پیغمبر کی بعثت کامقصد

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 24
یہ سُورہ بھی خدا کی تسبیح و تقدیس سے شروع ہو رہاہے اوراس کے صفاتِ جمالی وجلال کے ایک حصّہ اوراس کے اسمائِ حسنیٰ کی طرف اشارہ کررہاہے ،جوحقیقت میں آ ئندہ کے مباحث کے لیے ایک مقدمہ ہے ۔
فرماتاہے : آسمانوں اور زمین میں جوکچھ ہے وہ ہمیشہ خُدا کی تسبیح کرتے رہتے ہیں ،اورزبانِ حال و قال کے ساتھ اس کو تمام نقائص اورعیوب سے پاک شمار کرتے ہیں (یُسَبِّحُ لِلَّہِ ما فِی السَّماواتِ وَ ما فِی الْأَرْضِ ) ۔
وہی خدا جو مالک و حاکم ہے ، اورہر عیب ونقص سے مبّراہ ہے (الْمَلِکِ الْقُدُّوسِ ) ۔
وہ خدا عزیز وحکیم ہے (الْعَزیزِ الْحَکیم) ۔
اور اس طرح سے پہلے اس کی مالکیّت اورحاکمیّتکی اورپھر ہرقسم کے ظلم وستم اورنقص وعیب سے اس کے منزّہ ہونے کی تاکید کرتاہے ، کیونکہ ملوک اوربادشاہوں کے بے حساب مظالم کی طرف توجّہ کرتے ہُوئے لفظ ملک سے غیر مقدس معانی کاگمان ہوتاہے جولفظ قدوس سے پاک وپاکیزہ ہوجاتاہے ۔
اورایک طرف سے قدرت اورعلم پرتکیہ کرتاہے ، جوحکومت کے دواصلی رُکن ہیں ، اورجیساکہ آئندہ چل کرمعلوم ہوجائے گا کہ یہ صفات اس سُورہ کے آنے والے مباحث کے ساتھ قریبی ربط رکھتے ہیں ،اور یہ اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ مختلف آ یاتِ قرآنی میں ، حق تعالیٰ کے اوصاف کاانتخاب ،حساب وکتاب اورایک خاص قسم کے نظم وربط کے ماتحت ہوتاہے ۔
موجودات ِ عالم کی عمومی تسبیح کے بارے میں ہم پہلے ہی تفصیلی بحثیں کرچکے ہیں (۱)۔
اِس مختصر اورپُر معنی اشارہ کے بعد ، جومسئلہ توحید اور اورصفات خدا کی طرف ہواہے پیغمبر اسلام ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی بعثت اور اس عظیم رسالت کے ہدف کو، جوخدا کے عزیز وحکیم اورقدّوس ہونے کے ساتھ مربُوط ہے ،بیان کرتے ہوئے اس طرح کہتاہے : وہی ہے کہ جس نے امییّن میں انہیں میں سے ایک رسول کومبعوث کیا، تاکہ وہ ان کے سامنے اس کی آ یت کی تلاوت کرے (ہُوَ الَّذی بَعَثَ فِی الْأُمِّیِّینَ رَسُولاً مِنْہُمْ یَتْلُوا عَلَیْہِمْ آیاتِہِ ) ۔
اوراس تلاوت کے ذریعہ انہیں ہرقسم کے شرک ، انحراف ،فساد اور خرابی سے پاک وپاکیزہ کردے اورانہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دے (وَ یُزَکِّیہِمْ وَ یُعَلِّمُہُمُ الْکِتابَ وَ الْحِکْمَةَ ) ۔
اگرچہ وہ اس سے پہلے ضلال مبین اورواضح گمراہی میں تھے (وَ ِنْ کانُوا مِنْ قَبْلُ لَفی ضَلالٍ مُبینٍ ) ۔
قابلِ توجّہ بات یہ ہے کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی بعثت کوان خصوصیات کے ساتھ جن دکی طریقِ اعجاز کے علاوہ اورکوئی تعبیر نہیں کی جاسکتی ،عظمتِ خداکی نشانی اوراس کے وجُود کی دلیل قرار دیتے ہُوئے کہتاہے :
خدا وہی ہے کہ جس نے اس شان کے پیغمبر کومبعوث کیااورآفرینش میں اس طرح کاشاہکار عالمِ وجو د میں لایا ہے ۔
امیّین جمع ہے امّیکی ،جس دکامعنی ہے وُہ جِس نے کسِی سے درس نہ پڑھا ہو( جو ام (ماں) کے ساتھ منسُوب ہے ، یعنی ماں کی گود کے علاوہ اورکوئی مدرسہ نہ دیکھاہو )اور بعض نے اسے اہل ِمکّہ کے معنی میں سمجھا ہے ، کیونکہ مکّہ کو اُمّ القریٰ ( آ بادیوں کی ماں )کہتے تھے ،لیکن یہ احتمال بعید نظر آ تاہے ،چونکہ نہ توپیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صرف اہل مکّہ کے لیے مبعوث ہُوئے اور نہ ہی سورہ جمعہ مکّہ میں نازل ہُوئی ہے ۔
بعض مفسّرین نے اس کی یہودیوں اوردُوسرے لوگوں کے مقابلے میں امّت ِ عرب کے معنی میں بھی تفسیر کی ہے ، اوروہ سورہ آ ل عمران کی آ یت٧٥ کواس معنی پرشاہد سمجھتے ہیں جویہ کہتی ہے:
قالو لیس علینا فی الا میین سبیل : یہود یوں نے کہاکہ ہم امییّن (غیر یہود)کے مقابلے میں جوابدہ نہیں ہیں ۔
اگرہم اس تفسیر کوقبول بھی کرلیں توبھی اس کی وجہ یہ ہے کہ یہودی اپنے آپ کواہل کتاب اور پڑھے لکھے افراد سمجھتے تھے اورامّت کواَن پڑھ اور بے علم کہتے تھے ، اس بناء پر پہلی تفسیر زیادہ مناسب ہے ( ٢) ۔
قابل توجّہ بات یہ ہے کہ فرماتاہے : پیغمبر اسی گر وہ اوراَن پڑھ طبقہ میں سے مبعوث ہواہے تاکہ اس کی رسالت کی عظمت کوواضح کرلے اوریہ چیزاس کی حقانیّت کی دلیل ہے .کیونکہ قرآن جیسی کتاب ،ایسے عمیق و عظیم مطالب اوراسلام جیسی ثقافت کے ساتھ ،محال ہے کہ یہ کِسی بشر کی فکرکا ثمرہ ہو،وہ بشربھی ایسابشر کہ جس نے نہ توخود کسِی کے سامنے تعلیم کے لیے زانوئے ادب تہ کیا ہواورنہ ہی علم ودانش کے ماحول میں اُس نے پرورش پائی ہو ۔ یہ ایک ایسانُور ہے جوظلمت کی سرزمین سے اٹھاہے ،اورایک سرسبز باغ ہے جو شو رزار سے نکلا ہے ،اور یہ خود پیغمبر کی حقّانیّت کا ایک واضح معجزہ اورایک روشن سند ہے ۔
اوپروالی آیت میں اِس بعثت کے مقصد کاتین چیزوں میں خلاصہ کیاہے ، جن میں سے ایک توتمہید ی پہلو رکھتی ہے ،اوروہ آ یات ِ الہٰی کی تلاوت ہے اوردُوسرے دوحِصّے ، یعنی تہذیب وتز کیئہ نفوس اور تعلیم کتاب وحکمت دواصلی اوراہم مقاصِد ہیں ۔
ہاں ! پیغمبراسی لیے آ ئے ہیں کہ علم ودانش دکے سلسلہ میں اوراخلاق وعمل کے بارے میں بھی انسان کی تربیّت کریں تاکہ وہ ان دونوں پرو ں کے ذ ریعے آسمانِ سعادت کی بلندی پر پر واز کریں اورخدائی راستہ کواختیار کرکے اس کے مقامِ قرب کوحاصل کریں ۔
یہ نکتہ بھی قابلِ توجّہ ہے کہ بعض آ یات ِ قرآنی میں تو تز کیہ، تعلیمپر مقدّم ہے اور بعض میںتعلیم تز کیہ پرمقدم شمار ہوئی ہے ،یعنی چار موارد میں سے تین میں تربیّت ،تعلیم پرمقدّم ہے اورایک مقدم پر تعلیم تربیّت پر مقدم ہے ۔
یہ تعبیر جہاں ضمناً یہ بتاتی ہے کہ یہ دونوں اُمور ایک دُوسر ے میں تاثیر متقابل رکھتے ہیں (یعنی اخلاق علم کی پیداوار ہے جیساکہ علم اخلاق ہے پیداہوتاہے) وہاں تربیّت کی اصالت کوبھی مشخّص کرتی ہے ،البتّہ اس سے مُراد حقیقی علوم ہیں نہ کہ اصطلاحی کہ جوعلم کے لباس میں موجُود ہیں ۔
ممکِن ہے کہ کتاب تواِسلام کے اصل احکام کی طرف اشارہ ہے اور حکمت ان کے فلسفہ اور اسرار کی طرف راجع ہو۔
یہ نکتہ بھی قابلِ توجّہ ہے کہ حکمتِ اصل میں بغرض اصلاح کسِی کومنع کرنے اورروکنے کے معنی میں ہے اورگھوڑے کی لگام کو اس وجہ سے حکمت کہتے ہیں کہ اسے رو ک کر صحیح راستے پرڈالتی ہے ،اِس بناء پر حِکمت سے مُراد عقلی دلائل ہیں ، یہیں سے واضح ہوجاتاہے کہ کتاب وحکمت کاایک دُوسرے کے بعد ذکر ہو سکتاہے کہ شاید یہ معرفت وشناخت کے دوسرچشموں یعنی وحی و عقل کی طرف اشارہ ہو یادوسرے لفظوں میں احکام آسمانی اور تعلیمانِ اسلام کہ ان کاسرچشمہ وحی الہٰی ہے اوروہ عقلی لحاظ سے بھی قابلِ فہم اورلائقِ ادراک ہیں ( مراد کلیاتِ احکام میں) ۔
باقی رہا ضلال مبین ( واضح گمراہی ) جوآ یت کے ذیل میں قوم عرب کے سابقہ حالات کے عنوان سے بیان ہُواہے ، زمانۂ جاہلیّت کی طرف ایک سربستہ اورپُر معنی اشارہ ہے،جس میں گمراہی کے پُورے مُعاشرے پرچھائی ہوئی تھی،اس سے بد تر گمراہی اورکیاہوگی کہ وہ اُن بتوں کی پُوجا کرتے تھے،جنہیں وہ پتھر اورلکڑی سے اپنے ہاتھ سے تراش کربناتے تھے اوراپنی مشکلات میں انہیں بے شعُور موجودات کی نپاہ لیتے تھے ۔
اپنی بیٹیوں کواپنے ہاتھ سے زندہ درگور کردیتے تھے ،یہ توآسمان تھا،لیکن اس عمل پر فخر ومباہات بھی کیا کرتے تھے کہ ہم نے اپنے ناموس کو بیگانوں کے ہاتھ میں نہیں جانے دیا ۔
ان کے مراسم نماز وعبادت،خانہ کعبہ کےپاس تالیاں پیٹنا اورسیٹیاں بجانا تھے،یہاں تک کہ عورتیں مادر زاد برہنہ صُورت میں خانۂ خدا کے گرد طواف کرتیں اوراسے عبادت شمارکرتی تھیں ۔
ہاں ! دلائل اورانہیں تعلیم وتربیّت دی اورواقعتا اِس قسم کے گمراہ معاشرے میں نفوذ پیدا کرناعظمتِ اسلام کی دلیل اورہمارے عظیم پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کاایک آشکار مُعجزہ ہے ۔
لیکن چُونکہ پیغمبراسلام صرف اسی اُمّی قوم کے لیے مبعوث نہیں ہُوئے تھے بلکہ آ پ کی دعوت پورے عالم کے لیے تھی ، اِس لیے بعد والی آ یت میں مزید کہتاہے : اوروہ ان دُوسرے مومنین کے لیے بھی رسُول ہے ،جوابھی تک ان سے مُلحق نہیں ہُوئے (وَ آخَرینَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوا بِہِمْ ) (٣) ۔
وہ دُوسری قومیں جنہوں نے اصحابِ پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد عرصئہ وجود میں قدم رکھا انہوں نے بھی پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی تعلیم وتربیّت کے مکتب میں پرورش پائی ہے ، اوروہ بھی قرآن اورسُنّتِ محمّدی کے چشمۂ زلال سے سیراب ہُوئے ہیں ،ہاں ! وہ بھی اِس عظیم دعوت میں شامل ہیں ۔
اِس طرح سے اوپر والی آ یت ، عرب وعجم میں ان تمام اقوام کوشامل ہے جوصحابۂ پیغمبر کے بعد وجُود میں آ ئی ہیں ۔
ایک حدیث میں آیاہے کہ جب پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت کی تلاوت فرمائی تو لوگوں نے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں ؟ توپیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا ہاتھ سلمان کے کاندھے پررکھ کر فر مایا:
لوکان الایمان فی الثریا لنا لتہ رجال من ھٰؤ لاء ۔
اگر ایمان ثریّا (ایک بہُت دُور ستارہ ہے جواس سلسلہ میں ضربُ المثل ہے ) میںبھی ہو تواس گروہ (ایرانیوں ) میں سے کچھ افراد اس کو وہاں سے بھی حاصِل کر لیں گے ( ٤) ۔
چونکہ ان تمام امور کا سر چشمہ خدا کی قُدرت وحکمت ہے ، لہٰذا آ یت کے آخر میں مزید کہتاہے : وہ عزیزوحکیم ہے (وَ ہُوَ الْعَزیزُ الْحَکیمُ) ۔
اِس کے بعداس عظیم نعمت ، پعنی پیغمبر گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِسلام کی بعثت اوران کی ذریعے تعلیم و تربیت کی طرف اشارہ کرتے ہُوئے مزید کہتاہے یہ خدا کافضل ہے ،وہ جسے چاہے ( اور لائق دیکھے اسے )عطاکردے اورخدا فضلِ عظیم کا مالک ہے ( ذلِکَ فَضْلُ اللَّہِ یُؤْتیہِ مَنْ یَشاء ُ وَ اللَّہُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظیمِ) ۔
حقیقت میں یہ آ یت سورہ آ ل عمران کی آ یت ١٦٤ کے مانند ہے جویہ کہتی ہے : لَقَدْ مَنَّ اللَّہُ عَلَی الْمُؤْمِنینَ ِذْ بَعَثَ فیہِمْ رَسُولاً مِنْ أَنْفُسِہِمْ یَتْلُوا عَلَیْہِمْ آیاتِہِ وَ یُزَکِّیہِمْ وَ یُعَلِّمُہُمُ الْکِتابَ وَ الْحِکْمَةَ وَ ِنْ کانُوا مِنْ قَبْلُ لَفی ضَلالٍ مُبین اوراس آ یت کی تمام باتیں تقریباً زیر بحث آ یات سے مشابہ ہیں ۔
بعض نے یہ احتمال بھی دیا ہے کہ ذلِکَ فَضْلُ اللَّہِ ( یہ اللہ کافضل ہے ) میں مقامِ نبّوت کی طر ف اشارہ ہے کہ خدایہ مقام جسے اس لائق دیکھتاہے اُسے عطافر ماتاہے ۔
لیکن پہلی تفسیر زیادہ مناسب ہے ،اگرچہ دونوں تفاسیر کے درمیان جمع بھی ممکِن ہے کہ پیغمبر کہ رہبری بھی امّت کے لیے اللہ کافضل ہے اورمقامِ نبوت بھی پیغمبر کے لیے اللہ کافضل ہے ۔
یہ بات کہے بغیر ہی واضح ہے کہ من یشاء (جسے چاہے )کی تعبیر کامفہوم یہ نہیں کہ خداکسی حساب و کتاب کے بغیر ہی اپنے فضل ورحمت سے کسِی کودے دیتاہے بلکہ یہاں مشیّت حکمتِ کے ساتھ تواُم ہے جیساکہ سورہ کی پہلی آ یت میں خدا کی عزیزو حکیم سے توصیف بھی اسی مطلب کوواضح کرتی ہے ۔
امیرالمومنین علی علیہ السلام بھی اس فضلِ الہٰی کی تشریح میں نہج البلاغة میں فرماتے ہیں :
فانظر واالی مواقع نعم اللہ علیھم ، حین بعث الیھم رسول، فعقد بملتہ طاعتھم ،وجمع علی دعوتہ الفتھم، کیف نشرت النعمة علیھم جناح کرامتھا ،واسالت لھم جداول نعیمھا ،والتفت الملة بھم فی عوائد بر کتھا فاصبحوافی نعمتھا غر قین ، وفی خضرة عیشھا فکھین ۔
اس امّت پر خدا کی نعمتوں کی طرف دیکھو ! اس زمانے میں جب اپنے رسُول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کواُن کی طرف بھیجا تواپنے دین کاانہیںمطیع بنادیااوراس کی دعوت کے ساتھ انہیں متحّد کیا، دیکھو! اس عظیم نعمت نے اپنے کرامت کے پرو بال کِس طرح ان پر پھیلا دیئے ،اوراپنی نعمتوں کی نہریں ان کی طرف جاری کیں اور دین ِحق نے اپنی تمام برکتوں کے ساتھ انہیں گھیر لیا ،وہ اس کی نعمتوں کے درمیان غرق ہیں ، اور خوش وخرّم زندگی میں شادمان ہیں (٥) ۔
١۔تفسیرنمونہ جلد١٢ : ذیل آ یت ٤٤ سورةاسراء وجلد ١٤ ذیل آ یت ٤١ سورة نور۔
٢۔ "" اُمّی "" کے معنی کے بارے میں سورہ اعراف کی آ یت ١٥٧ کے ذیل میں ہم نے بہت تفصیل سے بیان کیاہے ( تفسیرنمونہ جلد ٦ کی طرف رجُوع کریں) ۔
٣۔"" اٰخرین "" "" امیّین "" پرعطف ہے اور"" منھم "" کی ضمیر "" مومنین "" کی طرف لوٹتی ہے جوکلام کے اندر سے معلوم ہوتی ہے ،بعض نے یہ احتمال بھی دیاہے کہ "" یعلمھم "" کی ضمیر پرعطف ہو لیکن پہلا معنی زیادہ مُناسب ہے ۔
٤۔ اس حدیث کو"" طبرسی "" نے "" مجمع البیان "" میں علّامہ طباطبائی نے "" المیزان "" میں ،سیّو طی نے درّ المنثور میں زمخشر ی نے "" کشاف "" میں "" قرطبی نے اپنی تفسیر میں ، راغی نے اپنی تفسیرمیں اورسیّد قطب نے "" فی ظلال "" میں زیر بحث آ یت کے ذیل میں نقل کیا ہے ، یہ حدیث اصل میں صحیح بخاری سے لی گئی ہے ۔
٥۔ نہج البلاغہ خطبہ ١٩٢،(خطبہ قاصعہ) ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma