سمندر اپنے گراں بہا ذخائر کے ساتھ

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 23

پروردگارِ عالم اپنی نعمتوں کے تذکرے کی تشریح کوجاری رکھتے ہوئے سمندروں کی بات کرتاہے لیکن سب سمندروں کی نہیں بلکہ چند سمندروں کی ایک کیفیّت ِ خاص کی بات کہ جوایک عجیب سی چیز ہے اورخُدا کی لامحدُود قدرت کی نشانی بھی ہے اوربعض مفید اِنسانیّت چیزوں کے ظاہر ہونے کاوسیلہ بھی فرماتاہے : دودمختلف سمندروں کوایک دوسرے کے پاس قرار دیا کہ جو ایک دوسرے سے مِل رہے ہیں (مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیانِ )۔
لیکن ان دونوں کے درمیان ایک دیوارہے کہ جوایک دُوسرے پرغلبہ کی راہ میں رکاوٹ ہے(بَیْنَہُما بَرْزَخ لا یَبْغِیانِ)۔ مرج (بروزن فلج)کامادّہ خلط سلط کرنے یابھیجنے اور چھوڑ نے کے معنی میں ہے اوریہاں بَیْنَہُما بَرْزَخ لا یَبْغِیانِ کے جُملے کے قرینے سے بھیجنے اورایک دوسرے کے ساتھ قرار دینے کے معنی میں ہے ۔ان دوسمندرں سے مُراد ،سُورئہ فرقان کی آیت ٥٣ کی گواہی کے مطابق ،میٹھے اور کھاری پانی والے دوسمندر ہیں ،جہاں پروردگار فرماتاہے : وَ ہُوَ الَّذی مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ ہذا عَذْب فُرات وَ ہذا مِلْح أُجاج وَ جَعَلَ بَیْنَہُما بَرْزَخاً وَ حِجْراً مَحْجُورا وہ وہی ہے کہ جس نے دوسمندر ایک دوسرے کے پاس قرار دیئے جن میں سے ایک کاپانی میٹھا ہے اوردوسر ے کاکھاری ،اُس نے اِن دونوں کے درمیان ایک برزخ جوان دونوں کے درمیان قراردیاہے تاکہ وہ ایک دوسرے سے مِل نہ جائیں ،باقی ربایہ کہ یہ دوسمندرمیٹھے اورکھاری کہاں ہیں جوایک دوسرے پرغلبہ نہیں کرتے اوریہ برزخ جوان دونوں کے درمیان قرار پایاہے وہ کیا ہے اس کے بارے میں مفسرین کے درمیان بہت کچھ اختلاف ہیں،بعض افراد ایسے مفہوم کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس سے پتہ چلتاہے کہ وہ اس زمانہ میں سمندر وں کی کیفیّت سے اچھی طرح واقف نہیں تھے ،منجملہ اِس کے ان مفسرّین نے کہاہے کہ اِن دوسمندروں سے مُراد بحرفارس وبحرِ روم ہیں، حالانکہ اَب اِس زمانے میں ہم خُوب جانتے ہیں کہ اِن دونوں سمندراور زمین کاسمندرہے جس میں سے پہلاشیریں اوردُوسرا تلخ ہے ۔ہمیں معلوم ہے کہ آسمان میں کوئی سمندر نہیں ہے ۔سوائے ان بادلوں اور بُخارات کے جوزمین کے سمندروں سے اُٹھتے ہیں ۔ یاپھر انہوں نے کہاہے کہ شیریں سمندر سے مُراد وُہ پانی ہے جوزیرزمین ہے اور وہ سمندر کے پانی سے مِل جاتاہے اوران دونوں کے درمیان جوخزانوں کی دیواریں ہیں وہ ان کابرزخ ہے ۔ حالانکہ اَب ہرکوئی جانتاہے ،کہ زیرزمین سمندرکی شکل میں کوئی چیزبہت ہی کم پائی جاتی ہے البتہ پانی کے قطرات ،مرطوب مٹی اور ریت کے ذرّوں کے درمیان ضرور پوشیدہ ہوتے ہیں ،جس وقت کسی جگہ کُنواں کھودتے ہیں تویہ رطوبتیں رفتہ رفتہ جمع ہوجاتی ہیں اوراس طرح پانی نکل آتاہے ۔ علاوہ ازیں لولؤ ومرجان کہ جن کی طرف بعد کی آ یات میں اشارہ ہواہے ،زیرزمین پانی سے حاصل نہیں ہوتے لہٰذاسوال پیدا ہوتاہے کہ ان دودریاؤں سے کیامراد ہے ؟
پہلے ہم سُورہ فرقان میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کرچکے ہیں کہ آبِ شریں کے بڑے دریااورنہریں جس وقت سمندروں میں گرتے ہیں تو عام طورپر ساحل کے قریب آبِ شیریں کاسمندر تشکیل پاتاہے اوروہ آب تلخ کو پرے دھکیل دیتاہے ،تعجب کی بات یہ ہے کہ یہ دوجہاںمیٹھے اورکھاری سمندر پتلے گاڑھے ہونے کی بناپر ایک دوسرے سے نہیں ملتے ہوائی جہاز کے سفر کے دوران ایسے علاقوں میں کہ جہاں یہ دریا سمندر میں گرتے ہیں ایسے میٹھے اورکھاری سمندر وں کامنظر ، جوایک دوسرے کے ساتھ ساتھ ہیں اوراس کے باوجود ایک دُوسرے سے جُدا ہیں، بلندی سے صاف طورپر نظر آتاہے ۔جس وقت اِن پانیوں کے کنارے ایک دوسرے سے مخلوط ہوتے ہیں تو تازہ میٹھا پانی ان کی جگہ لے لیتاہے اوراس طرح اِن دوالگ رہنے والے سمندر وں کوہمیشہ دیکھنے کوجی چاہتاہے ۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ سمندرمیں مدّد جزر کے موقع پر جب کہ سمندر کانیچے کاپانی اُوپر آجاتاہے تومِیٹھا پانی دھکیل دیاجاتاہے بغیر اس کے کہ کھاری پانی اس میں مخلوط ہو (مگر خشک سالی اورپانی کی کمی کے موقع پر)اوروہ خشکی کے کافی حصّہ کوڈھانپ لیتاہے ، اس لیے ساحل کے قریب رہنے والے لوگ اِن علاقوں میں میٹھے پانی کوکنڑول میں رکھ کرساحلی علاقو ں میں بہت سی نہریں بنالیتے ہیں جن کے ذ ریعے بہت سی زمینوں کو سیراب کرتے ہیں ۔ یہ نہریں کہ جوساحلی مدد جزر کی برکت اوران نہروں کے پانی پراثر انداز ہوتے ہونے کی وجہ سے وجود میں آتی ہیں،چوبیس گھنٹے میں دومرتبہ میٹھے پانی سے خالی ہو کرلبریز ہوتی ہیں اوران علاقوں کی سیرابی کابہت ہی مؤ ثر ذریعہ ہیں۔
اِن دوسمندروں کے بارے میں بعض علماء کی طرف سے ایک بہت ہی پرکشش تفسیر بیان کی گئی ہے ۔ان کے نزدیک اس بات کااحتمال ہے کہ اس سے مراد گلف سٹریم کابہاؤ ہو۔ہم اس کی تفصیل اِنشاء اللہ انہی آیتوں کے ذیل میں بیان ہونے والے نکات کی بحث میں پیش کریں گے ۔
پروردگار ِ عالم ایک مرتبہ پھر اپنے بندوں کو مخاطب کرکے اِن نعمتوں کے حوالے سے ان سے سوال کرتاہے اور فر ماتاہے : تم اپنے پروردگار عالم کی کِس کِس نعمت کوجھٹلا ؤ گے (فَبِأَیِّ آلاء ِ رَبِّکُما تُکَذِّبانِ)۔ پھر اسی گفتگو کوجاری رکھتے ہوئے مزید فرماتاہے : ان دونوں سمندروں سے لولؤ ومرجان نکلتے ہیں (یَخْرُجُ مِنْہُمَا اللُّؤْلُؤُ وَ الْمَرْجانُ) تم اپنے پروردگار کی کِس کِس نعمت کوجھٹلاؤ گے (فَبِأَیِّ آلاء ِ رَبِّکُما تُکَذِّبان)۔لولؤ ومرجان پُر کشش زینت کے دووسیلے ہیں ازرُوئے طبّ ان دونوں سے بیماریوں کے علاج کے سلسلہ میں بھی اِستفادہ کیاجا سکتاہے ۔ضمنی طورپر یہ بھی ایک بات ہے کہ وہ اچھے اسبابِ زندگی اورمالِ تجارت ہیں جن سے بہت سامنافع حاصل ہوتاہے،انہی اسباب کی بناپر گزشتہ آیتوں میں دونعمتوںکی حیثیت سے ان کی طرف اشارہ ہواہے رہالؤ لؤ کہ جسے فارسی میں مروارید کہتے ہیں ،وہ صاف وشفاف قیمتی موتی ہوتاہے کہ جودریا کہ تہہ اورسمندر وں کی گہرائی میں بطنِ صدف میں پرورش پاتاہے ۔وہ جتنا موٹا ہواتناہی زیادہ قیمتی ہوتاہے طبّ میں اسے مختلف طریقوں سے استعمال کیاجاتاہے ۔قدیم اطباس سے اعصاب کی تقویت ، خفقات ، خوف ووحشت ،گجرکی قوّت ،منہ کی بدبُو گُروہ مثانہ کی پتھری اوریرقان کے لیے دوائیں تیار کرتے تھے حتٰی کہ آنکھ کی بیماریوں میں بھی اس سے فائدہ اُٹھاتے تھے (١)۔
مرجان کی تفسیر بعض مفسّرین نے یہ کی ہے کہ یہ چھوٹے چھوٹے لولؤ ہوتے ہیں لیکن حقیقت کچھ اور ہے مرجان درخت کی چھوٹی چھوٹی ٹہنیوں کی مانند ایک زندہ وجود ہوتاہے جوسمندروں کی گہرائی میں درخت کی طرح اُگتاہے ،ماہرین ایک عرصہ تک اسے ایک قسم کی گھاس سمجھتے رہے لیکن بعد میں واضح ہو اکہ وہ ایک قسم کاجانور ہے ،اگرچہ وہ سمندروں کے جھاگ کے پتھروں سے چِپک جاتاہے اوربعض اوقات وسیع جگہ کو گھیرلتاہے ،بتدریج بڑھتا رہتاہے اورجزیروں کی تشکیل کاباعث بنتاہے جوجزائر مرجان کہلاتے ہیں ۔
مرجان عام طورپر ٹھہر ے ہوئے پانی میں نشو ونما پاتاہے،جواس کے شکاری ہیں وہ اسے دریائے احمر کے ساحلوں اورمیڈی ٹرینین اور بعض دوسرے علاقوں میں اس کاشکار کرتے ہیں ،وہ مرجان جوزیب وزینت کے کام آتاہے ،سُرخ رنگ کاہوتاہے وُہ جتنا زیادہ سُرخ ہو اتناہی زیادہ قیمتی ہوتاہے ،شاعر جواس کوتشبیہ کے طورپر اِستعمال کرتے ہیں وہ اس کی سُرخی ہی کی بناپر ہے ۔اس کی سب سے خراب قسم مرجانِ سفید ہے یہ بہت زیادہ مقدار میں پایا جاتاہے ،اِن دونوں کے علاوہ ایک مرجان سیاہ بھی ہوتاہے مرجان زیب وزینت کے علاوہ دواکے لیے بھی استعمال ہوتاہے ،طبیبوں نے اس کے بہت سے خواص بیان کیے ہیں منجملہ ان کے اس سے دوائیں تیار کی جاتی ہیں جودل کوتقویت دینے ، سانپ کے زہر کی تاثیر کودُور کرنے ،اعصاب کوقوّت بخشنے ، اسہال کوٹھیک کرنے اوررحم سے بہنے والے خُون کوبند کرنے میں مفید ثابت ہوتی ہیں یہ بھی کہاگیاہے کہ یہ مرگی کی بیماری کے لیے بھی مفید ہوتاہے (٢)۔
اِس نکتہ کابیان کرنابھی ضروری ہے کہ بعض مفسّرین کے قول کے مطابق ،یہ لولؤ ومرجان صِرف کھاری پانی میں پرورش پاتے ہیں لہٰذا وہ آ یہ (یَخْرُجُ مِنْہُمَا اللُّؤْلُؤُ وَ الْمَرْجانُ ) کی تفسیر میں، کہ ان دونوں میں سے لولؤ ومرجان نکلتے ہیں ،اُلجھ گئے ہیں ،انہوںنے یہ کہاکہ اِن دومیں سے مُراد صرف ایک ہے (سورہ زخرف کی آ یت ٣١ ) لیکن ہمارے پاس اِن معانی کے ثبوت کے لیے کوئی دلیل نہیں ہے ،بعض مفسّرین نے تو یہ کہا ہے کہ لولؤ ومرجان میٹھے اورکھاری دونوں پانی میں پائے جاتے ہیں ۔
نعمتوں کی بحث کے اس حصّہ کوجاری رکھتے ہوئے کشتیوں کی طرف ، کہ جوگزشتہ زمانے میں بھی اور زمانہ ٔ حال میں بھی انسانوں کے لیے حمل ونقل کے وسائل میں سب سے اہم ذریعہ ہیں، اشارہ کرتے ہوئے فرماتاہے: اور خداہی کے لیلے ہیں وہ کشتیاں جوسمندر ہیں چلتی ہیں اورپہاڑ معلوم ہوتی ہیں (وَ لَہُ الْجَوارِ الْمُنْشَآتُ فِی الْبَحْرِ کَالْأَعْلامِ)جوار ہے جاریہ کی ، وہ صفت ہے سفق کی جس کے معنی ہیں: کشتیاں ،اختصار کی وجہ سے اس لفظ کوحذف کردیاگیاہے کیونکہ جوچیز زیادہ قابل ِتوجہ ہے وہ کشتیاں نہیں بلکہ ان کاپانی میں چلنا ہے ۔اس وجہ سے صرف اس صفت پر انحصار کیاگیاہے (غورفرمایئے)۔کنیز کو جاریہ کہتے ہیں وہ بھی اس کے وجود میں نشاطِ جوانی کے تحرک کی بناپر ہے منشات جمع ہے منشا کی جواسم مفعول ہے اِس کے معنی ایجاد کے ہیں ،قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ عین اس وت کہ جب منشات کی تعبیر کے سلسلہ میں انسان کے ہاتھ سے کشتی بنائے جانے کی بات کررہاہے توفرماتاہے :(ولہ) خدا کے لیے ہے یہ اس طرف اشارہ ہے کہ کشتی کے ایجاد کرنے والے اوربنانے والے خداکی عطا کی ہوئی ان مختلف خصوصیتوں سے فائدہ اُٹھا تے ہیں جو کشتی سے استفادہ کے لیے ضروری ہیں۔ اس طرح وہ دریاؤں اورسمندروں کے سیّال ہونے کے خاصیّت سے اور ہواؤں کے چلنے کی قوّت سے فائدہ حاصل کرتے ہیں،وہ خدا ہی ہے جس نے اِن چیزوں میں سمندر میں اور ہوامیں یہ خواص وآثار ودیعت کیے ہیں، اسی لیے ایک دوسرے مقام پر قرآن میںلفظ تسخیر آیاہے :(وسخرلکم الفلک لتجری فی البحر بامرہ) خدا نے کشتی کوتمہارا فرماں بردار بنا یا کہ جواس کے حکم سے دریا میں چلتی ہے (ابراہیم ۔٣٢) بعض مفسّرین نے منشائ کو انشاء کے مادّہ سے بلند کرنے کے معنی میں تفسیر کی ہے اوروُہ اس سے بادبانی کشتیوں کے چلانے کاکام لیتے تھے ۔ اعلام جمع علم(بروزن علم)کے معنی پہاڑ میں ہیں،اگرچہ اصل میں اس کے معنی علامت کے ہیں جو کسی چیز کی نشان دہی کرتی ہے ۔چونکہ پہاڑ دُور سے نمایاں ہوتے ہیں ،لہٰذا انہیں علم عَلَم سے تعبیر کیاگیاہے ،جس طرح جھنڈے کو بھی علم کہتے ہیں اس طرح قرآن نے بڑی بڑی کشتیوں پرکہ جو سمندروں وغیرہ میں چلتی ہیں ،انحصار کیاہے ،بعض لوگ ایساخیال کرتے ہیں لیکن بڑی کشتیاں اوراسٹیمر وغیرہ زمانۂ حال کے ساتھ ہی مخصوص نہیں ہیں ،یونانیوں کی جنگ کی داستانوں میں ہمیں ملتاہے کہ وہ نہایت عظیم اور بڑی کشتیوں سے کام لیتے تھے ،دوبارہ اسی پُر معنی سوال کی تکرار کرتے ہوئے فرماتاہے: تم اپنے پروردگار کی کِس کِس نعمت کوجھٹلا ؤ گے (فَبِأَیِّ آلاء ِ رَبِّکُما تُکَذِّبان)۔
١۔"" تحفہ حکیم مومن"" اور دائرة المعارف وہ خدا ودیگر منابع۔
٢۔دائرة المعارف فرید وجدی اوردوسری کتب۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma