خدا سے دوستی کرنے کا انجام

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 24
جیساکہ ہم شانِ نزول کے ذریعے جان چکے ہیں ایک مُسلمان سے ایک حرکت صادر ہُوئی جو اگرچہ جاسوسی کے ار ادہ سے نہیں تھی ،لیکن دُشمنانِ اسلام سے اظہار مُحبت شمار ہوتی تھی ،لہٰذا اوپر و الی آ یت نازل ہوئیں اور مُسلمانو ں کویہ تنبیہ کی گئی کہ آئندہ اِس قسم کے کاموں سے پرہیز کریں( 1) ۔
پہلے فر ماتاہے :اے ایمان لانے و الو ! تم میرے اور اپنے دشمن کودوست نہ بناؤ(یا اٴَیُّہَا الَّذینَ آمَنُو ا لا تَتَّخِذُو ا عَدُوِّی وَ عَدُوَّکُمْ اٴَوْلِیاء) ۔
یعنی وہ صرف خُداہی کے دشمن نہیں بلکہ وہ تم سے بھی دشمنی رکھتے ہیں ،لہٰذا ان حالات میں تم ان کوصرف دوستی کاہاتھ کِس طرح بڑ ھاتے ہو؟
اس کے بعد مزید کہتاہے : تم ان کے لیے محبت کا اظہار کرتے ہو، حالانکہ وہ اس حق (اسلام وقر آن )سے جوتمہارے لیے آ یاہے کافرہو گئے ہیں وہ رسُول ِ خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کو اور تمہیں ، تمہارے شہر و دیار سے اس وجہ سے باہر نکالتے ہیں کہ تم اپنے پروردگار خداپر ایمان لائے ہو (تُلْقُونَ إِلَیْہِمْ بِالْمَوَدَّةِ وَ قَدْ کَفَرُو ا بِما جاء َکُمْ مِنَ الْحَقِّ یُخْرِجُونَ الرَّسُولَ وَ إِیَّاکُمْ اٴَنْ تُؤْمِنُو ا بِاللَّہِ رَبِّکُمْ)(2) ۔
وہ عقیدہ میں بھی تمہار ے مخالف ہیں اورعملی طورپر جنگ کے لیے کھڑ ے ہیں ، اِس کام کوجوتمہار ے لیے عظیم تریناعزاز افتخار ہے ، یعنی پروردگار پر ایمان ، اسے اُنہوںنے تمہار ے لیے بُہت ہی بڑاگناہ شمارکیاہے اور اسی وجہ سے انہوںنے تمہیں تمہارے شہر ودیار سے نکالا ہے ، ان حالات میں کیا اس بات کی گنجائش ہے کہ تم ان کے لیے محبت کا اظہار کرو اورسپاہ ِ اسلام کے قوی ہاتھوں سے ہونے و الے عذاب ِ الہٰی کے چُنگل سے ان کی نجات کے لیے کوشش کرو ؟
اِس کے بعد مزید وضاحت کے لیے اضافہ کرتاہے : اگر تم نے ر اہِ جہاد میں جہاد کرنے اورمیری خوشنودی کے حصُول کے لیے ہجرت کی ہے توتم ان سے دوستی کارشتہ قائم نہ کرو (یَوْمَ الْقِیامَةِ یَفْصِلُ بَیْنَکُمْ) ۔(3) ۔
اگرو اقعتاتم خدا کی دوستی کادم بھرتے ہو ، اسی کی خاطر تم نے اپنے شہر اور گھروں سے ہجرت کی ہے اورجہاد فی سبیل اللہ سے خدا کی رضا حاصل کرناچاہتے ہو تویہ بات دشمنانِ خداکی دوستی کے ساتھ سازگاری نہیں ہے ۔
اس کے بعد مزید وضاحت کے لیے اضافہ کرتاہے : ” تم مخفی طورپر اُن سے دوستی کار ابط قائم کر رہے ہو ، حالانکہ جوکچھ تم پنہا ں و آشکار ا کرتے ہو میں اس سے اچھی طرح آگاہ ہُوں (تُسِرُّونَ إِلَیْہِمْ بِالْمَوَدَّةِ وَ اٴَنَا اٴَعْلَمُ بِما اٴَخْفَیْتُمْ وَ ما اٴَعْلَنْتُمْ ِ)(4) ۔
اس بناء پرخدا کے غیب وشہود کاعالم ہوتے ہوئے اخفاء کاری کاکیا فائدہ ہے ۔
اس بناء پر آ یت کے آخری قاطع تہدید کے عنو ان سے فرماتاہے ہے : ” تم میں سے جوشخص بھی اس قسم کاکام کرے گا وہ سیدھے ر استے سے منحرف اور گمر اہ ہوجائے گا ( وَ مَنْ یَفْعَلْہُ مِنْکُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَو اء َ السَّبیل) ۔
وہ خدا کی معرفت کے ر استہ سے بھی ہٹ گیا ، کیونکہ اُس نے یہ گمان کرلیا کہ کوئی چیز خُدا سے مخفی رہ جاتی ہے ،وہ ایمان اخلاص اور تقویٰ کی ر اہ سے بھی ہٹ گیا جبھی توخُدا کے دشمنوں سے دوستی کی بُنیاد رکھی ہے، اس نے اپنی زندگی کی جڑوں پر بھی کلہاڑ ی ماری ہے کہ اپنے دشمن کو اپنے اسر ار سے باخبر کردیاہے ،یہ وہ بدترین انحر اف ہے جومومن آدمی کوسر چشمہ ٴ ایمان تک پہنچنے کے بعد عارضی ہوسکتاہے ۔
بعد و الی آ یت میں مزید تاکید و توضیح کے لیے فرماتاہے : ” تم ان کے ساتھ دوستی کیوں کرتے ہو ؟حالانکہ اگروہ تم پرمُسلّط ہوجائیں تووہ تم سے دشمنی ہی کریں گے اور تمہار ے ساتھ اپنے ہاتھ اور زبان سے بدی ہی کریں گے “ (إِنْ یَثْقَفُوکُمْ یَکُونُو ا لَکُمْ اٴَعْداء ً وَ یَبْسُطُو ا إِلَیْکُمْ اٴَیْدِیَہُمْ وَ اٴَلْسِنَتَہُمْ بِالسُّوء ِ )(5) ۔
تم ان کے ساتھ ہی ہمدردی کرتے ہو، حالانکہ وہ تمہار ے اتنے پکّے دشمن ہیں کہ اگروہ تم پرمُسلّط ہوجائیں تووہ کسی بھی کام میں کوئی فروگذاشت نہ کریں گے اورتمہیں اپنے ہاتھ اور زبان سے ہر قسم کا آزار اورتکلیف پہنچائیں گے ، کیا ایسے لوگوں کے ساتھ ہمدردی کرنامُناسب ہے ؟
سب سے بُری بات یہ ہے کہ کہ ” وہ چا ہتے ہیں کہ تمہیںاِسلام سے کفر کی طرف پلٹا دیں “اور اپنے سب سے بڑے افتخار ، یعنی گوہر ایمان کو کھو بیٹھو (وَ وَدُّو ا لَوْ تَکْفُرُون) ۔
اور یہ و اقعی ایک درد ناک ترین ضرب ہے جووہ تم پر لگاناچاہتے ہیں ۔
آخر ی زیر ِ بحث آ یت میں ” حاطب بن ابی بلتعہ “جیسے افر اد کوجو اب دیتاہے ،جب پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے اُسے فرمایاتھا کہ تُونے مُسلمانوں کے اسر ار مُشر کین ِ مکّہ کے پاس کیوں پہنچائے ؟تو اُس نے یہ جو اب دیاتھا:میرے عزیز و اقارب مکّہ میں ہیں کہ جو کُفّارکے ہاتھوں میں گرفتارہیں ، مُجھے ڈر ہے کہ وہ انہیں آسیب پہنچائیں گے ، اس لیے میں نے چاہا کہ اِس طریقے سے اُن کی حفاظت کروں ،خدافرماتاہے : تمہارے عزیز و اقرباء اور تمہاری اولاد ہر گزتمہیں کوئی فائدہ نہ پُہنچائے گی (لَنْ تَنْفَعَکُمْ اٴَرْحامُکُمْ وَ لا اٴَوْلادُکُمْ ) ۔
کیونکہ اگر اولاد اورعزیز و اقارب بے ایمان ہوں تووہ نہ اس دُنیا کے لیے عزّت و آبرُو اور سر مایہ ہوں گے ، نہ ہی آخرت میں ذ ریعہٴ نجات ،پس مومن اُن کے لیے ایسے کام کیوں کریں جوخُدا کے غضب اُس کے اولیاء سے منقطع ہون کا مُوجب ہوں ۔
اس کے بعد مزیدکہتاہے : ” خُدا قیامت کے دن تمہارے اور ان کے درمیان جُدائی ڈال دے گا “ (یَوْمَ الْقِیامَةِ یَفْصِلُ بَیْنَکُمْ )( 6) ۔
اہل ایمان جنّت کی طرف اور اہل کُفر دوزخ کی طرف جائیں گے ،یہ حقیقت میں اس بات کے لیے ایک دلیل ہے جوپہلے بیان کی گئی ہے ،یعنی وہاں تم ایک دُوسرے سے جُدا ہوجاؤ گے اور تمام رشتے کُلّی طورپر منقطع ہوجائیں گے توپھر وہ تمہیں کون سانفع پہنچائیں گے ؟
یہ آ یت حقیقت میں اسی بات سے مُشابہ ہے جو سورة عبس کی آ یہ ۳۴ تا ۳۶ میں بیان ہوئی کہ جس میں فر ماتاہے : ” یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْء ُ مِنْ اٴَخیہِ ،وَ اٴُمِّہِ وَ اٴَبیہِ،وَ صاحِبَتِہِ وَ بَنیہِ “ وہ دن دُور نہیں جس میں انسان اپنے بھائی ، ماں ، باپ ،بیوی اور اولاد سے فر ار کرے گا “۔
آ یت کے آخرمیں ایک دفعہ پھر سب کو خبر دار کرتاہے کہ ” جوکچھ تم کرتے ہو خدا اسے دیکھ رہاہے “(وَ اللَّہُ بِما تَعْمَلُونَ بَصیر) ۔
وہ تمہاری نیّتوں سے آگاہ ہے اور ان اعمال سے بھی جوتم پوشیدہ طورپر انجام دیتے ہو ، اگرکچھ مو ارد میں وہ تمہارے اسر ار کو ” حاطب بن ابی بلتعہ “کی طرح فاش نہیں کرتا تو وہ کچھ مصالح کی بِناء پر ہے ، نہ یہ کہ وہ و اقف اور آگاہ نہیں ہے ۔
حقیقت میں حُدا کاغیب و شہُود اور ظاہر وپوشیدہ علم ، انسان کی تربیّت کے لیے ایک مُوٴ ثر ذ ریعہ ہے کہ وہ ہرحالت میںخود کو اس کی بارگاہ کے سامنے سمجھے اور سارے جہان کوخُدا کے حضور میں حاضر جانے ،وہ اپنی گفتار و رفتار حتّٰی کہ اپنی نیّت کابھی خیال رکھے ،یہی چیز ہے جوہم کہتے ہیں کہ خُدا کی مکمل معرفت تقویٰ کے ظہور کاسر چشمہ ہے ۔
1 ۔” مجمع البیان“ جلد۹،صفحہ ۲۶۹(تھوڑی سی تلخیص کے ساتھ )اس شانِ نزول کوبُخاری نے اپنی صحیح (جلد۶،صفحہ ۱۸۵، ۱۸۶) میں فخر ر ازی نے اپنی تفسیرمیں اور اسی طرح تفسیر” رُوح المعانی “و” روح البیان “و” فی ظلال“و” قرطبی “ و” مر اغی “وغیرہ نے تھوڑ ے تھوڑ ے فرق کے ساتھ نقل کیاہے ۔
2۔”تُلْقُونَ إِلَیْہِمْ بِالْمَوَدَّةِ “کے جملہ کو” لاتتخذو ا“کی ضمیر سے حال یا جملہ استینا فیہ سمجھتے ہیں (کشاف جلد۴،ص ۵۱۲)اور” بِالْمَوَدَّةِ ‘ کی باء کوزائدہ اور تاکید کے لیے ، جیسے (ولا تلقو ا باید کم الی التھلکة )ہے یا” سببیہ “ہے حذف مفعول کے ساتھ اور تقدیرمیں اس طرح ہے ” تُلْقُونَ إِلَیْہِمْاخبار رسول اللہ بسبب المودة التی بینکم وبینم ) (وہی مدرک ) ۔
3۔مفسرین کی ایک جماعت یہ نظریہ رکھتی ہے کہ اس جُملہ شرطیہ کی جزاء محذوف ہے کہ جس کاگذشتہ جُملہ سے استفادہ ہوتاہے ،یہ تقدیر میں اس طرح ہے : ” إِنْ کُنْتُمْ خَرَجْتُمْ جِہاداً فی سَبیلی وَ ابْتِغاء َ مَرْضاتیلا تتولو ا اعدائی “۔
4۔یہ ایک جُملہ استینا فیہ ہے اور” ما اسر رتم “کے بجائے ” ما اخفیتم“کی تعبیر اس لحاظ سے ہے کہ اس سے زیادہ مُبالغہ ظاہر ہوتاہے ، کیونکہ اخفاء پنہاں کاری سے زیادہ عمیق مرحلہ ہے،( تفسیر فخر ر ازی زیربحث آ یت کے ذیل میں)۔
5۔’یَثْقَفُوکُمْ “” ْ ثقَفُ اورثْقافة “کے مادہ سے ، کسِی چیزکی تشخیص اور اس کے انجام دینے میں مہارت کے معنی میں ہے اِس لیے فرہنگ و تمدّن یاکسِی چیز پرماہر نہ تسلّط کے معنی میں استعمال ہوتاہے ۔
6۔بہت سے مفسرین نے ” یوم القیامة “کوبفصل کامتعلق سمجھاہے ،لیکن بعض اسے ” لن تنفعکم“کے متعلّق سمجھتے ہیں ، تاہم دونوں کانتیجہ قریب قریب ایک ہی ہے ، اگرچہ پہلا معنی زیادہ مناسب نظر آتاہے یہ نکتہ بھی قابلِ توجّہ ہے کہ بعض ” یفصل “ کی تفسیر جُدائی ڈالنے کے معنی میں نہیں کرتے بلکہ فصل کوقضاوت اور فیصلہ کرنے کے معنی میں جانتے ہیں ،لیکن یہاں پہلا معنی زیادہ صحیح نظر آ تاہے ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma