٢۔ تقدیر الہٰی اور اس کے اِرادہ کی آزادی

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 23

ہوسکتاہے کہ زیربحث آ یت اور اس سے مشابہت رکھنے والی آیتوں سے یہ غلط تاثر پیدا ہوجائے کہ اگر ہرچیز کوخدانے اندازے ،مقدار اورحساب کے ساتھ پیدکیا ہے توپھر ہمارے افعال واعمال بھی اس کی مخلوق ہیں ،لہٰذاہم کسی طرح کاکوئی اختیار نہیں رکھتے لیکن جیساکہ ہم نے پہلے بھی کہاہے کہ اگرچہ ہمارے افعال واعمال مشیت وتقدیر الہٰی کے مطابق ہیں اوراس کی قدرت اور ارادہ کے احاطہ سے ہرگز خارج نہیں ہیں لیکن اس نے یہ بات مقدر کردی ہے کہ اپنے اعمال میں ہم مختار ہیں اوراسی بناپر وہ ہمارے بارے میں ذمّہ داری وجوابدہی کاقائل ہے ۔اگرہم اپنے افعا ل میں بالکل بے اختیار ہوتے توتکلیف شرعی اور ذمّہ دارانہ جوابدھی کاکوئی مفہوم ہی باقی نہ رہتا،ہمارا اپنے اعمال کے سلسلہ میں کوئی اختیار نہ رکھنا تقدیر الہٰی کے خلاف ہے ۔
جبریوں کی افراط کے مقابلہ میں ، اس کے برعکس ، ایک گروہ تفریط اورتیز روی کاشکارہے ،وہ قدری یا مفوضہ کہلا تے ہیں وہ بالکل وضاحت کے ساتھ کہتے ہیں کہ ہمارے اعمال ہمارے اختیار میں ہیں اورخدا کوہمارے کاموں میں کوئی دخل نہیں ہے ۔اس طرح انہوںنے الہٰی حاکمیت کی حدُود کومحدُود کردیاہے ، خُود کومُستقل سمجھاہے اور شرک کاراستہ اختیار کرلیاہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ توحید وعدل کی دونوں اصلوں کے درمیان جونقط ہے اس کو سمجھنے کے لیے خاصی بصیرت درکا ر ہے ،اگرہم توحید کامفہوم یہ لیں کہ ہرایک شے حتّٰی کہ ہمارے اعمال کاخالق بھی خداہے اورہمیں اپنے اعمال کے سلسلہ میں کوئی اختیار حاصل نہیں ہے تواس طرح ہم عدلِ الہٰی کے منکر ہوجائیں گے ، کیونکہ ایسی صُورت میں خدانے گنہگاروں کو بے اختیار رکھ کرمجبور محض کردیاہے پھراس پر طرّہ یہ کہ انہیں سزابھی دے گا،اس کے برعکس اگرہم عدل کے معنی یہ سمجھیں کہ خداہمارے اعمال میں بالکل مداخلت نہیں کرتا تو ہم نے اس کو اس کی حکومت سے خارج کردیااوراس طرح ہم شرک کے گڑھے میں جاگرے ۔
امربین الامرین ایک درمیانی خط ہے اوروہ صراطِ مستقیم بھی ہے اور عقیدہ صحیح بھی ہمیں چاہیئے کہ یہ عقیدہ رکھیں کہ ہم صاحب ِ اختیاہیں لیکن ہمارایہ صاحبِ اختیار ہونابھی خدا کے ارادے سے ہے ،جس وقت چاہے وہ ہمارے اختیار کوسلب کرسکتاہے ،یہ مکتبِ فکر ِ اہل بیت علیہم السلام ہے ۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ زیربحث آ یات کے ذ یل میں متعدد روایات مذکورہ بالادونوںفرقوں کے بارے میں بصورتِ مذمّت کُتب اہل سُنّت وشیعہ میں وارد ہوئی ہیں ،منجملہ اِن حدیتوں کے ایک حدیث یہ بھی ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فر مایا:
اصنفان من امّتی لیس لھم فی الاسلام نصیب السرجئة والقدریة انزلت فیھم اٰیة فی کتاب اللہ ان المجرمین فی ضلال وسعر...
میری اُمّت کے دوگروہ ایسے ہیں کہ جن کااسلام میں کوئی حصہ نہیں ہے جبری اور قدری اوران کے بارے میں (ان المجرمین فی ضلال وسعر) گنہگار اورمُجرم گمراہی ، جنون اور آگ کے شعلوں میں ہیں نازل ہوئی ہے ( ۱) ۔

مرحبئہ کامادّہ ارجائ ہے اس کے معنی تاخیر میں ڈالنے کے ہیں ، یہ ایک اصطلاح ہے جوجبریوں کے بارے میں نازل ہو ئی ہے اس لیے کہ وہ اوامر الہٰی کی پرواہ نہیں کرتے اورمعصیّت کی راہ اختیار کرتے ہیں ۔وہ اس گمان میں ہیں کہ وہ مجبُور ہیں یایہ کہ وہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ گناہانِ کبیرہ کے مرتکب افراد کے انجام کامعاملہ واضح نہیں ہے ،وہ اسے قیامت پرچھوڑ تے ہیں ( ۲) ۔
امام باقر علیہ السلام کی ایک حدیث میں ہمیں ملتاہے کہ ( نزلت ھذہ فی القدر یة ذو قوا مس سقر انّا کل شیء خلقنا بقدر)یہ آیات قدریوں کے بارے میں نازل ہوئی ہیں ،قیامت میں ان سے کہا جائے گا جہنم کی آگ کامزہ چکھو ہم نے ہرچیز کوحساب اور اندازے کے ساتھ پیداکیا ہے (۳) ۔
(یہ اس طرف اشارہ ہے کہ اندازہ اورحساب سے مُراد یہ ہے کہ ہرگناہ کے لیے ہم نے معیّن سزا قرار دی ہے ،یہ آ یت کی ایک اورتفسیر ہے یایہ کہ تم جوتقدیر الہٰی کے منکر تھے اورہرچیز پرخود کوقادر سمجھتے تھے اورخُدا کواپنے اعمال کی قلمرد سے خارج سمجھتے تھے تواَب تم خدا کی قُدرت کودیکھو اوراپنے انحراف کے عذاب کامزہ چکھو) ۔
۱۔ تفسیررُوح المعانی میں یہ حدیث بخاری ،ترمذی ابن ماجہ ، ابن عدی اورابنِ مردویہ سے ابنِ عباس سے نقل ہوئی ہے ج٢٧ ص ٨١ ،اس کی نظیر حدیث قرطبی نے اپنی تفسیر میں نقل کی ہے ،جلد ٩،صفحہ ٦٣١٨۔
۲۔ "" مجمع البحرین "" مادہ "" رجال"" ۔
۳۔ نورالثقلین ،جلد ٥ ،صفحہ ١٨٦۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma