مُسلمانوں اور کُفّار کے نُقصان کی تلافی

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 24

گزشتہ آ یات میں ” بُغض فی اللہ “ اور دُشمنانِ خدا سے قطع تعلّق کے بارے میں گفتگو تھی ،لیکن زیر بحث آ یات میں” حب فی اللہ “ اور ان لوگوں سے جوکُفر سے جُدا ہوکر ایمان کے ساتھ تعلّق قائم کریں رشتہ جوڑنے کے بارے میں گفتگو ہے ۔
پہلی آ یت میںمُہاجر عورتوں کے بارے میں گفتگو کرتا ہے اور اس آ یت میںمجموعی طورپر سات احکام و اردہُوئے ہیں جو زیادہ ترمہا جر عورتوں کے بارے میں ہیں اور ان کا ایک حصّہ کافر عورتوں کے بارے میں بھی ہے ۔
۱ : پہلا حکم : ” مہاجر عورتوں “ کی آ زمائش کے بارے میں ہے ” رُوئے سُخن مُو منین کی طرف کرتے ہُوئے فرماتاہے : ” اے ایمان لانے و الو! جب مُومنہ عورتیں ہجرت کر کے تمہارے پاس آ ئیں توتم انہیں و اپس نہ کیا کرو بلکہ ان کا امتحان کر لیاکرو “(یا اٴَیُّہَا الَّذینَ آمَنُو ا إِذا جاء َکُمُ الْمُؤْمِناتُ مُہاجِر اتٍ فَامْتَحِنُوہُن) ۔
انہیں مومنات کہنے کے باوجود امتحان کاحکم دینا اس بناء پر ہے کہ وہ ظاہری طورپر تو شہادت تین کوزبان پرجاری کرتی تھیں اور اہل ِ ایمان کے زُمرہ میں تھیں ،لیکن یہ امتحان اس لیے تھا تا کہ اطمینان ہوجائے کہ . یہ ظاہر باطن کے ساتھ ہم آہنگ ہے ۔
باقی رہا امتحان کاطریقہ توجیسا کہ ہم نے بیان کیاوہ اسی طرح سے تھا کہ انہیں قسم دلا تے تھے کہ ان کی مُہا جرت اسلام قبول کرنے کے علاوہ کسِی اورمقصد کے لیے نہیں تھی،انہیں یہ قسم کھانی چاہیئے کہ اُنہوںنے شوہرسے یاکسِی دُوسر ے مرد سے تعلّق یامدینہ کی سرزمین میںلگاؤ اور اسی طرح کی دُوسری باتوں کے لیے ہجرت نہیں کی ہے ۔
یہ احتمال بھی ہے کہ اسی سورة کی بارہویں آیت مُہاجر عورتوں کے امتحان کی کیفیّت کی تفسیرہو ،( جس کے مُطابق انہیں چاہیئے) کہ وہ پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی اس بات پر بیعت کرین کہ وہ ر اہِ شرکت اختیار نہیں کریں گی،اوروہ چوری،منافی ِ ،عفّت اعمال، اولاد کو قتل کرنے اور اس قسم کے اعمال کی مُرتکب نہ ہوں گے اوررسُول ِ خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے فرمان کوکامل طَور سے تسلیم کریں گے ۔
البتّہ ممکِن ہے کہ کچھ افر اد اس قسم اور بیعت میں بھی غلط بیانی سے کام لیں، لیکن اُس زمانہ میں بہُت سے لوگوں حتّٰی کہ مُشرکین کامسئلہ بیعت اورخدائی کی قسم کے لیے مقیّد ہونا اس بات کاسبب بناکہ بہُت کم افر اد جُھوٹ بولیں،اس طرح سے مذ کورہ امتحان اگرچہ ہمیشہ اُن کے ایمان و اقعی کی دلیل تو نہیں ہوتاتھا،لیکن عام طورپر اس و اقعیّت کوبیان کرنے والا ہوسکتاتھا ۔
لہٰذا بعد کے جُملہ میں مزید کہتاہے : ” خُدا ان کے دل کی اندرُونی کیفیّت اور ان کے ایمان کے متعلق سب سے زیادہ آگاہ“ (اللَّہُ اٴَعْلَمُ بِإیمانِہِنَّ ) ۔
۲: اس کے بعد و الے حکم میں فر ماتاہے : ” جب وہ اس امتحان میں پُوری اُتر جائیں اورتم نے و اقعی انہیں مومنہ جان لیا توپھر انہیں کُفّار کی طرف نہ پلٹاؤ “(فَإِنْ عَلِمْتُمُوہُنَّ مُؤْمِناتٍ فَلا تَرْجِعُوہُنَّ إِلَی الْکُفَّار) ۔
یہ درست ہے کہ حد یبیہ میں زبردستی کے مُعاہد ے کا ایک جُزء یہ تھاکہ وہ افر اد جومُسلمان ہوکرمکّہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کریں گے ، انہین مکّہ کی طرف و اپس لوٹا دیاجائے گا ،لیکن اس جُزء کاعورتوں پر اطلاق نہیں ہو تاتھا، لہٰذا پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے انہیں ہرگز کفّار کی طرف نہیں پلٹایا ، یہ ایک ایساکام تھاکہ اگر یہ انجا م پاجاتا تو اس مُعاشر ے میں عورتوں کے حد سے کمزور ہونے کی وجہ سے ان کے لیے سخت خطرناک ہوتا ۔
۳: تیسرے مرحلہ میں جوحقیقت میں گزشتہ حکم کی ایک دلیل ہے ، مزید کہتاہے : ” نہ تویہ عورتیں کافروں پرحلال ہیں اورنہ ہی وہ کافر مرد ان ایماندار عورتوں پر حلال ہیں “ (لا ہُنَّ حِلٌّ لَہُمْ وَ لا ہُمْ یَحِلُّونَ لَہُنَّ ) ۔
یہ اسی طرح ہوناچاہیئے، کیونکہ ایمان وکفر ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے اور ازو اج کامقدّ س پیمان مومن وکافر کے درمیان ر ابط قائم نہیں کرسکتا ، اس لیے کہ یہ دونوں دومُتضاد نظریات رکھتے ہیں جبکہ پیمان ِ ازدو اج کو بیوی اور شوہر کے درمیان ایک قسم کی وحدت قائم کرنی چاہیے اور یہاں دونوں ایک دُوسرے سے ساز گار نہیں ہیں ۔
البتہ ابتداء ِ اسلام میں جبکہ ابھی اِسلام مُعاشرہ مستحکم نہیں ہو اتھا ایسے شوہر اوربیویاں تھیں کہ جن میں سے ایک کافر اوردُوسر ا مُسلمان ہوتاتھا ، مگر پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اس سے منع نہیں کرتے تھے ، یہاں تک کہ اسلام کی بُنیادیں مضبُوط ہوگئیں ،چنانچہ ظاہری طورپرصُلح حدیبیہ کے بعد مکمّل طورپر جُدائی کاحکم دیاگیا، اور زیرِ بحث آ یت اِس موضوع کی ایک دلیل ہے ۔
۴: چونکہ عربوں میں معمُول یہ تھاکہ وہ اپنی عورتوں کاحق مہر پہلے دے دیتے تھے ،لہٰذاچوتھے حکم میں مزید کہتاہے : ” ان کے کافر شوہروں نے جوکچھ اس ازدو اج میںخرچ کیا ہے وہ ان کودے دو “ (وَ آتُوہُمْ ما اٴَنْفَقُو ا ) ۔
یہ ٹھیک ہے کہ ان ک شوہر کافرہیں .لیکن چونکہ جُدائی اور علیٰحد گی کا اقدام ایمان لانے کے بناء پر عورت کی طرف سے شرُوع ہو ا ہے .لہٰذا عدالت اِسلامی کاتقاضا یہ ہے کہ اس شوہر کے خسار ے پُورے کیے جائیں ۔
کیایہاں انفاق سے مُر اد صرف حق مہرہے یا اس میںوہ تمام اخر اجات شامل ہیں جو اس نے اس سلسلہ میں کیے ہیں ؟ اکثر مفسّرین نے پہلے معنٰی کو اختیار کیاہے اور آ یت میں قدرِ مُسلّم بھی یہی ہے .اگرچہ ” ابو الفتوح ر ازی “کے مانند بعض مُفسّرین نے اپنی تفسیر میں دُوسرے مخارج بھی اس میں شامل کیے ہیں ( ۱) ۔
البتّہ یہ حق مہرکا ادا کرنا ایسے مُشرکین کے بارے میں تھا جنہوںنے مُسلمانوں کے ساتھ حدیبیہ یادُوسرے مو اقع پر ترکِ مخاصمت کاعہد کیاتھا ۔
لیکن یہ مہرکِس کو اداکرنا چاہیے ؟ ظا ہر یہ ہے کہ یہ کام حکومتِ اسلامی اور بیت المال کے ذمّہ ہے ، کیونکہ ایسے تمام امُور جن کا اسلامی معاشرہ میں کوئی خاص شخص ذمّہ دار نہیں وہ حکومت ہی کے ذمّہ ہوتے ہیں اور زیر ِ بحث آ یت میں جمع مخاطب کاصیغہ اسی معنی کاگو اہ ہے ( جیساکہ چور کی حد اورزانی کی حدو الی آ یات میں نظر آ تاہے ) ۔
۵۔ ایک اور” حکم جو اوپرو الے احکام کے بعد آ یا، وہ یہ ہے کہ فرماتاہے: ” اگر تم ان کے ساتھ نکاح کر لو تو تم پرکوئی گناہ نہیں ہے جبکہ تم ان کاحق مہر اداکردو (وَ لا جُناحَ عَلَیْکُمْ اٴَنْ تَنْکِحُوہُنَّ إِذا آتَیْتُمُوہُنَّ اٴُجُورَہُنَّ ) ۔
کہیں تم یہ تصوّر نہ کرلو . چونکہ وہ سابقہ شوہر سے حق مہر پہلے ہی لے چکی ہیں اور اس کے بدلے میں بیت الما ل سے اُس کے شوہرکو د ے دیا گیاہے اورتمہار امفت میں کام ہوجائیگا .نہیں ! ایسانہیں ہے ،عورت کی حُرمت اورعزّت کاتقاضا یہی ہے کہ جدید ازدو اج میں بھی مُناسب حق مہر اس کو دیا جائے ۔
توجّہ رکھنا چاہیے کہ یہاں عورت اپنے کافرشوہر سے طلاق کے بغیر الگ ہوجائے گی لیکن عدّت پوری کرنا پڑے گی ۔
مشہُور فقیہ ” صاحب ِ جو اہر“ نے محقق کے کلام کی شرح کرتے ہُوئے کہ جو انہوںنے شر ائع میں بیان کیاکہا ہے کہ : ” اہل کتاب زوجہ وشوہر کے علاوہ ،زوجہ وشوہر میں سے جو کوئی بھی اِسلام قبول کرلے، اگریہ دخُول سے پہلے ہوتوعقد بِلا فاصلہ فسخ ہوجائے گا .اگر دخُول کے بعد ہوتوپھر وہ عدّت کے ساتھ و ابستہ ہے “ فر ماتے ہیں : ” اِن احکام میں کسِی قسم کاکوئی اختلاف نہیں ہے ، کیونکہ رو ایات اور فقہاء کے فتوے اس بارے میں ہم آہنگ ہیں “ ( ۲) ۔
۶۔ لیکن اگر مُعاملہ اس کے برعکس ہو، یعنی شوہر اسلام قبُول کرلے اورعورت کفرپر باقی رہے تویہاںبھی زوجیّت کار ابط ٹوٹ جائے گا اور نکاح فسخ ہوجائے گا،جیساکہ اسی آ یت کوجاری رکھتے ہُوئے فرماتاہے:” کافر بیویوں کو اپنی زوجیّت میں نہ رو کے رکھو “ (وَ لا تُمْسِکُو ا بِعِصَمِ الْکَو افِر) ۔
”عصم “ ” عصمت“ کی جمع ہے جو اصل میں منع کرنے کے معنی میں ہے ،یہاں جیساکہ مفسّرین نے کہا اور قر ائن گو اہی دیتے ہیں ،نکاح اور زوجیّت کے معنی میں ہے ۔(البتّہ بعض نے یہ تصریح کی ہے کہ اس سے مُر اد نکاح دائمی ہے اور عصمت کی تعبیر بھی اسی معنی کے ساتھ مُناسبت رکھتی ہے ، کیونکہ نکاح دائمی عورت کوکسِی بھی دُوسرے شخص سے ازدو اج کرنے سے ہمیشہ کے لیے منع کرتاہے ۔
” کو افر“ ،” کافرة “ کی جمع اورکافر عورتو ں کے معنی میں ہے . کیایہ حکم مُشرک عورتوں کے ساتھ ہ مخصُوص ہے یا اہل کتاب مِثل عیسائی اور یہُود ی عورتوں کے لیے بھی ہے ؟ اس بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے .اس سلسلے میں رو ایات مختلف ہیں اور ان کی تشریح وتفصیل کافقہ کی کتابوں میں مُطالعہ کرناچاہیئے .لیکن آ یت کاظاہر مطلق ہے اورتمام کافِر عورتوں کے لیے ہے . نیز شانِ نزُول اسے محدُود نہیں کرتا .لیکن عدّت کامسئلہ یہاں پر بطریقِ اُولیٰ برقر ار ہے ، کیونکہ اگر اس عورت سے بچّہ پیدا ہوتووہ مسلمان بچہ ہوگاکہ اُس کاباپ مسلمان ہے ۔
۷۔آخری حکم جو آ یت میں بیان ہُو اہے اس میں ان عورتوں کے حق مہر کے بارے میں گفتگو ہے جو اسلام سے علیٰحدہ گی اختیار کرکے اہل کُفر سے جاملیں ،فرماتاہے : ” اگر تمہار ی عورتوں میں سے کوئی اسلام سے الگ ہوجائے توتم حق رکھتے ہوکہ جو حق مہرتم نے اداکیاہے اس کامطالبہ کرو ،جیساکہ وہ حق رکھتے ہیں کہ اپنی ان عورتوں کے مہر کامطالبہ کریں ، جو ان سے جُدا ہوکر اسلام سے و ابستہ ہوگئی ہیں (وَ سْئَلُو ا ما اٴَنْفَقْتُمْ وَ لْیَسْئَلُو ا ما اٴَنْفَقُو ا)اوریہ عدالت اور بر ابر حقُوق کاتقاضا ہے ۔
جو کچُھ بیان ہوچکا ہے ، آ یت کے آخر میں ان پر تاکید کرتے ہُوئے فر ماتاہے : یہ اللہ کے وہ احکام ہیں جن کاوہ تمہیں حکم دیتا ہے اورخدا علیم وحکیم ہے (ذلِکُمْ حُکْمُ اللَّہِ یَحْکُمُ بَیْنَکُمْ وَ اللَّہُ عَلیمٌ حَکیمٌ) ۔
یہ ایسے احکام ہیں جن کاسرچشمہ علمِ الہٰی ہے ،یہ حکمت کی آمیزش رکھتے ہیں ، ان میں تمام افر اد کے حقوق نظرمیں رکھے گئے ہیں اور یہ اصل اسلامی عدالت و انصاف کے ساتھ کامل طورپر ہم آہنگ ہیں .ان احکام کے اجر اء کیلئے عظیم ترین ضمانت شمار ہوتاہے ۔
دوسری اور آخری زیرِ بحث آ یت میں اسی بات کوجاری رکھتے ہُوئے فرماتاہے : ” اگر تمہاری بیویوں میں سے بعض تمہارے ہاتھ سے نِکل گئی ہوں اور اسلام کوچھوڑ کر کُفّار سے جاملی ہوں ، اِس کے بعد تمہیں جنگ میں ان پرکامیابی حاصِل ہوجائے اور کچھ مالِ غنیمت تمہار ے ہاتھ لگ جائے تو ان افر اد کوجو اپنی بیویاں ہاتھ سے دے بیٹھے ہیں، جتنا مہر انہوںنے ادا کیا ہُو ا ہے اتنا غنائم میں سے انہیں دے دو “(وَ إِنْ فاتَکُمْ شَیْء ٌ مِنْ اٴَزْو اجِکُمْ إِلَی الْکُفَّارِ فَعاقَبْتُمْ فَآتُو ا الَّذینَ ذَہَبَتْ اٴَزْو اجُہُمْ مِثْلَ ما اٴَنْفَقُو ا ) ۔
گزشتہ آ یت کے مُطابق مسلمان اس قسم کی عورتوں کاحق مہرکفّار سے لے سکتے تھے ،جیساکہ وہ حق رکھتے تھے کہ اپنی ان بیویوں کاحق مہر مُسلمانوں سے لے لیں جو اسلام سے و ابستہ ہوکرمدینہ کی طرف ہجرت کرگئی ہیں .لیکن بعض رو ایات کے مُطابق اس عاد لانہ حکم پر مُسلمانوں کے عمل کے باوجود مشرکین مکّہ نے اُس سے رُو گر دانی کی .لہٰذا ان افرد کے حق کی ضا ئع ہونے سے بچانے کے لیے یہ حکم دیاگیا کہ جب مالِ غنیمت ہاتھ آ ئے تو پہلے ان کاحق دیاجائے اور اس کے بعد باقی مالِ غنیمت کو تقسیم کیاجائے ۔
یہ احتمال بھی ہے کہ اوپر و الاحکم ایسی اقو ام کے ساتھ مربُوط ہے جن سے مُسلمانوں کاکوئی عہدو پیمان نہیں تھا ،لہٰذاطبعی طورپر وہ اس قسم کی عورتوں کاحق مہر مُسلمانوں کوو اپس دینے کے لیے تیّار نہیں تھے ،تاہم دونوں مُعانی کاجمع ہونابھی ممکن ہے ۔
” عاقبتم“” معاقبة “کے مادہ سے اصل میں ” عقب “(بروزن ”کدر“ ) ” پاؤں کی ایڑی “کے معنی میں ہ ، اسی مُناسبت سے لفظ ” عقبٰی “ کسِی کام کی جزا کے معنی میں اور ” عقُوبت “ کسِی غلط کام کی سزا کے معنی میں اِستعمال ہوتاہے اور بعض اوقات یہ لفظ ” معاقبہ“باری کام کرنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتاہے ، کیونکہ وہ لوگ جو کسِی کام کو باری باری انجام دیتے ہیں .ان میں سے ہر ایک دُوسر ے کے بعد آ پہنچتا ہے .اِس لیے اوپر و الی آ یت میں ” عاقبتم “مُسلمانوں کے کفّار پرغالب ہونے اور انہیں سزادینے کے معنی میں ہے جوضمنی طورپر غنائم لینے سے تفسیر ہُو اہے اور ” تناوب “ ( بار ی باری )کے معنی میں بھی ہے ، کیونکہ ایک دن کفّار کی باری ہے تودُوسرے دن مسلمانوں کی باری آجاتی ہے اوریہ اُن پرغالب آجاتے ہیں ۔
یہ احتمال بھی دیاگیاہے کہ اس جملہ سے مُر اد کام کا انتہا اور آخرکوپہنچاہے ، یہاں کام کی انتہاسے مُر اد جنگی غنائم حاصِل کرناہے ، ان معانی میں سے جوکوئی معنی بھی ہونتیجہ ایک ہی ہے صرف نتیجے تک پہنچنے کے ر استے مختلف بیان کیے گئے ہیں ( غورکیجئے گا ) ۔
آیت کے آخر میں تمام مُسلمانوں کوتقویٰ کی دعوت دینے ہُوئے فرماتاہے :” جس خُداپر تم سب ایمان لائے ہو اس سے ڈ رو اور اس کی مخالفت نہ کرو “ (وَ اتَّقُو ا اللَّہَ الَّذی اٴَنْتُمْ بِہِ مُؤْمِنُونَ ) ۔
ممکِن ہے یہاں تقو کاحکم اِس بناء پر ہوکہ عام طورپر حق مہر کی تشخیص میں بیوی اور شوہر کے قول پر ہی اعتماد کیاجاتا ہے. کیونکہ اس کے ثبُوت کاطریقہ ان کے قول کے علاوہ اورکوئی نہیں ہے ،لہٰذا اس بات کا امکان ہے کہ شیطانی وسوسے مقدارِو اقعی سے زیادہ کادعوٰے کرنے کاسبب بن جائیں اسی لیے انہیں تقویٰ کی وصیّت اورنصیحت کرتاہے ۔
تو اریخ اور رو ایات میں آیاہے کہ یہ اسلامی حکم صرف چھ عورتوں کو شامل ہُو ا جو اپنے مسلمانوں شوہرو ں سے جُدا ہوکر کفّار سے جاملیں اورپیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے ان کاحق مہرجنگی غنائم سے اُن کے شوہروں کودیا ۔
۱۔ تفسیر ابو الفتوح ر از ی ،جلد۱۱،صفحہ ۵۴۔
2۔ جو اہر الکلام ،جلد۳۰،ص ۵۴۔ 
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma