آسمان کو بلند کیا اور ہر چیز کے لیے میزان قرار دی

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 23

یہ آیتیں گزشتہ بیان شُدہ آیتوں کے ذکر کو جاری رکھے ہوئے ہیں اور جیساکہ ہم کہہ چکے ہیں اِن آیتوں میں پروردگار عالم پانچ ایسی عظیم نعمتوں کی طرف اشارہ کرتاہے جواہم ترین ہیں، یہاں پہلی آ یت میں چھٹی نعمت کی طرف ، کہ جوخلقت ِ آسما ن ہے ،اشارہ کرتے ہوئے فرماتاہے : خدانے آسمان کو بلند کیا (وَ السَّماء َ رَفَعَہا)آسمان سے اس آ یت میں مراد چاہے اس کی اُوپر والی جہت ہوچاہے ستارے یا زمین کی فضا( وہ عظیم فضائی کھال کہ جس نے اس کُرّہ زمین کے اطراف کوگھیررکھا ہے اور عالمی شعاؤں اورآسمانی پتھروں کے مقابلے میں سپر کی طرح اس کی حفاظت کرتی ہے ۔نیز سُورج کی گرمی اور سمندر سے اُٹھنے والی رطوبیت کو بادلوں کی تشکیل اوربارش کے نزول کے لیے اپنے اندرمحفوظ رکھتی ہے ) کچھ بھی ہووہ اللہ کی ایک عظیم نعمت ہے کیونکہ اس کے بغیرانسان کے لیے زندگی گزارنا یاناقص ہے یامحال ہے ۔
جی ہاں ! نور وروشنی جوگرمی ،ہدایت حیات اورحرکت کاسبب ہیں آسمان کی طرف سے آ ئے ہیں ، بارش آسمان کی طرف سے آئی ہے ۔نزول ِ وحی بھی آسمان کی طرف سے ہے (اس صُورت میں آسمان مادّی اورمعنوی اعتبار سے ایک مفہوم رکھتاہے ) ان سب چیز وں سے قطع نظر بلند شدہ آسمان اپنے تمام معانی ومفاہیم کے ساتھ خدا کی ایک عظیم نشانی ہے اوراس کی معرفت کے راستے میں اِنسان کی بہترین مدد کرتی ہے ۔ جس وقت اربابِ دانش اس میں غورکرتے ہیں تو بے اختیار کہہ اُٹھتے ہیں :(رَبَّنا ما خَلَقْتَ ہذا باطِلاً ) پروردگار تُونے اس عظیم کارخانہ کوبیکار پیدانہیں کیا ( آل عمران ۔ ١٩١)۔
اس کے بعد پروردگار ِ عالم ساتویں نعمت کاحوالہ دے کرفرماتاہے : خدانے میزان قرار دی ( وَ وَضَعَ الْمیزان)میزان ہرقسم کی ناپ تول کے پیمانے کوکہتے ہیں ،باطل سے حق کاتقابل ،ظلم وستم سے عدالت کاتقابل ، قیمتوں کاتعیّن اورمختلف اجتماعی مرحلوں میں حقوقِ اِنسانی کاتعیّن یہ سب چیزیں میزان ہیں ، میزان قانونِ تکوینی اور دستورِ تشریعی کے معنی بھی رکھتاہے ۔اس لیے کہ یہ سب وسیلہ تقابل وتوازن ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ لغت کے اعتبار سے میزان ترازو کوکہتے ہیں جواجسام کے وزن کومعلوم کرنے کازریعہ ہے ،لیکن یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ جس میزان کی طرف اس آ یت میں خلقت ِ آسمان کے ذکر کے بعد اشارہ ہوا ہے وہ ایک وسیع مفہوم رکھتی ہے کہ جوناپ تول کے ہرذریعہ اورتمام تشریعی وتکوینی قوانین کااحاطہ کرلیتی ہے ۔اس سے نہ صِرف اجناس کے وزن کومعیّن کرنے والا پیمانہ مراد ہے بلکہ اصولی طورپر آ سمان کابلند ہونااوروہ دقیق نظم وضبط کہ جوکروڑوں آسمانی کُرّوں پرحاکم ہے وہ سب کچھ مُراد ہے ۔اِس لیے کہ یہ سب طے شدہ میزان و قوانین کے بغیر وجود میںآ ہی نہیں سکتا ۔ یہ جو ہم کہتے ہیں کہ بعض عبارتوں میں میزان ،قرآن ، عدل، شریعت ، یاترازو کے معنی میں استعمال ہوا ہے توحقیقت میں ان میں سے ہرایک اس مکّمل اوروسیع مفہوم کاایک صحیح مصداق ہے ۔
پروردگار ِ عالم بعد والی آ یت میں اس موضوع سے ایک پُرکشش اورعُمدہ نتیجہ نکالتے ہوئے فرماتاہے :(أَلاَّ تَطْغَوْا فِی الْمیزانِ )۔
عالم ہستی میں میزان کے قرار دینے کامقصد یہ ہے کہ تم بھی میزان کی رعایت کرو اوراس میں سرکشی نہ کرو، تم بھی اس عظیم عالم کا ایک حِصّہ ہو اوراس وسیع جہان میں تم ایک بے جوڑ ٹکڑے کی طرح ہو گززندگی نہیں گزارسکتے ۔ تمام عالم کاایک میزان وحساب ہے ،تمہارابھی ایک میزان وحساب ہونا چاہیے ۔
اگر اس عالمِ عظیم سے میزان وقانون کوختم کردیاجائے تو یہ تمام کا تمام فناہوجائے اوراگرتم نظم ومیزان سے بے بہرہ ہوجاؤ توتم بھی منزلِ فناکے راہی بن جاؤ گے ۔ کتنی پرکشش اورعُمدہ تعبیر ہے جوعالم ہستی سے انسان کی طرف منتقل ہورہی ہے اورعالم کبیر پرحکم چلانے والے قانون کوعالمِ صغیر یعنی انسانی زندگی پرجوحاکم ہیں ،اُن قوانین سے ہم آہنگ کررہی ہے ، یہ ہے حقیقت ِ توحید کہ تمام عالم پرحکومت کرنے والے اصول ایک ہی جیسے ہیں ،دوبارہ مسئلہ عدالت اور وزن پرزور دیتے ہوئے فر ماتاہے: تم وزن کوعدالت کی بنیاد پر قائم کرو اورمیزان میں کسِی قسم کی کمی نہ رکھو (وَ أَقیمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَ لا تُخْسِرُوا الْمیزان) قابل ِ توجہ یہ ہے کہ ان تین آیتوں میں تین مرتبہ میزان کاذکرہوا ہے حالانکہ دوسرے اورتیسرے مرحلہ میں ضمیرکے حوالے سے صحیح معنی واضح نہیں ہوسکتے تھے نیز آتیوں کاتناسب بھی اسی امر کوقبول کرتاہے ،کیونکہ پہلے مرحلہ میں گفتگو ایسی میزان اورایسے معیار وقوانین سے ہے جو خدا نے سارے عالم ہستی میں قرار دیے ہیں ۔
دُوسرے مرحلہ میں گفتگو اِنسانوں کے اِنفرادی واجتماعی تمام موازین ِ حیات میں طغیان وسرکشی نہ کرنے کی ہے جوفطرةزیادہ محدُود دائرہ رکھتے ہیں ۔تیسرے مرحلہ میں وزن کے خاص معنی پر زور دیتے ہوئے حُکم نافذ کرتاہے کہ چیز وں کی ناپ تول اوروزن کرتے وقت کسی قسم کی کمی نہ کرو اور کوئی کسر باقی نہ چھوڑو ، ظاہرہے کہ یہ مرحلہ محدُود ہے ۔اس طرح تینوں آ یتوں میں میزان اورناپ تول کے مسئلہ میں ایک نہایت پرکشش اورخُوبصورت سلسلہ مراتب استعمال ہواہے کہ جوبڑے دائرہ سے چھوٹے دائرہ کی طرف منتقل ہوتاہے (١)۔
اِنسانی زندگی میں میزان کی اہمیّت اپنے تمام معانی کے اعتبارسے اس طرح ہے کہ محدُود ترین مصداق یعنی ترازوچیزوں کے تبادلے کے سِلسلہ میں اگرایک دن کے لیے درمیان سے ہٹا دیں تو ہم جھگڑوں اورقضیوں کے کتنے دردِ سر میں مُبتلا ہوجائیں گے ۔اس اعتبار سے اس لفظ میزان کے جو لا محدُود مفاہیم ہیں ،اگر وہ اپنی جگہ باقی نہ رہیں تو ہمیں لا محدُود پریشانیاں لاحق ہوجائیں۔
جوکچھ ہم نے کہاہے اِس سے واضح ہوجاتاہے کہ یہ جوبعض روایات میں میزان سے مُراد وجودِ امام لیاگیاہے اس کی وجہ یہ ہے کہ امام کا وجودِ مُبارک حق وباطل کے تقابل و تعیّن اورتشخیص حقائق کامعیار ہے اورہدایت کے لیے ایک مؤثر عامل ہے (٢)۔
اِسی طرح میزان سے مُراد اگرقرآن لیاجائے تووہ بھی انہی معانی کی طرف اشارہ ہے ۔بہرحال اس طرف توجہ دیتے ہوئے کہ یہ تمام آیتیں اللہ کی نعمتوں کے ذکرسے متعلق ہیں، یہ امرواضح ہوجاتاہے کہ میزان کاوجُود ،خواہ سارے نظامِ عالم میں ہو، خواہ انسانی معاشرہ کے اجتماعی روابط میں اورخواہ معاملات تجارت میں ہو ، یہ سب خداکی عظیم نعمتوں میں سے ہے ۔
اس کے بعد پروردگارِ عالم آسمان سے ہٹ کرزمین کوموضوع بناتاہے اورفرماتاہے : خدانے زمین کوانسانی زندگی کے لیے پیداکیاہے (وَ الْأَرْضَ وَضَعَہا لِلْأَنامِ) انام کی بعض مفسّرین نے انسانوں کے معنی میں اوربعض نے جنّ واِنس کے معنی میں اور بعض نے ہر ذی رُوح کے معنی میں تفسیر کی ہے ،البتہ اربابِ لُغت اورمفسّرین کی ایک جماعت اسے خلقِ مطلق کے معنی میں لیتی ہے لیکن سورہ میں موجود قرائن اوروجنّ واِنس سے مخاطبت دونوں یہ بتاتے ہیں کہ اس سے یہاں مُراد جِن وانس ہی ہیں ۔
جی ہاں ! یہ کُرّہ خاکی کہ جسے اس آ یت میں ایک عظیم نعمت ِ الہٰی قرار دیاگیاہے اوردُوسری آیتوں میں اسے مھاد یعنی گہوار ے کے طورپر یادکیاگیاہے ہ ایک اطمینان بخش اورآرام وہ مقام ہے ۔ہم میں سے زیادہ ترلوگ عام حالات میں اس کی اہمیّت کومحسوس نہیں کرسکتے لیکن جب ایک چھوٹا سازلزلہ زمین کی ہرچیز کوہلا کررکھ دیتاہے ،یاایک آتش فشاں کسِی شہر کوعذاب کے موارد ،دُھویں اورآگ کے نیچے دفن کردیتاہے ،توپھر ہم پر یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ یہ ساکن وآرام وہ زمین اللہ کی کتنی بڑی نعمت ہے ،خصوصاً جب ہم اس چیزپر غورکریں کہ جوماہرین نے زمین کی اپنے گردچکر لگانے والے حرکت کی تیزی کے طورپر تجویز کی ہے اور سُورج کے گرداس کی حرکت بتاتی ہے تونہ صرف اس سریع اورلرزہ براندام کرنے والی حرکت بلکہ انواع واقسام کی حرکتوں کے باوجود اس کے سکون وآرام کی اہمیّت ہم پرزیادہ واضح ہوجاتی ہے ( ٣)۔
زمین کے بارے میں وضع کالفظ ہے اور آسمان کے بارے میں رفع اِستعمال ہواہے ،اس تقابل میں جولطافت ہے اس کے علاوہ اس میں ایک معنی خیز اشارہ ہے اوروہ زمین اوراس کے ان ذرائع کی طرف ہے کہ جوانسان کے سامنے سرتسلمِ خم کیے ہوئے ہیں جیساکہ سورہ ملک کی آ یت ١٥ میں ہمیں ملتاہے ہُوَ الَّذی جَعَلَ لَکُمُ الْأَرْضَ ذَلُولاً فَامْشُوا فی مَناکِبِہا وَ کُلُوا مِنْ رِزْقِہِ وہ وہی ہے کہ جس نے زمین کوتمہارے لیے مسخر کیاہے اس کے مختلف راستوں پرچلوپھرو اورجورزق ِ الہٰی کے طورپر اس میں پیداہواہے اُس سے فائدہ اُٹھاؤ ۔اس طرح پروردگار اس سلسلہ کی آٹھویں نعمت کو معیّن فرماتاہے زمین میں پھل اور شگوفوں سے پُر نخلستان ہیں (فیہا فاکِہَة وَ النَّخْلُ ذاتُ الْأَکْمامِ )۔ فاکھة ہرقسم کے پھل کے لیے اِستعمال ہوتاہے ،جیساکہ راغب نے مفردات میں کہاہے ، اور یہ جوبعض نے اسے خرمااوررطب کے علاوہ تمام پھلوں کے معنی میں لیاہے اس کی سوائے اس کے کوئی دلیل نہیں ہے کہ نخل علیحدہ شکل میںآ یت میں موجود ہے جب کہ ممکن ہے کہ یہ تکرار ہواوراس اہمیّت کی بناپر ہوکہ جوکھجور کوحاصل ہے ۔
سورہ نحل کی آ یت ١١ اور سورہ مریم کی آ یت ٢٥ کے ذیل میں ہم نے ایک تفصیلی بحث خرما کے موادِ غذائی کے حیات بخش فوائد کے بارے مین کی ہے ( ٤)۔
اکمام جمع کم (بروزن جنّ) کی ہے۔یہ اس غلاف کوکہتے ہیں جوپھل کوچھپاتاہے اور کم ( بروزن قم ) اس آستین کے معنی میں ہے جوہاتھ کوچھپاتے ہیں اور کمہ (بروزن قبہ) شب کلاہ ہے (رات کوپہننے والی ٹوپی ) جوسر کوڈھانپتی ہے (٥)۔
کھجور کے درخت کے بارے میں اِس صِفت کاانتخاب کہ شروع میں وہ غلاف میں پنہاں ہوتاہے کہ ،اس کے بعد غلاف کو چیر کر خوشہ نخل کوایک پُرکشش انداز میں باہر نکالتاہے ، ممکن ہے کہ اس کی حیران کردینے والی خُوبصورتی کی بناپر ہویاان منفعتوں کے باعث ہوکہ جو اس غلاف میں پوشیدہ ہیں اورجواس مخصوص مادّہ کے نچوڑ کاحامل ہے ، یہ غذا کے طورپر بھی کام آتا ہے اور دوا کے طورپر بھی ۔ان سب سے قطع نظر یہ غلاف شکم مادر کی طرح ہے جوکھجور کے بچّوں کوایک مُدّت تک اپنے اندرپر درش کرتاہے ،اور آفات سے ان کی حفاظت کرتاہے اورجس وقت وہ ہوا اور روشنی کے مقابلہ کے قابل ہوجاتے ہیں توپھر غلاف ایک طرف ہٹ جاتاہے ،ان سب کے علاوہ اس درخت کی ایک خاص وضع اورکیفیّت ہے کہ پہلے یہ غلاف میں ہوتاہے پھرخوشہ کی شکل میں باہر آ تاہے ۔ یہ کیفیّت اس پھل کے روڑنے اورچُننے کوآسان کردیتی ہے اور اگراس طرح ہوتا کہ کھجور کے درخت کے طویل القامت ہونے کے باوجود اس کے پھل سیب کے درخت کے پھلوں کی طرح مختلف اطراف میں بکھر ے ہوئے ہوتے توان کاتوڑنا اورچُننا بہت مُشکل ہوجاتا۔
آخر میں اپنی گیارہویں اوربارہویں نعمت کے بارے میں یُوں گفتگو فرماتاہے : اور زمین میں دانے ہیں، ڈنٹھل اورپتوں کے ہمراہ جو کاہ کی شکل میں نکلتے ہیں اور اسی طرح خشبودار گیاہ ونباتات (وَ الْحَبُّ ذُو الْعَصْفِ وَ الرَّیْحانُ)غذائی دانے انسانوں کی خوراک ہیں اوران کے خشک وترپتّے ان حیوانوں کی خوارک ہیں کہ جوانسان کی خدمت پر مامور ہیں ،جن کے دُودھ ،گوشت ، کھال اوراُون سے انسان فائدہ اُٹھاتا ہے ،تواس طرح کوئی چیزبھی بیکار اورپھینک دینے کے قابل نہیں ہے دوسری طرف خوشبو ،گیاہ اورپھولوں کوبھی زمین سے پیداکیاہے کہ جوشامِ جاں کومُعطّر کرتے ہیں اور رُوح کوسکون ونشاط وآرام وسرخوشی عطا کرتے ہیں اوراس طرح اس نے انسان پراپنی نعمتیں تمام کی ہیں حب ہرقسم کیدانہ کوکہتے ہیں اور عصف (بروزن اسپ) پتّوں اورگھاس کے ان اجزا کے معنی میں ہے کہ جوگھاس سے الگ ہوتے ہیں اورکبھی کبھی ہو اؤں کی وجہ سے ہر طرف بکھر جاتے ہیں حب کٹی ہوئی گھاس کوبھی کہتے ہیں ریحان کے بہت سے معنی ہیں، اس کے ایک معنی خوشبو دار گھاس اور نباتات کے بھی ہیں ، ہرقسم کی روزی کوبھی ریحان کہتے ہیں لیکن اس جگہ پہلے معنی ہی مناسب ہیں ،اِن مادّی اورمعنوی مختلف قسم کی نعمتوں کے زکر کے بعدآخری آ یت میں جِنّ واِنس کومخاطب کرتے ہوئے کہتاہے تم اپنے پروردگار کی کِس کِس نعمت کی تکذیب کروگے (فَبِأَیِّ آلاء ِ رَبِّکُما تُکَذِّبان)وہ نعمتیں جن میں سے ہرایک دوسرے سے گرانبھااورقیمتی ہے اوروہ نعمتیں کہ جنہوںنے تمہاری ساری زندگی کااحاطہ کررکھاہے ،ان میں سے ہرایک تمہارے پروردگار کی قدرت ولُطف وکرم اورمہربانی کی نشانی ہے ۔کِس طرح ممکن ہے کہ تم اس کی تکذیب کرو، یہ استفہام ،استفہام تقریری ہے جسے اقرار لینے کے وقت زبان پر لاتے ہیں، ایک روایت ،جسے سورہ کی ابتداء میں ہم نے پیش کیاہے ،اس میں حکم دیاگیاہے کہ اِ س جملہ کے بعد ہم عرض کریں پروردگار ہم تیری نعمتوں میں سے کس کی تکذیب ہیں کرتے (لابشیء من اٰلائک رب اکذّب)۔
گزشتہ آ یتوں میں گفتگو اگرچہ انسانوں کے بارے میں ہوئی تھی اور گروہِ جنّ کے بارے میں بالکل نہیں تھی لیکن بعد والی آ یت بتاتی ہے کہ کما کی ضمیر میں یہ دونوں مخاطب ہیں، بہرحال خدااس کے ساتھ جِن واِنس گروہوں سے مطالبہ کرتاہے کہ وہ اِن مسائل کے بارے میں غور کریں اوراس کے بعد بغیراس کے کہ کسی دوسرے کی تعلیم کی ضرورت ہو اپنی عقل سے یہ سوال کریں کہ کیاخدا کی اِن نعمتوں میں سے کوئی نعمت قابل ِ انکار ہے ؟اور اگر نہیں ہے توپھراپنے ولیء نعمت کووہ کیوں نہ پہچانیں اور شکرِ منعم حقیقی کوکیوں نہ اس کی معرفت کاوسیلہ قرار دیں اوراس کے آستان اقدس پرسرتسلیم کیوں نہ خم کریں ۔
ایّ کی تعبیر اس طرف اشارہ ہے کہ اِن نعمتوں میں سے ہرایک پروردگار کے مقامِ ربوبیت کی اوراس کے لُطف وکرم کی دلیل ہے ۔
١۔ "" فخررازی"" اپنی تفسیر میں کہتاہے کہ میزان پہلی آ یت میں اسم آلہ ہے (ناپ تول کے پیمانوں کے معنی میں ) اور دوسرآ یت میں مصدر ی معنی رکھتاہے (وزن کرنا) اورتیسری آ یت میں مفعولی معنی رکھتاہے ، اورجنس موزوں کے معنی میں ہے ۔
٢۔ یہ حدیث تفسیر "" علی بن ابراہیم "" میں امام علی بن موسیٰ رضاعلیہ السلام سے مروی ہے اور یہ حدیث مفصّل ہے ہم نے اس کے صرف ایک حصّہ کے مضمون کونقل کیا ہے تفسیر علی بن ابراہیم جلد ٢،صفحہ ٣٤٣۔
٣۔ ماہرین نے زمین کی سرعت ِ حرکت سُورج کے گرد ( حرکت انتقالی) ایک منٹ میں ٣٥ کلومیٹر بیان کی ہے اوراس کی اپنے محورکے گرد کی تیزیٔ رفتار ایک گھنٹے میں ١٦٠٠ کلو میٹر ( استوائی منطقوں میں ) بتلائی ہے ۔
٤۔ تفسیر نمونہ کی جلد ٧ صفحہ ٢٥٤ سے آگے اور اسی طرح جلد ٦ صفحہ ٢٥٢ سے آگے رجوع فرمائیں ۔
٥۔ا،س سلسلہ میں جلد ٢٠ میں ہم نے تفصیل بیان کی ہے (سورہ حم سجدہ کی آ یت ٤٧ کے ذیل میں ) ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma