دو اور جنّتیں اپنے حیران کُن اوصاف کے ساتھ

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 23

گزشتہ بحث کوجاری رکھتے ہوئے جس میں خوف ِ خدا رکھنے والوں کونصیب ہونے والی عالی قدر بہشتوںکے بارے میں گفتگو کررہاتھا پروردگار ِ عالم اِن آیتوںمیں دو اورجنّتوں کی بات کرتاہے جوپست درجہ میں ہیں اورقدرتاً ایسے افراد کے لیے ہیں کہ جو ایمان اورخوفِ الہٰی کی بہت نچلی سطح پرفائز ہیں ،دوسرے لفظوں میں ایمان اورعمل ِ صالح کے اعتبار سے مختلف مراتب آتے ہیں ۔
پہلے فرماتاہے : اوران سے نیچے دو اور بہشت ہیں (وَ مِنْ دُونِہِما جَنَّتانِ )۔مفسرین نے اس جملے کی دو تفسیریں کی ہیں ایک تووہی جو ہم اُوپر بیان کرچکے ہیں ،دوسری تفسیر یہ ہے کہ من دونھما کے الفاظ یعنی ان دو جنّتوں کے علاوہ دو اور جنّتیں ان مومنین کے لیے ہیں جونئی نئی اشیاء کے اشتیاق میں بہشت کے ان باغات میں سیر کررہے ہیں ،اِنسان کی طبیعت اوراس کامزاج نئی نئی اشیاء میں دلچسپی کاعادی ہے اوراس سے اس کولُطف حاصل ہوتاہے ، لیکن اِن آیتوں کے لب ولہجہ سے اوران روایتوں کی رُوسے جواس تفسیرمیں وارد ہوئی ہیں ،پہلی تفسیر زیادہ مناسب نظر آتی ہے ۔پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک حدیث ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آ یت کی تفہیم کے بارے میں فرمایا: جنتان من فضة واٰنیتھما ومافیھما وجنتان من ذھب اٰنیتھما وما فیھما
دو جنتیں جن کی عمارت اورجو اشیاان میں ہیں وہ سب چاندی کی ہیں اوردو جنّتیں ایسی ہیں کہ جن کی عمارت اورجوکچھ ان میں ہے وہ سب سونے کاہے ۔
سونے اور چاند ی کی تعبیر ممکن ہے کہ اِن دونوں نعمتوں کے فرق کی طرف اشارہ ہو (١)۔
ایک اورحدیث جوامام جعفرصادق علیہ السلام سے منقول ہے ،اس میں ہمیں ملتاہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا:
(لا تقولن الجنة واحدة ،ان اللہ یقول ومن دونھا جنتانولا تقولن درجة واحدة ان اللہ یقول درجات بعضھا فوق بعض انما تفاضل القوم بالا عمال )۔
یہ نہ کہہ کہ ایک جنّت ہے کیونکہ خداکہتاہے : ان دوجنّتوں کے علاوہ دو اور جنتیں ہیں
اور یہ بھی نہ کہہ کہ ایک درجہ ہے کیونکہ خدافرماتاہے :
کئی درجات ہیں جن میں سے بعض بعض سے بہتر ہیں اور یہ فرق اعمال کی بُنیاد پرہے (٢)۔
اِسی وجہ سے پیغمبراسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی ایک حدیث میں ہے :
جنتان من ذھب للمقربین وجنتان من ورق لاصحاب الیمین ۔
دو سونے کی جنّتیں ہیں کہ جومقر بین بارگاہ کے لیے ہیں اور دو جنّتیں چاندی کی ہیں کہ جو اصحاب الیمین کے لیے ہیں (٣)۔
اس کے بعد پھر فرماتاہے : تم اپنے پروردگارکی کِس کِس نعمت کاانکار کروگے (فَبِأَیِّ آلاء ِ رَبِّکُما تُکَذِّبانِ)۔اس کے بعد ان دونوں جنّتوں کی وہ پانچ خصوصیتیں کہ جن میں سے کچھ اس کے ساتھ مشابہت رکھتی ہیں جوسابقہ دوجنّتوں کے بارے میں بتائی گئیںاورکچھ اُن سے مختلف ہیں اوران کوبیان کرتے ہوئے کہتاہے وہ دُونوں پُرمسرّت وسرسبز ہیں (مُدْہامَّتانِ )۔ مُدْہامَّتانِ کا مادّہ ادھیمامہے اور دھمہ (بروزن تہمہ )کی جڑ سے سیاہی اوررات کی تایکی کے معنوں میں ہے خوش رنگ سبز پربھی اس کااطلاق ہوتاہے اور چونکہ اس قسم کارنگ گھاس اور درختوں کی انتہائی شادابی کی علامت ہوتاہے لہٰذا یہ تعبیران دونوں جنّتوںکی انتہائی سرسبزی وشادابی کوبھی واضح کرتی ہے اِس مقام پر پھراضافہ کرتاہے تم اپنے پروردگار کی کِس کِس نعمت کا انکار کروگے (فَبِأَیِّ آلاء ِ رَبِّکُما تُکَذِّبان)۔
اس کے بعد والی آ یت میں ایک اورصفت ِ پیش کرتے ہوئے کہتاہے : ان دونوں جنّتوں میں دو چشمے ہیں جوجوش ماررہے ہیں (فیہِما عَیْنانِ نَضَّاخَتان)۔ تضاختان کامادّہ نضخ ہے جس کے معنی پانی کے اُبل کرنکلنے کے ہیں ،ایک مرتبہ پھرجن میں اِنس سے استفہام انکاری کی صورت میں پوچھتاہے تم اپنے پر وردگار کی کِس کِس نعمت کو جھٹلاؤ گے (فَبِأَیِّ آلاء ِ رَبِّکُما تُکَذِّبان) ۔
اِنس کے بعد آ یت ان دونوں جنّتوں کے پھلوں کے بارے میں کہتی ہے : اُن میں پھل کثرت سے ہیں اورخرما اورانگور کے درخت ہیں (فیہِما فاکِہَة وَ نَخْل وَ رُمَّان )۔اس میں شک نہیں کہ فاکھة کاایک وسیع مفہوم ہے اوراس سے تمام قسم کے پھل مُراد ہوتے ہیں لیکن کھجور اورانار کی اہمیّت اس کاسبب بنی ہے کہ اِن دو پھلوں کابطور خاص ذکر کیاجائے ،اور یہ جوبعض مفسّرین نے خیال کیاہے کہ مذکورہ دونوں پھل فاکھة کے مفہوم میں شامل نہیں ہیں ،یہ غلط ہے ،کیونکہ علمائے لغت نے اس کوتسلیم نہیں کیا۔
اصولاً عام پر خاص کا عطف ایسے مواقع پرجب کوئی خاص امتیاز نہ رکھتا ہو،معمول میں داخل ہے ، جیساکہ کہ سورئہ بقرہ کی آ یت ٩٨ میں ہے (مَنْ کانَ عَدُوًّا لِلَّہِ وَ مَلائِکَتِہِ وَ رُسُلِہِ وَ جِبْریلَ وَ میکالَ فَِنَّ اللَّہَ عَدُوّ لِلْکافِرین) جوشخص خدا، اس کے ملائکہ اوراس کے بھیجے ہوئے رسولوں اورجبرئیل ومیکائیل کادُشمن ہو( اورکافر ہو) تو خداکافروں کادشمن ہے یہاں جبرئیل ومیکائیل کوجوخُدا کے عظیم فرشتوں میں سے دوفرشتے ہیں ،ملائکہ کے بیان کے بعد، بطورعام مورد توجہ قرار پائے ہیںپھر اس سوال کی تکرار کرتے ہوئے فر ماتاہے:تم دونوں اپنے پروردگار کی کِس کِس نعمت کاانکار کروگے (فَبِأَیِّ آلاء ِ رَبِّکُما تُکَذِّبانِ)۔
١۔"" مجمع البیان "" زیربحث آ یات کے ذیل میں ۔
٢۔ "" مجمع البیان "" آیات زیربحث کے ذیل میں ۔
٣۔"" درالمنثور"" ،جلد ٦ صفحہ ١٤٦ جیساکہ ہم نے کہا کہ سونے اور چاندی کی تعبیر ہوسکتاہے کہ ان دونوں جنتوںکے مرتبہ کے فرق کی طرف اشارہ ہے ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma