تمہاری چھوٹی سے چھوٹی بات کوبھی وہ لکھتے ہیں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 22

ان آ یات میں معاد سے مربوط مسائل کے ایک اورحِصّہ کوبیان کیا جارہاہے، اوروہ روزِ حساب کے لیے انسانوں کے اعمال کے ثبت وضبط کامسئلہ ہے ۔
سب سے پہلے خداکے غیر متناہی علم ، اورانسانوں پراس کے علمی احاطہ کی بات کرتے ہوئے فرماتاہے: ہم نے انسان کو خلق کیاہے، اورہم اس کے نفس کے وسوسوں کوجانتے ہیں: (وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الِْنْسانَ وَ نَعْلَمُ ما تُوَسْوِسُ بِہِ نَفْسُہُ)۔
توسوس وسوسہ کے مادہ سے مفردات میں راغب کے کہنے کے مطابق ،ایسے غیرمطلوب افکار کے معنی میں ہے،جو انسان کے دل میں گزر تے ہیں، اوراس کی اصل لفظ وسوسوں سے لی گئی ہے،جوآ لات زینت کی صدا، اوراسی طرح مخفی پیغام وصدا کے معنی میں ہے ۔
یہاں پراس سے مرد یہ ہے کہ جب خدادل میں گزر نے والے خیالوں اوراُن جلدی گزرجانے والے وسوسوںسے جواس کی فکرسے گزر تے ہیں،آگاہ ہے تووہ یقینی طورپران کے تمام عقائد واعمال وگفتار سے بھی باخبرہے ،اورروز حساب کے لیے سب کے حساب و کتاب پرنظر رکھتاہے ۔
َ لَقَدْ خَلَقْنَا الِْنْسانَ کاجُملہ ممکن ہے اس نکتہ کی طرف اشارہ ہو ، کہ خالق بشر سے محال ہے کہ وہ اس کے وجُود کے جز ئیات سے باخبر ہو، اور وہ خلقت بھی ایسی جوہمیشہ کے لیے جاری ہے،کیونکہ خداکی طرف سے ممکنا ت تک فیض وجود پہنچتا رہتاہے، کہ اگر ایک لمحہ کے لیے بھی ہمارا رابط اس سے منقطع ہوجائے تو ہم سب ختم ہو جائیں، جیساکہ سُورج کی روشنی اس منبع فیض بخش یعنی کرّ ئہ آفتاب سے لمحہ بہ لمحہ جدا ہوتی اور فضا میں پھیلتی رہتی ہے ،( بلکہ جیساکہ ہم بیان کریں گے، ہمارا اس کی ذات مقدس کے ساتھ ارتباط اس سے بھی زیادہ بالاتر ہے) ۔
ہاں!وہ خالق ہے ، اوراس کی خلقت دائم ومستمر ، اورہم تمام حالات میں اس کے وجود کے ساتھ وابستہ ہیں، ان حالات میں کس طرح ممکن ہے کہ وہ ہمارے ظاہر وباطن سے بے خبرہو ۔
اورآیت کے ذیل میں اس مطلب کوزیادہ واضح کرنے کے لیے مزید کہتاہے: ہم تواس کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں (وَ نَحْنُ أَقْرَبُ ِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرید) ۔
کتنی عمدہ وہلادینے والی تعبیر ہے، ہماری حیات جسمانی اس رگ کے ساتھ وابستہ ہے جوہمیشہ خون کوایک طرف سے ہمارے دل میں داخل کرتی ہے ، اور دوسری طرف سے خارج کرتی ہے، اورتمام اعضاء تک پہنچاتی ہے، اگر ایک لمحہ کے لیے بھی اس کے عمل میں وقفہ آ جائے تو فوراًموت واقع ہوجائے ۔
خدا تو ہمارے دل کی رگ سے بھی زیادہ ہمارے نزدیک ہے ۔
یہ وہی چیزکہ دوسری جگہ کہتاہے:(وَ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّہَ یَحُولُ بَیْنَ الْمَرْء ِ وَ قَلْبِہِ وَ أَنَّہُ ِلَیْہِ تُحْشَرُون) جان لو کہ خداانسان اوراس کے دل کے درمیان حائل ہوجاتاہے اور تم سب ہی قیامت میں اس کے پاس جمع ہو جاؤ گے ( انفال ۔ ٢٤) ۔
البتہ یہ سب کی سب تشبیہ ہیں اورخدا کاقرب اس سے بھی برتر وبالا تر ہے ، اگرچہ محسوسات میں اس سے زیادہ بہتر مثال نہیں مل سکتی ۔
خدا کے اس احاطہ علمی اوراس کے قبضہ قدرت میں ہونے کی صورت میں: ہماری ذمہ داری واضح و روشن ہے، نہ توہمارے افعال گفتار ہی اس سے پہناں ہیں ، اورنہ ہی افکار و نیات اور نہ وہ وسوسیت تک جو ہمارے دل میں گزر تے ہیں ۔
اس واقعیّت کی طرف توجہ ، انسان کوبیدارکرتی ہے، اور داد گاہ عدل الہٰی میں، اس کی سنگین باز پرس ، اور دقیق اعمال نامہ سے آشناکرتی ہے اورایک بے خبر اورلاپر واہ انسان سے اُسے ایک ہوشیارصحیح راستہ پر، قابلِاعتماد اور باتقویٰ انسان بناتی ہے ۔
اس حدیث میں آ یاہے کہ ایک دن ابو حنیفہ نے امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا ، کہ میں نے آپ کے فرزند، موسیٰکودیکھاہے کہ وہ نماز پڑھ رہے تھے اورلوگ ان کے سامنے سے گزر رہے تجھے، اوروہ انہیں منع نہیں کرتے تھے، حالانکہ یہ کام درست نہیں ہے ۔
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: میرے بیٹے موسیٰ کوبلاؤ،حضرت کوبلایاگیا،توامام صادق علیہ السلام نے ابو حنیفہ کی بات اپنے بیٹے سے بیان کی ، آپ علیہ السلام نے فرمایا، اے بابا جان!
ان الّذین کنت اصلی لہ کان اقرب الی منھم ، یقول اللہ عزو جل و نحن اقرب الیہ من حبل الورید۔
میں جس کی نماز پڑھ رہا تھا، وہ ان کی نسبت مجھ سے زیادہ قریب تھا، جیساکہ خداوند متعال فرماتاہے،!ہم انسان سے اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں، امام صادق علیہ السلام نے انہیں اپنی آغوش میں لیا اور فرمایا!
بابی انت وامی یامستودع الاسرار۔
میر ے ماں باپ تجھ پرقربان ہوں، اے وہ کہ اسر ار الہٰی جس کے دل میں ودیعت کئے گیئے ہیں (١) ۔
مفسرین اورا رباب لغت نے ورید کے معنی میں کے سلسلہ میں گونا گوں تفاسیر بیان کی ہیں، ایک گروہ کانظر یہ تویہ ہے ورید وہی رگ ہے جو انسان کے دل یاجگر کے ساتھ ملی ہوئی ہے ،اور بعض اُسے ان تمام رگوں کے معنی میں سمجھتے ہیں، جوانسان کے بدن سے گزرتی ہیں، جبکہ بعض دوسروں نے اس کی رگ گردن کے ساتھ تفسیر کی ہے ، اور کبھی اس کو وریدان کہتے ہیں، گردن کی دونوں رگیں ۔
لیکن پہلامعنی زیادہ مناسب نظرآ تاہے، خصوصاً سُورہ ٔ انفال کی آیت ٢٤ کی طرف تو جہ رکھتے ہوئے جس کی طرف ہم پہلے اشارہ کرچکے ہیں ۔
ضمنی طورپر یہ لفظ ورید اصل میں لفظ ورود سے جوپانی کی تلاش میں جانے کے معنی میںہے! لیاگیاہے چونکہ خون اس رگ کے ذ ریعہ دل میںداخل ہوتاہے،یادوسرے اعضاء میں وارد ہوتاہے، لہٰذا اس کو ورید کہا جاتاہے ۔
لیکن اس بات کی طرف توجہ رکھنی چاہیئے،کہ موجودہ زمانہ کی متداول اصطلاح ،ورید اور شریان سے متعلق اصطلاح وہ رگیں جوخون کوتمام ، اعضاء سے دل کی طرف لے جاتی ہیں، اوروہ رگیں جوخون کودل سے اعضاء کی طرف پہنچاتی ہیں،علم زیست شناسی کے ساتھ مخصوص اصطلاح ہے اور وہ اس لفظ کے لغوی معنی کے ساتھ کوئی ربط نہیں رکھتی ۔
بعد والی آیت میں مزید کہتاہے: اس وقت کویاد کرو، جب وہ دونوں فرشتے ، جوانسان کی دائیں اور بائیں طرف نگرانی پرمامور ہیں، اس کے اعمال کوضبط تحریر میں لاتے ہیں۔ ( یَتَلَقَّی الْمُتَلَقِّیانِ عَنِ الْیَمینِ وَ عَنِ الشِّمالِ قَعید )(٢) ۔
یعنی انسان کے ظاہر وباطن پر خدا وندعالم کے احاطہ علمی کے علاوہ دوفرشتے بھی اس کے اعمال کے حساب وکتاب کی حفاظت اور نگہداری پر مامور ہیں،جواس کی دائیں اوربائیں طرف سے نگرانی کرتے ہیں ، وہ ہمیشہ اس کے اساتھ رہتے ہیں، اورایک لمحہ کے لیے بھی اس سے جُدا نہیں ہوتے ،تاکہ اس طریقہ سے زیادہ سے زیادہ اتمام حجت ہو، اورحساب اعمال کی نگہداشت کے مسئلہ پر ایک تاکید ہو ۔
تلقی دریافت ،اخذ اورضبط کے معنی میں ہے،اور متلقیان دوفرشتے ہیں جوانسانوں کے اعمال کورقم کرنے پر مامور ہیں ۔
قعید قعود کے مادہ سے بیٹھنے والے کے معنی میں ہے ( ٣)اور یہاں مراد مامور اورنگران ہے ، دوسرے لفظوں میںآیت کامفہوم یہ نہیں ہے کہ دو فرشتے انسان کی دائیں اور بائیں طرف بیٹھے ہیں،کیونکہ انسان کبھی بیٹھا ہوتاہے اور کبھی چل رہا ہوتاہے، بلکہ یہ تعبیر اس بات کے لیے کنایہ ہے کہ وہ دونوں ہمیشہ اس کے ساتھ رہتے ہیں اوراس کے اعمال نگرانی کرتے ہیں ۔
یہ احتمال بھی دیاگیاہے کہ وہ دونوں انسان کے دائیں بائیں شانے پر یادائیں بائیں داڑ ھوں پرہمیشہ بیٹھے رہتے ہیں اور اس کے اعمال کوثبت کرتے ہیں، اوربعض مفروف روایات میں بھی اس معنی کی طرف اشارہ ملتاہے ۔( بحارالا نوارجلد ٥٩ ،صفحہ ١٨٦ روایت ٣٢)
قابل توجہ بات یہ ہے کہ روایات اسلامی میں آ یاہے ، کہ دائیں طرف کافرشتہ تونیکیوں کولکھتاہے، اوربائیں طرف کافرشتہ برائیوں کو لکھتاہے اور پہلا فرشتہ دوسرے کاحاکم ہے، جس وقت انسان کسِی نیک کام کوانجام دیتاہے، تو دائیں طرف کافرشتہ اس سے دس گناہ نیکیاں لکھ لیتاہے، اور جب بُراعمل اس سے سرزد ہوتاہے اوربائیں طرف کافرشتہ اُسے لکھناچاہتاہے، توپہلا فرشتہ اس سے کہتاہے، جلدی نہ کرو لہٰذا وہ اس کے لکھنے میں سات گھنٹہ کی تاخیر کردیتاہے،چنانچہ اگر مرتکب پشیمان ہوگیا اوراس نے توبہ کرلی توپھر فرشتہ کوئی چیز نہیں لکھتا، اوراگراس نے تو بنہ نہ کی تو پھر اس کے لیے صرف ایک ہی گناہ لکھتاہے( ٤) ۔
روایات سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ مؤ من انسان کے مرنے کے بعد وہ فرشتے کہتے ہیں پروردگارا!تو نے اپنے بندہ کی رُوح قبض کرلی ہے اب ہماری ماموریت کہاں ہے؟
خدا فرماتاہے:میراآسمان میرے فرشتوں سے پُر ہے ، جوہمیشہ میری عبادت کرتے ہیں، اور زمین بھی مطیع وفرمانبردارمخلوق سے پُرہے تم میری بندے کی قبر کی طرف جاؤاوروہاں تسبیح وتکبیر و تہلیل کہو، اوراُسے قیامت کے دن تک میرے بندے کی نیکیوں میں لکھو( ٥) ۔
ایک اور دوسری روایت میں آ یاہے کہ پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے فرمایا:
جومُسلمان بیمار ہو جاتاہے، خدااس کے اعمال کے محافظ فرشتوںسے کہتاہے، جب تک وہ بیمار ہے ،وہ اعمال جووہ صحت کی حالت میں انجام دیاکرتاتھا، اس کے لیے لکھتے رہو ، اس کے بعد پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے فر مایا:
من مرض اوسافرکتب اللہ تعالیٰ لہ ماکان یعمل صحیحاًمقیماً :
جوشخص بیمارہوجائے یاسفر میںہو تو خدا وہی (نیک ) اعمال جووہ حالت صحت میں اورحالتِ قیام میں انجام دیا کرتاتھا،اس کے لیے لکھتاہے ( ٦) ۔
اور یہ سب کے سب الطاف خداوند ی کی وسعت کی طرف پرمعنی اشار ے ہیں ۔
آخر ی زیربحث آیت میں پھر ثبت اعمال کرنے والے فرشتوں کے مسئلہ پر تکیہ کرتے ہُوئے کہتاہے، انسان کوئی بات زبان سے نہیں نکالتا، مگر یہ کہ اس کے پاس ایک نگرانی کرنے والا فرشتہ اپنی ماموریت کی انجام دہی کے آمادہ ہے،(ما یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ ِلاَّ لَدَیْہِ رَقیب عَتید)(٧) ۔
گذشتہ آیت میں انسان کے تمام اعمال رقم ہونے کے بارے میں گفتگو تھی، اوراس آیت میں خاص طورپر اس کے الفاظ اورباتوں پر بھی تکیہ کیاگیاہے، اوریہ اس حد سے زیادہ اہمیّت اور نقش مؤثر کی بناء پر ہے،جوانسانوں کی زندگی میں ان کی گفتارکوحاصل ہے، یہاں تک کہ بعض اوقات ایک ہی جُملہ اجتماعی راستے کوخیر یاشرکی طرف موڑ دیتاہے ۔
اوراس بناء پر بھی کی بہت سے لوگ اپنی باتوں کواپنے اعمال کاجُز نہیں سمجھتے، وروہ اپنے آپ کوبات کرنے میں آزاد آزاد خیال کرتے ہیں، حالانکہ انسان کے موثر ترین اورخطرناک ترین اعمال اُس کی باتیں ہی ہوتی ہیں ۔
اس بناء پر اس آیت کاذکر گزشتہ آیت کے بعد ، عام کے بعد خاص کے ذکر کے قبیل سے ہے ۔
رقیب مراقب اورنگران کے معنی میں ہے اور عتید اس شخص کے معنی میں ہے،جوکسی کام کوانجام دینے کے لیے تیارہو ،لہٰذا اس گھوڑ ے کو جودوڑ نے کے لیے تیار ہو فرس عتیدکہتے ہیں اورجوشخص کسی چیز کوذخیرہ، اوراس کی حفاظت کرتاہے،اسے بھی عتید کہاجاتاہے(مادئہ عتاد بروزن جہاد سے ذخیرہ کرنے کے معنی میں ہے ) ۔
اکثر مفسرین کانظریہ یہ ہے کہ رقیب و عتید وہی دوفرشتے جنہیںگزشتہ آیت میں متلقیانکے عنوان سے ذکر کیاگیاہے،دائیں طرف کے فرشتے کا نام رقیب ہے اوربائیں طرف کے فرشتے کا نام عتید اگرچہ زیربحث آیت میں اس مطلب کی صراحت نہیں ہے ،لیکن مجموع آ یات کے ملاحظہ سے اس قسم کی تفسیر بعید نظر نہیں آ تی ۔
اس بارے میں کہ یہ دونوں فرشتے کونسی باتوں کولکھتے ہیں ،مفسرین کے درمیان اختلاف ہے، ایک جماعت کانظر یہ یہ ہے کہ وہ سب کچھ لکھتے ہیں، یہاں تک کہ اس نالہ وفریاد کوبھی جوسرد رو رکھنے والاسر درو کے موقع پر کرتاہے، جب کہ بعض دوسرں کانظر یہ یہ ہے کہ صرف خیروشر ،واجب مستحب یاحرام ومکروہ الفاظ لکھتے ہیں ، اورمباحث کے ساتھ انہیں کوئی سرو کار نہیں ہے، لیکن آیت کی تعبیر کی عمومیّت بتاتی ہے، کہ انسان کے تمام الفاظ وگفتار ثبت ہوتی ہے ۔
قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ ایک حدیث میں امام صادق علیہ السلام سے آ یاہے :
ان لمؤ منین اذا قعدایتحدثان قالت الحفظة، بعضھالبعض اعتز لوابنا، فلعل لھماسرًّاوقد ستراللہ علیھما!۔
جب دو مؤ من ایک دوسرے کے پاس بیٹھتے ہیں اورخصوصی باتیں کر نے لکتے ہیں، تومحافظ اعمال فرشتے ایک دوسرے سے کہتے ہیں، ہمیں ایک طرف ہوجانا چاہیئے شایدان کے درمیان کوئی ایسا راز ہو جسے خدا نے مستور رکھاہو۔
راوی کہتاہے:کیاخدا یہ نہیں فرماتا ما یلفظ من قول الّالد یہ رقیب عتبہانسان کوئی بات نہیں کرتامگر نگران فرشتہ اور ثبت اعمال کے لیے آ مادہ فرشتہ اس کے پاس حاضر ہے ۔
امام علیہ السلام نے فرمایا:
ان کانت العفظة لاتسمع فان عالم السر یسمع ویری۔
اگر محا فظین ان کی باتوں کونہیں سنتے تو وہ خدا جواسرار سے باخبرہے وہ توسنتا اور دیکھتاہے ( ٨) ۔
اس روایت سے معلوم ہوتاہے کہ خدا وندِ عالم مؤ من کے اکرام واحترام کے لیے اس کی بعض باتوں کو جوخاص راز کاپہلو رکھتی ہیںان فرشتوںسے پوشیدہ رکھتاہے،لیکن وہ خودان تمام اسرار کامحافظ ہے ۔
بعض روایات سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ رات کے فرشتے دن کے فرشتوں کے علاوہ ہیں. جیساکہ سورۂ اسراء کی آیت ٧٨ میں ہم اس چیز کوپیش کرچکے ہیں(٩) ۔
١۔نورالثقلین ،جلد ٥،صفحہ ١٠٨۔
٢۔""اذ"" "" اذ یتلقی المتلقیان"" کے جملہ میںظرف ہے اوروہ ایک فعل محذوف سے متعلق ہے اورتقدیر میں اس طرح ہے ،اذ کرو ااذ یتلقی المتلقیان:اس معنی کومفسرین کی ایک جماعت نے قبول کیاہے، لیکن ایک گروہ کو"" اقرب"" سے متعلق سمجھتاہے،جوکہ اس سے پہلی آیت میں آ یاہے، لیکن پہلی تفسیر زیادہ صحیح نظر آ تی ہے ۔ کیونکہ وہ نحن اقرب الیہ من حبل الو ریداوراسی طرح اذ یتلقی المتلفیان کا جملہ اپنے استقلال کومحفوظ رکھتاہے اورایک دوسرے کومقید انہیں کرتا، علاوہ ازیں دوسری تفسیر میں صد ر وذیل کاتناسب چنداںواضح نظر نہیں آتا ۔
٣۔"" قعید"" مفرد ہے جبکہ """ متلقیان "" تثلیہ ہے ، اس کی وجہ یہ ہے،کہ آیت میں ایک محذوف ہے ،اور تقدیر میں اس طرح ہے "" اذ یتلفی المتلقیان عن الیمین قعید ،وعن الشمال قعید"" جن میں سے ایک دوسرے کے قرینہ سے محذوف ہے ۔
٤۔"" مجمع البیان"" جلد ٩،صفحہ ١٤٤۔
٥۔سابقہ مدرک ۔
٦۔"" روح المعانی "" جلد ٢٦ ،صفحہ ١٦٥ (زیر بحث آ یات کے ذیل میں یہی مضمون کتاب"" کافی "" میں امام صادق علیہ السلام سے بھی نقل ہواہے)(بحا رالانوار جلد ٥٩ ،صفحہ ١٨٧روایت ٣٤، ٣٥) ۔
٧۔"" لدیہ "" کی ضمیر "" قول"" کی طرف لوٹتی ہے یہ احتمال بھی ہے کہ کہنے والے کی طرف لوٹے ،لیکن پہلا احتمال زیادہ مناسب ہے ۔
٨۔""اصول کافی " مطابق نقل"" نورالثقلین"" جلد ٥،صفحہ ١١۔
٩۔جلد ،١٢،(سورہ اسراء کی آ یہ ٧٨ کے ذیل میں ) رجوع کریں ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma