"قیاس" کی حجیت کے اثبات کیلئے ایک دلیل

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 23

ہمارے ،اصول ِفقہ میں یہ مسئلہ پیش کیا جاتاہے کہ اِحکام ِ شرعی کوقیاس کے ذ ریعے ثابت نہیں کیاجاسکتا ۔مثلاً ہم کہیں کہ وہ عورت جسے حیض آرہاہو چونکہ اپنے روئے قضا کرتی ہے لہٰذانمازبھی قضاکرنی چاہیئے ( اصطلاح کے مطابق ضروری ہے کہ کُلّی سے جزئی تک راہ پیداکرنی چاہیئے نہ کہ جزئی سے دوسرے جزئی تک )زیادہ ترعلمائے اہل سُنّت قیاس کوفقہ ٔ اسلامی کے سلسلہ میںمنابع تشریع میں سے ایک منبع تسلیم کرتے ہیں ۔ان علماء میں سے ایک جماعت ایسی بھی ہے کہ جوقیامت کی حجیّت کی نفی میں ہماری ہم نواہے۔ قابل توجہ امر یہ ہے کہ کہ قیاس کے بعض طرفدار وں نے مندرجہ بالا آ یت (وَ لَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشْأَةَ الْأُولی فَلَوْ لا تَذَکَّرُون) سے یہ چاہا ہے کہ اپنے مقصود پر استدلال کریں، اس لیے کہ خدا کہتاہے :نشاة الاخری یعنی قیامت کانشاة الاولیٰ یعنی اس دنیاپرقیاس کرو ،مگر یہ استدلال عجیب ہے کیونکہ اوّلاً جوکچھ اُوپروالی آ یت میں آ یاہے ایک عقلی استد لال اورمنطقی قیاس ہے ۔ چونکہ منکرین ِمعاد کہتے تھے کہ خداکس طرح قدرت رکھتاہے کہ بوسیدہ ہڈیوں کوزندہ کرے ، قرآن ان کے جواب میں کہتاہے وہی ذات ِوالا صفات جوابتدامیں تمہیں پیدا کرنے کی قدرت رکھتی تھی ، وہی بعد میں بھی اس قسم کی قدرت رکھتی ہے ،احکام ِشرعی میں قیاس ظنّی ہرگزاس طرح نہیںہے کیونکہ ہم تمام احکام کے مفاد ومصالح پراحاطہ نہیں رکھتے ، دوسرے یہ کہ وہ جوقیاس کوممنوع سمجھتے ہیں انہوں نے قیاس اولویت کااستثناء کیا ہے ،مثلاً قرآن کہتاہے: ماں باپ کی نسبت معمولی سے معمولی خشونت آمیز بات بھی نہ کرو تو ہم یہ بدرجہ اولیٰ سمجھتے ہیں کہ ماں باپ کوکوئی جسمانی تکلیف نہیں پہنچانیچاہیئے ۔زیربحث آ یت بھی قیاسی اولویت کے قبیل میں سے ہے اوراس قیاس ظنّی سے کوئی رابط نہیں رکھتی جومتنا زع فیہ ہے ۔ابتداء میں کوئی چیز موجود نہیں تھی ،خدانے کُرّئہ زمین اور مٹی کوپیدا کیااورانسان کواس مٹی سے پیداکیا ،آخرت کی تخلیق کے لیے کم از کم خاک توموجود ہے ۔
اس لیے قرآن مجید کی سُورہ روم کی آ یت ٢٧ میں ہم پڑھتے ہیں کہ وَ ہُوَ الَّذی یَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعیدُہُ وَ ہُوَ أَہْوَنُ عَلَیْہ ۔ وہی ہے جس نے آفرینش کاآغاز کیااس کے بعد اسے لوٹا ئے گااور یہ کام اس کے لیے بہت آسان ہے ۔اس گفتگو کوہم ایک حدیث پرختم کرتے ہیں ۔آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے فرمایا:عجباً کل العجب للمکذب بالنشأ ة الاخری وھو یری النشاة الاولیٰ وعجبا للمصدق بالنشا ة الاخرة وھو یسعی لدار الغروربہت ہی حیران کُن ہے اس شخص کامعاملہ جو نشا الاخریٰ یعنی آخرت کاانکار کرتاہے جب کہ نشاة الاُولیٰ یعنی دنیا کووہ دیکھتاہے اور بہت زیادہ تعجّب ہے اس شخص پرجونشاة اخریٰ پرایمان رکھتاہے لیکن اس کی ساری تگ ودَداس دنیا کے لیے ہے (1) ۔
1۔اس حدیث کو"" رُوح البیان"" ،"" روح المعانی "" ،"" قرطبی "" اور"" مراغی "" نے مختصر سے فرق کے ساتھ خبر کے عنوان کے تحت پیغمبراسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے نام کی تصریح کے بغیر بیان کیاہے ۔لیکن اس کی تعبیرات کاانداز یہ ہے کہ یہ حدیث پیغمبرہے ۔کتاب کافی میں اس حدیث کاپہلاحصّہ امام علی علیہ السلام ابن الحسین علیہ السلام سے منقول ہے ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma