تفسیر

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 24
وہ نو رخدا کواپنی پھو نکوں سے خاموش کرنا چاہتے ہیں

گزشتہ آ یات میں بیان ہُوا تھا کہ مخالف اورہٹ دھرم کروہ ،پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے بارے میں گزشتہ پیغمبر حضرت عیسیٰ علیہ السلام بشارت کے باوجُود اورپیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کے بیّنات واضح دلائل اورمُعجزات کے ساتھ قوی ہونے کے باو جُود کس طرح مقابلہ اور انکار کے لیے کھڑا ہوگیا ،زیر بحث آ یات میں ان لوگوں کے انجامِ کار اوران کی سرنوشت کی تشریح کرتاہے ۔
پہلے فرماتاہے : اس شخص سے بڑھ کرظالم اورکون ہوگا جو خُدا پرجھوٹ باندھے۔حالانکہ اُسے اِسلام کی دعوت دی جارہی ہے(وَ مَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَری عَلَی اللَّہِ الْکَذِبَ وَ ہُوَ یُدْعی ِلَی الِْسْلامِ ) ۔
ہاں ! ایساآدمی جوپیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی دعوت کو جھُوٹ ، ان کے معجزات کو جادواوران کے دین کوباطل شمار کرلے ،وہ سب سے پڑھ کر ظالم ہے کیونکہ وہ راہِ نجات وہدایت کواپنے لیے اور دیگر بندگانِ خدا کے لیے بھی روک دیتاہے اورانہیں اس خُدا ئی سردچشمہ ٔ فیض سے محرُوم کردیتاہے ، جوان کی سعادتِ ابدی کاضامن ہے ۔
آ یت کے آخر میں مزید کہتاہے : خدا ستمگر قوم کو ہدایت نہیں کرتا (وَ اللَّہُ لا یَہْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمینَ ) ۔
خداکا کام ہدایت کرناہے ، اوراس کی ذاتِ پاک نور اورمعنوی روشنی ہے اللہ نور السما وات والارض ہدایت کے لیے استعداد کی ضر ورت ہے اوریہ استعداد ان لوگوں میں موجُود نہیں ہوتی جوحقیقت کے دشمن ہوتے ہیں ۔
یہ آ یت ایک مرتبہ پھراس حقیقت پر زور دیتی ہے کہ ہدایت وضلالت خداکی طرف سے ہے ، لیکن اس کے مقدّمات خُود انسان کی طرف سے شروع ہوتے ہیں ، اوراسی بناء پر اس میں ہرگز جبرلازم نہیں آتا ۔
وَ ہُوَ یُدْعی ِلَی الِْسْلامِ کاجُملہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی دعوت انسانوں کودُنیا و آ خرت کی سلامتی اورنجات کی جامن ہے ،اِس حالت میں انسان کیسے اپنی سعادت کی جڑ کاٹتا ہے ؟
من اظلم (کون سب سے پڑھ کرظالم ہے )کہ تعبیر قرآن میں پندرہ مرتبہ دُہرا ئی گئی ہے اوران میں سے زیر بحث آ یت آخر ی ہے ، اگرچہ ان کے موارد ظاہری طورپر مختلف ہیں اور ممکن ہے اسی بات سے یہ سوال پیدا ہو کہ کیاطالم ترین لوگ ایک گروہ سے زیادہ بھی ہوسکتے ہیں؟لیکن ان آ یات میں غور کرنے سے معلوم ہو جاتاہے کہ سب کی بازگشت آ یاتِ الہٰی کی تکذیب اورلوگوں کوراہِ حق سے روکنے پر ہے ،اورواقعی اس سے بڑھ کرکوئی اورظلم نہیں ہے کہ لوگوں کواس قسم کے راستے تک پہنچنے سے باز رکھیں جو ان کے تمام کاموں میں کامیابی کی راہ ہے ۔
اِس کے بعد یہ بتلانے کے لیے کہ دشمنانِ حق اس کے دین کوختم کرنے پر قادر نہیں ہیں ایک عُمدہ تشبیہ کے ضِمن میں فرماتاہے : وہ یہ چاہتے ہیں کہ خدا کے نور کواپنی پُھونکون سے بجھا دیں ، لیکن خُدااپنے نور کو کامل کرکے رہے گا، چاہے یہ بات کافروں کو پسند نہ آ ئے (یُریدُونَ لِیُطْفِؤُا نُورَ اللَّہِ بِأَفْواہِہِمْ وَ اللَّہُ مُتِمُّ نُورِہِ وَ لَوْ کَرِہَ الْکافِرُون) ۔
وہ اس شخص کی مانند ہیں جو آ فتاب عا لمتاب کے نور کو پُھو نک مار کر بُجھا ناچاہتا ہو ، وہ ایسی چمگادڑ یں ہیں جو یہ گُمان کرتی ہیں کہ اگروہ سورج کی طرف سے آنکھیں بند کرلیں اورخود کو رات کی تاریکی کے پر دوں میں چھپالیں تواِس سے وہ چشمہ ٔ نور کے مُقابلہ میں کھڑ ی ہوسکتی ہیں ۔
تاریخ اِ سلام قرآن کی اس عظیم پیشین گوئی کے پُو را ہونے کی ایک زندہ سند ہے ، کیونکہ ظہورِ اسلام کے پہلے دن سے ہی اس کی نابودی کے لیے سازشیں اور مَنصُوبے بنائے جاتے رہے ہیں ۔
کبھی دشمنوں کے تمسخر اور ایذاء و آزار کے ذ ریعے ۔
کبھی اقتصاد ی واجتماعی مقاطعہ کے ذریعے ۔
کبھی اُحد واحزاب وحُنین وغیرہ کے میدانوں میں مختلف جنگوں میں اُلجھانے کے ذریعے ۔
کبھی منافقوں کی اند رونی سازشوں کے ذ ریعے ۔
کبھی مسلمانوں کی صفوں میں اختلاف پیدا کرنے کے ذریعے ۔
کبھی صلیبی جنگوں کے ذریعے ۔
کبھی عظیم اسلامی سلطنت کوچالیس دسے ذیادہ ملکوں میں تقسیم کرنے کے ذریعے ۔
کبھی مذہبی قوانین کوبدل کر اورمُسلمان جوانوں کو اُن کی پُرانی تہذیب و تمدّن سے دُور کرنے کے ذ ریعے ۔
کبھی جوانوں میں فحشاء ومنکر ،فساد اخلاق اورانحرافِ عقیدہ کے وسائل کی نشر واشاعت کے ذ ریعے ۔
کبھی فوجی ، سیاسی اور اقتصادی تسلّط کے ذ ر یعے۔
اور کبھی دُوسر ے طریقوں سے اِسلام کونابُود کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں ۔
لیکن جس طرح خُدا نے ارادہ کیاتھا، یہ نورِ الہٰی روز بروز پھیل رہاہے اور ہرزمانے میں اِسلام کادامن پہلے سے وسیع ہوتاچلا جارہا ہے ،اعد ا دوشمار بتلاتے ہیں کہ مسلمانوں کی جمعیت ، صیہونیوں ،صلیبیوں اور مشرق کے ماو ئیین کی مشترکہ کوششوں کے باوجُود بڑھتی ہی جارہی ہے ،ہاں !وہ ہمیشہ سے چاہتے تویہی ہیں کہ خداکے اس نور کوبجھا دین ،لیکن خداکا ارادہ کچھ اور ہے ، اور یہ قرآن کاایک ابدی اور جاودانی معجزہ ہے ۔
قابلِ توجّہ بات یہ ہے کہ یہ مضمون قرآن مجید کی آ یات میں دومرتبہ آ یاہے ، اس فرق کے ساتھ کہ ایک مقام پرتو یریدون ان یطفؤ ا آ یاہے ۔ ( توبہ ٣٢ ) لیکن یہاں یریدون لیطفؤ ا ہے ۔
راغب مُفردات میں اِس اختلاف اورفرق کی وضاحت کرتے ہُوئے کہتاہے کہ پہلی آ یت میں تو مقدّمہ کے بغیر خاموش کرنے کی طرف اشارہ ہے ،لیکن دوسری آ یت میں مقدمات کے ذ ریعے سمجھانے کی طرف اشارہ ہے ۔
یعنی چاہے وہ مقد مات فراہم کریں یا نہ کریں نورِ خداکو خاموش کرنے کی قدرت نہیں رکھتے ۔
آخر ی زیرِ بحث میں مزید تاکید کے لیے صراحت کرتے ہُو ئے کہتاہے : وہی ہے کہ جس نے اپنے رسُول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کوہدایت اوردین حق کے ساتھ بھیجا ، تاکہ وہ اسے تمام دینوں پر غالب کردے ، چاہے ، مشرکین کو بُرا ہی لگے (ہُوَ الَّذی أَرْسَلَ رَسُولَہُ بِالْہُدی وَ دینِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّینِ کُلِّہِ وَ لَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُونَ ) ۔
کی تعبیر اسلام کی کامیابی اورغلبہ کی رمز کے بیان کے طورپر ہے ، کیونکہ یہ غلبہ اورکامیابی ہدایت اور دین حق کی طبیعت میں رکھی ہُوئی ہے اِسلام اورقرآن نورِ الہٰی ہیں ،اورجہاں کہیں بھی نور ہو وہ اپنے آثار اور نشا نیاں دکھا کررہتاہے اور یہ کامیابی کاسبب ہے ،کافروں اور مشر کون کی ناپسند یدگی اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ پیدانہیں کرسکتی ۔
ایک خاص بات ہے کہ یہ آ یت بھی تھوڑے سے فرق کے ساتھ قرآن مجید میں تین مرتبہ آ ئی ہے ، یعنی سُورہ ٔ توبہ ( آ یت ، ٣٣ ) سورۂ فتح ( آ یت ، ٣٨ اوراسی سُورہ صف میں بھی ہے ۔
لیکن اس بات کو نہیں بُھولناچاہیے کہ یہ تکرار اور تاکید اس زمانہ میں تھی جب اِسلام دنیاکے دیگر خطّوں میں توکیا ابھی جزیرہ عرب میں اچھّی طرح نہیں پھیلاتھا ، لیکن قرآن نے اسی وقت تاکید کے ساتھ اس مسئلہ کوپیش کیااور آ ئندہ کے واقعات نے اس عظیم پیشین گوئی کی صداقت کوسچ کردکھایا اورانجام کار اِسلام عقل ومنطق اور عملی پیش رفت کے لحاظ سے بھی دُوسر ے ادیان و مذا ہب پر غالب آ گیا ، اُس نے دشمنوں کودُنیا کے وسیع حصّوں سے پیچھے دھکیل کران کی جگہ لے لی اوراس وقت بھی بڑھتاہی جارہاہے ۔
لیکن اس پیش رفت کااصلی مرحلہ ہمارے عقیدہ کے مطابق حضرت امام مہدی علیہ السلام ارواحنافداء کے ظہُور کے ساتھ پُورا ہوگا اور یہ آ یت بھی خود اس عظیم ظہور کی ایک دلیل ہیں ۔
اِ س آ یت کے مضمُون کے بارے میں کہ اِس سے مُراد منطقی غلبہ ہے یا غلبہ ٔ قدرت اوراس کاربط حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ظہُور کے ساتھ کِس طرح ہے ہم نے سورة توبہ کی آ یت ٣٣ کے ذیل میں ضر ور ی بحث کی ہے ( ١) ۔
١۔تفسیرنمونہ ،جلد٧،صفحہ سورة توبہ آ یت ٣٣ کی طرف رجُوع کریں ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma