وہ دلوں میں چھپے ہُوئے اسرار سے آگاہ ہے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 24
اس سورہ کابھی تسبیحِ خدا سے آغاز ہوتاہے .وہ خدا جوکل جہانِ ہستی کاملک اوراس پرحاکم ہے اور ہر چیزپرقدرت رکھتاہے ، فر ماتا ہے : جوکچھ آ سمانوں میں ہے اور جوکچھ زمین میں ہے خداکی تسبیح کرتاہے (یُسَبِّحُ لِلَّہِ ما فِی السَّماو آتِ وَ ما فِی الْأَرْضِ ُ ) ۔
اس کے بعد مزید کہتاہے : مالکیّت اور حا کمیّت اسی کے لیے ہے (لَہُ الْمُلْک) ۔
اور ( اسی بناء پر ) تمام حمدوستائش کی بازگشت اسی کی پاک ذات کی طرف ہے (وَ لَہُ الْحَمْدُ ) ۔
اوروہ ہرچیز پرقدرت رکھتاہے (وَ ہُوَ عَلی کُلِّ شَیْء ٍ قَدیر) ۔
چونکہ ہم تمام موجودات ِعالم کی تسبیح عمومی کے بارے میں بارہا بیان کرچکے ہیں اور متعدد تفاسیر ، جو آس موضوع کے بارے میں بیان ہُوئی ہیں انہیں ہم نقل کرچکے ہیں اس لیے تکرار کی ضرورت نہیں ہے ۔
یہ تسبیح اورحمد حقیقت میں اس کے ہرچیزپر قادرہو نے اورہرچیزپر قادر ہونے اورہر چیزکے اس کی مالکیّت ہونے کالازمہ ہے ،کیونکہ اس کے تمام اوصاف جمال و جلال انہیں دو آمور میں چھُپے ہُو ئے ہیں ۔
اس کے بعدامرِ خلقت و آفرینش کی طرف ،جو قدرت کالازمہ ہے ، اشارہ کرتے ہُوئے فرماتاہے : اسی نے تمہیں پیداکیا ہے (ہُوَ الَّذی خَلَقَکُمْ) ۔
اورتمہیں آزادی اوراختیار کی نعمت عطاکی . اِس لیے تم میں سے ایک گروہ مومن اورایک گروہ کافرہو گیا (فَمِنْکُمْ کافِر وَ مِنْکُمْ مُؤْمِن )(١) ۔
اِس طرح سے خدائی امتحان اور آزمائش کابازار گرم ہوگیا، اوراس اثناء میں جوعمل بھی تم انجام دیتے ہوخدا اُسے دیکھتاہے (وَ اللَّہُ بِما تَعْمَلُونَ بَصیر) ۔
اس کے بعد مسئلہ خلقت ِ کومزید وضاحت کے ساتھ بیان کرتے ہُوئے اور خلقت و آ فرینش کے ہدف کی طرف اشارہ کرتے ہُوئے بعد و آلی آ یت میں فرماتاہے : خدانے آسمانوں اور زمین کوحق کے ساتھ پیداکیا ہے (خَلَقَ السَّماو آتِ وَ الْأَرْضَ بِالْحَقِّ ) ۔
اس کی خلقت میں بھی حق اورایک دقیق نظام ہے اوراس میں حکیمانہ ہدف اور حق پر مبنی مصلحتیں بھی ہیں .چنانچہ سورہ ص کی آ یت ٢٧ میں بھی فرماتاہے : وَ ما خَلَقْنَا السَّماء َ وَ الْأَرْضَ وَ ما بَیْنَہُما باطِلاً ذلِکَ ظَنُّ الَّذینَ کَفَرُو آ فَوَیْل لِلَّذینَ کَفَرُو آ : ہم نے آسمان اور زمین کو آورجو کچھ ان دنوں کے درمیان ہے بے مقصد پیدانہیں کیاہے . یہ کافروں کاگُمان ہے ۔
اس کے بعد انسان کی خلقت کوبیان کرتے ہُوئے اور ہمیں سیرِ آفاتی سے سیر انفسی کی طرف دعوت دیتے ہُوئے مزید کہتاہے : اس نے تمہیں صُورت عطاکی اور تمہاری بہترین تصویر بنائی (وَ صَوَّرَکُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَکُمْ ) ۔
اس اِنسان کوجس کاظاہر آ راستہ اور باطن پیراستہ ہے ، ایک روشن عقل اورقوی شعور عطاکیا اور جوکچھ پُورے عالمِ ہستی میں ہے اس کے نمونے اس کے وجُود میں پیدا کیے ، اس طر ح سے کہ عالمِ کبیر اس جرمِ صغیر میں خُلاصہ ہوگیا ۔
لیکن جیساکہ آ یت کے آخر میں فر ماتاہے : انجام کار ہر چیز کی بازگشت اسی کی طرف ہے (وَ ِلَیْہِ الْمَصیر) ۔
ہاں ! وہ انسان جومجموعہِ عالم ہستی کا ایک جُز ہے ،خلقت کے لحاظ سے کل عالم کے باہدف ہونے کے ساتھ ہم آہنگ ہے .پست ترین مراحل سے اس نے چلناشروع کیا ، اور غیر متنا ہی منزل کی طرف ،جوحق تعالےٰ وجودِ بے پایاں اور خدا کاقرب ہے ) آگے بڑھ رہاہے ۔
فاحسن صورکم (تمہار ی بہترین صورت بنائی ) کی تعبیر ظاہری صُورت کوبھی شامل ہے اور باطنی صورت کوبھی جِسم کے لحاظ سے بھی اور رُوح کے لحاظ سے بھی .سچ تویہ ہے کہ انسان کے جسم وجان پر ایک اجمالی نظر ڈالنے سے پتہ چلتاہے کہ عالمِ ہستی کاخوبصورت ترین موجود یہی ہے .خُدا نے اس موجود کی خِلقت میں عجیب غریب قُدرت نمائی کی اوراسے ہرلحاظ سے کامل بنایا ہے ۔
چونکہ انسان کو آیک عظیم مقصد کے لیے پیداکیا گیاہے ،لہٰذا اسے ہمیشہ پروردگار کی نگرانی میں رہنا چاہیے و پر وردگار جو آس کے ظاہر و باطن سے با خبر ہے اِس لیے بعد و آلی آ یت میں فرماتاہے : خُدا اُسے بھی جانتا ہے جو آسمانوں اور زمین میں ہے اوراس سے بھی باخبر ہے جسے تم پنہاں یا آشکار ا کرتے ہو ، وہ ان عقا ید اور نیّتوں بھی آگاہ ہے جو تمہار ے سینوں کے اندر ہیں (یَعْلَمُ ما فِی السَّماو آتِ وَ الْأَرْضِ وَ یَعْلَمُ ما تُسِرُّونَ وَ ما تُعْلِنُونَ وَ اللَّہُ عَلیم بِذاتِ الصُّدُورِ) ۔
یہ آیت خدا کے بے پایاں علم کی تین مرحلوں میں تصویر کشی کرتی ہے :
اوّل : اس کاعلم آسمانوں اور زمین کے تمام موجودات کے بارے میں ۔
دوئم : اس کا علم انسانوں کے اعمال کے بارے میں چاہے وہ چھپا کر تے ہوں یا آشکار ا کرتے ہوں ۔
سوئم : خصوصیّت کے ساتھ عقایدِ باطنی ،نیتوں کی کیفیّت کو اور جو کچھ انسان کے دل وجان پر حکم فرما ہے ، اسے بھی جانتاہے ۔
انسان میں خدا کے اس وسیع علم کی معرفت کاحد سے زیادہ تربتی اثر ہوتاہے .یہ اس کوخبردار کرتاہے کہ توچاہے جوکچھ بھی ہے اور جہاں کہیں بھی ہے تیرا ہر عقیدہ ،تیرے دل کوہر نیّت اورتیری روح وجان کے سارے اخلاق حق وتعالیٰ کے بے پایاں علم کی بارگاہ میں آشکار ہیں مُسلّمہ طورپر اس حقیقت کی طرف توجّہ انسان کی اصلاح و تربیّت میں حد سے زیادہ مُؤ ثر ہے . یہ ایسی تعلیمات ہیں جو آنسان کومقصدِ خلقت اورقانونِ تکامُل تک پہنچنے کے لیے آمادہ کرتی ہیں ۔
چونکہ وسائل تربیّت اور انذار کے طریقوں میں سے ایک موثر ترین ذریعہ ، گزشتہ اقو آم اور اُمّتوں کی سرنوشت کی طرف توجہ دلا ناہے ،لہٰذا بعد و آلی آ یت ان کی زندگی پر ایک اجمالی نظر ڈالتے ہُوئے انسان کومخاطف کرکے کہتی ہے : کیا تم تک ان کافروں کی خبرنہیں پہنچی جو تم سے پہلے تھے . انہوں نے کِس طر ح اپنے گناہاں کبیرہ کاتلغ ذائقہ چکھا اوران کے لیے آخرت میں بھی در د ناک عذاب ہے (أَ لَمْ یَأْتِکُمْ نَبَأُ الَّذینَ کَفَرُو آ مِنْ قَبْلُ فَذاقُو آ وَبالَ أَمْرِہِمْ وَ لَہُمْ عَذاب أَلیم )(٢) ۔
تم ثم شام اور دوسرے علاقوں کی طرف جاتے ہُوئے ان کے عذابی اور ویرانی اور ویران شہروں کے قریب سے گزرتے ہو اوران کے کفر ، ظلم اور گناہوں کانتیجہ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں ہاں! ان کی خبر وں کو تم تاریخ میں پڑھتے ہو .وہی لوگ جن کی زندگی کادفتر طوفان وسیلاب سے درہم برہم ہو آیابجلیوں نے جن کی خرمِن عُمر میں آ گ لگادی ، یاویران و تباہ کرنے و آلے زلزلوں نے انہیں زمین کے منہ کالقمہ بنادیا اور تیز آ ندھی نے ان کے بھاری بھرکم جسموں کوتنکوں کی طرح ہر طرف اڑا دیا . یہ تو آن کادنیاوی عذاب تھا، لیکن آخر ت میں بھی ایک درد ناک عذاب ان کامنتظر ہے ۔
بعد و آلی آ یت اس درد ناک سرنوشت کے منشاء اصلی کی طرف اشارہ کرتے ہُوئے مزید کہتی ہے : اس کی وجہ سے تھی کہ ان کے انبیاء و رُسل و آضح دلائل اورمعجزات کے ساتھ ان کی طرف آ ئے ،لیکن وہ لوگ کبر وغُرور کی وجہ سے یہ کہا کرتے تھے : کیا انسان ہماری ہدایت کریں گے ؟ کیا یہ بات ممکن ہے ؟ (ذلِکَ بِأَنَّہُ کانَتْ تَأْتیہِمْ رُسُلُہُمْ بِالْبَیِّناتِ فَقالُو آ أَ بَشَر یَہْدُونَنا ) ۔
اس بیہود ہ گفتگو کے وہ ان کی مخالفت کے لیے اُٹھ کھڑے ہُوئے ، یوں وہ کافر ہوگئے اورانہوں نے حق کو قبول کرنے سے روگردانی کی (فَکَفَرُو آ وَ تَوَلَّو آ) ۔
حا لانکہ خُدا ان کے ایمان اوران کی اطاعتوں سے بھی بے نیاز تھا (وَ اسْتَغْنَی اللَّہُ ) ۔
اگرانہیں ایمان ، اطاعت اورپرہیزگار ی کے لیے مکلّف فرمایا ہے تو وہ صرف ان کی منفعت یعنی اس جہان میں اور دُوسرے جہان میں ان کی سعادت اورنجات کے لیے تھا ۔
ہاں ! خدا بے نیاز ہے اور ہرقسم کی حمد وستائش کے لائق ہے (وَ اللَّہُ غَنِیّ حَمید) ۔
اگر ساری کائنات کافر ہو جائے تو آس کے دامن ِ کبریائی پر کوئی گرد نہیں بیٹھتی .اِسی طرح اگرتمام مخلوقات مومن اوراس کی مطیع فرمان ِ ہوجائے تو آس کے جلال میں کسِی چیز کا اضافہ نہیں ہوتا .یہ توہم ہی ہیں جو آس قسم کے تربیتی ، اصلاحی اور کامل و آرتقاء کے اصول و قو آنین کے محتاج ہیں ۔
و آستغنی اللہ ( خدابے نیازتھا ) کی تعبیر ، اس طرح مُطلق ہے کہ ہر چیزسے ،یہاں تک کہ انسانوں کے ایمان اوراطاعت سے بھی ، اس کی بے نیازی کو بیان کرتی ہے تاکہ یہ تصوّر نہ آ ئے کہ یہ سب تاکیدیں اوراصرار اس بناء پر ہے کہ اس اطاعت کافائدہ خداکی طرف لوٹتا ہے .اس نے مخلوقات کو ہرگز اس لیے پیدا نہیں کیا کہ اُسے اُن سے کوئی فائدہ ہو، بلکہ وہ یہ چاہتاتھا کہ اپنے بندوں پر جُود وسخا کرے ۔
بعض نے و آستغنی اللہ کے جملہ کے لیے ایک اورتفسیر بھی بیان کی ہے کہ خدانے اس قدر و آضح آ یا کے دلائل اور کافی وعظ ونصائح ان کے لیے بھیجے ہیں کہ اس کے علاوہ کچھ بھیجنے سے بے نیاز تھا ۔
١۔ "" فاء " "تفریح کاذکر یہاں اس لیے نہیں ہے کہ ( ایمان وکفر بھی اللہ کی مخلوق ہیں ،بلکہ یہ اس بناء پر ہے کہ خلقت کے بعد اس نے انسان کو ارادہ کی آ زادی دی ہے، اوراس کالازمہ یہ ہے کہ کافر و مومن دوگروہ پیدا ہُوئے ۔
٢۔ وبال "" وبل "" اور "" و آبل "" کے مادہ سے سخت بارش کے معنی میں ہے ہراس اہم موضوع کوجس کے نقصان سے انسان خائف ہو "" وبال "" کہا جاتاہے ۔ 
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma