پیغمبر (ص) کا سچا خواب

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 22
یہ آ یت بھی داستان حدیبیہ کے ایک اور گوشہ کی تصدیرکشی کررہی ہے .قصّہ یہ تھا :
پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ میں ایک خواب دیکھاکہ آپ اپنے صحابہ کے ساتھ عمرہ کے مناسک اداکرنے کے لیے مکّہ میں داخل ہورہے ہیں اوراس خواب کوصحابہ کے سامنے بیان کر دیا، وہ سب کے سب شاد وخوش حال ہُوئے ،لیکن چونکہ ایک جماعت یہ خیال کرتی تھی کہ اس خواب کی تعبیر اسی سال پوری ہوگی ، توجس وقت قریش نے مکّہ میں ان کے داخل ہونے کاراستہ حدیبیہ میں ان کے آگے بندکردیا تووہ شک وتردید میںمبتلا ہوگئے ،کہ کیا پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کاخواب غلط بھی ہوسکتا ہے ،کیااس کامطلب یہ نہیںتھا کہ ہم خانہ خدا کی زیارت سے مشر ف ہوں گے ؟ پس اس وعدہ کاکیا ہوا؟ اور وہ رحمانی خواب کہاں چلا گیا؟
پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے اس سوال کے جواب میں فر مایا، کیا میں نے تمہیں یہ کہا تھا کہ یہ خواب اسی سال پورا ہوگا ؟
اوپروالی آ یت اسی بارے میں مدینہ کی طرف بازگشت کی راہ میں نازل ہوئی ، اورتاکید کی کہ یہ خواب سچاتھا ، اورایسا مسئلہ حتمی وقطعی اورانجام پاجانے والاہے ۔
فرماتاہے : خدا نے اپنے پیغمبرکو خواب میں کچھ دکھلا یاتھاوہ سچ اورحق تھا (لَقَدْ صَدَقَ اللَّہُ رَسُولَہُ الرُّؤْیا بِالْحَقِّ)(١) ۔
اس کے بعد مزید کہتا ہے : انشاء اللہ تم سب کے سب قطعی طورپر ،انتہائی امن وامان کے ساتھ ، اس حالت میں کہ تم اپنے سروں کومنڈ وائے ہُوئے ہوں گے .یااپنے ناخنوں کوکٹوائے ہُوئے ہوں گے مسجد الحرام میں داخل ہوں گے .اورکسی شخص سے تمہیں کوئی خوف ووحشت نہ ہوگی ( لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرامَ ِنْ شاء َ اللَّہُ آمِنینَ مُحَلِّقینَ رُؤُسَکُمْ وَ مُقَصِّرینَ لا تَخافُون)۔
لیکن خدااس چیزکوجانتاہے جسے تم نہیں جانتے ( فَعَلِمَ ما لَمْ تَعْلَمُوا) ۔
اس تاخیر میں ایک حکمت تھی اس سے پہلے ایک قریب کی فتح قراردے دی (فَجَعَلَ مِنْ دُونِ ذلِکَ فَتْحاً قَریباً) ۔
اس آ یت میں کچھ قابل توجہ نکات
١۔ اس بات کی طرف تو جہ کرتے ہوئے کہ لتد خلنّ میں لام قسم کالام اوراس کے آخر نون تاکید کے لیے ، یہ آئندہ کے بارے میں ایک قطعی ویقینی وعدہ ہے اورانتہائی امن وامان کے ساتھ مراسم عمرہ کے انجام دینے کے بارے میں ایک صریح معجزانہ پیشین گوئی ہے ، اورجیساکہ کہ ہم بیان کریں گے، ٹھیک آئندہ سال اسی ماہ ذی القعدہ میں یہ پیشین گوئی پوری ہوگئی ، اورمسلمانوں نے عمرہ کے مراسم اسی صورت میں انجام دیئے ۔
٢۔ ان شاء اللہ کاجُملہ یہاں ممکن ہے بندوں کے لیے ایک قسم کی تعلیم ہو، کہ وہ آئندہ کے بارے میں کُچھ کہتے وقت خدا کی مشیت و ارادہ پر تکیہ کرنے کو فراموش نہ کریں اوراپنے آپ کو اپنے کاموں مستقل اوراس کے لطف سے بے نیاز نہ سمجھیں ۔
اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ ایسے افراد کی طرف اشارہ ہو، جو خدانے اس موفقیّت ( مستقبل قریب میں خانہ خدا کی زیارت کی توفیق ) کے لیے قرار دیئے ہیں ، اوروہ توحید واطمینان اوروقار تقویٰ پرباقی رہنے کاطریقہ ہے ۔
اوریہ بھی ممکن ہے کہ یہ ایسے افراد کی طرف اشارہ ہو ، جن کی عم کی مدّت اس دوران میں ختم ہوجائے گی ،اوروہ اس زیارت کے انجام دینے پرمو قق ہوں گے اوران معانی کے درمیان جمع کرنا پورے طورپر ممکن ہے ۔
٣۔ بہت سے مفسرین کے نظر یہ کے مطابق فتحاً قریباً کی تعبیر اسی صلح حدیبیہ کی طرف ہی اشارہ ہے ، جس کو قرآن نے فتح مبین کہاہے اور ہم جانتے ہیں کہ یہی فتح بعد والے سال میں مسجد الحرام میں داخل ہونے کی تمہید بنی ۔
جبکہ ایک دوسراگروہ اسے فتح خیبر کی طرف اشارہ سمجھتا ہے .البتہ قریبًا کالفظ فتح خیبر کے ساتھ زیادہ مناسب ہے ، کیونکہ وہ اس خواب کے پورا ہونے میں بہت کم فاصلہ رکھتاتھا ۔
اس کے علاوہ اسی سُورہ کی آ یت ١٨ میں جِس میں بیعت رضوان کابیان ہے ،یہ آ یا ہے فَأَنْزَلَ السَّکینَةَ عَلَیْہِمْ وَ أَثابَہُمْ فَتْحاً قَریبا۔
اورجیساکہ ہم نے بیان کیاہے اوراکثر مفسرین کانظر یہ بھی یہی ہے کہ اس سے مراد فتح خیبر ہے ، آ یت میں موجود قرائن بھی یہی بات حکایت کرتے ہیں ، اوراس بات کی طرف توجہ کرتے ہُوئے کہ زیر بحث آ یت اس کے ہم آہنگ ہوگی ،ایسا معلوم ہوتاہے کہ دونوںایک ہی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہیں ( ٢) ۔
تفسیر علی بن ابراہیم میں بھی اسی معنی کی طرف اشارہ ہواہے ( ٣) ۔
٤۔ مُحَلِّقینَ رُؤُسَکُمْ وَ مُقَصِّرین (در آں حالیکہ سروں کومنڈ وائے ہوئے اورناخن کٹوا ئے ہوئے ہوگے )کاجُملہ مراسم عمرہ کے آداب میں سے ایک طرف اشارہ ہے ،جسے تقصیر کہتے ہیں اوراس کے ذ ریعہ محرم ،احرام سے باہر نکل آ تاہے اور بعض اس آ یت کومسئلہ تقصیر اوراحرام سے باہر نکلنے میں تخییر کی دلیل سمجھتے ہیں ، کیونکہ محرم سربھی منڈ واسکتا ہے یااپنے ناخن کٹو اسکتاہے ، ان دونوں کے درمیان جمع قطعاً اور یقینا واجب نہیں ہے ۔
٥۔ فَعَلِمَ ما لَمْ تَعْلَمُوا (خدا ان باتوں کوجانتا تھا ، جو تمہیں معلوم نہیں تھیں )کاجُملہ ان اہم اسرار کی طرف اشارہ ہے جو صلح حدیبیہ میں چھپے ہُوئے تھے اور زمانے کے گزرنے کے ساتھ آشکار ہُوئے ، اسلام کی بنیاد یں مضبوط ہے ہوئیں اوراسلام کی شہرت ہرجگہ پھیل گئی ، اور مسلمانوں پر جنگ کے طالب ہونے اور اسی طرح کی دوسری تہمتیں ختم ہوگئیں ،اور مُسلمان فارغ البالی کے ساتھ خیبر کوفتح کرنے اپنے مبلغین جزیرة العرب کے اطراف میں بھیجنے اور پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآ لہ وسلم)اپنے تاریخی خطوط اس زمانہ کی دُنیا کے بڑے بڑے حاحبان اقتدار کو ارسال کرنے پر قادر ہوگئے . ایسے مطالب تھے جن سے عام لوگ آگاہی نہیں رکھتے تھے اورصرف خداہی اس سے آگاہ تھا ۔
٦۔ ہمارا اس آ یت میں مسئلہ رئویا سے سامناہوتاہے .پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کاوہی رویائے صادقہ جو اب دحی کی ایک شاخ ہے ، اسی کے مشابہ جوابراہیم علیہ السلام اوران کے فرزند اسماعیل علیہ السلام کے ذبح ہونے کے بارے میں آ یا ہے ( صافات آ یت، ١٠٢)ارئویا اورخواب دیکھنے کے بارے میں مزید تشریح جلد نہم میں یوسف علیہ السلام کی داستان میں صفحہ ٢٨٥ پر مطالعہ فر مائیں) ۔
٧، زیر بحث آ یت قرآن کے غیبی اخبارمیں سے ایک ،اورایک کتاب کے آسمانی ہونے کے شواہد میں سے ہے ، اور پیغمبر گرامی اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے معجزات میں سے بھی ہے . جواِس قاطعیّت اور تاکید کے ساتھ مسجد الحرام میں داخل ہونے اور مستقبل قریب میں مراسم عمرہ بجالانے کی خبر دیتی ہے ،اور اس سے پہلے فتح قریب اور نزدیکی کامیابی کی خبرتھی دیتی ہے .جیساکہ ہم جانتے ہیں یہ دونوںپیشین گو ئیاں پوری ہوگئیں ، فتح خیبر کی داستان آپ پہلے سُن چکے ہیں، اب عمرة القضاء کی داستان بھی سُن لیں ۔
عمرة القضاء
عمرة القضاء وہی عمرہ ہے جوپیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے حدیبیہ سے ایک سال بعد یعنی ہجرت کے ساتویں سال کے ماہ ذی القعدہ میں (اس سے ٹھیک ایک سال بعد جب مشرکین نے آپ کومسجد الحرام میں داخل ہونے سے روکا تھا) اپنے اصحاب کے ساتھ انجام دیا، اوراس کایہ نام اس وجہ سے ہے ،چونکہ یہ حقیقت میں گزشتہ سال کی قضا ء شمار ہوتاتھا ۔
اس کی وضاحت اس طرح ہے کہ : قرارداد حدیبیہ کی شقوں میں سے ایک شق کے مطابق پروگرام یہ تھا کہ مُسلمان آئندہ سال مراسم عمرہ اورخانہ خداکی زیارت آزادانہ طورپر انجام دیں لیکن تین دن سے زیادہ مکّہ میں توقف نہ کریں اوراس مدت میں قریش کے سر دار مشرکین کے جانے پہچانے افراد شہرسے باہر چلے جائیں گے ( تاکہ ایک تو احتمالی ٹکرائو سے بچ جائیں.اورکنبہ پر وری اور تعصب کی وجہ سے جولوگ مسلمانوں کی عبادت توحیدی کے منظر کود یکھنے کایارا اور قدرت نہیں رکھتے ، وہ بھی اُسے نہ دیکھیں ) ۔
بعض تواریخ میں آ یاہے کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے اپنے صحابہ کے ساتھ احرام باندھا اورقربانی کے اونٹ لے کرچل پڑے اور ظہران کے قریب پہنچ گئے اس موقع پر پیغمبرنے اپنے ایک صحابی کوجس کانام محمد بن مسلمہ تھا، عمدہ سواری کے گھوڑوںاوراسلحہ کے ساتھ اپنے آگے بھیج دیا ،جب مشر کین نے اس پر و گرام کو دیکھا تووہ سخت خوف زدہ ہُوئے اورانہوںنے یہ گمان کرلیا کہ حضرت ان سے جنگ کرنااوراپنی دس سالہ صلح کی قرار داد کوتوڑ ناچاہتے ہیں ،لوگوں نے یہ خبراہل مکّہ تک پہنچادی لیکن جب پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)مکّہ کے قریب پہنچے توآپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے حکم دیاکہ تمام تیر اورنیزے اور ددوسرے سارے ہتھیار اس سرزمین میں جس کا نام یاجج ہے منتقل کردیں ،اورآپ خود اور آپ کے صحابہ صرف نیام میں رکھی ہوئی تلواروں کے ساتھ مکّہ میں وارد ہُوئے ہیں ۔
اہل مکّہ نے جب یہ عمل دیکھا توبہت خوش ہُوئے کہ وعدہ پُورا ہوگیا،(گو یا پیغمبر کا یہ اقدام مشرکین کے لیے ایک تنبیہ تھا ، کہ اگروہ نقص عہدکرنا چاہئیں اورمسلمانوں کے خلاف سازش کریں ، تو وہ ان کے مقابلہ کی قدرت رکھتے ہیں ) ۔
رُئو سے مکّہ ،مکّہ سے باہر چلے گئے ، تاکہ ان مناظر کو جوان کے لیے دل خراش تھے نہ دیکھیں ،لیکن باقی اہل مکہ مرد ، عورتیں اور بچے سب ہی راستوں میں ، چھتوں کے اُوپر ، اورخانہ خدا کے اطراف میں جمع ہوگئے تھے ،تاکہ مسلمانوں اوران کے مراسم عمر ہ کودیکھیں ۔
پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)ایک خاص رعب اور دبد بے کے ساتھ مکّہ میں وارد ہُوئے اور قربانی کے بہت سے اونٹ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے ساتھ تھے ، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے انتہائی محبت اورادب کے ساتھ مکّہ والوں نے سلوک کیا، اور یہ حکم دیاکہ مُسلمان طواف کرتے وقت تیزی کے ساتھ چلیں ، اوراحرام کوذ را ساجسم سے ہٹا لیں تاکہ ان کے قوی اور طاقتور اورموٹے تازے شانے آشکار ہوں ، اوریہ منظر مکہ کے لوگوں کی رُوح اور فکر میں، مسلمانوں کی قدرت وقوت وطاقت کی زندہ دلیل کے طورپر اثرانداز ہو۔
مجمُوعی طور سے عمرة القضاء عبادت بھی تھااورقدرت کی نما ئش بھی : یہ کہنا چاہیے ٔ کہ فتح مکّہ جوبعد والے سال میں حاصل ہوئی ، اس کابیج انہیں دنوں میں بویاگیا ، اوراسلام کے مقابلہ میں اہل مکہ کے سرتسلیم خم کرنے کے سلسلے میں ، مکمل طورپر زمین ہموار کردی ۔
یہ وضع وکیفیت قریش کے سرداروں کے لیے ا س قدر ناگوار تھی کہ تین دن گز رنے کے بعد کسی کوپیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی خدمت میں بھیجا کہ قرار داد کے مطابق جتنا جلدی ہومکّہ کوچھوڑ دیجیۓ ۔
قابلِ توجہ بات یہ ہے ، کہ پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے مکہ کی عورتوں میں سے ایک بیوہ عورت کو،جوقریش کے بعض سرداروں کی رشتہ دار تھی، اپنی زوجیّت میں لے لیا ، تاکہ عربوں کی رسم کے مطابق ، اپنے تعلق اوررشتے کواُن سے مستحکم کرکے ان کی عداوت اورمخالفت میں کمی کریں ۔
جس وقت پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے مکہ سے باہر نکل جانے کی تجویز سُنی توآپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فر مایا: میں اس ازدواج کے مراسم کے لیے کھانا کھلانا چاہتا ہوں اورتمہاری بھی دعوت کرناچاہتا ہوں ، یہ ایساکام تھا کہ اگر یہ انجام پاجاتا ، توان کے دلوں میںپیغمبر (صلی اللہ علیہ وآ لہ وسلم)کے ضمن میں ایک مؤ ثر نقش ، چھوڑتا ،لیکن انہوں نے قبول نہ کیااوریہ دعوت رسمی طورپر رد کردی گئی (٤) ۔
۔ ""صدق "" فعل ماضی ہے ، جس کے بعض اوقات دومفعول ہوتے ہیں .جیساکہ اوپر والی آ یت میں "" رسولہ "" مفعول اول ہے ،اور"" رئویا "" مفعول دوم ہے ،لیکن عام طورپر مفعول دوم "" فی "" کے واسط سے ہوتا ہے ، مثلاً ""صدقتہ فی حدیثہ "" میں نے اس کی گفتگو میں تصدیق کی ۔
٢۔ "" من دون ذالک"" کی تعبیر یاتو"" قبل ذالک "" کے معنی میں ہے .یعنی بعد والے سال میں عمرہ سے پہلے خدامو منین کوایک فتح قریب نصیب کرے گا ، یا"" غیرذالک"" کے معنی میں ہے . یعنی خانہ خدا کی زیارت کی توفیق کے علاوہ ان کے لیے ایک فتح قریب بھی قرار دے گا ۔
٣۔"" نورالثقلین "" جلد ٥،صفحہ ٧٦۔
٤۔"" مجمع البیان طبرسی "" جلد٩ ،صفحہ ١٢٧، ""فی ضلال القرآن "" جلد٧ ،صفحہ ٥١١،اور"" تاریخ طبری "" جلد ٢،صفحہ ٣١٠( اختصار اورخلاصے کے ساتھ ) ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma