست بردار نہیں ہوسکتا ۔
البتّہ یہاں ایک او ر نکتہ بھی ہے اوروہ یہ ہے کہ ایسے مصائب کہ جن میں انسان کاکچھ عمل دخل ہے ، ان کے اسباب کی تاثیر بھی خداکی طرف سے اوراس کے اذن وفرمان سے ہے کہ اگروہ ارادہ کرے توہر سبب بیر نگ اور بے اثر ہوجاتاہے ۔
اس کے بعد آیت کے آخر میں مومنین کوبشارت دیتاہے جوشخص خداپر ایمان لے آ ئے .خدا اس کے دل کوہدایت کرتاہے ( اس طرح سے کہ وہ مصائب کے مُقابلے میں گھٹنے نہ ٹیکے ، مایوس نہ ہو اور شور و بیتابی نہ کرے )(وَ مَنْ یُؤْمِنْ بِاللَّہِ یَہْدِ قَلْبَہُ ) ۔
یہ خدائی ہدایت جب انسان کے پاس آ تی ہے تووہ نعمتوں میں شاکر ، مصیبتوں میںصابر اورقضائے الہٰی کے مقابلے میں سرتسلیم خم کردیتاہے ۔
البتّہ ہدایت قلبی ایک وسیع معنیٰ رکھتی ہے کہ صبرو شکر رجاو تسلیم اور انا للہ و آنا الیہ راجعونکہنا ، ان میں سے ہرایک اس کی شاخ ہے .ہاں یہ جو بعض مفسّری
خصوصیّت کے ساتھ ان میں سے کسِی ایک موضوع کو نقل کیاہے ،حقیقت میں وہ آ یت کاپورا مفہوم نہیں بلکہ وہ و آضح مصداق کابیان ہے . آ یت کے آخر میں فرماتا ہے . خدا ہرچیز کوجانتاہے (وَ اللَّہُ بِکُلِّ شَیْء ٍ عَلیم ) ۔
ممکن ہے اس تعبیر میں مصائب اوربلائوں کے فلسفہ کی طرف اجمالی اشارہ ہو کہ خُدا اپنے علم اوراپنی بے پایاں اگاہی کی وجہ سے بندوں کی تربیّت، بیدار باش کے اعلان اور ہرقسم کے غر ور اورغفلت سے مبارزہ کے لیے کبھی کبھی ان کی زندگانی میں مصائب کو آیجاد کردیتاہے تاکہ وہ سوئے نہ رہیں .دنیامیں اپنی حیثیّت کو بھُول نہ جائیں اور طُغیان و سرکشی کی طرف ہاتھ نہ پڑھائیں ۔
چونکہ مبدء ومعاد کی معرفت ،جن کی گزشتہ آ یات میں بنیاد رکھی گئی ہے ، اس کا حتمی اثر ، خُدا اور پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی عین اطاعت کے لیے سعی و کوشش ہے ،لہٰذا بعدو آلی آ یت میں مزید کہتاہے . اورخداکی اطاعت کرو اور پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی اطاعت کرو (وَ أَطیعُو اللَّہَ وَ أَطیعُو الرَّسُولَ ) ۔
یہ بات و آضح ہے کہ رسُول ِ خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی اطاعت بھی خداکی اطاعت کاہی ایک شعبہ ہے . کیونکہ رسول اپنی طرف سے کوئی چیزنہیں کہتا ، یہاں اطیعو کی تکرار اسی چیز کی طرف اشارہ ہے کہ یہ دونوں ایک دُوسرے کے عرض میں نہیں ہیں بلکہ ان مین سے ایک دوسری سے قوّت حاصِل کرتی ہے .اِس سے قطعِ نظر خداکی اطاعت ، اصُول وقو آنین اور تشریعِ الہٰی سے مربُوط ہے .اِس بناء پر ان میں سے ایک اصل ہے اور دوسری اِس کی فرع ہے ۔
اس کے بعد فرماتاہے : اگرتم رو گر دان ہو جائو اور اطاعت نہ کرو تووہ تمہیں مجبور کرنے پر مامور نہیں ہے .کیونکہ ہمارے رسول کاوظیفہ اور ذمّہ داری توصرف و آضح طورپر احکام پہنچا دینا ہے (فَِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَِنَّما عَلی رَسُولِنَا الْبَلاغُ الْمُبینُ)(٢) ۔
ہاں وہ پیغام حق پہنچانے کاذمّہ و آر ہے اور بس یہی اس کی ذمّہ داری ہے .اس کے بعد تمہارا معاملہ خُدا کے ساتھ ہے ، یہ تعبیر ایک قسم کی پختہ اوراجمالی تہدید ہے ۔
بعد و آلی آ یت میں توحید در عبُود یت کے مسئلہ کی طرف اشارہ کرتاہے .جووجُوب اطاعت کے لیے ایک دلیل کی حیثیت رکھتی ہے .فرماتاہے : اللہ وہی ہے اوراس کے سو آ اور کوئی معبُود نہیں (اللَّہُ لا ِلہَ ِلاَّ ہُوَ ) ۔
پھر جب یہ بات ہے تومومن کو آسی پر بھروسہ کرناچاہیے (وَ عَلَی اللَّہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُون) ۔
اس کے علاوہ کوئی بھی عبودیّت کے لائق نہیں ہے ،کیونکہ مالکیّت ، قُدرت ،علم اورغنٰی سب اسی کے لیے ہیں .دوسروں کے پاس جوکچھ بھی ہے وہ اسی کی طرف سے ہے .اسی وجہ سے انہیں اس کے علاوہ کسِی غیر کے سامنے سرتسلیم و تعظیم خم نہیں کرناچاہیے ، ہرقسم کی مُشکل کے حل کے لیے اسی سے مدد مانگنی چاہیے اور صرف اسی پر توکّل کرناچاہیئے ۔
١۔سورہ حدیدکی آیت ٢٢ ،شور ٰی کی آیت ٣٠ ، اور آل عمران کی آ یت ١٦٥ کی طرف رجوع کرنے سب مطلب پُورے طورپر و آضح ہوجاتاہے .اس سلسلہ میں سورہ حدید کی آ یت ٢٢ کے ذیل میں زیادہ تفصیل آ ئی ہے ۔
٢۔"" فان تولیتم ""جملہ شرطیہ ہے جس کی جزامحذوف ہے اورتقدیر میں اس طرح ہے : فان تولیتم فقد ادی وظیفتہ .یا . فان تولیتم لایقھرکم علی الایمان یا لابأس علیہ وغیرہ . اگرتم رو گردانی کرو تو وہ اپنی ذمّہ داری پوری کرچکاہے یاوہ تمہیں ایمان پرمجبُور نہیں کرتا، یا اس کے لیے کوئی حرج نہیں ہے ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma