بهشت کی خوبصورت بیویاں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 23
پروردگار ِ عالم فرماتاہے : بہشت کے محلوں میں ایسی عورتیں ہیں کہ جنہوں نے اپنے شوہروں کے علاوہ کبھی کسِی دوسرے مرد کی طرف نہیں دیکھا اوران کے علاوہ کبھی کسِی دُوسرے فرد سے محبت نہیں کی (فیہِنَّ قاصِراتُ الطَّرْف)(١)۔
اور کسی جِنّ یاانسان نے اس سے پہلے ان سے ملاقات نہیں کی (ِ لَمْ یَطْمِثْہُنَّ ِنْس قَبْلَہُمْ وَ لا جَانّ )(٢)۔
اس وجہ سے وہ دوشیزہ ہیں ،کسی نے ان کو ہاتھ نہیں لگا یا وہ ہرلحاظ سے پاک وپاکیزہ ہیں، حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ جنّت والی بیوی اپنے شوہر سے کہے گی کہ مجھے پروردگارکی عزّت کی قسم ہے کہ میں جنّت میں تجھ سے بہتر کوئی چیز نہیں پاتی ، حمد وسپاس مخصوص ہے ،اس خدا کے لیے جس نے مجھے تیر ی بیوی اورتجھ کومیرا شوہر قرار دیا( ٣)۔
طرف (بروزن حرف)کے معنی پلک کے ہیں ، چونکہ دیکھنے کے وقت پلکیں حرکت کرتی ہیں ،لہٰذا یہ کنایہ ہیں دیکھنے کا اس بناپر قاصِراتُ الطَّرْفکے الفاظ ایسی عورتوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ جن کی نگاہ کوتاہ ہے یعنی وہ صرف اپنے شوہروں سے ہی لگاؤ رکھتی ہیں ،اوریہ ایک بیوی کاعظیم ترین امتیاز ہے کہ و ہ اپنے شوہر کے سواکسی دوسرے کاتصوّر بھی نہ کرے اور کسی سے کوئی تعلق نہ رکھے ۔ پروردگارِعالم اس نعمت بہشتی کے بعد پھر فرماتاہے : تم اپنے پروردگار کی کِس کِس نعمت کوجھٹلا ؤ گے (فَبِأَیِّ آلاء ِ رَبِّکُما تُکَذِّبان)۔
اس کے بعدان ان بہشتی عورتوں کی اورتعریف کرتے ہوئے فرماتاہے : وہ یاقوت ومرجان کی طرح ہیں(کَأَنَّہُنَّ الْیاقُوتُ وَ الْمَرْجانُ)۔سرخی صفائی اور آب وتاب میں یاقوت اورخوبروئی وسفید ی میں مر جان اس وقت کہ جب یہ دونوں رنگ ، سفید اور صاف سُرخ،آپس میں مِلتے ہیں توایک نہایت خوبصورت رنگ بنتاہے ، یاقوت ایک معدنی پتھر ہے جوعام طورپر سُرخ رنگ کا ہوتاہے اورمرجان ایک دریائے جانور ہے کہ جودرخت کی شاخ سے مشابہ ہوتاہے جوکبھی سفید کبھی تیز سُرخ یامختلف رنگوں کاہوتاہے یہاں بظاہر مراداس کی سفید قسم سے ہے ( ٤)۔
بارِ وگرجنّت کی اس نعمت کے بیان کے بعد فرماتاہے :تم اپنے پروردگار کی کِس کِس نعمت کو جھٹلا ؤ گے (فَبِأَیِّ آلاء ِ رَبِّکُما تُکَذِّبان)۔اِس بحث کے آخر میں فرماتاہے : کیانیکی کی جزا نیکی کے علاوہ اور کوئی چیز ہو سکتی ہے ؟(ہَلْ جَزاء ُ الِْحْسانِ ِلاَّ الِْحْسانُ)(٥)۔
وہ افراد کہ جنہوں نے دُنیامیں نیک کام کیے ہیں کیا خُدا کی طرف سے اُن کے لیے عُمدہ جزا کے علاوہ کسِی اور شے کی توقع کی جاسکتی ہے،اگرچہ اسلامی روایات میں یامفسّرین کی تفسیر وں میں احسان سے مراد توحید ہے یاتوحید ومعرفت ہے یااسلام ،لیکن یہ امر واضح ہے ان میں سے ہرا یک نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ کوئی سی بھی نیکی جوعقیدہ ،گفتار اورعمل میں ہو یہ اس کے مفہوم پرحاوی ہے ۔
امام جعفرصادق علیہ السلام کی ایک حدیث ہے :
ایة فی کتاب االلہ مجلة ،قلت وماھی ؟قال قول اللہ عزو جل : ہَلْ جَزاء ُ الِْحْسانِ ِلاَّ الِْحْسانُجرت فی الکا فرو المؤ من ، والبر والفاجر،ومن صنع الیہ معروف فعلیہ ان یکا فی ٔ بہ ولیس الم کافاة ان تضع کماصنع حتّٰی تربی ، فان صنعت کماصنع کان لہ الفضل بالابتدائ ۔
قرآن میں ایک آ یت ہے کہ جوعمومیت کامل رکھتی ہے ،راوی نے عرض کیا کہ وہ کونسی آ یت ہے فرمایا: خداوند تعالیٰ کایہ ارشاد کہ (ہَلْ جَزاء ُ الِْحْسانِ ِلاَّ الِْحْسانُ)کہ جو کافرومومن اورنیک وبد کے بارے میں ہے ۔(کہ نیکی کاجواب نیکی سے دیناچاہیئے ) جس شخص کے ساتھ نیکی کی جائے اسے نیکی سے بدلہ اداکرناچاہیئے ،اور بدلہ یہ نہیں ہے کہ اس کی نیکی کی مقدار کے برابر نیکی کی جائے بلکہ اس سے زیادہ نیکی کرنی چاہیئے ،اگرنیکی کی اتنی ہی مقدار ہوگی تواس کی نیکی افضل وبرتر ہوگی کیونکہ اس نے ابتدا کی ہے ( ٦)۔
اسی وجہ سے بندہ کے نیک اعمال کے بدلہ میں خداکی طرف سے جوسلوک ہوگاوہ بہترہوگا ،یہ اس استدلال کی بناپر ہے کہ جوامام نے مندرجہ بالا حدیث میں ارشاد فرمایا: راغب مفردات میں کہتاہے احسان ایک ایسی شے ہے جوانصاف سے بہتر ہے کیونکہ انصاف یہ ہے کہ انسان، جوکچھ اس کے ذمّہ واجب ہے ،اسے اداکردے اورجواس کادوسرے پر ہے وہ لے لے لیکن احسان یہ ہے کہ انسان اس سے زیادہ کہ جس کاوہ ذمّہ دار ہے عطاکرے اورجتنا اس کاحق ہے اس سے کم لے ۔
پروردگا ر ِ عالم پھر اپنے بندوں کومخاطب کرکے فرماتا ہے : تم اپنے پروردگار کی کِس کِس نعمت کا انکار کروگے (فَبِأَیِّ آلاء ِ رَبِّکُما تُکَذِّبانِ)۔ وہ اس لیے کہ یہ قانون کہ احسان کابدلہ احسان ہے بجائے خودایک عظیم نعمت ہے جوخدا وند عظیم کی طرف سے ہے وہ یہ بتاتاہے کہ اپنے نیک بندوں سے جوسلوک ہوگاوہ اس کے اپنے کرم کی بناپر ہوگا نہ کہ ان کے اعمال کے مطابق ،اَب اگر وہ اطاعت کرتے ہیں اورنیک عمل بجالاتے ہیں تووہ بھی اس کی دی ہوئی توفیق کی نعمت کی بناپر ہے ۔خدا کی برکتیں بندوں ہی کی طرف لوٹتی ہیں۔
١۔"" فیھن"" میں جمع کی ضمیر ممکن ہے قصور بہشتی کی طرف لوٹے یاان دوجنّتوں کے مختلف باغات کی طرف یاان کی نعمتوں کی طرف ۔
٢۔ "" لَمْ یَطْمِثْہُنَّ""کامادّہ ""طمث"" ہے جس کے معنی ماہواری کاخُون ہے ، یہ زوال بکارت کے معنوں میں بھی آیاہے اوریہاں اس طرف اشارہ ہے کہ جنّت کی باکرہ عورتیں ہرگز شوہر نہیں رکھتیں ۔
٣۔ مجمع البیان ،جلد ٩،صفحہ ٢٠٨۔
٤۔ مرجان کے بارے میں اس سورہ کی اوائل میں آ یت ٢٢ کے ذیل میں ہم نے تشریح کی ہے ۔
٥۔ ""ھل"" اس آ یت میں استفہام انکاری کے طورپر ہے ،حقیقت میں یہ آ یت ان گزشتہ آیتوں کی دلیل ہے کہ جن میں جنّت کی چھ نعمتوں کا ذکر تھا ۔
٦۔تفسیر عیاشی ،مطابق نقل "" نورالثقلین"" ،جلد ٥،صفحہ ١٩٩ اور تفسیر "" مجمع البیان "" جلد ٩ ،صفحہ ٢٠٨۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma