1 عالم بے عمل

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 24
اس میں شک نہیں کہ تحصیلِ علم میں بُہت زیادہ مشکلات پیش آ تی ہیں ،لیکن یہ مشکلات چاہے جتنی بھی ہوں ، علم سے حاصل ہونے والی برکات کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں ،انسان کی بیچار گی اس دن ہوگی جب وہ تحصیل ِ علم کی زحمت کوتو برداشت کرے لیکن اُس کی برکتوں کااُسے کوئی فائدہ حاصل نہ ہو ، وہ ٹھیک اس چوپائے کی مانند ہوتاہے ،جوکتابوں کی ایک گانٹھ کاوزن تواپنی پشت پرمحسوس کرتاہے لیکن اس کے مطالب سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھا تا ۔
بعض تعبیرات میں عالم بے عمل کو شجر بلاثمر (بغیر پھل کے درخت) یا سحاب بلا مطر (بغیر بارش کے بادل ) یااس شمع سے جوجلتی ہے اوراپنے اطراف کوروشن کرتی ہے لیکن خود ختم ہوجاتی ہے ،یااس چو پائے سے جسے خراس کے ساتھ جوت دیتے ہیں ،وہ مسلسل زحمت اٹھاتا اور راستہ طے کرتارہتاہے ،لیکن چونکہ وہ اپنے ہی چکّروں میں گھومتاہے لہٰذ وہ کوئی راستہ نہیں کرتا اور کہیں بھی نہیں پہنچتا ،اِسی قسم کی دوسری تشبیہیں دی جاتی ہیں جن میں سے ہر ایک عالم بے عمل کومنحوس سرنوشت کے کسِی ایک گوشے کوبیان کرتی ہے ۔
اِسلامی روایات میں بھی اس قسم کے عُلماء کی مذ مّت میں دل ہلا دینے والی تعبیریں آ ئی ہیں منجملہ ان کے حضرت رسُول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا:
من ازداد علماً ولم یزدد ھدی لم یزدد من اللہ الا بعداً
جس شخص کاعلم زیادہ ہولیکن اس کی ہدایت میںاضافہ نہ ہوتویہ علم اُسے خُدا سے دُوری کے سوا کچھ نہیں ہویتا ( ۱) ۔
دوسری جگہ امیر المومنین علی علیہ السلام سے منقول ہے :
العلم مقرون بالعمل ،فمن علم عمل ، والعلم یھتف بالعمل فان اجابہ والا ارتحل عنہ ( ۲) ۔
علم عمل کے ساتھ توام ہے جوشخص جس چیز کوجانتاہے اُسے اس پر عمل کرناچاہیئے .علم فریاد کرتاہے اور عمل کی دعوت دیتاہے ،اگروہ اُسے مثبت جواب نہ دے تو علم اس کے ہاں سے کوچ کرجاتاہے ۔
اصُولی طورپر بعض روایات سے معلوم ہوتاہے کہ عالمِ بے عمل عالم کہلانے کے لائق نہیں ہے ۔
حضرت رسُول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فر ماتے ہیں :
لا یکون المرء عالماً حتّٰی یکون بعلمہ عاملاً ( 3) ۔
اِس سے بڑھ کر یہ بات ہے کہ وہ عالم کی تمام ذمّہ داریوں کے بوجھ کواپنے دوش پراُٹھا ئے ہو ئے ہوتاہے کہ جبکہ علم خصُوصیّات سے بہرہ نہیں ہوتا، جیساکہ امیر المو منین علی علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ نے ایک خطبہ کے ضمن میں فر مایا:
ایھا الناس! اذا علمتم فاعملو ا بما علمتم لعلکم تھتدون ، ان العالم العامل بغیرہ کالجاھل الحائر الذ ی لا یستفیق عن جھلہ بل قد رأیت ان الحجة علیہ اعظم والحسرة ادوم ( ۴) ۔
اے لوگوں ! جب تم کسِی چیزکو جان لو تواس پر عمل کروتاکہ ہدایت پائو ،کیونکہ وہ عالم جو اپنے علم کے برخلاف عمل کرتاہے اس سر گرداں جاہل کی طرح ہے جواپنی جہالت سے کبھی ہوش میں نہیں آ تا ، بلکہ میں تویہ دیکھ رہاہوں کہ اس قسم کے عالم پر حجّت بہُت بھاری اور اُس کے لیے حسرت دائمی ہے ۔
بلاشک وشبہ اس قسم کے عُلماء اوردانشورون کاوجود ایک مُعاشرے کے لیے بہت بڑی مصیبت ہے جن لوگوں کاعالم ودانشور اس قسم کاہوان کی سرنوشت خطرناک ہے ،بقولِ شاعر:
وراعی الشاة یحمی الذئب عنھا
فکیف اذا الرعاة لھا ذئاب
چر واہا بکریوں کوبھیڑ یے سے بچاتاہے ۔
لیکن ان بکریوں کی حالت پر افسوس ہے کہ جن کے چر واہے ہی بھیڑ یے بن جائیں :
۱۔ مجمة البیضاء جلد١،صفحہ ، ١٢٦۔
۲۔ "" نہج البلاغہ ، کلمات قصار ،جملہ ٣٦٦۔
3۔ مجمتہ البیضاء جلد ١صفحہ ١٢٥، ١٢٦۔
۴۔ اصول کافی جلد١،باب استعمال العلم حدیث ٦۔ 
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma