تفسیر

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 24
میں احمد(ص) کے ظہور کی بشارت لے کر آ یاہوں :

ان دو احکام کے بعد جو گزشتہ آ یات میں گفتار و کردار کی ہم آہنگی اور وحدتِ صفوف کے بارے میں آ ئے تھے ، اِس میں ان معنی کی تکمیل کے لیے دو پیغمبروں مُوسٰی علیہ السلام اور عیسٰی علیہ السلام کی زندگی کے ایک گوشہ کی طرف اشارہ کرتاہے کہ افسوس ہے گفتار وعمل کی جُدائی اور صفوف کے عدم نظم کے کئی واضح نمُونے ،ایسی منحوس سرنوشت کے ساتھ جوان امُور کے بعد ان میں پیدا ہُوئی ، ان دونوں کے پیر و کاروں کی زندگی میں نظر آ تے ہیں ۔
پہلے فر ماتاہے:اس وقت کو یاد جب مُوسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا: اے میری قوم ! تم مُجھے کیوں تکلیف پہنچا تے ہو ، حا لانکہ تم جانتے ہو کہ میں تمہار ی طرف خدا کا بھیجا ہُوا رسُول ہوں (وَ اِذْ قالَ مُوسی لِقَوْمِہِ یا قَوْمِ لِمَ تُؤْذُونَنی وَ قَدْ تَعْلَمُونَ أَنِّی رَسُولُ اللَّہِ ِلَیْکُمْ) ۔
یہ آزاد واذیّت ممکِن ہے ان تمام مخا لفتوں اور بہانہ جوئیوں کی طرف اشارہ ہو جو بنی اسرائیل نے مُوسیٰ علیہ السلام کی زندگی میں اِس عظیم پیغمبر کے ساتھ کی تھیں ،یابیت المقدس کی مانند کسِی ماجرے کی طرف اشارہ ہو کہ جس میں انہوں نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا :ہم اس شہر میں داخل ہونے کے لیے تیّار نہیں اور نہ ہی ہم عمالقہ کے ساتھ جنگ پر تیّار ہیں جوایک طاقتور اورجبّار گروہ ہے ۔ تم اورتمہارا پر وردگار جا کر اس کوفتح کرو توپھر ہم اس میں داخل ہوں گے ( ما ئدہ ، ٢٤) ۔
اسی سبب سے وہ سالہاسال تک وادی ِ تیہ میں گھومتے رہے اور جہاد کے حکم میں فضُول ، بیہودہ اورکمزور بہانے بنانے کاتلخ مزہ چکھتے رہے ۔
لیکن اس چیز کی طرف توجّہ کرتے ہُوئے جوسُورہ ٔ احزاب کی آ یت ٦٩ میں وارد ہوئی ہے ایسا معلوم ہوتاہے کہ یہ اذیّت و آزار ان نار وا نسبتوں کی طرف اشارہ ہے جوانہوں نے موسیٰ علیہ السلام کی طرف دیں اورخُدا نے موسیٰ علیہ السلام کوان سے مبّرا قرار دیاتھا ، اس آ یت میں آ یاہے : یاایھا الذین اٰمنوا لا تکونوا کالذ ین اٰذو اموسیٰ فبرأ ہ اللہ مما قالوا وکان عنداللہ وجیھاً ۔
اے ایمان لانے والو ! تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائو جنہوں نے موسیٰ علیہ السلام کواذیّت پُہنچائی اورخُدانے انہیں ( بنی اسرائیل کی نا رو ا باتوں سے ) بری قرار دیا ۔
یہ نسبتیں بہُت سی تھیں ، کبھی تووہ انہیں اپنے بھائی ہارون علیہ السلام کوقتل کرنے کے ساتھ مُتّہم کرتے ، کبھی ( نعوذ باللہ )ایک بد کار عورت کے ساتھ غیر شرعی روابط کی تہمت لگاتے ( وہ سازش جوحیلہ باز قارُون نے تیّار کی تا کہ وہ زکات سے مستٰثنی رہے )کبھی ان پر جا دو اور جُنون کااتّہام لگاتے تھے ،یاانہیں چند ایک جسمانی عیوب کے ساتھ متّہم کرتے تھے کہ جن کی تفصیل سورہ احزاب کی مذکورہ آ یت میں آچکی ہے ( ١) ۔

یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی شخص کسِی پیغمبر پر ایمان لانے کادعوے دار ہو اورپھر وہ اس کوایسی نارو انسبتیں دے ؟ کیا یہ گفتار کے کر دار سے جُدا ہونے کاواضح ترین نمونہ نہیں ہے ؟اسی لیے توموسیٰ علیہ السلام کہتے ہیں : باوجود یکہ تم اِس بات کایقین رکھتے ہو کہ میں خداکا رسول ہوں ، پھر یہ ناروا باتیں کیوں کرتے ہو ۔
لیکن یہ عمل سزا کے بغیر نہ رہاجیساکہ زیرِ بحث آ یت کے آخر میں آ یاہے : جب وہ حق سے مُنحرف ہوگئے توخُدا نے بھی اُن کے دلوں کومنحرف کردیااورخدا فاسقوں کوہدایت نہیں کرتا (فَلَمَّا زاغُوا أَزاغَ اللَّہُ قُلُوبَہُمْ وَ اللَّہُ لا یَہْدِی الْقَوْمَ الْفاسِقین) ۔
اِس سے بڑی مصیبت اورکیاہوگی کہ انسان خدائی ہدایت سے محروم اوراس کادل حق سے منحرف ہوجائے ؟ ( ٢) ۔
اِس تعبیر سے معلوم ہوتاہے کہ ہدایت وضلالت اگرچہ خداکی طرف سے ہے ، لیکن اس کے اسباب اورعوامل خُوداِنسان کی طرف سے ہوتے ہیں ،کیونکہ ایک طرف توفرماتاہے : جس وقت وہ حق سے منحرف ہوگئے توخدانے بھی ان کے دلوں کومنحرف کردیا یعنی پہلا انہوں نے اُٹھا یاہے، دوسر ی طرف یہ کہتاہے : خدا فاسق قوم کوہدایت نہیں کرتا ۔
پہلے فسق وگناہ سرزد ہوتاہے ، کہ جس سے انسان تو فیق وہدایت الہٰی کے سلب ہوجانے کا مستحق ہوتاہے اور اس کے بعد اس عظیم محرُومیّت میں گرفتار ہوجاتاہے .اِس سلسلہ میں تفصیلی بحث سورۂ زمّر کی آ یت ٣٦ کے ذیل میں آچُکی ہے ۔ ( تفسیر نمونہ جلد ١٩ کی طرف رجُوع کریں ) ۔
بعد والی آیت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی رسالت اوراس کے مقابلے میں بنی اسرائیل کی کار شکنی اور تکذیب کے مسئلہ کی طرف اشارہ کرتے ہُوئے مزید کہتاہے : اس وقت کو یاد کرو جب عیسیٰ ابن مریم علیہماالسلام نے کہا: اے بنی اسرائیل ! میں تمہاری طرف خُدا کابھیجا ہوا رسُول ہوں ، جبکہ میں اس کتاب کی جومُجھ سے پہلے بھیجی گئی ( یعنی تورات )کی تصدیق کرنے والا ہوں (وَ ِذْ قالَ عیسَی ابْنُ مَرْیَمَ یا بَنی ِسْرائیلَ ِنِّی رَسُولُ اللَّہِ ِلَیْکُمْ مُصَدِّقاً لِما بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْراة) ۔
اورمیں اس رسول کی بشارت دینے والا بھی ہُوں جومیرے بعد آ ئے گا ۔ اس کانام احمد (صلی اللہ علیہ و آ لہ وسلم) ہے (مُبَشِّراً بِرَسُولٍ یَأْتی مِنْ بَعْدِی اسْمُہُ أَحْمَدُ ) ۔
اِس بناء پر میں وہ حلقہ ٔ اتّصار ہوں جو اُمّتِ موسٰی علیہ السلام اوران کی کتاب کوآ نے والے پیغمبر ( پیغمبر اسلام )کی اُمت اوراُن کی کتاب سے ملانے والا ہوں ۔
اِس طرح حضر عیسٰی علیہ السلام کارسالت ِخدا وندی کے سوااورکوئی دعویٰ نہیں تھا ،اوروہ بھی ایک خاص زمانہ کے لیے تھا ۔ بعد میں ان کی طرف الو ہیّت یاخدا کا بیٹا ہونے کے بارے میں جو افتراء باندھاگیا وہ سب جُھوٹ اور بُہتان ہے ۔
اگرچہ بنی اسرائیل کاایک گروہ اس موعود نبی پرایمان لے آیا،لیکن ان کی ایک بہت دبڑی جمعیت نہا یت سختی کے ساتھ اس کے مقابلہ میں کھڑ ی ہوگئی . یہاں تک کہ انہوں نے اس کے واضح معجزات کابھی انکار کردیا. اِس لیے آ یت کے آخر میں مزید کہتاہے : جب وہ (احمد ) (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)ان کے پاس معجزات اورواضح دلائل کے ساتھ آیاتو انہوں نے کہا: یہ توکُھلا ہواجادو ہے (فَلَمَّا جاء َہُمْ بِالْبَیِّناتِ قالُوا ہذا سِحْر مُبین) ۔
تعجّب کی بات یہ ہے کہ گروہِ یہود ،مشرکین عرب پہلے سے اس پیغمبر کوپہچانے ہُوئے تھا،یہاں تک کہ انہوں نے اس کے شوق ِدیدار کے لیے ترکِ وطن کیااوران کے کئی قبائل سرزمین ِ مدینہ میں آکر آ باد ہوگئے ۔ لیکن ان تمام باتوں کے باوجودبُہت سے بت پرستوں نے تو اس پیغمبر موعود کوپہچان لیا اوراس پر ایمان لے آ ئے،لیکن اکثر یہودی ہٹ دھرمی ، عناد اور انکار پر ڈٹے رہے ۔
مفسّرین کے ایک گروہ نے فلما جاء ھمکی ضمیر کو ،جیساکہ ہم نے اوپر نقل کیاہے،پیغمبر اسلام ( احمد) (صلی ا للہ علیہ وآلہ وسلم)کی طرف لوٹایا ہے،لیکن بعض نے یہ نظر یہ پیش کیا ہے کہ یہ ضمیر حضرت عیسٰی کی طرف لوٹتی ہے ،یعنی عیسیٰ علیہ السلام جب بنی اسرائیل کے لیے واضح مُعجزات لے کر آ ئے توانہوں نے اس کا انکار کیااورجادو قرار دیا ۔
لیکن بعد والی آیات بتلاتی ہیں کہ پہلی تفسیر زیادہ مناسب ہے ، کیونکہ ان آیات میں اسلام اورپیغمبر اسلام کا تذ کرہ ہُوا ہے ۔
۔تفسیر نمونہ ،جلد١٧ ، سُورة احزاب آ یت ٦٩ کے ذیل میں دیکھیں ۔
٢۔"" ذاغو ا مادہ "" "" زیغ "" سے ،صراط مستقیم سے انحراف کے معنی میں ہے ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma