شانِ نزول

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 24
تاریخ ،حدیث اورتفسیر کی کتابوں میں اوپر و آلی آ یت کے لیے ایک مفصّل شانِ نزول بیان کی گئی ہے جس کاخلاصہ یہ ہے :
عزّ و ۂ بنی المصطلق کے بعد ( یہ جنگ ہجرت کے چھٹے سال سرزمین قدید میں و آقع ہوئی )مسلمانوں میں سے دو آفراد کے درمیان ،جن مین سے ایک انصار میں اور ددُوسرا مہاجرین میں سے تھا ، کنوئیں سے پانی لینے کے وقت اختلاف ہوگیا .ایک نے انصا ر کو اور دُوسرنے مہاجر ین کو آپنی مدد کے لیے پکارا . مہاجر ین میں سے ایک شخص اپنے ساتھی کی مدد کے لیے آ یا اور عبداللہ بن ابی جومنافقین کے مشہُور سرغنوں میں سے تھا، وہ انصار ی کی مدد کے لیے آگے پڑھا اور تب اُن دونوں کے درمیان شدید توتکار ہوئی ہم نے اس گروہ ِ مُہاجر ین کوپناہ دی اور ان کی مدد کی لیکن ہمارا مُعاملہ اس ضربُ المثل کی مانند ہے جوکہتی ہے : سمن کلبک یاکلک (اپنے کتّے کو موٹا کردے تاکہ وہ تجھے کاٹ کھائے )و آللہ لئن رجعنا الی المد ینة لیخرجن الا عزمنھا الاذل خداکی قسم ! اگرہم مدینہ پلٹ گئے توعزّت دار ذ لیلوں کوباہر نکال دیں گے یہاں عزّت داروں سے اس کی مُراد وہ خود اوراس کے پیرو کار تھے ، اورذلیلوں سے مراد مہاجرین تھے ،.اس کے بعد اس نے اپنے ساتھ و آلوں سے کہا: یہ اس کام کا نتیجہ ہے جوخُود تم نے اپنے سروں پر تھوپ لیاہے .تم نے انہیں اپنے شہر میں جگہ دی ، اوراپنے مال ان میں تقسیم کیے .اگرتم اپنی بچی ہُوئی غذا اس جیسوں کو( اس امد ّ مقابل مہاجر کی طرف اشارہ ہے )نہ دیتے تویہ تمہاری گردن پر سو آ نہ ہوتے ، تمہاری گردن پرسو آرنہ ہوتے ،تمہاری سرزمین سے چلے جاتے اوراپنے قبائل سے جاملتے ۔
اس موقع پر زیدبن ارقم نے جو آس وقت ایک نوخیز جو آن تھا عبدُاللہ بن ابی کی طرف مُنّہ کرکے کہا: خُداکی قسم !ذلیل اور کمینہ توہی ہے .محمد(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)خداکی عزّت اور مُسلمانوں کی محبت میں ہیں . خداکی قسم ! میں اج سے تجھے دوست نہیں رکھّوں گاعبداللہ نے چلّا کرکہا: اے لڑکے خاموش رہ ، تو اپنے کھیل کودسے کام رکھ ! زید بِن ارقم حضرت رسُول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی خدمت میں آ یا اورسارا ماجرا کہہ سُنا یا ۔
پیغمبرنے کسِی کو عبداللہ کے پاس بھیج کراُسے بلا یا اورفر مایا:
یہ کیابات ہے جومُجھ سے بیان کی گئی ہے ۔
عبداللہ نے کہا: اس خداکی قسم ہے جس نے آپ پر آسمانی کتاب نازل کی ہے میں نے ایسی کوئی بات نہیں کی اورزید جھوٹ بولتاہے ۔
انصار کے کچھ لوگ وہاں موجُود تھے،اُنہوں نے عرض کیا : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)! عبداللہ ہمارابزرگ ہے ، لہٰذانصار کے بچّوں میں سے ایک بچّے کی بات اس کے برخلاف قبول نہ کیجئے . لہٰذاپیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے ان کاعُذر قبُول کرلیا تو آس موقع پرگروہِ انصار نے زید بن ارقمکوملات سرزنش کی ۔
پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آ لہ وسلم)نے کوچ کرنے کاحکم دے دیا. بزرگانِ انصار میں سے ایک شخص اُسید نامی آ پ کی خدمت میں آ یا اورعرض کیا: یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)آپ نے ایک نا مناسب وقت میں کوچ کردیاہے ۔ آپ نے فرمایا: ہاں ! کیاتُو نے سُنانہیں ہے کہ تیرے ساتھی عبداللہ نے کیاکہا ہے ؟ اُس نے یہ کہا ہے کہ جب وہ مدینہ پلٹ جائے گا توعزّت و آلے ذلیلوں کووہاں سے نکال دیں گے ۔
سید نے کہا: یارسول اللہ ! اگر آپ چاہیں تو آج سے مدینے سے باہر نکال سکتے ہیں .خدا کی قسم آپ عزّت دارہیں اوروہ ذلیل ہے پھر اُس نے عرض کیا: یارسُول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)! اس کے ساتھ نرمی کیجئے ۔
عبدُاللہ کی باتیں اس کے بیٹے کے نوں تک پہنچیں تووہ رسُول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو آ اورعرض کیا: میں نے سُنا ہے کہ آپ یہ چاہتے ہیں کہ میرے باپ کو قتل کردیں، اگرایسا مُعاملہ ہے توخود مُجھے حکم دیجیے کہ میں اس کاسرقلم کرکے آپ کی خدمت میں لے آ ئوں ،کیونکہ سب لوگ جانتے ہیں کہ کوئی بھی شخص اپنے ماں باپ کی نسبت مُجھ سے زیادہ نیک رفتار نہیں ہے .میں اس سے ڈرتا ہوں کہ کوئی اُسے قتل کرے اور میں اس کے بعداپنے باپ کے قاتل کونہ دیکھ سکوں گا اور خدانخو آستہ میں اُسے قتل کردوں اوراس قتل مومن کی پاداش میں جنّت کے بجائے جہنم میں چلا جائوں ۔
پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فرمایا: تیرے باپ کے قتل کامسئلہ درپیش نہیں ہے . جب تک وہ ہمارے ساتھ ہے تو آس کے ساتھ مدارا اورنیکی کرتارہ ۔
اس کے بعد پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے حکم دیاکہ سارادن اور ساری .رات لشکر چلتارہے .دُوسرے دن جب سُورج نکل آیاتو آپ نے ٹھہرنے کاحکم دیا. لشکر اس قدر تھک گیاتھا کہ زمین پر سررکھتے ہی سب گہری نیند سوگئے (اور پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کامقصد بھی یہی تھا کہ لوگ کل کاماجر ا اورعبداللہ بن ابی کی بات کوبُھول جائیں) ۔
آخر کار پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)مدینہ میں وآرد ہُوئے .زیدبن ارقم کہتے ہیں کہ میں شدّتِ غم اورشرم کے مارے گھر کے اندر ہی رہا اور باہر نہ نکلا .اس موقع پر سُورةمنافقون نازل ہُوئی کہ جس نے زید کی تصدیق اورعبدُاللہ کی تکذیب کی پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے زید کا کان پکڑ کر فر مایا: اے جو آن !خُدا نے تیری بات کی تصدیق کردی !بالکل اسی طرح سے جیساکہ تونے اپنے کانوں سے سُنا اور دل میں محفوظ رکھاتھا ، خُدانے اس چیز کے بارے میں جوتونے کہی ، قرآن کی آ یات نازل کی ہیں ۔
اس موقع پر عبداللہ بن ابی مدینہ کے قریب پہنچ چکاتھا. جب اس نے چاہا کہ مدینہ میں داخل ہوجا ئے تو آس کے بیٹے نے آ کر اس کاراستہ روک لیا، عبداللہ نے کہا: و آئے ہو تجھ پر . یہ کیا کررہاہے ؟ اس کے بیٹے نے کہا ، خدا کی قسم ! رسُول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی اجازت کے بغیر تومدینہ میں داخل نہیں ہوسکتا .اورآج توسمجھ لے گاکہ عزیز کون ہے ، اور ذلیل کون ؟ ۔
عبداللہ نے اپنے بیٹے کی شکایت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آ لہ وسلم ) کی خدمت میں پہنچا ئی ، توپیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے اس کے بیٹے کوپیغام بھیجا کہ اپین باپ کومدینہ میں داخل ہونے دو . تب اس کے بیٹے نے کہا: اب رسُولِ خدا کی اجازت ہوگئی ہے لہٰذا اب تمہارے داخل شہر ہونے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے ۔
عبداللہ شہر میں داخل ہوآ لیکن کچھ زیادہ دن نہیں گُز رے تھے کہ وہ بیمار پڑگیا اورپھر دنیا سے چل بسا (اور شاید اُسے جان لیو اتپِ دق ہوگیا تھا) ۔
جس وقت یہ آ یات نازل ہُوئیں اور عبداللہ کا جُھوٹ ظاہر ہو گیا توبعض لوگوں نے اُس سے کہا:
تیر ے بارے میں شدید تر آیات نازل ہو ئی ہیں توپیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی خدمت میں جاتا کہ وہ تیرے لیے استغفار کریں اس پر عبد اللہ نے اپنے سر کوہلاتے ہُوئے کیا:
تم نے مُجھ سے کہا ایمان لے آ تومیں ایمان لے آ یا. تم نے کہا زکوٰةدے تومیں نے زکوٰة دی .اب اس کے سو آکچھ باقی نہیں رہا کہ کہو،محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے لیے سجدہ کر ! اِس موقع پر آ یت و آذاقیل لھم تعالو آ نازل ہُوئی ( ١) ۔
١۔"" مجمع البیان "" زیربحث آ یات کے ذیل میں کامل ابن اثیر جلد ٢،صفحہ ١٩٢ ،سیرت ابن ہشام جلد ٣،صفحہ ٣٠٢(تھوڑے فرق کے ساتھ ) ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma