سر چشمہ ٔ نفاق اور منافقین کی نشانیاں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 24
ان آ یات کی تفسیر بیان کرنے سے پہلے ایک مقدمہ کاذ کرناضر وری معلوم ہوتاہے وہ یہ ہے کہ مسئلہ نفاق اورمنافقین، اسلام میں پہلی مرتبہ اس وقت سامنے آ یا جب پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی اوراسلام کی بنیاد یں قوی اور کامیابی آشکار ہوگئی ، ورنہ مکہ میں تقریباً کوئی منافق موجُودنہیں تھا کیونکہ دشمن اسلام کے برخلاف جوچاہتے کُھلّم کھلّاکہتے اورکرتے اورکسِی کوخاطرمیں نہ لاتے ، انہیں منافقا نہ طرز عمل کی کوئی ضرورت نہ تھی ۔
لیکن جب مدینہ میں اسلام کے نفُوذ اور پھیلائو نے دشمنوں کوضعیف و نا تو آں بنادیا تو آب مخالفت کا اظہارکُھلے عام کر نامشکل اور بعض اوقات ناممکِن تھا ، لہٰذا شکست خوردہ دشمنوں نے اپنی تخریبی سرگرمیاں جاری وساری رکھنے کے لیے اپنے چہر ے بدل لیے ، وہ ظاہراًمسلمانوں کی صفوں میں شاملِ ہوگئے ،لیکن مخفیانہ طورپر اپنے بُرے مقاصد کے حصُول کے لیے کوشاں رہے ۔
اصُولی طورپر ہر انقلاب کی طبیعت ومزاج یہی ہے کہ نمایاں کامیابی کے بعد اُسے منا فقین کا سامنا کرناپڑ تا ہے .کل کے سخت ترین دشمن آج کے با اثرافراد کی صُورت میں ظاہری دوستوں کے لباس میں جلوہ گر ہوتے ہیں یہی وہ مقام ہے جِس سے یہ سمجھا جاسکتاہے کہ منافقین سے مربُوط یہ تمام آ یات مدینہ میں کیوں نازل ہُوئیں اور مکّہ میں کیوں نازل نہ ہو ئیں ۔
یہ نکتہ بھی قابلِ توجّہ کہ نفاق اور منافقین کامسئلہ پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے زمانہ کے ساتھ ہی مخصُوص نہیں تھا ، بلکہ ہر معاشرہ اور خصوصا انقلابی مُعاشر ے ، اس سے دوچارہوتے ہیں.اسی وجہ سے اس مسئلہ کے بارے میں قرآن کی تحلیلوں تجزیوں اور موشگافیوں کو آیک تاریخی مسئلہ کے عنو آن سے نہیں ایک با لفعل نیازو آحتیاج کے عُنو آن سے مور د تحقیق تد قیق قرار دیاجانا چاہیے .اس سے موجو دہ وقت کے اِسلامی مُعاشر وں میں رُوحِ نفا ق اور منافقین کے طریقوں سے مبارزہ کرنے کے لیے ہدایت حاصل کرنی چاہیے ۔
نفاق کی نشانیاں جنہیں قرآن نے شرح وبُسط سے بیان کیاہے ،وقت کے ساتھ ان کوبھی پہنچاننا چا ہیئے اوران نِشا نیوں کے ذ ریعے منا فقوں کے طورطریقوں اورمنصُوبوں کی تہ تک پُہنچ جانا چاہیئے ۔
ایک دُوسرا اہم نُکتہ یہ ہے کہ مُنا فقین کاخطرہ ہر معاشر ے کے لیے ہر دشمن کے خطرے سے زیادہے ، کیونکہ ایک طرف تو آن کی شناخت عام طورپر آسان نہیں ہوتی اوردوسری طرف وہ داخلی دشمن ہوتے ہیں.بعض اوقات وہ مُعاشرے کے تانے بانے میں اس طرح سے نفوذ کرتے ہیں کہ انہیں الگ کرنابہت مشکل کام ہوتاہے تیسری طرف سے ان کے باقی ارکان کے معاشرہ سے مختلف رو آبط ان سے مبارزہ کے کام کودشو آر بنادیتے ہیں ۔
چنانچہ اسی وجہ سے اسلام نے اپنی طویل تاریخ میں زیادہ تر منافقین ہی کے ہاتھوں چوٹ کھائی ہے .اِسی وجہ سے قرآن نے اپنے سخت ترین حملے منافقین ہی پر کیے ہیں اور جس قدران کی سر کوبی کی ہے ، اپنے کسِی بھی دشمن کے لیے رو آنہیں رکھی ۔
اِ س مقدّمہ پر توجّہ کے ساتھ اب ہم آ یات کی تفسیر کی طرف لوٹتے ہیں
پہلی بات جو قرآن یہاں منافقین کے بارے میں پیش کرتاہے ان کاوہی جھوٹے ایمان کا اظہار ہے کہ جو نفاق کی اصل بُنیاد ہے فرماتاہے : جس وقت منافقین تیر ے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں ہم گو آہی دیتے ہیں کہ تو یقینا اللہ کا رسُول ہے :(اذا جاء َکَ الْمُنافِقُونَ قالُو آ نَشْہَدُ اِنَّکَ لَرَسُولُ اللَّہِ )( ١) ۔
اس کے بعد قرآن مزید کہتاہے : خداجانتا ہے کہ تو آس کا بھیجا ہُو آ ہے لیکن خدا گو آہی دیتاہے کہ منافقین جُھوٹے ہیں :(وَ اللَّہُ یَعْلَمُ اِنَّکَ لَرَسُولُہُ وَ اللَّہُ یَشْہَدُ اِنَّ الْمُنافِقینَ لَکاذِبُونَ) ۔
اِس سے نفاق کی پہلی نشانی و آضح ہو جاتی ہے اوروہ ظاہر و باطن کامتفاوت ہوناہے .یعنی وہ تاکید کے ساتھ زبان سے تو آظہار ِ ایمان کرتے ہیں لیکن ان کے دل میں ایمان کی کوئی رمق نہیں ہوتی یہ دروغگوئی اور یہ اندر اور باہرکی دورنگی ہی نفاق کے اصل محور ہیں ۔
قابلِ توجّہ بات یہ ہے کہ صدق وکذب (سچ اورجھوت)دوقِسم کے ہوتے ہیں :
١:صدق وکذب خبری
٢:صدق وکذب مخبری
پہلی قسم میں توو آقعہ کے مو آفق یامُخالف ہونامعیار ہوتاہے جبکہ دوسری قسم میں اعتقاد کی مو آفقت ومُخالفت مدِّنظر ہوتی ہے .اس معنی میں کہ اگر انسان کوئی ایسی خبر دیتا ہے جوو آقعہ کے مُطابق ہے لیکن اس کے عقیدہ کے خلاف ہے تو اس کوہم کذب مخبری کہتے ہیں اوراگر اس کے عقیدہ کے مُطابق ہے توصدق ہے ۔
اِس طرح سے مُنافقوں کاپیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی رسالت کی گو آہی دینا خبر دینے کے لحاظ سے بالکل جُھوٹ نہیں تھا بلکہ یہ ایک و آقعیّت تھی ، لیکن کہنے و آلے اورمُخبر کے لحاظ سے چونکہ یہ ان کے عقیدہ کے برخلاف تھا، لہٰذا جُھوٹ شمار ہوتاتھا ، اسی لیے قرآن کہتاہے کہ توخدا کاپیغمبر توہے ،لیکن یہ منافق جھوٹ بولتے ہیں ۔
یہ نکتہ بھی قابلِ توجّہ ہے کہ انہوں نے اپنی گو آہی میں انو آع و آقسام کی تاکید یں استعمال کی ہیں ( ٢) .اورخدا تعالے ٰبھی قطعیّت کے ساتھ ، اسی لب ولہجہ میں ، ان کی تکذیب کرتاہے .یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ایسی قطعیّت کے مقابلہ میں اسی قسم کے قطعیّت ضر وری ہے ۔
یہاں اس نکتہ کاذکر کرنابھی ضُروری ہے کہ منافق اصل میں نفق(بروزن نفخ) کے مادّہ سے نفوذ وپیش روی کے معنی میں ہے ،لیکن نفق( بروزن شفق) کھال اوراس نقب کے معنی میں رہے جوزِیرزمیں لگاتے اور اس سے چھینے یابھاگنے کے لیی فائدہ اُٹھاتے ہیں ۔
بعض مفسرین نے کہاہے کہ بُہت سے جانور جیسے صحرائی چوہے ،لومڑی اور سُو سماراپنے رہنے کے لیے بلوں میں دوسُوراخ بناتے ہیں، ایک ظاہری جِس داخل اور خارج ہوتے ہیں اور دُوسرا پوشیدہ.جب وہ کوئی خطرہ محسوس کرتے ہیں تو مخفی راستے سے بھاگ جاتے ہیں اوراِس پوشیدہ سو آرخ کو نافقاء کہتے ہیں ( ٣) ۔
اِس طرح سے منافق شخص وہ ہے جس نے ایک پوشیدہ اور مخفی راستہ اپنے لیے رکھا ہو آ ہوتا ہے تاکہ پوشیدہ اور مخفی طریقہ سے کام کرتے ہوئے معاشرے مین نفوذ کرے اور خطرے کے وقت دوسری راہ سے فرار ہوجائے ۔
بعد و آلی آ یت میں ان کی دُوسری نِشانی بیان کرتے ہُوئے اِس طرح کہتاہے : انہوں نے قسموں کوڈھال بنایاہُواہے تاکہ وہ لوگوں کوخدا کی راہ سے باز رکھیں (اتَّخَذُو آ أَیْمانَہُمْ جُنَّةً فَصَدُّو آ عَنْ سَبیلِ اللَّہِ َ) ۔
وہ بُہت ہی بُرے کام انجا م دیتے ہیں (انَّہُمْ ساء َ ما کانُو آ یَعْمَلُون) ۔
کیونکہ ظاہر میں تووہ ایمان کا اظہار کرتے ہیں اور باطن مین کفر کرتے ہیں.یوں دینِ حق کی طرف لوگوں کی ہدایت کی راہ میںرکاوٹ ڈالتے ہیں. ہاں تو آس سے بد تر اورقبیح ترعمل اور کیاہوگا ۔
جُنّة جن (بروزن فن) کے مادّہ سے .اصل میں کسِی چیز کوحس سے پنہاں کرنے کے معنی میں ہے .نیز جِن (بروزن سِن)ایک نظر نہ آ نے و آلامُوجودہے ،لہٰذا اس لفظ کا اس پر اطلاق ہوتا ہے . چُونکہ ڈھالان کودشمن کے اسلحہ کی ضربوں سے چھپا کررکھتی ہے ، اس لیے عربی زبان میں اُسے جنة کہاجاتاہے .چنانچہ درختوں سے بھر ے پُرے باغ کو آن کی زمین کے مستُورہونے کی بناء پر جنّتکہتے ہیں ۔
بہریہ نفاق کی نشانیوں میں سے ایک ہے کہ وہ اپنے آپ کوخُداکے مقدم نام اور شدیدقسموں کی آڑ میں چُھپالیتے ہیں تاکہ ان کا اصلی چہرہ دکھائی نہ دے ، اِس طرح وہ لوگوں کو آپنی طرف متوجّہ کرکے انہیں غفلت میں ڈال دیتے ہیں اوعر صد عن سبیل اللہ (لوگوں کوخدا کی راہ سے باز رکھتے ہیں ) ۔
ضمنی طورپر یہ تعبیر اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ منافق ہمیشہ مومنین کے ساتھ جنگ وجدال کی حالت میں ہیں لہٰذا ان کی ظاہر داری اور چرب زبانی سے ہرگز دھوکا کھانا نہیں چاہیئے ،کیونکہ ڈھال کا انتخاب جنگ کے میدانوں کے ساتھ مخصُوص ہے ۔
یہ ٹھیک ہے کہ بعض مو آقع پر انسان کے لیے قسم کے سو آ اورکوئی چارۂ کار نہیں ہوتا یاکم از کم قسم موردِنظرموضوع کی اہمیّت میں اضافہ کرتی ہے لیکن وہ جھوٹی قسم نہیں ہے اور نہ ہی ہرچیز اور ہر کام کے لیے قسم کہ یہ منافقین کاشیوہ اور طریقہ ہے ۔
سورة توبہ کی آ یت ٧٤ میں آ یاہے (یَحْلِفُونَ بِاللَّہِ ما قالُو آ وَ لَقَدْ قالُو آ کَلِمَةَ الْکُفْر) وہ خدا کی قسم کھاتے ہیں کہ انہوں نے (پیغمبر کی پیٹھ پیچھے چھنے و آلی باتیں )نہیں کیں حالانکہ یقینا انہوں نے کفر آمیز باتیں کی ہیں ۔
مفسرین نے صدو اعن سبیل اللہ کے جُملہ کے دومعانی بیان کیے ہیں .پہلا راہِ خُداسے اعراض کرنا اور دوسرا اور وں کو آس راہ سے باز رکھنا ، اگرچہ زیر بحث آیت میں دونوں معانی کو جمع کرناممکن ہے .لیکن ان کے جھوٹی قسمیں کھانے کی طرف توجّہ کرتے ہُوئے دُوسرامعنی زیادہ مناسب نظر آ تاہے .کیونکہ ان قسموں کاہدف اور مقصد دوسروں کو غفلت میں رکھنا ہوتاہے ۔
وہ ایک جگہ مسجد ضرار بناتے ہیں ،جب ان سے پوچھا جاتاہے کہ اس سے تمہارا مقصد کیاہے توقسم کھاکرکہتے ہیں کہ خبر کے سو آہمارا اور کوئی مقصد نہیں ہے ( توبہ : ١٠٧) ۔
دُوسرے مو آقع پران جنگوں میں شریک ہوتے ہیں جن فاصلہ تھوڑا اور غنیمتوں کا احتمال زیادہ ہے .لیکن معرکہ ٔتبوک جومشکلات سے پُر ہے ، اس میں شرکت نہ کرنے کے لیے ہزار ہابہانے اورعذر کرتے ہیں بلکہ قسم کھا تے ہی کہ اگر ہم میں تو آنائی ہوتی توتمہارے ساتھ ضرور چل پڑتے ( توبہ :٤٢) ۔
وہ نہ صرف لوگوں کے سامنے جھوٹے قسم کھاتے ہیں بلکہ جیساکہ سورہ مُجادلہ کی آ یت ١٨میں آ یا ہے .وہ عرصہ محشرمیں بارگاہِ خدا وندی میں بھی جھوٹی قسم سے متوسل ہوں گے . یہ چیز اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ یہ عمل ان کے وجُود میں رچ بس چُکاہے یہاں تک وہ عرصۂ محشرمیں خدا کی بارگاہ میں بھی اس سے دستبردار نہیں ہوں گے ۔
بعد و آلی آ یت میں اس قسم کے نارو آ اعمال کی علّتِ اصلی کوپیش کرتے ہُوئے مزید کہتاہے : اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے تووہ ایمان لائے اوراس کے بعد کافر ہوگئے ہیں.اِس لیے ان کے دلوں پر مہرلگادی گئی اور وہ حقیقت کا ادراک نہیں کرسکتے (ذلِکَ بِأَنَّہُمْ آمَنُو آ ثُمَّ کَفَرُو آ فَطُبِعَ عَلی قُلُوبِہِمْ فَہُمْ لا یَفْقَہُونَ ) ۔
بُہت سے مفسرین کانظر یہ ہے کہ اس ایمان سے مراد یہاں ایمانِ ظاہر ی ہے جبکہ وہ باطن میں کافرہی تھے۔
لیکن آ یت کاظاہر اس بات کی نشاندہی کرتاہے کہ ابتداء میں وہ حقیقتاً ایمان لے آ ئے تھے،لیکن ایمان کاذائقہ چکھنے اوراسلام وقر آن کی حقانیت کی نشانیاں دیکھ لینے کے بعد اُنہوں نے کفر کی راہ اختیار کر لی مگرایسا کفر جونفاق سے تو آئم تھا، نہ کہ آشکار اورصراحت کے ساتھ . اور یہی بات اس چیز کاسبب بن گئی کہ خدا ان سے حِسّ تشخیص سلب کر ے اوروہ حقائق کے ادراک سے مُحروم رہ جائیں ، کیونکہ اگرانہوں نے ابتداء سے ہی حق کی تشخیص نہ کی ہوتی تو پھروہ کچھ عُذر رکھتے تھے .لیکن حق کوپہچان لینے اورایمان لانے کے بعداگر وہ اسے ٹھکرادیں تو خُدا ان سے اپنی توفیق سلب کرلیتاہے ۔
حقیقت میں منافقین کے دوگر وہ ہیں .ایک گروہ تووہ ہے جن کا ایمان پہلے سے ہی نمائشی اورظاہر ی تھا دوسرا گروہ وہ ہے جو آبتداء میں توحقیقتاً ایمان لے آ یا لیکن بعد میں اس نے ارتداد ونفاق کی راہ اختیار کرلی ، زیرِ بحث آ یت کاظاہر دُوسرے گروہ کی بات کرتاہے ۔
حقیقت میں یہ آیت سورہ توبہ کی آ یت ٧٤ کے مشابہ ہے کہ جوکہتی ہے : و کفرو آبعد اسلام مھم وہ اسلام لانے کے بعد گروہ کی بات کرتاہے ۔
بہرحال یہ ان کی تیسر ی نِشانی ہے کہ وہ و آضح حقائق کے ادراک سے عام طورپر محروم ہیں . یہ بات کہے بغیر و آضح ہے کہ یہ چیز ہرگز جبرو اکراہ نہیں ہے ،کیونکہ اس کے مقدّ مات کو آنہوں نے خود فراہم کیاہے ۔
بعد و آلی آ یت ان کی مزید نشانیاں بتاتے ہُوئے کہتی ہے :
جب تم انہیں دیکھوگے تو آن کاجسم اورصُورت تمہیں تعجّب میں ڈال دے گا (وَ ِذا رَأَیْتَہُمْ تُعْجِبُکَ أَجْسامُہُمْ ) ۔
ان کاظاہرآراستہ اوران کی شکل وصُورت بڑی عمدہ نظر آ تی ہے ۔
علاوہ ازیں وہ ایسی شیریں اورپُر کشش باتیں کرتے ہیں کہ جب وہ گفتگو شروع کرتے ہیں تو تم بھی ان کی باتوں کوکان دھر کے سُنتے ہو (وَ ِنْ یَقُولُو آ تَسْمَعْ لِقَوْلِہِمْ ) ۔
جہاں پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ظاہراً ان کی باتوں کی کشش سے متاثر ہوجائے وہاں دوسروں کامُعاملہ تو اوربھی آگے جاتاہے ۔
یہ توظاہری لحاظ سے ہے ، لیکن باطنی طورپر وہ ایسی خشک لکڑیوں کے مانند ہیں جنہیں دیو آر کے ساتھ ٹیک لگاکر کھڑا کردیاگیاہو (کَأَنَّہُمْ خُشُب مُسَنَّدَة ) ۔
وہ ایسے جسم ہیں جن میں روح نہیں ہے . بے معنی شکلیں اور اندر سے خالی ہیکلیں ہیں . نہ خُود سے کوئی استقلال رکھتے ہیں ، نہ باطن میں کوئی نوروصفائی ، نہ کوئی محکم ارادہ ہے اور نہ ہی اس میں کچھ ایمان ہے .وہ ٹھیک خشک لکڑیوں کی طرح ہیں جنہیں دیو آر کے ساتھ لگادیاگیاہو ۔
بعض مفسّرین نے رو آیت کی ہے کہ منافقین کاسرغنہ عبداللہ بن ابی ایک موٹا تازہ ،خوبصُورت ،فصیح وبلیغ اور چکنی چپڑی باتیں بنانے و آلا ادمی تھا، جب وہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ حضرت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی مجلس میں داخل ہوتا تو آصحاب اس کے ظاہر سے تعجّب کرتے اوراس کی باتیں کان دھر کے سُنتے .لیکن وہ (اپنے عزور نخوت کی بناء پر ) دیو آر کے پاس جاکر اس کاتکیہ بناتے اور مجلس کو آپنی ظاہری صورت اور باتوں سے متاثر کرتے ( ٤)یہ آ یت ان کی اِس حالت کوبیان کررہی ہے ۔
اس کے بعد مزیدکہتاہے : وہ اس طرح اندر سے کھوکھلے ،خُدا پر توکّل اوراپنے نفس پر اعتمادسے محروم ہیں کہ وہ ہر آ و آز کوچاہے وہ جہاں سے بھی بلند ہو، اپنے برخلاف سمجھتے ہیں ( یَحْسَبُونَ کُلَّ صَیْحَةٍ عَلَیْہِمْ ) ۔
ایک عجیب قسم کاخوف اوروہشت ہمیشہ اُن کے دل وجان پرچھائی رہتی ہے .ایک بدظنی اورجانکاہ بدبینی کی حالت نے ان کی رُوح کوسرتا سر گھیر ے میں لیاہُو آ ہے اور الخائن خائف کے مُطابق ہرچیزسے ، یہاں تک کہ اپنے سائے سے بھی ڈ رتے ہیں . اور یہ ان کی نشانیوں میں سے ایک اور نشانی ہے ۔
آ یت کے آخر میں پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کوخبردار کرتاہے کہ یہ لوگ و آقعی تمہارے دشمن ہیں، لہٰذا ان سے بچتے رہو (ہُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْہُمْ) ۔
اس کے بعد کہتاہے : خدا انہیں ہلاک کرے .وہ حق سے کِس طرح منحرف ہوتے ہیں ( قاتَلَہُمُ اللَّہُ أَنَّی یُؤْفَکُون) ۔
یہ بات و آضح ہے کہ یہ تعبیر خبر کے طورپر نہیں ہے بلکہ نفرین کی صُورت میں ہے اوراُس گروہ کی مذمت ، سرزنش اورتحقیر کے طورپر ذکر ہُوئی ہے ، ان روز مرّہ کی تعبیر وں کی مانند جو آفراد انسانی ایک دوسرے کے بارے میں کرتے رہتے ہیں .اسی طرح قرآن خود لوگوں کی زبان میں اُن سے بات چیت کرتاہے ۔
اسی طرح سے زیرِ بحث آیت میں منافقین کی مزید نشانیاں بیان کی گئی ہیں ،منجملہ ان کے : ظاہر ی دفریب دینے و آلی وضع وکیفیّت ، اندر سے کھوکھلے پن کے ساتھ ، اسی طرح ہرچیز اورہر حادثہ وو آقعہ کے بارے میں خوف دہشت اور بد گمانی وغیرہ ہے ۔
١۔یہاں "" ان "" مسکور صورت میں ذکر ہُو آ ہے .اس کی وجہ یہ ہے کہ خبر کے اوپر لام تاکید آ یاہے اوراس صورت میں تقدیر میں مقدم ہے (البیان فی غریب اعراب القرآن) ۔
٢۔منافقین نے "" جملہ اسمیہ"" سے استفادہ کیا اوراسی طرح "" ان "" اور"" لام تاکید سے اپنے قول کوصداقت پر مبنی ظاہر کیا ۔
٣۔"" رُوح البیان "" جلد٩،صفحہ ٥٢٩۔
٤۔ کشاف ،جلد٤،صفحہ ٥٤٠۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma