سود مند اور بے نظیر تجارت

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 24
جیساکہ ہم اس سورة کے آغاز میں بیان کرچکے ہیں کہ اس آ یت کے اہم مقاصد میں سے ایک ایمان اور جہاد کی دعوت ہے ، زیر بحث آ یات بھی ان ہی دونوں باتوں کی تاکید ایک ایسی لطیف مثال سے کی گئی ہے ،جوانسان کے دل وجان میں حرکت الہٰی کے جذبے کووجود میں لاتی ہے ،وہ خذ بہ جوتمام دینوں پر دین ِ اسلام کے غلبے کی شرط ہے اِس کی طرف گزشتہ آ یات میں بھی اشارہُوا ہے ۔
پہلے فرماتاہے : اے ایمان لانے والو! کیامیں تمہیں ایسی تجارت کی طرف رہبری نہ کروں جوتمہیں دردناک عذاب سے نجات دے ؟ ّ(یا أَیُّہَا الَّذینَ آمَنُوا ہَلْ أَدُلُّکُمْ عَلی تِجارَةٍ تُنْجیکُمْ مِنْ عَذابٍ أَلیمٍ) ۔
اس کے باوجود کہ ایمان اور جہاد یقینی اورقطعی واجبات میں سے ہیں مگر یہاں انہیں حکم کی صُورت میں نہیں بلکہ تجارت کی پیش کش کی صورت میں بیان کرتاہے ،وہ بھی ایسی تعبیروں کے ساتھ جوخدا کے بے پایاں لطف وکرم کی حکایت بیان کرتی ہیں ۔
اِس میں شک نہیں کہ عذاب ِ الیم سے نجات انسان کی اہم ترین خواہشات میں سے ایک ہے ۔اِس لیے یہ سوال کہ کیاتم چاہتے ہو کہ تمہیں ایسی تجارت کی طرف رہنمائی کروں جوتمہیں عذابِ الیم سے رہائی بخشے، سب کے لیے جالبِ توجّہ ہے ۔
جب اس سوال کے ساتھ دلوں کو اپنی طرف جذب کرلیا تواِن کے جواب کاانتظار کیے بغیر اس سُود مند تجارت کی تشریح کرتے ہُوئے فرماتاہے : اور وہ یہ ہے کہ تم خدا اوراُس کے رسول پر ایمان لے آ ئو اورخُدا کی راہ میں اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد کرو (تُؤْمِنُونَ بِاللَّہِ وَ رَسُولِہِ وَ تُجاہِدُونَ فی سَبیلِ اللَّہِ بِأَمْوالِکُمْ وَ أَنْفُسِکُمْ ) (١).
اِس میں شک نہیں کہ خداکواس سُود مند تجارت کی کوئی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس کے نفع کاکلی تعلّق صِرف مومنین کے ساتھ ہے ،اِسی لیے آ یت کے آخر میں فرماتاہے :یہ تمہارے لیے ہرچیز سے بہتر ہے ،اگرتم جانو(ذلِکُمْ خَیْر لَکُمْ ِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُون) ۔
قابلِ توجّہ بات یہ ہے کہ یاایھا الذین اٰمنوا کے قرینہ سے مخاطب مومنین ہیں اورعین اس حالت میں انہیں ایمان اور جہاد کی دعوت دیتاہے ، ممکِن ہے یہ تعبیر اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ سطح اورنام کاایمان کافی نہیں ، گہرے اورخالِص ایمان کی ضُرورت ہے کہ جوایثار ، فدا کاری اورجہاد کا سرچشمہ بن سکے،یہ بھی ممکن ہے کہ خدااور رسُول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)پرایمان کاذکر یہاں اس ایمان کی تشریح ہوجو گزشتہ آ یت میں اجمالی طورپر آ یاہے۔
بہرحال پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)پر ایمان ، خداپر ایمان سے الگ نہیں ہے،جیساکہ جان کے ساتھ جہاد ، مال کے ساتھ جہاد سے جُدا نہیں ہوسکتا ، کیونکہ تمام جنگیں وسائل وامکانات کی محتاج ہوتی ہیں جنہیں مالی امدادوںکے ذ ریعے پورا کیاجاناچاہیے ، بعض لوگ دونوں طرح کے جہاد وں پر قادر ہوتے ہیں اور بعض صرف میدانِ جنگ سے پیچھے رہ کرمالی جہاد پر ہی قدرت رکھتے ہیں، اِسی طرح بعض لوگ صرف جان ہی پیش کرسکتے ہیں اوراسے قربان کرنے پر آمادہ ہوتے ہیں ۔
بہرحال دونوں قسم کے جہادوں کوہر صورت میں ایک دُوسرے سے توام ہونا چاہیے تاکہ کامیابی حاصل دہو،اگر ہم یہ دیکھتے ہیں کہ مالی جہاد کومقدّم رکھا گیا ہے تواس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ جانی جہاد سے زیادہ اہم ہے ،بلکہ یہ اس وجہ سے ہے کہ وہ اس کامقدّمہ شمار ہوتاہے ،کیونکہ جہاد کے آلات واسلحہ مالی امدا دوں کے ذریعے ہی فراہم ہوتے ہیں ۔
یہاں تک اس عظیم اور بے نظیر تجارت کے تین ارکان مشخّص ہُوئے ہیں : خریدار خُدا ہے ، بیچنے والے صاحبِایمان لوگ ہیں ، اور متاع ان کی جانیں اورمال میں ،اب چوتھے رُکن کی نوبت آ تی ہے جواس بڑے سودے کی قیمت ہے ۔
فرماتاہے : جب تم ایسا کرو گے توخُدا تمہارے گناہ بخش دے گا اور تمہیں جنّت کے باغوں میں جس کے درختوںکے نیچے نہریں جاری ہیں اور بہشت جاودانی کے پاکیزہ مسکنوں میں جگہ دے گا ،اور یہ ایک عظیم کامیابی ہے (یَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ وَ یُدْخِلْکُمْ جَنَّاتٍ تَجْری مِنْ تَحْتِہَا الْأَنْہارُ وَ مَساکِنَ طَیِّبَةً فی جَنَّاتِ عَدْنٍ ذلِکَ الْفَوْزُ الْعَظیمُ ) (٢) ۔
اُخروی اجر کے مر حلہ میں پہلے گناہوں کی بخشش کی بات کرتاہے ، کیونکہ انسان کو زیادہ ترفکر و پریشانی اپنے گناہوں سے ہوتی ہے ،جب مغفرت اور بخشش یقینی ہوجائے توپھرفکر کی کوئی بات نہیں ہے ، یہ تعبیر بتلاتی ہے کہ اس کی راہ میں شہیدہونے والوں کے لیے پہلا ہدیہ ٔخداوندی یہ ہے کہ وہ اُن کے گناہوں کوبخش دیتاہے ۔
اب رہی یہ بات کہ کیایہ صرف حقِ خدا کے بارے میں ہے یا حقّ الناسکوبھی شاملِہے ؟تو آ یت کامُطلق ہوناعمو میّت کی دلیل ہے ، لیکن اس بات کی طرف توجہ کرتے ہُوئے کہ خدانے حق الناس خودانہیں کے سپرد کیے ہُوئے ہیں ، لہٰذابعض نے اس کی عمومیّت میں شک کیاہے۔
اِس طرح سے اوپر والی آ یات مین دوشاخیں توایمان کی ہیں،(خدااوررسُول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)پر ایمان )اور دوشاخیں جہاد کی ہیں ( مال اورجان کے ساتھ جہاد )اور دو شاخیں اُخروی جزائوں کی ہیں ، (گناہوں کی بخشش اور بہشت جاودان میں دخول )اورجیساکہ ہم دیکھیں گے بعد والی آ یت میں دنیا میں مواہبِ الہٰی کی بھی دوشاخیں آ ئی ہیں ۔
جہاں فرماتاہے : اور دوسری وہ نعمت تمہیں عنایت کرے گاجسے تم دوست رکھتے ہو اور تمہیں جس سے بہت لگائوں ہے اوروہ خدا کی مدد و نصرت اور نزدیک کی فتح ہے (وَ أُخْری تُحِبُّونَہا نَصْر مِنَ اللَّہِ وَ فَتْح قَریب ) (٣) ۔
کتنی سُود مند اور برکت والی تجارت ہے جوسراسر فتح وکامیابی اور نعمت ورحمت ہے اوراسی وجہ سے اس کوفوز عظیم اور بہت بڑی کامیابی قرار دیاہے ۔
اِسی وجہ سے بعد میں مومنین کواس عظیم تجارت کے بارے میں مُبارکبادکے ساتھ بشارت دیتا اور مزید کہتاہے : اورمومنین کوبشارت دے دو ( وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنینَ ) ۔
ایک حدیث میں آ یاہے کہ جب لیلة عقبة ( جس رات پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکّہ کے قریب مدینہ کے کچھ لوگوں سے مخفی طورپر مُلاقات کی اوران سے بیعت لی ) رسُول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )اور مدینہ کے مسلمانوں کے درمیان عہدو پیمان ہُوا تو عبداللہ بِن رواحہ نے عرض کیا: اس پیمان کے ضمن میں آپ اپنے لیے اوراپنے پر وردگار کے لیے جوشرط چاہیں رکھ لیں ۔
پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے فرمایا : میرے پروردگار کے لیے تو یہ شرط ہے کہ کسِی طرح بھی کسِی چیز کو اس کاشریک قرار نہیں دو گے اور میرے لیے یہ شرط ہے کہ جِس طرح تم اپنی جان ومال کادفاع کرتے ہو اسی طرح میرابھی دفاع کروگے ۔
عبدااللہ نے کہا: اس کے مقابلے میں ہمیں کیادیاجائے گا ۔
پیغمبر(صلی اللہ علیہ ولہ وسلم)نے فرمایا:بہشت !
اُخروی اجر کے مرحلہ میں پہلے گناہون کی بخشش کی بات کرتاہے ، کیونکہ انسان کوزیادہ فکرو پریشانی اپنے گناہوں سے ہوتی ہے ،جب مغفرت اور بخشش یقینی ہوجائے توپھر فکر کی کوئی بات نہیں ہے ، یہ تعبیر بتلاتی ہے کہ اس کی راہ میں شہیدہونے والوں کے لیے پہلا ہدیہ ٔ خداوندی یہ ہے کہ وہ اُن کے گناہون کوبخش دیتاہے ۔
اب رہی یہ بات کہ کیایہ صرف حقِّ خدا کے بارے میں ہے یا حق الناس کوبھی شامل ہے ؟ توآیت کامُطلق ہونا عمومیّت کی دلیل ہے ،لیکن اس بات کی طرف توجہ کرتے ہُوئے کہ خدانے حق الناس خودانہیں کے سپرد کیے ہُوئے ہیں ، لہٰذا بعض نے اس کی عمومیّت میں شک کیاہے ۔
اِس طرح سے اوپر والی آ یت میں دوشاخیںتوایمان کی ہیں ، (خدا اوررسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)پرایمان )اور دو شاخیں جہاد کی ہیں ( مال اورجان کے ساتھ جہاد )اوردو شاخیں اُخروی جزائوں کی ہیں ، ( گناہوں کی بخشش اور بہشت جاودان میں دخول )اور جیساکہ ہم دیکھیں گے بعد والی آ یت میں دنیا میں مواہب ِ الہٰی کی بھی دوشاخیں آ ئی ہیں ۔
جہاں فرماتاہے : اور دوسری وہ نعمت عنایت کرے گا جسے تم دوست رکھتے ہو اور تمہیں جس سے بہت لگائو ہے اوروہ خدا کی مدد ونصرت اور نزدیک کی فتح ہے (وَ أُخْری تُحِبُّونَہا نَصْر مِنَ اللَّہِ وَ فَتْح قَریب ) (٤)
کتنی سُود مند اور برکت والی تجارت ہے جوسراسر فتح وکامیابی اور نعمت ورحمت ہے اوراسی وجہ سے اس کوفوز عظیم اور بہت بڑی کامیابی قرار دیاہے ۔
اِسی وجہ سے بعد میں مومنین کواس عظیم تجارت کے بارے میں مُبارکبادکے ساتھ بشارت دیتا اور مزید کہتاہے : اورمومنین کوبشارت دے دو ( وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنینَ ) ۔
ایک حدیث میں آ یاہے کہ جب لیلة عقبة ( جس رات پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکّہ کے قریب مدینہ کے کچھ لوگوں سے مخفی طورپر مُلاقات کی اوران سے بیعت لی ) رسُول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )اور مدینہ کے مسلمانوں کے درمیان عہدو پیمان ہُوا تو عبداللہ بِن رواحہ نے عرض کیا: اس پیمان کے ضمن میں آپ اپنے لیے اوراپنے پر وردگار کے لیے جوشرط چاہیں رکھ لیں ۔
پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے فرمایا : میرے پروردگار کے لیے تو یہ شرط ہے کہ کسِی طرح بھی کسِی چیز کو اس کاشریک قرار نہیں دو گے اور میرے لیے یہ شرط ہے کہ جِس طرح تم اپنی جان ومال کادفاع کرتے ہو اسی طرح میرابھی دفاع کروگے ۔
عبدااللہ نے کہا: اس کے مقابلے میں ہمیں کیادیاجائے گا ۔
پیغمبر(صلی اللہ علیہ ولہ وسلم)نے فرمایا:بہشت !
عبداللہ نے کہا: ربح البیع لانقبل و لا نستقبلکتنا سود مند اورنفع بخش مُعاملہ ہے ؟نہ توہم اس مُعاملہ سے خود پھریں گے اور نہ ہم اس مُعاملہ سے پھرجانے کوقبول کریں گے ( نہ تو فسخ کریں گے اور نہ ہی فسخ کر قبول کریں گے ( ٥) ۔
١۔"" تُؤْمِنُونَ بِاللَّہِ"" کاجمُلہ "" جملہ استینافیہ "" ہے جو تجارت کی تفسیرکرتاہے ،اوربعض نے اسے عطفِ بیان سمجھا ہے ، یہاں دیہ "" جملہ خبریہ "" بمعنی "" امر "" کی صورت میں ہے ۔
٢۔"" یَغْفِرْ لَکُمْ"" کاجُملہ محذوف "" شرط "" کی"" جزاء "" کے طورپر آ یاہے کہ جس کاسابقہ جُملہ سے استفادہ ہوتاہے ، تقدیر میں اس طرح ہے ، ان تؤ منواباللہ و رسولہ وتجاھد وافی سبیلہ ... یغفرلکم ذ نو بکم ""یہ احتمال بھی دیاگیاہے کہ یہ "" امر "" کاجواب ہوکہ جو "" تؤ منون "" اور "" تجاھدون "" کے جملہ خبر یہ سے معلوم ہوتاہے ۔
٣۔""اخرٰی ""ایک محذوف موصوف کی صفت ہے ، مثلاً نعمت یا خصلت ،بعض نے یہ بھی کہاہے کہ موصوف "" تجارت "" ہے لیکن یہ بعید نطر آ تاہے ۔
٤۔""اخرٰی ""ایک محذوف موصوف کی صفت ہے ، مثلاً نعمت یا خصلت ،بعض نے یہ بھی کہاہے کہ موصوف "" تجارت "" ہے لیکن یہ بعید نطر آ تاہے ۔
٥۔ "" فی ظلال ""جلد٨،صفحہ ٨٧۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma