٢۔"" شق القمر"" موجودہ زمانے کے علوم کے لحاظ سے :

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 23

وہ اہم سوالات جواس بحث میں سامنے آتے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ اجرامِ سماوی میں شگاف کاپیدا ہونااصولی طور پر ممکن ہے یانہیں اورعلم کی تائید کرتاہے یاتردید ماہرین فلکیات کے انکشافات کے مطالعہ سے اس سوال کاجواب مشکل نہیں ہے ،ان کے بیانات سے ظاہر ہوتاہے کہ اس قسم کے واقعات نہ صرف یہ کہ محال ہیں بلکہ ایسے امور کا مشاہدہ ہواہے کہ اگرچہ ہرمشاہد ہ میں مخصوص عوامل کافر ماتھے ،نظام شمسی کے متعلقات اوردُوسرے آسمانی کُرّہ کااس طرح شق ہونا اورپھر مل جاناایک ممکن امر ہے ،نمونے کے طورپر چند باتیں درج ذیل ہیں ۔
(الف)نظام شمسی کی تخلیق:اِس نظر یے کے تمام ماہرین نے تصدیق کی ہے کہ نظام شمسی سے تعلق رکھنے والے تمام کُرّے اِبتداء میںسُورج کے اجزاتھے کسی وقت اس سے الگ ہوئے اور اپنے اپنے مدار میں گردش کرنے لگے ،یہ بات ضرور ہے کہ الگ ہونے کے اس عمل کے اسباب وعوامل میں اختلاف ہے لاپلاسکانظر یہ یہ ہے کہ کسی چیزکے الگ ہونے کے اس عمل کا سبب مرکز سے گریز کی وُہ قوّت ہے جوسُورج کے منطقۂ استوائی میں پائی جاتی ہے ،وہ اس طرح کہ جس وقت سُورج ایک جلانے والی گیس کے ٹکڑے کی شکل میں تھا(اور اب بھی ایسا ہی ہے )اوراپنے گرد گردش کرتاتھا تواس گردش کی سُرعت منطقۂ استوائی میں اس بات کاسبب بنی کہ سُورج کے کچھ ٹکڑے اس سے الگ ہوجائیں اورفضا میں بکھر جائیں اور مرکزاصلی یعنی خُود سُورج کے گرد گردش کرنے لگیں ،لیکن لاپلاس کے بعد بعض دوسرے ، ماہرین کی تحقیقات ایک دوسرے مفروضہ پرمنتہی ہوئیں ،وہ اس علیحدگی کاسبب اس شدید مدّت وجزر کوقرار دیتے ہیں ،جوسُورج کی سطح پرسے ایک بہت بڑے ستارے کے عبورکرنے کی وجہ سے ہوا، اس مفروضہ سے اتفاق کرنے والے اس وقت کی سُورج کی حرکت وصفی کوسُورج کے ٹکڑوں کے علیحدہ ہونے کی توجیہ کوکافی نہیں سمجھتے ،وہ اس مفروضہ کی تائید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مذ کورہ مدّوجزر نے اس سورج کی سطح پر بہت بڑی بڑی لہریں اس طرح پیدا کیں جیسے پتھر کاکوئی بہت بڑا ٹکڑا سمند ر میں گرے اوراس سے لہریں پیداہوں اس طرح سُورج کے ٹکڑے یکے بعد دیگرے باہر نکل کرگرپڑے اورخُود سُورج کے گردگروش کرنے لگے ، بہرحال اس علیحدگی کا عامل کچھ بھی ہو اس پر سب متفق ہیں کہ نظام شمسی کی تخلیق انشقاق کے نیتجے میں وقوع پذیر ہوئی ۔
(ب)بڑے شہاب:یہ بڑے بڑے آسمانی پتھر ہیں کہ جو نظامِ شمسی کے گرد گردش کررہے ہیں اورجو کبھی چھوٹے کرّات اور سیّاروںسے مشابہت رکھنے والے قرار دیے جاتے ہیں ۔بڑیاس وجہ سے کہ ان کاقطر ٢٥ کلومیٹر تک ہوتاہے لیکن وہ عموماً اس سے چھوٹے ہوتے ہیں ،ماہرین کانظر یہ یہ ہے کہ استروئیدھا ایک عظیم سیّار ے کے بقیہ جات ہیں کہ جو مشتری اورمریخ کے درمیان مدار میں حرکت کررہاتھا اوراس کے بعد نامعلوم عوامل کی بناء پر وہ پھٹ کرٹکڑے ٹکڑے ہوگیا، اَب تک پانچ ہزار سے زیادہ اس طرح کے ٹکڑے شہاب معلوم کیے جاچکے ہیں اوران میں سے جوبڑے ہیں ان کے نام بھی رکھے جاچکے ہیں بلکہ ان کا حجم ،مقدار اور سُورج کے گرد ان کی گردش کاحساب بھی لگا یا جاچکاہے ،بعض ماہرین فضاان استر وئیدوں کی خاص اہمیّت کے قائل ہیں ،ان کانظریہ ہے کہ فضا کے دُور دراز حِصّوں کی جانب سفر کرنے کے لیے اوّلین قدم کے عنوان سے ان سے استفادہ کیاجاسکتاہے ۔
آسمانی کُروں کے انشقاق کاایک دُوسرانمُونہ
)ج) شہابِ ثاقب جھو ٹے جھوٹے آسمانی پتھرہیں جوکبھی کبھی چھوٹی اُنگلی کے برابر بھی ہوتے ہیں ،بہرحال وہ سُورج کے گرد ایک خاص مدار میں بڑی تیزی کے ساتھ گردش کررہے ہیں اور جب کبھی ان کی سمتِ سفرکُرّئہ زمین کے مدار کوکاٹ کرگزرتی ہے تووُہ زمین کارُخ اختیار کرتے ہیں ،یہ چھوٹے پتھر، اس ہواسے شِدّت کے ساتھ ٹکرانے کی وجہ سے ، کہ جوزمین کااحاطہ کیے ہوئے ہے اورتھرتھر اہٹ پیداکرنے والی اس تیزی کی وجہ سے کہ جوان کے اندر ہے زیادہ گرم ہو کہ اس طرح بھڑک اٹھتے ہیں کہ ان میں سے شعلے نکلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اورہم انہیں ایک پُر نُور ،خوبصورت لکیر کی شکل میں فضائے آسمانی میں دیکھتے ہیں اورانہیں شہاب کے تیر کے نام سے موسُوم کرتے ہیں ،اور کبھی یہ خیال کرتے ہیں کہ ایک دُور دراز کاستارہ ہے جوگِر رہاہے حالانکہ وہ چھوٹا شہاب ہے جوبہت ہی قریبی فاصلہ پربھڑک کرخاک ہوجاتاہے ۔
شہابوں کی گردش کامدار زمین کے مدار سے دو نقطوں پرملتاہے ،اِسی بناء پر مرداد (ایرانی مہینے کانام ہے )اورابا نماہ (یہ بھی ایرانی مہینے کانام ہے ) میں جو دومداروں کے نقطہ تقاطع ہیں، شہابِ ثاقب زیادہ نظر آتے ہیں ،ماہرین کاخیال ہے کہ یہ دُمدار ستارے کے بقیہ حصّے ہیں جونامعلوم حوادث کی بناء پر پھٹ کرٹکڑے ٹکڑے ہوگیاہے ۔
آسمانی کُرّوں کے پھٹنے کاایک اورنمُونہ
بہرحال آسمانی کُرّوں کاانفجارواِنشقاق یعن پھٹنا اور پھٹ کربکھر ناکوئی بے بنیاد بات نہیں ہے اورجدید علوم کی نظر میں یہ کوئی فعل محال بھی نہیں کہ یہ کہاجائے کہ معجزہ کاتعلق امرِ محال کے ساتھ نہیں ہواکرتا ۔ یہ سب انشقاق یعنی پھٹنے کے سلسلہ کی باتیں ۔دوٹکڑوں میں جوقوّتِ جاذبہ ہوتی ہے اس بناپر اس انشقاق کی بازگشت ناممکن نہیں ہے ۔
اگرچہ ہیئت ِقدیم میں بطلیموس کے نظریہ کے مطابق نوآسمان پیاز کے تہہ بہ تہہ چھلکوں کی طرح ہیں اورگھومتے رہتے ہیں اور یوں یہ نوآسمان ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں جن کاٹوٹنا اورجڑ ناایک جماعت کی نظرمیں امرِ محال تھا ۔اس لیے اس نظریہ کے حامل افراد معراجِ آسمانی کے بھی منکر تھیاور شق القمر کے بھی لیکن اَب جب کہ ہیئت ِ بطلیموس کامفروضہ خیالی افسانوں اورکہا نیوں کی حیثیت اختیار کرچکاہے اور نوآسمانوں ونشان تک باقی نہیں رہا تواَب ان باتوں کی گنجائش بھی باقی نہیں رہی ۔یہ نکتہ کسی یاد دہانی کامحتاج نہیں کہ شق القمر ایک عام طبعی عامل کے زیراثر رُونما نہیں ہوا بلکہ اعجاز نمائی کا نتیجہ تھا ۔لیکن چونکہ اعجاز محال عقلی سے تعلق نہیں رکھتالہذا یہاں مطلوب اس مقصد کے امکان کو بیان کرناتھا، غور فرمائیں ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma