سورہ رحمن کے مضامین اور فضیلت

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 23
یہ سورہ مکہ میں نازل ہوا
اس کی ٧٨ آیتیں ہیں

یہ سُورہ کلی طورپر خدا کی ان مختلف مادّی ومعنوی نعمتوں کو بیان کرتاہے جواس نے اپنے بندوں کے لیے ارزانی فرمائی اورانہیں ان میں محصول کیاہے ،اِن نعمتوں کابیان اس انداز میں ہے کہ اس سُورہ کانام سُورہ رحمت یا سورہ نعمت رکھاجاسکتاہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ سورہ الرحمن سے شروع ہواکہ جوخدا کااسم مبارک ہے اوراس کی رحمت ِ واسعہ کوبیان کرتاہے اورختم ہواخُدائے ذوالجال کے اجلال و اکرام پر فَبِأَیِّ آلاء ِ رَبِّکُما تُکَذِّبان کاجملہ جس کے ذریعے خدانے اپنی نعمتوں کااپنے بندوں سے اقرار لیاہے اکتیس مرتبہ اس سُورہ میں آ یاہے ۔ایک لحاظ سے یہ سارا سُورہ خداوند منّان کی مختلف نعمتوں کاباہم پیوستہ ایک ہی حصّہ ہے لیکن دوسرے لحاظ سے اس کے مضامین کوچند حِصّوں میں تقسیم کیاجاسکتاہے ۔
پہلاحصّہ : جوسُورہ کامقدمہ اورآغاز ہے ۔ یہ خداکی عظیم نعمتوں ،خلقت ،تعلیم وتربیّت ، حساب ومیزان ، انسان کے رفاہی وسائل وذرائع اوراس کی جسمانی ورُوحانی غذاؤں کی گفتگو کرتاہے ۔
دُوسرا حصّہ : جن و انس کی خلقت کی کیفیت کے مسئلہ کی ایک وضاحت ہے ۔
تیسراحصّہ: زمین وآسمان میں جوخُدا کی آ یات اورنشانیاں ہین ان کو بیان کرتاہے ۔
چوتھا حصّہ : یہاں دُنیاوی نعمتوں سے آگے پڑھ کردسرے جہان کی نعمتوں کے بارے میں گفتگو ہے ۔اِس میں وقت ِ نظر اورشیرینی گفتار کے ساتھ جنّت کی نعمتوں کی تمام جزئیات ،عام اس سے کہ وہ باغات ہوں یاچشمے ، پھل ہوں یا خُوبصورت وباوفا ازواج یاانواع واقسام کے لباس، ان سب کی وضاحت کی ہے ۔
اِس سُورہ کے پانچویں اورآخری حصہ میں مجرمین کے انجام کی طرف ایک مختصر اشارہ ہے اوران کی دردناک سزاکاذکر ہے چونکہ اس سورہ کی اساس وبُنیاد رحمت ِ الہٰی کابیان ہے اس لیے اس آخری حصّہ کی وضاحت نہیں کی گئی ہے ، اس کے برعکس جنّت کی نعمتوں کی تفصیل وتشریح اتنی وسعت کے ساتھ ہے کہ اس نے مومنین کے دلوں کوسرور ومسّر ت سے ہمکنار کردیاہے اورغم واندوہ کے غبار کوانکے دلوں سے دھوڈالا ہے اورکشت ِ دل میں نہال ِ شوق کوتخم ریزی کی ہے ،(فَبِأَیِّ آلاء ِ رَبِّکُما تُکَذِّبان)تکرار نے جوتھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد ہے ، اس سورہ کوجاذبِ نظر اورخوبصورت آہنگ بخشاہے ۔جب اس آہنگ کواس کے خوبصورت مضامین کے ساتھ ملا دیاجائے توحیران کُن کشش محسوس ہوتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اس وقت کوئی تعجب محسوس نہیں ہوتا جب پیغمبراسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے منقول ایک حدیث نظر کے سامنے آتی ہے ۔آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: (لکل شی ء عروس وعروس انقراٰن سُورة الرحمن جل ذکرہ ) ہرایک کے لیے عروس ہے اورعروس القرآن سُور الرحمن ہے (١)۔
قابل ِ توجہ یہ بات ہے کہ لفظ عروس اگرچہ فارسی زبان میں صرف عورت کے لیے ہی بولا جاتاہے لیکن لغت ِ عرب میں عورت و مرد دونوں کے لیے ، جب تک وہ مراسم ِ عروسی میں رہیں،اِن پر اس کااطلاق ہوتاہے (٢)۔
اور چونکہ عورت ومرد اس قسم کے مراسم میں بہترین حالات اورکامل ترین احترامات کے عالم میں ہوتے ہیں اس لیے یہ لفظ بہت ہی خوبصُورت ،محترم اورگرامی قدرموجودات کے لیے بولا جاتاہے ۔
اس سُورہ کے لیے الرحمن کانام اِس قدرموزوں اورمناسب ہے کہ جس کی لفظوں کے ذ ریعے وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں ۔
سُورئہ الرحمن کی تلاوت کی فضیلت

چونکہ یہ سُورہ نعمتوں کی شکر گزاری کے احساس کوانسانوں میں نہایت عُمدہ انداز میں بیدارکرتاہے اور دنیا وآخرت کے مادّی ومعنوی مواہب کے بیان سے انسان کے شوقِ بندگی واطاعت میں اضافہ کرتاہے اس لیے اس کی تلاوت کی فضیلتیں بھی بہت زیادہ بیان ہوئی ہیں ،تلاوت وہ کہ جوانسان رُوح کی گہرائیوں میں نفوذ کرے اوراحساسِ حقائق کے لیے تحریک کی باعث ہو نہ کہ صِرف زبان تک محدُود ہے ۔
رسُولِ خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک حدیث ہمیں بتاتی ہے کہ :( من قرأ سورة الرحمن رحم اللہ ضعفہ وادی شکرما انعم اللہ علیہ ) جوشخص سورہ رحمن کوپڑھے تو خدا نعمتوں کاشکرادا کرنے کے سلسلہ میں اس کی کمزور ی پررحم کرے گااور نعمتوں کی شکرگزاری کاحق ، کہ جواسے عطا کی گئی ہیں ،خودادا کرے گا (3)۔
ایک اورحدیث میں جوثواب الاعمال کے بارے میں ہے امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ : سُورہ الرحمن کی تلاوت اوراس کے ساتھ قیام کوہرگز نہ چھوڑنا کیونکہ یہ سُورہ منافقین کے دل میں ہرگز استقرار نہیں پاتا اورخُدااس سورہ کوقیامت کے دن ایک انسان کی شکل عطاکر ے گا جوبہت ہی خوبصورت ہوگااور جس میں سے بہت ہی عُمدہ خوشبو آتی ہوگی ، پھروہ ایسی جگہ قیام کر ے گا کہ جوخدا وند متعال سے بہ اعتبار معنی بہت زیادہ قریب ہوگی توخدااس سورہ سے پوچھے گاکہ دُنیا وی زندگی میں کونساشخص تیرے مضامین کے ساتھ قیام پذ یرہوتاتھا اورہمیشہ تیری تلاوت کرتاتھا ،وہ سُورہ جواب میں کہے گا کہ پروردگار وہ فلاں فلاں اشخاص ہیں ۔اس وقت ان افراد کے چہر ے چمکنے لگیں گے ۔اب خُداان لوگوں سے مخاطب ہوکرکہے گا کہ تم جس جس کے لیے چاہتے ہو بخشش کی سفارش کرو۔
وہ جتنی آرزو اپنے دل میں رکھتے ہوں گے اپنے لوگوں کی بخشش سفارش کریں گے اور ہروہ شخص جس کی بخشش کی وہ سفارش کریں گے اس سے کہاجائے گا کہ جنّت میں داخل ہوجااورجہاں چاہتاہے سکونت اختیار کرلے (4)۔
ایک اور حدیث میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: (من قرأ سورة الرحمن فقال عند کل فَبِأَیِّ آلاء ِ رَبِّکُما تُکَذِّبانلابشیء من اٰ لائک ربّ اکذب فان قرأھا لیلاً ثم مات مات شھیدً اوان قرأھا نہاراً فمات مات شھیداً )۔
جوشخص سُورہ الرحمن کی تلاوت کرے ،جب وہ آ یت فَبِأَیِّ آلاء ِ رَبِّکُما تُکَذِّبان پڑھے توکہے لابشیء من اٰلایک رب اکذّب یعنی خداوندا! میں تیری کسی نعمت کاانکارنہیں کرتا اگروُہ رات کوتلاوت کرے اوراسی شب انتقال کر جائے تووہ شہید قرار پائے گا اِسی طرح اگردن کوتلاوت کی ہو اوروہ اسی دن انتقال کرجائے توبھی شہید قرار پائے گا ۔
١۔ "" مجمع البیان "" آغاز "" سُورئہ رحمن "" یہ حدیث "" دُ رالمنثور "" جلد ٦ ،صفحہ ١٤٠ پرمندرج ہے ۔
٢۔ "" لسان العرب"" (مجمع البحرین ،صحاح اللّغات و ....)۔
3۔ "" نورالثقلین "" جلد ٥،صفحہ ١٨٧۔
4۔ بحارالانوار جلد ٩٢ صفحہ ٣٠٦۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma