ان گمراہ مُجرموں پرنازل ہونے والے عذاب کا ایک اور حِصّہ

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 23
یہ آیتیں اسی طرح اصحاب شمال پر نازل ہونے والے عذاب کے مباحث کوجاری رکھے ہوئے ہیں ، پروردگار ِ عالم اصحاب ِ شمال کو اسی انداز میں مخاطب کرتے ہوئے فر ماتاہے : پھرتم اے گمراہو ں اورتکذیب کرنے والو (ثُمَّ ِنَّکُمْ أَیُّہَا الضَّالُّونَ الْمُکَذِّبُونَ) ۔ زقوم کے درخت میں سے گھاؤ گے (لَآکِلُونَ مِنْ شَجَرٍ مِنْ زَقُّومٍ)(١) ۔
اپنے شکموں کواُس سے پُرکرو گے (فَمالِؤُنَ مِنْہَا الْبُطُون) گزشتہ آیتوں میں اصحاب ِ شمال کی دوزخ میں بسر ہونے والی زندگی کے بارے میںگفتگو ہوئی تھی ،یہاں ان کی غذا کے بارے میں بات ہو رہی ہے ۔اس اعتبار سے یہ اصحابِ شمال ، مقربین اوراصحابِ یمین کے بالکل مقابل ہیں ۔ قابل ِ توجہ یہ ہے کہ ان آیتوں میں مخاطب وہ گمراہ ہیں جوتکذیب کرنے والے ہیں ، وہ افراد جوضلالت و گمراہی کاشکار ہونے کے علاوہ حق سے دُشمنی اوراس کی خلاف ورزی کی رُوح اپنے موجود میں رکھتے ہیں اوراپنے اس غلط رویہ کوبرقرار رکھنے والے ہیں ۔
زقوم جیساکہ ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں، ایک بدبود ار گھاس ہے جس کامزہ تلخ ہے اس میں ایسا لیس ہوتاہے کہ اگروہ انسان کے بدن پر لگ جائے تواس سے جسم پرورم ہوجاتاہے اور یہ کبھی دوزخیوں کی ہرقسم کی ناقابل ِنفرت غذاؤں کے لیے بولاجاتاہے (٢) ۔
زقو م کے بارے میں مزید تفصیل کے لیے جلد ١٩ سورئہ صافّات کی آ یت ٦٢ اور جلد ٢١ سورہ دُخان کی آ یت ٤٣ کے ذیل میں جو مندر جات ہیں ان کی طرف رجوع کیجئے فما لئون منھا البطونکی تعبیر اس طرف اشارہ ہے کہ پہلے انہیں تیز بھوک لگے گی ، اتنی تیز کہ وہ اس نہایت ناگوار غذا کھالیں گے توانہیں پیاس لگے گی ،اَب وہ پئیںگے کیا؟توبعدوالی آ یت میں قرآن بتاتاہے ۔ تم اس ناگوار غذا کے بعد جلانے والاپانی پیوگے (فَشارِبُونَ عَلَیْہِ مِنَ الْحَمیمِ )(٣) ۔
اس حریصانہ انداز میں پیو گے جس طرح وہ اُونٹ جواستسقاکی بیماری میں مبتلاہوں (فَشارِبُونَ شُرْبَ الْہیم) ۔اس بیماری میں مبتلا ہونے والا اُونٹ بہت پیاس محسوس کرتاہے اور بار بار پانی پیتاہے ،یہاں تک کہ ہلا ک ہوجاتاہے ،جی ہاں یہ ہے کہ بروز قیامت سرگزشت گمراہوں اور تکذیب کرنے والوں کی حمیم حد سے زیادہ گرم اور جلانے والے پانی کے معنوں میں ہے ،اسی بناپر ایسے دوستوں کوجومحبت کی آگ میں جل رہے ہوں والی حمیم کہتے ہیں ،حمام بھی اسی مادّہ سے مشتق ہے ھیم (بروزن میم)ھائم کی جمع ہے ۔ (اور بعض لوگ اسے اھیم اورھیماء کی جمع مانتے ہیں )اصل میں ھیام(بروزن فرات)پیاس کی اس بیماری کوکہتے ہیں جواُونٹ کولاحق ہو تی ہے ، یہ تعبیر عشق ِسوزاں اور عاشقانِ بے قرار کے بارے میں بھی استعمال ہوتی ہے ۔ بعض مفسرین ھیم کوایسی زمین ریگز ار کے معنوں میں جانتے ہیں جس پر جتنا پانی ڈالاجائے وہ سب اس میں جذب ہوجاتاہے ۔گو یاوہ کبھی سیراب نہیں ہو تی ، زیربحث آ یات میں سے آخری آ یت میں ایک مرتبہ پھر اسی کھانے اور پانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتاہے : یہ ہے قیامت میں ان کی پذیرائی کاذ ریعہ (ہذا نُزُلُہُمْ یَوْمَ الدِّین) ۔یہ ایسی حالت میں ہے کہ جب دوسری طرف اصحاب ِیمین بہت ہی لطیف وخوشگوار سیایہ میں ارام وسکون سے ہیں ، بہترین پھل کھاتے ہیں اور شراب طہور وآب خوشگو ار پیتے ہیں اورعشق ِخدامیں مَست ہیں ( بین تفاوت رہ از کجا اس تابکجا) نزل جیساکہ ہم نے پہلے بھی کہا ہے اس وسیلہ اور ذ ریعہ کے معنوں میں ہے جس سے مہمان عزیز کی پذیرائی کرتے ہیں اور بعض اوقات مہمان کے لیے سب سے پہلے لائے جانے والے کھانے اورمشروب پراس کااطلاق ہوتاہے ، یہ بات بالکل واضح ہے کہ دوزخی نہ تومہمان ہیں اورنہ زقوم وحمیم پذیرائی کے ذریعے شمارہوتے ہیں ۔ یہ ان پرایک قسم کاطنز ہے تاکہ وہ اندازہ لگالیں کہ جب ان کی پذ یرائی کا یہ عالم ہے تو پھر ان کی معذّب صورت ِحال کتنی عبرت ناک ہوگی ۔
١۔"" من شجر"" کا "" من "" تبعیضہ ہے اور "" من زقوم"" کا"" من "" بیانیہ ہے ۔
٢۔مجمع البحرین ،مفردات راغب،لسان العرب اور تفسیر رُوح المعانی ۔
٣۔ قابل توجہ یہ ہے کہ گزشتہ آیت میں ضمیر مؤ نث (منھا)شجر من زقوم کی طرف لوٹتی ہے اوراس آ یت کی ضمیر مذکور"" علیہ "" وہ اس وجہ سے کہ لفظ شجر دونوں طرح استعمال ہوتاہے ،اسی طرح ثمر بھی ،مجمع البیان درذیل آیہ زیربحث ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma