فو لادی دیوار کی طرح جم کرلڑنے والے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 24

اس سورة کی ابتداء بھی خُدا کی تسبیح کے ساتھ ہے ، اسی بناء پر مفسّرین نے اس سورة کوبھی مسبّحات ( وہ سورتیں جو تسبیح خُداسے شروع ہوتی ہیں ) میں شمار کیاہے ، فرماتاہے : جو کچھ آسمانوں میں ہے اورجوکچھ زمیں ہے وہ سب خداکی تسبیح کرتے ہیں (سَبَّحَ لِلَّہِ ما فِی السَّماواتِ وَ ما فِی الْأَرْض) (١) ۔
اس کی تسبیح کیوں نہ کریں اوراُسے ہرعیب ونقص سے منزّہ شمار کیوں نہ کریں ، جبکہ وہ شکست ناپذ یر قادر ہے ، اور ہرچیز سے آگاہ ہے (وَ ہُوَ الْعَزیزُ الْحَکیم) ۔
جیساکہ ہم پہلے بھی بیان کرچکے ہیں یہ سُورہ ایمان وتوحید ومعرفت ہے ،موجُودات کی عمومی تسبیح کے مسئلہ کی طرف توجّہ کہ جوزبانِ حال وقال سے صُورت پذیر ہوتی ہے اوراس میں موثر شگفت انگیز نظام جوعزیز وحکیم خالق کے وجُود پر بہترین دلیل ہے ،یہ چیز یں ایمان کی بنیادوں کودولوں دلوں کے اندر مستحکم بناتی اور فرمانِ جہاد کے لیے راستہ استوار کرتی ہیں ۔

اس کے بعد ان افراد سے جواپنی کہی ہُوئی باتوں پر عمل نہیں کرتے ،ملا مت وسرزنش کے عنوان سے فرماتاہے: اے ایمان لانے والو! تم ایسی بات کیوں کہتے ہو، جس پر عمل نہیں کرتے (یا أَیُّہَا الَّذینَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ ما لا تَفْعَلُونَ) (٢) ۔
اگرچہ شان ِ نزول کے مُطابق یہ آ یات جہاد کی باتوں اور پھر جنگِ اُحد کے دن فرار کرجانے کے بارے میں نازل ہُوئیں ہیں لیکن ہم جانتے ہیں کہ شانِ نزول آ یت کے وسیع مفاہیم کوہرگز محدُود نہیں کرتی ، لہٰذا ہرقسم کی ایسی گفتگو جس پر عمل نہ ہو، ملامت کے لائق ہے چاہے وہ میدانِ جہاد میں پامردی کے لحاظ سے ہو یاکسِی اورمثبت اور تر بیّتی عمل سے متعلّق ہو۔
بعض مفسّرین نے ان آیات میں مخاطب کوظاہری مومن اور باطنی منفافق سمجھاہے ،حالانکہ خطاب یایھا الذین اٰمنوااور بعد والی آ یات کی تعبیر یں یہ بتاتی ہیں کہ خطاب حقیقی مومنین ہی سے ہے ،لیکن ایسے مومنین جوابھی تک کمالِ ایمان کی سر حد تک نہیں پہنچے اوران کی گفتار و کردار ہم آہنگ نہیں ہُوئے ہیں ۔
اِس کے بعد اسی گفتگو کو جاری رکھتے ہُوئے مزید کہتاہے : یہ فعل خُدا کے نزدیک عظیم غضب کاموجوب ہے کہ تم ایسی باتیں کہوجن پر عمل نہیں کرتے (کَبُرَ مَقْتاً عِنْدَ اللَّہِ أَنْ تَقُولُوا ما لا تَفْعَلُون) ( ٣) ۔
مجالِس عمومی میں بیٹھ کر دادِ سُخن دیتے ہولیکن جب میدانِ عمل کاوقت آ تاہے ،توپھر ہر شخص ایک طرف کوبھاگ کھڑا ہوتاہے ۔
سچّے مومنین کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اُن کی گفتار وکردار سوفیصد ہم آہنگ ہو ، ہاں جس قدر انسان اس اصل سے دُور ہوتاہے ،اتناہی حقیقت ایمان سے دُور ہوتاہے ۔
مقت اصل میں اس شخص کے لیے بُغض شدید کے معنی میںہے جس نے کوئی قبیح کام انجام دیاہو ،لہٰذاعرب جاہلی میں جو شخص اپنے باپ کی بیوی کو اپنے نکاح میں لے آ تاتھا ،اسے نکاح مقتکہتے تھے ، کبر مقتاً کے جملہ میں لفظ مقت کبرکے ساتھ ملاہُوا ہے جواور بھی شدّت وسنگینی اور عمل سے خالی گفتارکے بارے میں خداکے عظیم غضب اورغصّہ کی دلیل ہے ( ٤) ۔
علّامہ طباطبائی المیزان میں فر ماتے ہیں : اس بات میں کہ انسان کوئی ایسی بات کے جسے انجام نہیں دے گا، اوراس بات میں کہ کسِی ایسے کام کوانجام نہ دے جووہ کہتاہے ،فرق ہے ،پہلا عمل نفاق کی دلیل ہے ،اور دوسراضُعبِ ارادہ کی دلیل ہے ۔
بہرحال اوپر والی آیت ہرقسم کے عہدوپیمان اوروعدہ سے تخلّف،یہاں تک کہ بعض کے قول کے مُطابق نذر کو بھی شامل ہے ،اِسی لیے مالک اشتر والے فرمان میں آ یاہے کہ امام علی علیہ السلام نے اُن سے فرمایا :
ایاک ... ان تعھدوھم فتتبع موعدک بخلفک... والخلف یوجب المقت عنداللہ والناس، قال اللہ تعالیٰ :کبر مقتاً عنداللہ ان تقولوا مالاتفعلون۔
اور یہ کہ تم لوگوںسے کوئیوعدہ کرو ،اور پھر اس وعدے سے تخلّف کرو ، اِس بات سے سختی کے ساتھ پرہیز کرنا ،کیونکہ یہ بات خداکے ہاںاورلوگوں کے نزدیک بھی خشم عظیم کامُوجب ہوگی . جیساکہ قرآن کہتاہے :کبر مقتاًعنداللہ ان تقولوا مالا تفعلون ( ٥) ۔
ایک اورحدیث امام صادق علیہ السلام آئی ہے :
عدة المؤمن اخاہ نذر لاکفارة فیہ فمن اخلف فیخلف اللہ بداًو لمقتہ تعرض ،وذٰلک قولہ:یاایھا الذیناٰمنوالم تقولون مالا تفعلون کبر مقتاً عنداللہ ان تقولوا مالا تفعلون۔
مومن کااپنے بھائی سے وعدہ کرناایک قسم کی نذر ہے ،اگرچہ اس کاکوئی کفّارہ نہیں ہے ف، جوشخص وعدہ کے خلاف کرے گا اُس نے خدا کی مخالفت کی ہے اور خود کواُس کے غضب کا مستحق بنادیاہے ، یہ وہی چیز ہے جِس کے بارے میں قرآن کہتاہے : یاایھا الذین اٰمنوالم تقولون مالا تفعلون ( ٦) ۔
بعد والی آ یت میں اصل مسئلہ کہ جوجہاد ہے ،اسے سامنے لاتے ہوئے فرماتاہے : خداان لوگوں کودوست رکھتا ہے جواس کی راہ میں اس طرح سے جہاد کرتے ہیں ،جیسے کہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہو نَّ اللَّہَ یُحِبُّ الَّذینَ یُقاتِلُونَ فی سَبیلِہِ صَفًّا کَأَنَّہُمْ بُنْیان مَرْصُوص) (7) ۔
اِس بناء پر محض جنگ کرنا اہم نہیں ،اہم بات یہ ہے کہ وہ جنگ فی سبیل اللہ ہو اوروہ بھی مکمل اتّحاد ، نظم وضبط کے ساتھ ، جیسے کہ فو لادی دیوار ہے ۔
صفاصل میں مصدری معنی رکھتاہے اورکسی چیز کوسیدھے خط میں قرار دینے کے معنی میں ہے لیکن یہاں اسم ِ فاعل کے طورپر آ یاہے ۔
موصوص تصاص کے مادّہ سے سیسہ کے معنی میں ہے جو نکہ بعض عمارتوں کے استحکام اورمضبُوطی کے لیے سیسہ پگھلا کرعمارت کے مختلف حصوں میں اِس طرح ڈالتے تھے کہ وہ حد سے زیادہ محکم اوریکجان ہوجاتی تھی ،اِس لیے ہرمحکم اورمضبُوط عمارت پر مرصوص کااطلاق ہوتاہے ۔
یہاں مُراد یہ ہے کہ مجاہدین راہِ خدا میں دشمن کے مُقابلے میں ایک دل ،ایک جا ن ، مستحکم اور استوار کھڑے ہوں ، گویا کہ وہ سب آپس میں پیوستہ ہیںکہ جن کے درمیان کوئی شگاف وسُوراخ نہیں ہے ،اِسی لیے تفسیر علی بن ابراہیم میں اس آ یت کی توضیح میں یہ کہا ہے : یصطفون کا لبنیان الذی لایزول مجاہدین راہ ِ خدا میں اس دیوار کی طرح صف بستہ ہوتے ہیں جوہرگز نہیں ڈو لتی ( 8) ۔
ایک حدیث میں آیاہے کہ امیر المومنین علی علیہ السلام جب اپنے اصحاب کوجنگ کے لیے میدان ِصفین میں آمادہ کرناچاہتے تھے توآپ نے فرمایا:
خُدا ئے عزّوجل نے تمہیں اس فریضہ کی طرف رہنمائی کی اور فرمایا ہے : ان اللہ یحب الذین یقا تلون فی سبیلہ صفّاً کانھم بنیان مرصوص: لہٰذاتم اپنی صفوں کوآہنی دیوار کی طرح مستحکم کرلو. جوزرہ پوش ہیں وہ آگے رہیں اور جن کے پاس زرہ نہیں ہے وہ اُن کے پیچھے رہیں ، دانتوں کو مضبوطی کے ساتھ بھینچ کررکھو اور نیزوں کے آگے پیچ وخم میں رہو کیونکہ یہ چیز دشمن کے نیزہ کوردّ کرنے کے لیے زیادہ مُؤ ثر ہے .دشمن کے انبوہ کی طرف تیز نگاہ سے دیکھو تاکہ تمہارادل زیادہ قوی اور تمہاری رُوح زیادہ سکون وآرام میں رہے ،باتیں کم کرو کہ یہ چیز سُستی اور کمزوری کودُور کرتی ہے اور تمہارے وقار کے لیے زیادہ مُناسب ہے ،اپنے پرچم اورجھنڈوں کوخم نہ ہونے دو، اور انہیں ان کی جگہ سے نہ ہلائو . نیز دلیر اور بہادر افراد کے علاوہ خو د کوکسِی کے سپرد نہ کرو (9) ۔
١۔ عالم کے تمام موجُودات کی تسبیح کی کیفیّت کے سلسلہ میں ہم نے اس تفسیر میں بار ہاگفتگو کی ہے ، ان میں سے سورہ بنی اسرائیل کی آ یت ٤٤ کے ذیل میں سد(تفسیر نمونہ جلد١٢ ) اور سورہ نور کی آ یت ٤١ کے ذیل میں ( جلد ١٤ ) کو ملاحظہ فرمائیں ۔
٢۔"" لم "" اصل میں "" لما" ( لام جار ہ اورماء استفہامیہ سے مُرکب تھا) اس کے بعد اس کا الف کثرت استعمال سے یا "" اخبار"" و"" استفہام "" میں فرق رکھنے کے لیے گرگیاہے ۔
٣۔ بعض مفسّرین نے"" کبر "" کو"" افعال مدح وزم "" میں سے سمجھا ہے (تفسیر رُوح البیان میں زیر بحث آ یات کے ذیل میں ) اوربعض نے اسے تعجّب کے معنی میں سمجھاہے ( تفسیر کشّاف ) ۔
٤۔ المیزان ،جلد١٩ ،صفحہ ٢٨٧۔
٥۔""نہج البلاغہ "" مکتوب ٥٣ (ص ٤٤٤صبحی صالح ) ۔
٦۔""اصول کافی "" جلد٢،صفحہ باب خلف الوعد۔
7۔""صفّاً "" یہاں حال کے عنوان سے منصوب ۔
8۔"" نورُ الثقلین "" ،جلد٥،صفحہ ٣١١۔
9۔"" نورالثقلین ، جلد ٥،صفحہ ٣٠١ اسی کے مشابہ نہج البلاغہ کے خطبہ ١٢٤ میں بھی آ یاہے ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma