١۔موت کی حقیقت

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 22

عام طورپر لوگ یہ تصور کرتے ہیں کہ موت ایک عدمی امر ہے اوروہ فنا کے معنی میں ہے،لیکن یہ نتیجہ ہرگز اس معنی کے ساتھ موافق نہیں ہے جوقرآن مجید میںبیان ہواہے، اور جس کی طرف دلائل عقلی رہنمائی کرتے ہیں ۔
موت قرآن کی نظر سے ایک امر وجود دہے ، ایک جہان سے دوسرے جہان کی طرف ایک انتقال اور عبور ہے اسی لیے قرآن کی بہت سی آ یات میں موت کو توفیسے تعبیر کیاگیاہے، جوواپس لینے اور فر شتوں کے ذ ریعہ رُوح کوبدن سے حاصل کرنے کے معنی میں ہے۔
اوپروالی آ یات وَ جاء َتْ سَکْرَةُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ موت کے شدائد حق کے ساتھ انسان کے پاس آ تے ہیں کی تعبیر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ ہے ( 1) بعض آیات میں موت کوصراحت کے ساتھ خدا کی مخلوق شمارکیاہے (الَّذی خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَیاةَ )(ملک۔٢)۔

اسلامی روایات میں موت کی حقیقت کے بارے میں مختلف تعبیریں آئی ہیں ۔
ایک حدیث میں منقول ہواہے کہ علی ابن الحسین امام سجّاد علیہ السلام سے لوگوں نے سوال کیا ماالموت ؟ موت کیاہے ؟
آپ علیہ السلام نے جواب میں فرمایا:
للمؤ من کنزع ثیاب وسخة قملة ، وفک قیود ، و اغلال ثقیلة ، والا ستبدال بافخر الثیاب، واطیبھا ر وائح، واوطی المراکب وانس المنازل ۔ وللکافر کخلع ثیاب فاخرة،والنقل عن منازل انیسة ، و الا ستبد ال باوسخ الثیاب واخشنھاواو حش المنازل، واعظم العذاب!:
مومن کے لیے توایساہے جیسے میلاکچیلا جوؤں سے پر لباس اتار پھینکنا،اوربھاری طوق وزنجیر کھولنا، اوراس کوبہترین لباس ، بہترین خوشبوؤں کے عطروں اور سُبک رفتار سوار یوں اور بہتر ین منزلوں سے بدل لینا،
اور کافر کے لیے ایسا ہے جیسے کہ فاخرہ لباس کواتار نا اورمانوس منازل سے منتقل ہوکرمیلے کچیلے اور سخت ترین لباس کوتبدیل کرنا، اور،اور وحشت ناک ترین منازل اور بزرگ ترین عذاب میں منتقل ہوجانا۔
امام محمد بن علی علیہ السلام سے بھی یہی سوال ہواتھا توآپ علیہ السلام نے فرمایا:
ھوالنوم الّذ ی یأ تیکم کل لیلة الاانہ طویل مدتہ ، لا ینتبہ منہ الایوم القیامة ۔
موت وہی نیندہے جو ہررات تمہیں آ تی ہے ،مگر یہ کہ اس کی مُدّت طولانی ہے اورانسان اس سے قیامت کے دن تک بیدار نہیں ہوتا(۲) ۔
ہم نے برزخ سے مربوط مباحث میں بیان کیاہے،کہ برزخ میں اشخاص کی حالت مختلف ہے ،بعض جیسے سوئے ہوئے ہیں، اور بعض (شہدائے راہ خدا اور قوی الایمان مومنین کی مانند ) طرح طرح کی نعمتوںمیں غرق ہوں گے ، جابر اور اشقیاء کی جماعت عذاب میں گرفتار ہوگی ۔
امام حسین بن علی سید الشہداء علیہ السلام نے بھی کربلامیں عاشور کے دن اور جنگ کے شدت اختیار کرنے کے وقت موت کے بارے میں ایک لطیف تعبیر اپنے اصحاب سے بیان فر مائی تھی :
صبر ً ا بنی الکرام! فماالموت الا قنطرة تعبر بکم عن البؤ س والضواء الی الجنان الواسعة ، والنعیم الدّ ائمة ، فایکم یکرہ ان ینتقل من سجن الیٰ قصر ، وما ھو لاعدائکم الاکمن ینتقل من قصر الیٰ سجن وعذاب، ان ابی حدثنی عن رسُول اللہ (ص) ان الدُنیا سجن المؤ من وجنة الکا فر، والمو ت جسرھٰؤ لاء ِالی جنانھم، و جسرھٰؤ لاء الی جحیمھم:
صبر کرو!اے کریم اور بزر گوار لوگوں کے بیٹو!موت توصرف ایک پل ہے، جوتمہیں تکلیفوں اور ناراحتیوں اوررنج والم سے بہشت کے وسیع باگات اور جاودانی نعمتوں کی طرف منتقل کردیتی ہے ، تم میں سے کون ایساہے ،جوزندان سے قصر میں منتقل ہونے سے تکلیف میں ہو، لیکن تمہارے دشمنوں کی مثال اس شخص کی مانند ہے جسے قصر سے زندان اور عذاب کی طرف منتقل کریں ، میرے باپ نے رسُول خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے نقل فر مایا کہ دنیامومن کے لیے زندان ہے اور کافر کے لیے بہشت اور موت اُن کے لیے تو جنت کے باغات کے لیے ایک پل ہے اوراِن کے لیے جہنم کاپُل ہے (۳) ۔
ایک اورحدیث میں منقول ہواہے کہ : امام موسیٰ بن جعفر علیہ السلام ایک ایسے شخص کے پا س گئے جوسکرات موت میں مبتلا تھا، اور کسی شخص کوجواب نہیں دیتاتھا، لوگوں نے عرض کیا ، اے فرزندِ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)ہمارا دل چاہتاہے کہ آپ موت کی حقیقت کی ہمارے لیے تشریح فرمایئے اور ہمیں بتایئے کہ ہمارا بیمار اب کس حالت میں ہے؟
آ پ علیہ السلام نے فر مایا: موت تصفیہ کاایک ذ ریعہ ہے جومومنین کوگناہ سے پاک کرتی ہے، اور اس جہاں کی آخری تکلیف اور نا راحتی ہے اوران کے گناہوں کاآخری کفارہ ہے ، جب کہ فروں کوان کی نعمتوں سے جداکرتی ہے، اوروہ آخری لذت ہے جوانہیں پہنچتی ہے اوران کے اچھے کام کا جوکبھی کبھارانجام دیاکرتے تھے ، آخری اجر ہے ، باقی رہاتمہارا یہ شخص جوحا لت احتضار میں ہے، تووہ کلی طورپرگناہوں سے پاک ہوچکاہے، اورمعاصی سے خارج ہوچکاہے، اورخالص ہوگیاہے، جس طرح سے کہ میلا کچیلا لباس دھونے سے پاک صاف ہوجاتاہے اوراس نے ابھی سے یہ شائستگی اور لیاقت پیداکرلی ہے کہ وہ ہمیشہ کے گھر میں اہم ہل بیت کی معاشرت میں رہے ( ۴) ۔
1۔اس بارے میں کہ "بالحق"میں"با" کے کیامعنی ہیں؟مفسرین نے مختلف احتمال دیئےہیں، بعض نے اس کو"باءتعدیہ" لیاہے اورحق کوموت کےمعنی میں ،جس سے اس جُملہ کامعنی یہ ہوگا۔سکرات موت اس مطلب کوجوایک حقیقت ہے۔ یعنی موت ۔ کوساتھ لاتے ہیں، اورکبھی اس کو" ملابست کے معنی میں" لیتے ہیں "سکرات موت حق کے ساتھ آپہچنے ہیں"۔
١۔بحارالانوار ،جلد ٦،صفحہ ٥٥ (ظاہر اً امام محمد بن علی سے مراد نویں امام امام جواد (علیہ السلام ) ہیں ۔
٢۔معانی الاخبار،صفحہ ٢٨٩ باب معنی الموت حدیث ٣۔
٣۔ معانی الاخبار ،صفحہ ٢٨٩،باب معنی الموت ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma