مقامِ صِدق میں خُدا وند مقتدر کے پاس

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 23

اِن آیتوں میں قیامت کے دن مُشرکی اورمُجرموں کی جوکیفیّت ہوگی اور جس کی بحث گزشتہ آیتوں میں تھی اسی کے بیان کو جاری رکھاگیاہے ۔گزشتہ آ یتوں میں سے آخری آ یت نے اس حقیقت کوپیش کیا تھاکہ قیامت کادن ان کی وعدہ گاہ ہے اوروہ دن مصیبت کادن ہے اورتلخی لیے ہوئے ہے ،ایسی تلخی کہ جو دُنیاکی مصیبتوں اور شکستوں سے زیادہ تلخ ہوگی ، زیربحث آیات میں سے پہلی آ یت میں اس امر کی عِلّت کوپیش کرتے ہوئے خدا فرماتاہے :
مُجر مین گمراہی اورآگ کے شعلوں میں ہیں (ِنَّ الْمُجْرِمینَ فی ضَلالٍ وَ سُعُر)(١) ۔
قیامت کے دن وہ جہنم کی آگ میں اپنے منہ کے بل کھینچے جائیں گے اوران سے کہاجائے گا کہ دوزخ کی آگ کامزہ چکھو ۔وہ دوزخ جس کا تم ہمیشہ انکارکرتے تھے اوراسے محض جُھوٹ تصوّر کرتے تھے (یَوْمَ یُسْحَبُونَ فِی النَّارِ عَلی وُجُوہِہِمْ ذُوقُوا مَسَّ سَقَرَ) ۔ سقر بروزن سفر جسم کے رنگ کے متغیّر ہونے اور دھوپ کی شِدّت سے یاایسی ہی کسی دوسری چیز سے تکلیف اُٹھا نے کے معنی میں ہے ۔چونکہ جہنم تکلیف وآزار کا ایک ایسا شدید تنوع رکھتاہے ،اس لیے اس کانام سقر ہے ۔اور مس سے مُراد چھونا ہے ،اسی بنا پردوزخیوں سے کہاجائے گااس جلانے والی آنچ کامزہ چکھو جوجہنم کی آگ کے چھُونے سے حاصل ہوتی ہے ۔اِسے چھکو اور یہ نہ کہو کہ یہ چیزیں جُھوٹ ،خرافات اور فسانے ہیں ۔
بعض مفسّرین کانظر یہ یہ ہے کہ سقر تمام دوزخ کانام نہیں ہے بلکہ دوزخ کاایک خاص حِصّہ ہے جس میں حد سے زیادہ تپش ہے چنانچہ ایک روایت میں امام جعفرصادق علیہ السلام سے نقل ہواہے کہ سقر ایک درّہ ہے اور یہ متکبّر لوگوں کے لیے ہے یہ درّہ جس وقت سانس لیتاہے توجہنم کوجلادیتا ہے (٢) ۔
چونکہ یہ ہوسکتاتھا کہ یہ خیال ہو کہ یہ عذابِ اِن گناہوں سے متناسب نہیں ہے ، اس لیے بعد والی آ یت میں مزید فرماتاہے کہ ہم نے ہرچیز کومقدار اوراندازے کے ساتھ پیداکیا ہے (ِنَّا کُلَّ شَیْء ٍ خَلَقْناہُ بِقَدَر)جی ہاں ! ان کے اس دنیا کے دردناک عذاب کابھی حساب کتاب ہے اوران کو آخرت میں پہنچنے والی سزا ئیں ہی نہیں بلکہ ہر چیز کوخدا نے حساب وکتاب کے ماتحت پیداکیا ہے ،زمین وآسمان ،زندہ وبے جان وجود ۔اِنسانی جسم کے اعضا اور زندگی کے وسائل ہرایک چیزحساب کتاب کے ماتحت اورضروری مقدار کے مطابق ہے ۔اس عالم کی کوئی چیزحساب کتاب کے بغیر نہیں ہے اس لیے کہ خالقِ حکیم کی پیدا کردہ ہے ۔
اِس کے بعد فرماتاہے : نہ صرف ہمارے اعمال حکمت کی رُ وسے ہیں بلکہ انتہائی قدرت وقاطعیت کے ساتھ بھی ہیں کیونکہ ہمارا فر مان ایک اَمر سے زیادہ نہیں ہے اور وہ اتنی تیزی کے ساتھ تکمیل پاتاہے جیسے پلک کاایک مرتبہ جھپکنا (وَ ما أَمْرُنا ِلاَّ واحِدَة کَلَمْحٍ بِالْبَصَر) ۔
جی ہاں! جس چیزکے بارے میں ہم ارادہ کریں توہم کہتے ہیں کن ہوجا تو وہ بلاتا خیر ہو جاتی ہے ۔(حتّی کہ کلمہ کن کی اِصطلاح بھی محض افہام کے لیے ہے ورنہ خدا کااِرادہ ،مشیّت اوراس کی مُراد کاتحقق یہ سب ایک ہی چیزہیں ) اِ س بناپر جس دن ہم قیامت کے برپا ہونے کافرمان صادر کریں گے تو چشم زدن میں ہرچیز قیامت کی گرفت میں ہوگی اورجسموں کے ڈھانچوں میں نئی زندگی پھونک دی جائے گی ،اس طرح جس روز ہم ارادہ کریں کہ مجرموں کوآسمانی بجلی کی چیخ یازمین کے زلزلوں ،طوفانوں اورتیز آندھیوں سے معذب کریں یاان پر عذاب نازل کرنے کااِرادہ رکھیں گے تواس کے لیے ایک حکم سے زیادہ کسی چیزکی ضرورت نہیں ہے ،یہ سب چیزیں گنہگاروں کے لیے تنبیہ کی حیثیت رکھتی ہیں تاکہ وہ جان لیں کہ خداحکیم ہونے کے ساتھ ساتھ قطعی اور دوٹوک فیصلے کرتاہے اوروہ قاطعیت کے ساتھ حکیم بھی ہے ،لہٰذا اس کے فر مان کی مخالفت سے پرہیزکریں ۔بعدوالی آ یت میں دوبار ہ کفّار ومجرمین کومخاطب کرتے ہوئے اور گزشتہ اقوام کے حالات کی طرف ان کی توجہ مبذول کراتے ہوئے پروردگار عالم فرماتاہے : ہم نے گزشتہ زمانے میں کچھ افراد کو،جو تمہارے ہی جیسے تھے ،ہلاک کیا کیاکوئی ہے کہ جونصیحت حاصل کرے ؟ (وَ لَقَدْ أَہْلَکْنا أَشْیاعَکُمْ فَہَلْ مِنْ مُدَّکِر) ۔
اشیاع جمع ہے شیعہ کی ،ایسے لوگوں کے معنوں میں کہ جوکسی فرد کی طرف سے چہار جانب جائیں اوراس فرد سے متعلق امور کی نشرو اشاعت کریں اوراس کوتقویت پہنچائیں ۔اگرشیعہ پیرو کارکے معنوں میں استعمال ہوتاہے تواس کی بھی یہی وجہ ہے ۔یقینا گزشتہ اقوام ، مشرکینِ مکّہ کی پیروکار نہیں تھیں بلکہ بالکل اس کے برعکس تھالیکن چونکہ کسی فرد کے طرفدار اس کے شیعہ ہوتے ہیں ،اس لیے یہ لفظ مانند اورمثل کے معنی میں بھی استعمال ہوتاہے ۔ یہ چیز بھی پیش نظر کھنی چاہیئے کہ کفّارِ مکّہ کا یہ گروہ گزشتہ لوگوں کے طرز عمل سے بھی قوّت حاصل کرتاتھا اوران کے نظر یات سے استفادہ کرتاتھا ،اِسی بناپر گزشتہ اقوام پر اشیاع کااطلاق ہواہے ۔
بہرحال یہ آ یت دوبارہ اس حقیقت کی تاکید کرتی ہے کہ جب تمہارے عمال، رفتار وگفتار اور عقائد ان کے عقائد وغیرہ مشترک ہوں توپھر کوئی وجہ نہیں کہ تمہارا انجام ان کے انجام سے مختلف ہو ،بیدار ہوجاؤ اورنصیحت حاصل کرو، اس کے بعد بُنیاد ی حقیقت کی طرف اشارہ کرتاہے کہ گزشتہ اقوام کی موت کے ساتھ ان کے اعمال کا لعدم نہیں ہوگئے بلکہ جوکام انہو ںنے انجام دیے ہین وہ ان کے نامہ اعمال میں مندرج ہیں(وَ کُلُّ شَیْء ٍ فَعَلُوہُ فِی الزُّبُر ) ۔
اسی طرح تمہارے اعمال بھی مندرج ومنضبط ہیں اور روزحساب کے لیے محفوظ ہیں زبر جمع ہے زبور کی جوکتاب کے معنی میں ہے ۔یہاں انسانوں کے نامۂ اعمال کے معنوں میں ہے ،بعض نے اس احتمال کی تائید بھی کی ہے کہ اس سے مُراد لوح محفوظ ہے لیکن یہ معنی جمع کے معنی کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتے ۔اس کے بعد تاکید مزید کے لیے خدافرماتاہے : اورہرچھوٹا بڑا کام بلااستثنالکھاجائے گا (وَ کُلُّ صَغیرٍ وَ کَبیرٍ مُسْتَطَر) ۔
اس بناپر اس روز جواعمال کاحساب وکتاب ہوگا، وہ ایک جامع اورمکمّل حساب ہوگا چنانچہ جس وقت مجرموں کانامۂ اعمال ان کے ہاتھ میں دیاجائے تو وہ فریادکریں گے کہ وائے ہو ہم پر یہ کیسی کتاب ہے کہ کوئی چھوٹا بڑا عمل ایسانہیں جواس میں درج نہ ہو (وَ یَقُولُونَ یا وَیْلَتَنا ما لِہذَا الْکِتابِ لا یُغادِرُ صَغیرَةً وَ لا کَبیرَةً ِلاَّ أَحْصاہا)(سورکہف ۔آ یت ٤٩) ۔
مستطر کامادّہ سطرہے اس کے معنی صف کے ہیں ۔وہ خواہ انسان ہوں کہ ایک صف میں کھڑے ہوں یا درخت جوایک صف میں ایسّادہ ہوں یاالفاظ وہں کہ جو صفحہ کاغذ پرایک ہی صف میں تحریر ہوں ۔چونکہ یہ زیادہ ترآخری معنوں میں اِستعمال ہوتاہے لہٰذا یہی مفہوم عام طورپر اس سے ذہن میں آ تا بہرحال یہ ایک دوسرے تنبیہ ہے گنہگار ،غافل اور بے خبرلوگوں کے لیے ۔
قرآن مجید کی سُنّت یہ ہے کہ اس کے بیانات میں اچھے بُرے اورنیک وبد افراد ایک دوسرے کے موازنہ اورتقابل سے متعارف ہوتے ہیں اورومازنہ وتقابل کی صُورت میں دونوں کافر ق بھی واضح طورپر محسوس ہوتاہے ،یہاں بھی کافر مُجرموں کے احوال کے تذکرے کے بعد پرہیزگاورں کے مسّرت بخش اوررُوح پرور احوال کی طرف ایک مختصر سااشارہ کرتے ہوئے پروردگارِ عالم فرماتاہے :پرہیزگار جنّت کے باغوں میں نہروں کے قریب وسیع فضا اورخدا کے واضح فیض ( کے مقام پر ) جگہ رکھتے ہیں (ِنَّ الْمُتَّقینَ فی جَنَّاتٍ وَ نَہَرٍ ) ۔
نھر بروزن قمر اور نھر بروزن قھر دونوں بہت سے پانی کے بہنے کے معنی میں ہے ،اوراسی مناسبت سے کبھی وسیع فجا، فیض ِ عظیم یاپھیلی ہوئی روشنی کے لیے نھر بروزن قمر کہاجاتاہے ۔ یہ لفظ زیربحث آ یت مٰں (آئندہ آنے والی حدیث سے قطع نظر ) ممکن ہے اسی اصلی معنی کے مطابق پانی کی نہر یادریاہو ۔اس کا مفرد ہوناکوئی مشکل پیدا نہیں کرتا کیونکہ وہ جنس جمع کے معنی رکھتاہے ۔اسی لیے جنّات جو جنت کی جمع ہے ،اس کے ساتھ ہم آہنگ ہے ،یہ بھی ممکن ہے کہ فیضِ الہٰی کی وسعت جنّت کی وسیع روشنی اوراس کی وسیع فضا کی طرف اشارہ ہویادونوں معانی کی طرف اشارہ ہولیکن اس حدیث میں جودُرِ منثور میں پیغمبراسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول ہے ہم دیکھتے ہیں کہ (النھر الفضاء واسعة لیس بنھر جار) نھر کے معنی وسیع فضا کے ہیں، جاری نہرکے نہیں (٣) ۔
زیربحث آیات کی آخری آ یت نے کہ جو سُورئہ قمر کی بھی آخری آ یت ہے متقین کی رہائش گاہ کی مزید وضاحت کی ہے پروردگار ِ عالم فرماتاہے : وہ جائے صِدق وحق اور راستی میں مالک وقادر خداکے ہاں قرار ومقام رکھتے ہیں (فی مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلیکٍ مُقْتَدِر) ۔
اس آ یت میں پرہیزگار وں کی رہائش گاہ کی کیسی پُر کشش اورجاذبِ توجہ توصیف ہے ،اس میں دوخصوصیتیں ہیں جن میں تمام امتیازات جمع ہیں ۔ پہلی تویہ کہ کہ وہ صدق کی جگہ ہے ۔ وہاں کسی قسم کی بے ہودیگ یاباطل کاکوئی گزر نہیں ہے وہ سراحق ہے بہشت کے بارے میں خداکے سارے وعدے حقیقت کارُوپ دھارلیں گے اور ان کی سچائی بالکل واضح اور آشکار ہوگی ۔دوسر ی خصوصیّت یہ کہ وہ خداکے قُرب وجوار میں ہے ۔وہی چیزکہ جو عند سے ظاہر ہوئی ہے ۔ یہ قت معنوی کی انتہا کی طرف اشارہ ہے ۔
قربِ جسمانی کی طرف نہیں ،اورپھر خدا کی نسبت کہ جومالک بھی ہے اور قادر بھی ،ہرقسم کی نعمت وموھبت اس کے قبضہ میں ہے اور اس کی حکومت وملوکیت کے زیرفرمان ہے ،اس بناپر وہ ان مہمانانِ گرامی پذیرائی میں کوئی کمی نہیں کرے گا ۔ وہی بہتر جانتاہے کہ اس نے ان کے لیے کیاکیا نعمتیں فراہم کی ہیں ۔
قابلِ توجہ بات ہے کہ ان دوآیتوں میں کہ جہاں جنّت کی نعمتوں اورجزاؤں کے بارے میں گفتگو ہے اِن میں پہلے تزکرہ وسیع باغات اورجاری نہروں کاہے ۔ یہ مادّی نعمتیں ہیں ،پھران کے عظیم معنوی اجر کا ذکر ہے یعنی خُدا ئے مالک وقادر کی بارگاہ میں حضوری کاتذکرہ ۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ وہ اِنسان کوحقائق کی طرف رفتہ رفتہ مائل کرے ،اس کی رُوح کو پرداز کرائے اورعشق ونشاط میں مستغرکرے مَلیکٍ مُقْتَدِراور مقعد صدق ایسے الفاظ ہیں کہ جواللہ کے حضور اوراس کے قُرب معنوی کے دوام و بقاء پر دلالت کرتے ہیں ۔
١۔"" سعر"" جیساکہ ہم نے اس سورہ کی آ یت ٢٤ میں اشارہ کیاہے دومعنی رکھتاہے پہلا یہ کہ یہ جمع ہے "" سعید"" کی جس کے معنی جلتی ہوئی آگ کے ہیں ۔دوسرا یہ کہ یہ جنون ہیجان اور اشتعال کے معنوں میں ہے کہ جوفکر ی اعتدال کے فقدان کے وقت ہوتاہے ،زیربحث آ یت میں ممکن ہے پہلے معنی میں ہو یاپھر دوسر ے معنوں میں ۔اگر دوسرے معنوں میں ہوتو آ یت کامفہوم یہ ہوگا "" وہ کہتے تھے کہ اگر ہم اپنے جیسے اِنسان کی پیروی کریں توہم گمراہ ہیں اور دیوانے ہیں"" قرآن کہتاہے کہ قیامت کے دن سمجھ لیں گے کہ وہ انکار اورجنون کی وجہ سے گمراہی میں تھے ۔
٢۔ تفسیرصافی درذیل آیات زیربحث ۔
٣۔ تفسیر"" درالمنثور "" جلد ٦ ،صفحہ ١٣٩۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma