اس مغضوب علیہ قوم سے دوستی نہ کرو

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 24
ہم دیکھ چکے ہیں کہ اس سورة کا آغاز ،دشمنانِ خُدا سے قطع تعلق کرنے کے مسئلہ سے ہو ا ہے اور اب اسی چیزپر اس کا اختتام ہورہاہے ،دُوسرے لفظوں میں اِس سُورةکا اختتام اس کے آغاز کی طرف ایک بازگشت ہے ،فرماتاہے : ” اے ایمان لانے و الو! وہ قوم جس پرخُدا نے غضب کیاہے اس سے دوستی نہ کرو“(یا اٴَیُّہَا الَّذینَ آمَنُو ا لا تَتَوَلَّو ا قَوْماً غَضِبَ اللَّہُ عَلَیْہِمْ ) ۔
تمہیں ان سے دوستی نہیں کرنی چاہیے اور اپنے اسر ار اور بھیدوں کو ان تک نہیں پُہنچاناچاہیے ۔
اس بارے میں کہ ” مغضوب علیہم قوم “کون لوگ ہیں ،بعض توصر احت اِس کویُہودیوں سے متعلق سمجھتے ہیں ، کیونکہ قر آن کی دوسری آ یات میںانہیں اس عنو ان کے ساتھ یاد کیاگیاہے جیساکہ سورة بقر کی آ یت ۹۰ میں بُہود کے بارے میں بیان ہُو ا ہے : ”فَباؤُ بِغَضَبٍ عَلی غَضَب “ پس وہ غضب بالائے غضب کے مستحق ہُوئے ۔
یہ تفسیر اس شانِ نزول سے بھی سازگار ہے جومفسّرین نے بیان کی ہے ، کیونکہ انہوںنے کہاکہ فقر اء مسلمین کی ایک جماعت مسلمانوں کی خبریںیُہود یوں کے پاس بے جایا کرتی تھی اور یہودی اس کے بدلے میں انہیں اپنے درختوں کے پھل بطور ہدیہ کے دیا کرتے تھے .اس پر اُوپر و الی آ یت نازل ہُوئی اور انہیں اس کام سے منع کیا( ۱) ۔
لیکن ان تمام باتوں کے باوجود اس آ یت کی تعبیر ات ایک وسیع مفہوم رکھتی ہیں جوتمام کفّار ومشرکین کوشامل ہیں ، کیونکہ قر آن مجید میں غضب کی تعبیر ” یُہود “ میں مُنحصر نہیں ہے بلکہ یہی تعبیر مُنافقین کے بارے میں بھی آ ئی ہے (سور ة فتح ، ۶)اور شان ِ نزول بھی آ یت کے مفہوم کومُحدود نہیں کرتا ۔
بناء بریں اس آ یت میں جو کچھ بیان ہُو اہے ،وہ اس وسیع مطلب کے ساتھ ہم آہنگ ہے جو اس سورة کی پہلی آ یت دشمنان ِ خُدا سے دوستی نہ کرنے کے عنو ان سے آ یاہے ۔
اس کے بعد ایک اور مطلب کوبیان کرتاہے جو اس نہی کی دلیل کے طورپر بیان ہُو ا ہے .فر ماتاہے : ” آخرت میں نجات سے کُلّی طورپر مایُوس ہیں جیساکہ قبروں میں مدفُون کفّار مایوس ہیں (قَدْ یَئِسُو امِنَ الْآخِرَةِ کَما یَئِسَ الْکُفَّارُ مِنْ اٴَصْحابِ الْقُبُور)(۲) ۔
کیونکہ کفّار میں سے جو مرچکے ہیں وہ عالم برزخ میں اپنے کاموں کے نتائج دیکھ رہے ہیں اور تلافی کے لیے و اپسی کی کوئی ر اہ نہیں ہے ،لہٰذاوہ کلّی طورپر مایُوس ہیں ، یہ زندوں کاگروہ بھی گناہ سے اس قدر آ لُودہ ہے کہ ہرگز اپنی نجات کی اُمید نہیں رکھتا ، اور یہ ٹھیک کفّار کے مُردوں کی طرح ہے ۔
اِس قسم کے لوگ یقینا خطرناک اورناقابلِاعتماد افر اد ہیں ، نہ تو ان کے قول پر کوئی اعتماد ہے اور نہ ہی ان کے صداقت اور ار ادے پرکوئی اعتبار ہے وہ حق تعالےٰ کی رحمت سے مایوس ہیں، اسی بناء پر ہرجُرم وگناہ پر ہاتھ ڈالتے ہیں ، ان حالات میں تم ان پر کِس طرح اعتماد کرتے اور ان سے دوستی کرتے ہو ؟
خدا وندا ! ہمیں اپنے بے پایاں لطف وکرم سے ہرگز محروم و مایوس نہ کرنا ۔
پروردگار ا! ہمیں ایسی توفیق مرحمت فرماکہ ہم ہمیشہ تیرے دوستوں کے دوست اوردشمنوں کے دشمن رہیں اور تیری دوستی کی راہ میں ثابت قدم رہیں۔
بار الھٰا! ہمیں اپنے اولیاء اور انبیاء کر ام کی پیروی کرنے کی توفیق عطافر ما ۔
۱۔” مجمع البیان “(جلد۹،صفحہ ۲۷۶۔
۲۔ بعض نے اس آ یت کی تفسیر میں اور احتمال بھی دیئے ہیں ، ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ آ خرت کے ثو اب سے اسی طرح مایوس ہیں جس طرح مشرکین اصحابِ قبُور کے زند ہ ہونے سے مایُوس ہیں، لیکن جوتفسیر ہم نے اوپر بیان کی ہے وہ زیادہ مُناسب ہے (توجّہ رہے کہ پہلی تفسیر کے مُطابق ” مِن اصحاب القبور “کفّار کاوصف ہے اور آخری تفسیر کے مطابق ’“ یئس سے متعلق ہے ) ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma