یہ پانی اور آگ کِس کی طرف سے ہیں ؟

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 23

پروردگارِ عالم سورہ واقعہ کی ان آیتوںمیں معاد کی چھٹی اور ساتویں دلیل کی طرف اشارہ کرتاہے ۔ یہ آ یتیں اس قدرت و اختیار کو بیان کرتی ہیں جواُسے ہرچیز پرحاصل ہے اور یہ بات پایہ ثبوت کوپہنچاتی ہیں کہ وہ مُردوں کوزندہ کرنے کی طاقت رکھتاہے ۔پہلے فرماتاہے : کیاتم نے اس پانی پرغور کیاہے جسے تم پیتے ہو :(أَ فَرَأَیْتُمُ الْماء َ الَّذی تَشْرَبُونَ) کیاتم اسے بادل سے نازل کرتے ہو یاہم نازل کرتے ہیں (أَ أَنْتُمْ أَنْزَلْتُمُوہُ مِنَ الْمُزْنِ أَمْ نَحْنُ الْمُنْزِلُون) منزن ( بروزن حزن )جیساکہ راغب مفردات میں کہتا ہے واضح بادلوں کے معنی میں ہے ،بعض مفسّرین نے اس کے معنی برسنے والے بادل لیے ہیں ۔
یہ آیتیں انسان کے وجدان میں سوالات کاایک سلسلہ قائم کرتی ہیں اوراس سے اقرار لیتی ہیں اوردرحقیقت کہتی ہیں : کیااس پانی کے بارے میں جوتمہاری زندگی کا باعث ہے اور تم ہمیشہ اسے پتیے ہو کبھی غور کیاہے؟کون ہے جوسُورج کوحکم دیتاہے ، کہ سطح سمندر پر چمکے ؟ وہ کون ہے جوکڑوے اورنمکین پا نیوں میں سے صرف خالص شیریں پانی کے اجز کو، جوہرقسم کی آلودگی سے پاک ہیں، بخاری کی شکل میں آسمان میں اسمان کی طرف بھیجتا ہے؟ کون ہے جوان بخارات کوحکم دیتاہے ؟ بادلوں کے ٹکڑوں کوایک دوسرے سے الگ کون کرتاہے اورپھر انہیں خشک ومُردہ زمینوں کی بلند یوں پربھیجتاہے ؟ کِس نے ہواکے اُوپر والے حصّہ کویہ خاصیّت بخشی ہے کہ سرد ہونے کے موقع پرآہستہ آہستہ بخارات کوجذب کرنے کی قوّت کھوبیٹھیں اوراس کے نتیجے میں موجود بخارات قطروں کی شکل میں نرم وملائم صُورت میں آہستہ آہستہ زمین پر گریں؟اگرسُورج اپناکام چھوڑ دے ، ہوائیں چلنے سے رُک جائیں، فضا کے اُوپر والے حصّے بخارات کواصرار کرکے اپنے اندرروک لیں، آسمان زمین کے بارے میں بخیل ہوجائے اس انداز میں کہ زراعتیں اورنخلستان اپنے لب ترنہ کرسکیں تو تم سب شدّتِ تشنگی سے ہلاک ہوجاؤ گے اور تمہارے جانور، باغات ، اور زراعتیں سب خشک ہوجائیں گے ، توپھر سوچوقدرت رکھتاہے کہ اس قسم کے آسان ذرائع سے اس طرح کی برکتیں تمہارے لیے فراہم کرے کیامردوں کوزندہ کرنے کی قدرت نہیں رکھتا؟ یہ تو خود ایک قسم کا مردوں کوزندہ کرناہے ، مردہ زمینوں کوزندہ کرناتوحید وعظمت خداکی بھی دلیل ہے اورقیامت ومعاد کی بھی ،اوراگرہم مندرجہ بالا آیتوںمیں دیکھتے ہیں کہ صرف پینے کے پانی پر انحصار کیاگیاہے اوراس کی تاثیر سے جانوروں اورنباتات کی زندگی کے لیے پانی کی حد سے زیادہ اہمیّت کی بناپر ہے ۔اس کے علاوہ گزشتہ آیتوں میں زراعت کے معاملہ پرگفتگو ہوئی تھی لہٰذا تکرار کی ضرورت بھی نہیں تھی ،قابل ِ توجہ یہ بات ہے کہ انسانی زندگی میں پانی کی اہمیّت اور اس کے اثرات ، نہ صرف یہ کہ زمانے کے گزرنے کے ساتھ ،صنعتوں کے وجود میں آنے اورانسان کے علم ودانش کی ترقی کے باوجود ،کم نہیںہوئے بلکہ ، اس کے بر عکس، صنعتی انسان پانی کازیادہ محتاج ہے ۔اسی لیے بہت سے عظیم صنعتی ادارے صرف بڑے بڑے دریاؤں کے کنارے واقع ہیں اوران کی کار کردگی انہی مقامات سے وابستہ ہے ،آخر کار بعد والی آ یت میں اس بحث کی تکمیل کے لیے مزید کہتاہے : اگر ہم چاہیں تواس میٹھے اورخوشگوار پانی کوکڑوے اور نمکین پانی میں تبدیل کردیں (لَوْ نَشاء ُ جَعَلْناہُ أُجاجاً)(١) ۔
تو پھر کیوں اس عظیم نعمت کاشکر ادانہیں کرتے ( فَلَوْ لا تَشْکُرُونَ)جی ہاں اگرخدا چاہتا توپانی میں حل شدہ نمکیت کو اجازت دیتا کہ وہ پانی کے اجزاکے ساتھ بخاربنے اوراس کے ساتھ آسمان کی طرف چلی جائے اورکڑو ے اور نمکین بادلوں کی شکل بنائے اوربارش کے قطرے شور وتلخ سمندر کے پانی کاذائقہ لیے ہوئے اُوپرسے نیچے گریں ، لیکن اس نے پنی قدرت ِ کاملہ سے نمکین پانی کویہ اجازت ہیں دی۔ نہ صرف پانی کے نمکین حصّہ کوبلکہ ایذارساں ، مضر صحت ، اور تکلیف وہ جراثیم کوبھی یہ اجازت نہیں دی کہ وہ پانی کے بخارات کے ہمراہ آسمان کی طرف بلند ی پرجائیں اوربارش کے قطروں کوآلودہ کریں ۔اسی بناپر بارش کے قطرے ،جس وقت فضا آلودہ نہ ہو، زیادہ خالص پاکیزہ اور خوشگوار پانی پرمشتمل ہوتے ۔ اجاج کامادّہ اج (بروزن حج)ہے ۔یہ اصل میں اجیج سے لیاگیاہے جس کے معنی آگ کے بھڑکنے اورجلانے کے ہیں ،اس پانی کوجوکڑاوہٹ ،نمکیت اورحرارت کی وجہ سے منہ کوجلادے اجاج کہتے ہیں ۔اس گفتگو کوہم پیغمبراسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی ایک حدیث پرختم کرتے ہیں ان النّبی کان اذاشرب الماء قال الحمد اللہ الذی سقا ناعذباً فراتاً برحمتہ ولم یجعلہ ملحاً اجاجاً بذنوبنا جب پیغمبراکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)پانی توش فرماتے توارشاد فرماتے :
حمد ہے اس خداکے لیے جس نے اپنی رحمت سے ہمیں میٹھے اورخوشگوار پانی سے سیراب کیااوراسے ہمارے گناہوں کی وجہ سے نمکین اورکڑوانہیں بنایا (٢) ۔
انجام ِ کار ہم اسی سلسلہ آ یات میں ساتویں اورآخری دلیل تک پہنچتے ہیں۔ وہ ساتویں دلیل آگ کی خلقت ہے ،آگ جوانسانی زندگی کے آلات واسباب میں سے زیادہ اہم ہے اورتمام صنعتوں میں زیادہ مؤ ثر ذ ریعہ ہے اس کو موضوع بناکر خدافرماتاہے : کیا اس آگ کے بارے میں جسے روشن کرتے ہوکبھی تم نے غور وفکر سے کام لیاہے (أَ فَرَأَیْتُمُ النَّارَ الَّتی تُورُون)کیاتم نے اس کے درخت کو پیداکیا ہے یاہم نے پیدا کیاہے (أَ أَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَہا أَمْ نَحْنُ الْمُنْشِؤُنَ) تورون کامادّہ وری (بروزن نفی )ہے ۔ اس کے معنی چھپانا ہیں،وہ آگ جو آگ جلانے کے وسائل میں چھپی ہوئی ہے ۔اس کوچنگاری سلگا کرباہر نکالیں تواسے وری اور ایراء کہتے ہیں ۔اس کی وضاحت کچھ اس طرح ہے ۔ پہلی لکڑی کونیچے رکھ لیتے اوردوسری کواس کے اُوپر پتھر اورچقماق کی مانند ان میں سے چنگاری نکلتی ۔ اکثر مفسّرین نے اس آ یت کی انہی معانی میں تفسیر کی ہے کہ خدا چاہتاہے کہ وہ آگ جواس قسم کے درختوںمیں چھپی ہوئی ہے اوراس سے ماچس یاچقماق کی طرح فائدہ اُٹھا یاجاتاہے ، پروردگار اسے اپنی انتہائی قدرت پردلالت کرتاہے ،کہ شجرِ اخضر ( سرسبز درخت )میں آگ پیدا کی ہے حالانکہ پانی درخت کی جان ہے ،پانی کہاں اورآگ کہاں، وہ ذات ِپاک جواس قسم کی قدرت رکھتی ہے کہ پانی اور آگ کوایک دوسرے کے اندر محفوظ رکھے وہ مُردوں کولباسِ حیات پہنانے سے کِس طرح قاصر ہوسکتی ہے اور بروز قیامت انہیں کِس طرح زندہ نہیں کرسکتی !معاد کے لیے اسی دلیل سے مشابہت رکھتی ہوئی دلیل سُورہ یٰسین کی آخری آ یات میں بھی آ ئی ہے (الَّذی جَعَلَ لَکُمْ مِنَ الشَّجَرِ الْأَخْضَرِ ناراً فَِذا أَنْتُمْ مِنْہُ تُوقِدُونَ ) ۔ وہی ذات جس نے سبز درخت سے تمہارے لیے آگ پیدا کی اور تم اس کے ذ ریعہ آگ روشن کرتے ہو(یٰسین ۔ ٨٠)لیکن جیساکہ مذکورہ بالا آ یت کی تفسیر میں ہم نے تفصیل سے بیان کیاہے کہ یہ قرآنی تعبیرہوسکتاہے ایک زیادہ لطیف دلیل یعنی قوّتوں کی قیامت کی طرف اشارہ ہو۔دوسرے لفظوں میںیہاں گفتگو صرف ماچش اور لائٹروغیرہ کی نہیں ہے بلکہ وہ چیزیں مُراد ہیںجوجلانے کے کام آتی ہیں ،یعنی لکڑیاں اورایندھن وغیرہ جوجل کریہ ساری طاقت اورحرارت بہم پہنچاتے ہیں، اس کی وضاحت یہ ہے کہ علمی لحاظ سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ وہ آگ جوآج ہم لکڑیوں کے جلنے کے وقت دیکھتے ہیں یہ وہ حرارت ہے جودرختوں نے طویل عرصہ کے درمیان سُورج سے حاصل کی ہے اوراپنے اندراس کاذخیرہ کرلیاہے ،ہم سمجھتے ہیں کہ سُورج کی پچاس سال کی چمک اور روشنی درخت کے تنے سے ختم ہوگئی ہے ۔ ہم اس سے غافل ہیں کہ وہ حرارت درخت میں جمع ہے ۔ جس وقت آگ کی چنگاری خشک لکڑیوں تک پہنچتی ہے اوروہ جلنے لگتی ہیں تودرخت وہ حرارت اورروشنی واپس کردیتاہے ، یعنی اس طرح یہاں قیامت بپا ہوگی اورمُردہ طاقتیں ازسِر نوزندہ ہوجائیں گی اور وہ ہم سے کہیں گی وہ خداجس نے ہماری قیامت برپا کردی ہے وہ یہ قدرت رکھتاہے کہ تم انسانوں کی قیامت بھی برپا کردے ۔ اس سلسلہ میںمزید وضاحت کے لیے تفصیلی بحث جلد ١٨ کی طرف رجوع کریں ۔ تورون جس کے معنی آگ جلانا ہیں ۔اگرچہ یہاں عام طورپر اس کی تفسیر یہ کی گئی ہے کہ اس سے مراد ماچس وغیر ہ سے فائدہ اُٹھا ناہے لیکن اس میں کوئی شے مانع نہیں ہے کہ اس سے مُراد ایندھن ہو کیونکہ بہرحال اس میں آگ پوشیدہ ہوتی ہے جوظاہر ہوتی ہے ۔ یہ دونوںتفسیر یں ایک دوسرے سے متصادم بھی نہیں ہیں ۔ پہلے معنی عام لوگ سمجھتے ہیں اور دوسرے معنی جو زیادہ دقیق ہیں وہ زمانے کے گزرنے اور علم ودانش کی ترقی کے نتیجے میں ظاہر ہوتے ہیں ،بعدوالی آ یت میںمذکورہ بالامباحث کی تاکید کے لیے مزید فرماتاہے : ہم نے اس آگ کوجو درختوں سے خارج ہوتی ہے ،اور وں کے لیے یاد دہانی کاذ ریعہ اور مسافروں کے لیے زندگی کاذ ریعہ قرار دیاہے (نَحْنُ جَعَلْناہا تَذْکِرَةً وَ مَتاعاً لِلْمُقْوین) سبز درختوںمیں سے آگ کاظاہرہوناایک طرف بے جان بدنوںمیں قیامت کے دن رُوحوں کے واپس آنے کویاد دلاتاہے اوردوسری طرف آتش ِدوزخ کااحسان دلاتاہے ۔ پیغمبراسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی ایک حدیث : نارکم ھذہ التی توقدون جزء من سبعین جزء ً امن نار جھنم :یہ آگ جوتم جلاتے ہوجہنم کی آگ کے ستّر اجزء میں سے ایک جُز ہے (٣) ۔
باقی رہی تعبیر ( مَتاعاً لِلْمُقْوین)کی تووہ اس آگ کے دنیا وی فوائد کی طرف ایک مختصر اورپُر معنی اشارہ ہے ۔ کیونکہ مقوین کی دو تفسیریں کی گئی ہیں، پہلی یہ کہ یہ مادّہ قوائ (بروزن کتاب) سے مشتق ہے جس کے معنی خشک اور خالی بیابان کے ہیں۔ اس بناپرمقوین ان افراد کوکہتے ہیں جو صحراؤںمیں پھرتے ہیں اور چونکہ صحرانشین افراد عام طورپر فقیر ہوتے ہیںلہٰذایہ تعبیر بعض اوقات فقیر کے معنی میں بھی آ ئی ہے۔دوسری تفسیریہ ہے کہ یہ قوّت کے مادّہ سے طاقتور کے معنی میں ہے ۔اس بناپر لفظ مذکورایسے الفاظ میں سے ہے جودو متضاد معانی میں استعمال ہوتے ہیں (٤) ۔
یہ ٹھیک ہے کہ آگ اوردرخت (ماچس اورایندھن وغیرہ )سب کے لیے ذریعہ ٔ استفادہ ہیں لیکن چونکہ مسافر سردی کودُور کرنے اورکھانا پکانے کے لیے خصوصاً پُرانے زمانے کے سفروںمیں، جوقافلوں کے ذریعے ہوتے تھے ، خصوصیّت سے ان چیزوں کے حاجت مند تھے لہٰذا انہی کے ذکر پر انحصار کیاگیا۔ اقویا طاقتور وں کاآگ سے فائدہ اُٹھانا اپنی زندگی کی وسعت یعنی سہو لتوں کی بنا پرواضح ہے ۔خصوصاً اگر اس بحث کوہم موجودہ زمانے تک لے آئیں کہ جس طرح وہ حرارت جوانواع واقسام کی آگ سے پیدا ہونے والی ہے اوروہ دنیائے صنعت کومتحرک کرتی ہے اورکارخانوں کے عظیم پہیّوں کوگردش میں لاتی ہے ، وہ بھی بلا واسطہ یابالو اسطہ درختوں ہی سے متعلق ہے )،کسِی دن بُجھ جائے تو نہ صرف یہ کہ چراغ تمدّن گل ہوجائے بلکہ انسانوں کی زندگی کاچراغ بھی خاموش ہو جائے ۔اس میں شک نہیں کہ آگ انسانی انکشافات میں سے ایک بہت اہم چیزہے ،جب کہ اس کے تمام اثرات کاسرچشمہ خلقت و آفرینش ہی ہے اور انسان کی کاوش کادخل اس میں نہ ہونے کے برابر ہے ۔اس میں بھی شک نہیں کہ جس وقت سے آگ دریافت ہوئی ہے ،بشریت نے اپنے تمدّن کے ایک نئے مرحلہ میں قدم رکھاہے ، جی ہاںقرآن مجید نے اس ایک مختصر سے جملہ میں ان تمام حقائق کی طرف اجمالی اورسربستہ شکل میں اشارہ کیاہے۔ یہ نکتہ بھی قابل ِ توجہ ہے کہ مذکورہ بالا آ یت میں پہلے توآگ کا معنوی فائدہ پیش ہوا ہے جویقیناقیامت کی یاد دہانی تھا۔اس کے بعد اس کادنیا وی فائدہ بیان ہوااوروہ اس لیے کہ پہلا فائدہ زیادہ اہمیّت رکھتاہے ،بلکہ اصل داساس کی حیثیت رکھتاہے ۔ان تین نعمتوں(غذائی انا، پانی اور آگ )کے ذکرکے موقع پرایک خاص ترتیب رکھی گئی ہے جوپُورے طورپر ایک طبعی ترتیب ہے ۔ سب سے پہلے انسان غذا میں استعمال ہونے والے دانوں کولیتاہے اس کے بعدان دانوں میں پانی ملاتاہے پھر اُسے آگ پررکھ کرپکاتا ہے ۔اوراس قابل ِبناتاہے کہ انہیں بطور غذااستعمال کیاجائے ۔آخر ی زیربحث آ یت میں نتیجہ پیش کرتے ہوئے پروردگار ِ عالم فرماتاہے: اب جب کہ ایسا ہے تواپنے عظیم پروردگار کے نام کی تسبیح کراور اسے پاک ومنزہ شمارکر (فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّکَ الْعَظیم)(٥) ۔
جی ہاں وہ خداجس نے یہ سب نعمتیں پیداکی ہیں جن میں سے ہرایک اس کی توحید ،قدرت اورعظمت پردلالت کرتی ہے اور قیامت کاثبوت ہے ۔ وہ ہرقسم کے عیب ونقص سے مبّرہ ہے ۔ وہ پروردگار بھی ہے ، عظیم بھی ہے اورقادرِ مطلق بھی ، اس جملہ میں اگر چہ تنہا پیغمبرالسلام(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے خطاب ہے لیکن یہ بات کہے بغیر واضح ہے کہ اس سے مراد تمام انسان ہیں ۔
١۔ اس جملہ میں لام حذف ہوگیاہے اور تقدیر عبارت اس طرح ہے ( لونشاء لجعلناہ) ۔
٢۔تفسیر "" مراغی "" جلد ٢٧ صفحہ ١٤٨۔ ""تفسیررُوح المعانی "" جلد ٢٧ صفحہ١٢٩۔
٣۔تفسیر قرطبی ،جلد ٩ صفحہ ٦٣٩٢ ،اورتفسیر رُوح المعانی ،جلد ٢٧ ،صفحہ ١٣١۔
٤۔توجہ کریں کہ متاع کالفظ ہراس ذ ریعہ کے لیے بولا جاتاہے جس سے انسان اپنی زندگی میں فائدہ اُٹھائے ۔
٥۔"" با"" ""باسم ربک ""میںہوسکتاہے تعدیہ کے لیے (اس طرح سے کہ (صبح ) کافعل متعدی بمنزلہ لازم لیاگیاہو) بعض نے یہ احتمال بھی پیش کیاہے کہ یہاں"" با"" استعانت کے لیے ہے یازائدہ ہے یا مناسبت کے لیے ہے لیکن پہلے معنی زیادہ مناسب ہیں۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma