یہ دونوں جنتیں خائفین کے اِنتظار میں ہیں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 23

اِن آیتوں میں دوزخیوں کوان کے حال پر چھوڑ کرپر وردگار ِ عالم نے جنّتیوں کوموضوعِ گفتگو بنایاہے ،اس طرح اللہ نے جنّت کی دلپذیراور شوق انگیز نعمتوں کاشمار کرایاہے تاکہ اِن نعمتوں کادوزخیوں پرنازل ہونے والے عذابوں اور سزاؤں سے موازنہ کرکے دونوں میں سے ہر ایک کی اہمیّت کوواضح کرے ،وہ فرماتاہے : اس شخص کے لیے جواپنے پروردگار کے مرتبہ سے خائف ہے جنّت کے دوباغ ہیں (وَ لِمَنْ خافَ مَقامَ رَبِّہِ جَنَّتان)۔ مقامِ پروردگار سے خوفاس سے مراد قیامت کے مختلف موقفوں میں قیام کاخوف، حساب کی غرض سے بارگاہِ الہٰی میںحاضر ہونے کاخوف یاخدا کے اس علم اوردائمی نگہبانی کاخوف ہے جووہ تمام اِنسانوں کے بارے میں رکھتاہے (١)۔
دوسری تفسیر اس بات سے مناسبت رکھتی ہے جوسورہ رعد کی آ یت ٣٣ میںآ ئی ہے جہاں خدافرماتاہے ( افمن ھو قائم علیٰ کل نفس کسبت) کیاوہ وہ جوسب کے سر ہانے موجود ہے اورسب کے اعمال کانگہبان ونگران ہے ،اس شخص کی مانند ہے جویہ صفتیں نہیں رکھتاایک حدیث میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ نے اس آ یت کی تفسیر میں فرمایا: من علم اللہ یراہ ویسمع مایقول ویعلم مایعملہ من خیر او فیحجزہ ذالک عن القبیح من الا اعمال فذالک الذی خاف مقام ربّہ ونھی النفس عن الھوٰی: جو شخص جانتا ہے کہ خدا اس کودیکھتا ہے اور جوکچھ یہ کہتا ہے وہ سُنتاہے اورخیر شرمیں سے جوکچھ یہ انجام دیتاہے اُسے وہ جانتاہے اور یہ توجہ اس انسان کواعمال قبیح سے روکتی ہے تویہی وہ شخص ہے جواپنے رب کے مقام سے خائف ہے اوراس نے اپنے آپ کو ہوائے نفس سے باز رکھاہے (٢)۔
ایک تیسر ی تفسیر اور بھی ہے اوروہ یہ کہ یہاں مراد صرف خداکاخوف ہے نہ جہنم کی آگ کا نہ نعماتِ جنّت کے لالچ کی وجہ سے کوئی خوف ہے بلکہ صرف مقام پروردگار اور اس کے جلال کاخوف ہے ۔
ایک چھوتھی تفسیرہے کہ مقام پر وردگار سے مراد عدالت ِ الہٰی کامقام ہے کیونکہ اس کی ذات ِ مقدس خوف کا باعث نہیں ہے بلکہ خوف اگرہے تواس کی عدالت سے ہے اورعدالت خوف کی بازگشت بھی خُود انسان کے اپنے اعمال کی طرف ہے کیونکہ جس کاحساب پاک ہے اسے محاسبہ سے کیا پاک ہے ۔ مجرم جس وقت عدالت یا زندان کے پاس سے گزرتے ہیں تو ڈرتے ہیں لیکن بے گناہ لوگوں کواس کی کوئی پرواہ نہیںہوتی کہ وہاں عدالت ہے یاکوئی اورجگہ پروردگار سے خائف ہونے کے مختلف سرچشمے ہیں کبھی تو اپنے ناپاک اعمال اورغلط افکار کی وجہ سے خوف ِ خُدا کاسبب بن جاتی ہے ،کبھی ان سب سے ہٹ کر، جب اس کی لا محدُودذات اور لامتناہی عظمت کا تصوّر کرتے ہیں تواس کے مقابلے میں اپنی حقارت کااحساس کرنے سے خوف طاری ہو جاتاہے ، یہ چاروں تفسیریں آپس میں تضاد نہیں رکھتیں اور یہ ممکن ہے کہ مفہوم آیت میںان سب کااجتماع ہو باقی رہیں دو جنتیں(بہشت کے دوباغ)تو ہوسکتاہے کہ پہلی بہت مادّی وجسمانی ہو اور دوسری بہشت معنوی ورُوحانی ہو جیساکہ سورہ آل عمران کی آ یت ١٥ میں آ یاہے : لِلَّذینَ اتَّقَوْا عِنْدَ رَبِّہِمْ جَنَّات تَجْری مِنْ تَحْتِہَا الْأَنْہارُ خالِدینَ فیہا وَ أَزْواج مُطَہَّرَة وَ رِضْوان مِنَ اللَّہِ:اس آ یت میں جسمانی جنّت کے علاوہ کہ جس کے درختوں کے نیچے سے نہریں گزرتی ہیں اوراس میں پاکیزہ بیویاںہیں معنوی بہشت کہ جوخوشنودی خداہے اس کابھی بنیان ہے ۔ یایہ کہ پہلی جنّت انہیں ان کے نیک اعمال کے صلہ میں دی جائے گی اوردوسر ی بہشت بطورتفضل عطاکی جائے گی ،جیساکہ سُورہ نور آ یت ٣٨ میں آیاہے : (لِیَجْزِیَہُمُ اللَّہُ أَحْسَنَ ما عَمِلُوا وَ یَزیدَہُمْ مِنْ فَضْلِہِ )مقصد یہ ہے کہ خداان کوان کے بہترین اعمال کااجردے گا اوراپنے فضل کااس پراضافہ کرے گا ۔ یایہ کہ ایک جنّت اطاعت کی بناپراوردوسری معصیّت کے ترک کرنے کی بناپرہے یاایک ایمان وعقیدہ کی وجہ سے ہے اوردوسری اعمال ِ صالح اوراسی قسم کے دوسرے امور کے صلہ میں ہے ،یایہ کہ چونکہ مخاطب جِنّ واِنس ہیں تو ان دونوں جنّتوں میں سے ہرایک الگ گروہ سے تعلق رکھتی ہے اِن تفاسیرمیں سے کسی کے حق میں بھی کوئی خاص دلیل نہیں ہے ،جب کہ یہ ممکن ہے کہ آ یت سے یہ سب کی سب تفسیریں مراد ہوں۔
وہ چیزجوطے شدہ اوریقینی ہے کہ خدا جنّت کے کئی باغات اپنے صالح بندوں کے اختیار میںدے گا ،جن میں ان کی آمد ورفت ہوگی اور دوزخی آگ اورجلانے والے پانی کے درمیان مقیم ہوں گے ، یہ تھے جنّت کے دوباغ ، پھراس عظیم نعمت کے بعد سب کومخاطب کرتے ہوئے فرماتاہے :تم اپنے پروردگارکی کِس کِس نعمت کوجھٹلاؤ گا (فَبِأَیِّ آلاء ِ رَبِّکُما تُکَذِّبانِ )۔
اس کے بعد ان دونوں بہشتوں کی تعریف و توصیف میں مزید ارشاد فرماتاہے :وہ انواع واقسام کی نعمتوں اور طروات رکھنے والے شاخ دار درختوں کی حامل ہیں (ذَواتا أَفْنان) ذواتا ذات کاتثنیہ ہے جس کے معنی صاحب وحامل کے ہیں( ٣)۔
افنان جمع ہے فنن(بروزن قلم )کی یہ تروتازہ شاخوں اورٹہنیوںکے معنی میں ہے جن میں خوب پتّے لگے ہوئے ہوں۔ یہ لفظ بعض اوقات نوع کے معنی میں بھی استعمال ہوتاہے اور زیربحث آیت میں اس بات کا اِمکان ہے کہ دونوں معنوں میں استعمال ہوا ہو۔پہلی صورت میں جنّت کے درختوں کی طرادت رکھنے والی تروتازہ شاخوں کی طرف اشارہ ہو برخلاف دنیا کے درختوں کی شاخوں کے کہ جوپُرانی اور نئی دونوں قسم کی شاخوں کے حامل ہوتے ہیں۔ دوسرصُورت میں بہشت کی نعمتوں کے تنوع اوراس کی مختلف نعمتوں کی طرف اشارہ ہوان دونوں معانی کے اختیار کرنے میں کوئی امر مانع نہیں ہے ،یہ احتمال بھی ہے کہ جنّت کے درخت اس قسم کے ہیں کہ ایک ہی درخت کی بہت سی شاخیں ہیں اور ہرشاخ پرمختلف قسم کے پھل ہیں ۔اس نعمت کے بیان کے بعد پھر اسی سوال کی تکرار ہے کہ تم اپنے پروردگار کی کِس کِس نعمت کو جھلا ؤ گے (فَبِأَیِّ آلاء ِ رَبِّکُما تُکَذِّبانِ )۔
چونکہ ایک سبز پُر مسترت اور طراوت رکھنے والے باغ میں درختوں کے علاوہ پانی کے چشمے بھی جاری ہونے چاہئیں لہٰذابعد والی آ یت مین کہتاہے : ان دوبہشتوں میں دوچشمے ہیں کہ جو ہمیشہ جاری رہتے ہیں ( فیہِما عَیْنانِ تَجْرِیانِ)۔پھر اس نعمت کے مقابلے میں وہی سوال کرتاہے : تم اپنے پرودردگار کی کِس کِس نعمت کوجھٹلا ؤ گے (فَبِأَیِّ آلاء ِ رَبِّکُما تُکَذِّبان)۔اگرچہ مذکورہ بالاآ یت میں ان دونوں چشموں کی کیفیّت کے بارے میں کوئی گفتگو نہیں ہے صرف اس کے متعلق نکرہ کے عنوان کے ماتحت ایک تعبیر نظر آتی ہے کہ جواس قسم کے مواقع پرعظمت واہمیّت کی دلیل ہے ،لیکن بعض مفسرین نے ان دوچشموں کو سلسبیل اور تسنیم نام کے دوچشمے جوبالترتیب سورہ دھر کی آ یت ١٨ اور مطففین کی آ یت ٢٧ میں بیان کیے گئے ہیں،بطور تفسیرپیش کیے ہیں کبھی کہا ہے کہ ان دونوں چشموں میں سے ایک شراب طہور اوردوسراعسل مصفیٰ کاہے ،اِن دونوں کاذکرسُورہ محمد کی آ یت ١٥ میں ہے اوراگرہم جنتان کی تفسیرگزشتہ آ یتوں میں موجود معنوی اورمادّی جنّتوں کے اعتبار سے کریں توقدرتاً یہ دونوں چشمے بھی ایک معنوی (چشمۂ معرفت ) اوردوسرا مادّی چشمہ ( آب زلال ، دُودھ ،شرابِ طہور یاشہد کا)ہوگا ،لیکن ان تفسیر وں کے لیے ہمارے پاس کوئی ٹھوس دلیل نہیں ہے ۔اس کے بعد کی آ یت میں جب گفتگو بہشتی باغوں کے پھلوںمیووں تک پہنچ جاتی ہے توفرماتاہے :ان میں ہرا یک پھل کی دوقسمیں موجود ہیں (فیہِما مِنْ کُلِّ فاکِہَةٍ زَوْجان)ایک وہ قسم جس کانمونہ دنیامیں انہوںنے دیکھاہے اوردوسری وہ قسم جس کی مثل ونظیر اس دنیامیں ہرگز نہیں دیکھی ،بعض مفسّرین دوقسم کی تفسیر گرمی اورسردی کے پھلوں، خشک وتریا چھوٹے بڑے پھلوں کے اعتبار سے کرتے ہیں لیکن ان میں سے کسی کے پاس بھی کوئی واضح دلیل نہیں ہے ،اتنی بات طے شدہ ہے کہ جنّت کے پھل مکمل طورپر متنوع اورگوناں گوں ہیں اوران میں سے ہرایک دوسرے کے مقابلہ میں زیادہ پُرکشش اورعُمدہ ہے ۔اس کے بعد ،پروردگار عالم پھرفرماتاہے:تم اپنے پروردگار کی کِس کِس نعمت کا انکارکروگے(فَبِأَیِّ آلاء ِ رَبِّکُما تُکَذِّبان)۔
گزشتہ آیتوں میںجنّت کے ان دونوں باغوں کی خصوصیات کے تین حصّہ ، بیان ہوئے ہیں ،اَب ہم اس کی چھوتھی خصوصیّت کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، پروردگار ِ عالم فرماتاہے : یہ اس حالت میں ہیں کہ جنّتی فرش پربیٹھے ہیں اور تکیے لگائے ہوئے ہیںکہ جن کے استرریشم اوراستبرق کے ہیں (مُتَّکِئینَ عَلی فُرُشٍ بَطائِنُہا مِنْ ِسْتَبْرَق)(٤)۔
عام طورپر انسان تکیہ اس وقت لگاتاہے کہ جب انتہائی آرام وہ اورامن کے ماحول میں ہو ، یہ تعبیر بہشتیوں کی رُوح کی مکمّل تسکین و آرام کی نشان دہی کرتی ہے ۔ فرش (بروزن شتر)جمع اس کی فراش ہے جس کے معنی ہیں ایسے فرش جو بچھائے جاتے ہیں بطائن جمع ہے بطانہ کی جس کے معنی استرکے ہیں اور استبرق موٹے اورضخیم ریشم کے معنوں میں ہے ،قابلِ توجہ اور پُرکشش بات یہ ہے کہ یہاں بہت قیمتی پارچہ جس کا دنیامیں تصوّرہوسکتاہے اس کا اُن فرشوں کے استر کے طورپر ذکر ہوا ہے ،جواس طرف اشارہ ہے کہ اس کااُوپر والاحصّہ ایسی چیزہے کہ جس کی لطافت وزیبائی اورجاذبیت تعریف وتوصیف سے ماورا ہے ،کیونکہ عام طورپر دنیامیں استرکو ، اس وجہ سے کہ وہ دِکھائی نہیں دیتا ،کم قیمت جنس سے تیارکرتے ہیں تواس طرح اِس جہاں کی کم قیمت اجناس کی جگہ اُس جہان میں نہایت قیمتی جنس مستعمل ہے توآپ کوسوچنا چاہییٔے کہ اس جہاں کی پیش قیمت چیزیں کیسی ہوں گی ۔
یہ طے شدہ حقیقت ہے کہ پروردگار ِ عالم کی ان نعمتوں میں سے کہ جو دوسرے جہان سے متعلق ہیں کوئی نعمت ایسی نہیں کہ جو ،الفاظ میں بیان ہو سکے یایہ کہ ہم ان کے تصوّر کی طاقت رکھتے ہوں، ہمارے ذہنوں پرصرف ایک تصوّراتی پیکر دُور ہی سے متجلّی ہوتاہے ،یہ نکتہ بھی قابل ِ توجہ ہے کہ قرآن کی دوسری آیتوںمیں بھی ہمیں ملتاہے کہ جنتی ارائک یعنی سائبان والے لذّاتِ بہشتی کے تنوع کی بناپرہوکہ کبھی تخت پراورکبھی فرش پرتکیہ لگاکر بیٹھیں ،اوریہ بھی ممکن ہے کہ ان پیش قیمت فرشوں کوان تختوں پربچھا دیں ۔ یاپھر اس سے زیادہ معاملات کی طرف اشارہ ہو جن کاادراک اس دنیامیں رہنے والوں کے لیے ممکن نہیں ہے ،آخر میں پانچویں نعمت کے سلسلہ میں اسی بہشتی باغ کی نعمتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فر ماتاہے: ان دونوں بہشتوںکے پکّے ہوئے پھل ان کی دسترس میں ہوں گے (ٍ وَ جَنَی الْجَنَّتَیْنِ دان)۔جی ہاں وہ زحمت وتکلیف کہ جوعام طورپر دنیا کے حاصل کرنے میں ہو تی ہے وہاں کسی بھی طرح نہیں ہے جنی (بروزن بقا) اس پھل کوکہتے ہیں کہ جس کوتوڑنے کاوقت آن پہنچا ہواور دان اصل میں دانی ہے اس کے معنی نزدیک کے ہیں ،پھر سب کومخاطب کرتے ہوئے فرماتاہے : تم اپنے پروردگار کی کِس کِس نعمت کو جھٹلا ؤ گے (فَبِأَیِّ آلاء رَبِّکُما تُکَذِّبانِ)۔
١۔پہلی صورت میں یہ لفظ "" مقام"" اسم مکان ہے ،دوسری صُورت میں مصدر ہے ۔
٢۔اصول کافی "" مطابق نقل"" ""نورالثقلین"" جلد ٥ صفحہ ١٩٧ تشریح حدیث سے یہ معلوم ہوتاہے کہ امام نے یہ گفتگو سورہ نازعات کی آیت ٤٠(وَ أَمَّا مَنْ خافَ مَقامَ رَبِّہِ وَ نَہَی النَّفْسَ عَنِ الْہَوی) کی تفسیر میں فرمائی اگرچہ دونوں آیات کامفہوم ایک ہی ہے ""۔
٣۔بعض مفسّرین کے نظریہ کے مطابق ذات کی اصل جوکہ مفرد مؤ نث ہے "" ذوات"" تھی کہ جس کی داؤ تخفیف کی وجہ سے حذف ہوگئی اور""ذات "" کی شکل میں رہ گئی ،چونکہ تثنیہ الفاظ کوان کی اصل کی طرف پلٹادیتاہے تویہاں ذواتان ہوگیاہے اوراضافت کی وجہ سے اس کانون حذف ہوگیاہے،مجمع البحرین میںآ یاہے کہ "" ذو"" بروزن ِ صدا تھی تواس بناپر تعجب کی بات نہیں کہ اس کی مؤ نث ہو۔
٤۔"" متکئین"" حال ہے ان بہشتیوں کاگزشتہ آ یتوںمیں جنہیں ( ولمن خاف مقام ربّہ جنّتان)کے عنوان سے بیان کیاگیاہے۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma