جس وقت کہ جان گلے تک پہنچ جائے گی

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 23
منجملہ دیگرحسّاس لمحات کے جوانسان کوبہت زیادہ گہری فکر میں مستغرق کردیتے ہیں احتضار، یعنی انسانی زندگی کے اختتام کالمحہ ہے ۔ یہ وہ لمحہ ہے کہ جہاں معاملہ انسان کے اختیار سے باہر ہوجاتاہے اورآس پاس کھڑے ہوئے لوگ جان کنی میں مبتلا فرد کو نااُمیدی سے دیکھتے ہیں کہ یہ شمع کی طرح ہے جس کی زندگی ختم ہوچکی ہے اورآہستہ آہستہ بُجھ رہی ہے ۔وہ زندگی سے رُخصت ہوتاہے ۔اس وقت اس کوکوئی نہیں بچا سکے گا۔ جی ہاں انسان کامکمل صنعف ان حسّاس لمحات میں آشکار ہوجائے گا ۔ نہ صرف گزشتہ زمانوں میں ، بلکہ موجودہ زمانے میں بھی ، علاج کی تمام سہولتوں کے باوجود،جان کنی کے عالم کی زبوں حالی بالکل گزشتہ دُور کی طرح واضح وآشکار ہے ، قرآن مجید معاد کے مباحث کی تکمیل اور منکرین ومکذّبین کی جواب دہی میں اس لمحے کی گویا تصویر کشی کرتے ہوئے کہتاہے: پس کیوں جس وقت جان گلے میں آ جائے گی تواس کواپس لوٹانے کی طاقت تم نہیں رکھتے (فَلَوْ لا ِذا بَلَغَتِ الْحُلْقُومَ )(١) ۔
اورتم اس حالت میں نظارہ کروگے اورتم سے کچھ نہیں ہوسکے گا (وَ أَنْتُمْ حینَئِذٍ تَنْظُرُون) ۔ یہاں مخاطب وہ لوگ ہیں جو جان کنی میں مبتلا فرد کے متعلقین ہیں، ایک تووہ اس کی خسة حالت کودیکھیں گے ، دوسرے اپنی بے چار گی وناتوانی کومحسوس کریں گے اور یہ بھی دیکھیں گے کہ موت وحیات خداکے ہاتھ میں ہے ۔اس کسی کا کوئی اختیارنہیں ہے اوروہ اس سے بھی باخبر ہیں کہ ان کا اپناانجام بھی یہی ہو ناہے (٢) ۔
اس کے بعد پروردگار ِ عالم مزید فر ماتاہے: حالانکہ تمہاری نسبت ہم اس کے زیادہ قریب ہیں اورہمارے فرشتے جواس کی رُوح قبض کرنے کے لیے آمادہ ہیں، وہ بھی تمہاری نسبت اس کے زیادہ قریب ہیں لیکن تم نہیں دیکھتے (وَ نَحْنُ أَقْرَبُ ِلَیْہِ مِنْکُمْ وَ لکِنْ لا تُبْصِرُون) ۔ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ جاں کنی میںمبتلا شخص کی جان پرکیاگزررہی ہے اوراس کے وجود کی گہرائی میں کیسا تلاطم برپاہے اوروہ ہم ہی ہیں جس نے اس کی رُوح کے قبض کرنے کامعیّن وقت پر فرمان جاری کیاہے لیکن تم توصرف اس کے ظاہری حالات کودیکھتے ہواوراس گھر سے دوسرے گھرکی طرف انتقال سے اوران طوفانوں سے جواس وقت برپاہیں ،تم بے خبرہو ، اِس بناپر اس آ یت سے مراد خدا کاجان کنی میںمبتلا فرد سے قریب ہوناہے ، بعض مفسّرین نے یہ احتمال پیش کیاہے کہ اس سے مراد رُوح قبض کرنے والے فرشتہ کانزدیک ہوناہے لیکن پہلی تفسیرآ یت کے ظاہر سے زیادہ ہم آہنگ ہے ،بہرحال نہ صرف اس موقع پر بلکہ ہر حالت میں خداہرشخص کی نسبت ہم سے زیادہ نزدیک ہے یہاں تک کہ وہ خود ہم سے بھی ہم سے زیادہ نزدیک ہے ۔اگرچہ ہم بے خبری کی وجہ سے اس سے دُور ہیں ۔
ا س حقیقت کااظہار جاں کنی کے موقع پر دیگرتمام موقعوں کی نسبت زیادہ واضح و آشکار ہے ، اِس کے بعد مزید تاکید کے لیے اور اس حقیقت کونمایاں کرنے کے لیے مزید فرماتاہے : اگرتمہیں تمہارے اعمال کی بالکل جزانہ دی جائے (فَلَوْ لا ِنْ کُنْتُمْ غَیْرَ مَدینینَ ) تو پھر اس کوواپس لوٹا دو اگرتم سچّے ہو (تَرْجِعُونَہا ِنْ کُنْتُمْ صادِقین)یہ تمہاراضعف اس بات کی دلیل ہے کہ موت وحیات کا مالک کوئی اور ہے اورجزا وسزا کسی اور کے ہاتھ میںہے اوروہ وہی ہے کہ جومارتاہے اور زندہ کرتاہے ۔ مدینین جمع ہے مدین کی یہ دین کے مادّہ سے ہے جس کے معنی جزاہیں ، بعض نے اس کے معنی مربوبین بتائے ہیں، یعنی اگراَب تمہارا کوئی اورنہیں ہے اوراپنے امر کے تم خود ہی مالک ہوتواس کوواپس لوٹادو ، یہ خود اس امر کی دلیل ہے کہ تم کسی اورکے محکوم ہو۔
١۔آ یت محذوف رکھتی ہے جس کاگزشتہ آیات سے استفادہ ہوتاہے اورتقدیر عبارت اور اس طرح ہے ۔( فلولا اذا بلغت الحلقوم لاتر جعونھاولاتملکون شیئاً )یہاں فعل کامؤ نث ہونااس بناپر ہے کہ وہ نفس کی طرف لوٹتاہے ۔
٢۔یہ جو بعض مفسرین نے احتمال پیش کیاہے کہ یہاں مخاطب جاں کنی میں ،مبتلاہونے والاشخص ہے ،بہت بعید نظر آتاہے کیونکہ بعد والی آیت واضح کرتی ہے کہ مخاطب اس کے متعلقین اور ارد گرد بیٹھنے والے افراد ہیں ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma