مکڑی کے جالے کی مانند کمزور امید نگاہیں :

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 16
گزشتہ آیات میں مفسد،مستکبر،ہٹ دھرم اورناانصاف ظالم مشرکین کے حلات بیان ہوئے ہیں .زیربحث آیات میں اسی مناسبت سے ایک قابل توجہ اور ناطق مثال ان لوگوں کے لیے ہے جو غیر خدا کو اپنا معبود اورولی قراردیتے ہیں . ہم اس مثال پرجتنا بھی غور کرین اتنے ہی زیادہ نکات ہماری سمجھ میں آتے ہیں ۔
چنانچہ خدا فرماتاہے : جو لوگ غیرخدا کو اپنا معبود اورولی بناتے ہیں وہ مکڑی کی مانند ہیں جو اپنے لیے جالا تنتی ہے . جب کہ مکڑی کاگھر سب سے کمزور ہوتاہے ، اے کاش وہ یہ جانتے : ( مثل الذین اتخذوامن دون اللہ اولیاء وکمثل العنکبوت اتخذ ت بیتا وان اوھن البیوت لبیت العنکبوت لو کانوایعلمون ) ۔
سبحاناللہ یہ کیسی رسااور جاذب مثال اور کیسی دقیق اورناطق تشبیہ ہے . ذرا غور کیجئے کہ ہر حیوان اورہرکیڑا مکوڑا اپنے لیے گھر یاآشیانہ باناتا ہے . مگر ان میں سے کسی کاگھر بھی مکڑی کے جالے سے زیادہ کمزور نہیں ہوتا ۔
اصولا مکان اایسا ہونا چاہیئے جس میں دیواریں ،چھت اور دروازہ ہو جواپنے مکین حوادث اور موسموں کے تغیرات سے حفاظت کرے . اس کی غذا،خوراک اور دنیا وی ضرورت کی چیزیں اس میں محفوظ رہیں. بعض عمارتوں کی چھت نہیں ہوتی .مگرکم ازکم دیواریں تو ہوتی ہیں. یااگر دیواریں نہیں تو چھت ہوتی ہے .لیکن مکڑی کے جالے میں چو نہایت ہی نازک تاروں س ے بنایاہوا ہوتا ہے نہ دیوار ہوتی ہے نہ چھت ،نہ صحن ،نہ دروازہ .یہ چیزیں تو رہیں ایک طرف ، دوسری طرف دیکھئے تواس کی ساخت کامٹیریل اس قدر کمزور اورناپائیدار ہوتا ہے کہ وہ کسی حادثے کے مقابلے میں ٹھہر نہیں س کتا . اگر نرم رفتار ہوابھی چلے تو اس کے تانے بانے کودرہم برہم کردے . اگر اس پر بارش کے چند قطرے گرجائیں تواسے برباد کردیں .اگرآگ کے معمولی سے شعلے کی گرمی بھی پہنچے تواسے نابود کردے . حتی کہ اگر اس پر گرد غبار بھی بیٹھ جائے تو بھی پارہ پارہ ہو کر مکان کی چھت سے لٹک جاتا ہے ۔
اس گروہ کے باطل معبودوں کابھی یہی حال ہے . یہ نہ کسی کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان ، نہ کسی مشکل کوحل کرسکتے ہیں اورنہ مصیبت کے وقت کسی کی پناپ گاہ بن سکتے ہیں ۔
ہاں ... یہ ٹھیک ہے کہ یہ گھر دراز پامکڑی کے لیے مرکز استراحت بھی ہے اور اس کے حصول غذاکے لیے حشر ات کوشکار کرنے کاجال بھی ہے ۔
لیکن اگر اس کادوسرے حیوانات اورحشرا ت کے گھر وں سے مقابلہ کیاجائے تو نہایت کمزور اور ناپائیدار ہے ۔
جن لوگوں نے خداکے علاوہ کسی غیرکو اپنا معبود قرار دیاہے ، ان کابھروسہ بھی تار عنکبوت پر ہے . مثلا : فرعونوں کے تخت وتاج ، قارونوں کابے شمار مال وزر ،بادشاہوں کے خزانے او ر محلات . یہ سب تارہائی عنکبوت ہیں اور یہ سب اسباب نمائش طو فان حوا دث کے مقابلے میں . ناپائیدار .ضعیف ، باقابل اعتماد اورفنا پذیر ہیں ۔
تاریخ کے انقلاب ہمیں یہ سبق دیتے ہیں. کہ درحقیقت انسان میں سے کسی چیزپر بھی بھروسہ نہیں کرسکتا ۔
لیکن ... جن لوگوں نے ایمان اور خدا پر توکل اپنی پناہ گا ہ بیایاہے . حقیقت میں ان کاتکیہ مضبوط دیوار پر ہے ۔
اس مقام پر اس نکتے کاذکر بھی ضروری ہے کہ باوجود یکہ مکڑی کاجالا اوراس کے تار کمزور ی کے لیے ضرب المثل ہیں . لیکن وہ عجائب آفرینش میں سے بھی ہے . اگرانسان اس پرغور کرے تو وہ خالق حقیقی کی عظمت سے اوربھی زیادہ آشنا ہوجائے ۔
مکڑی کے تارایک چپکنے والے مادہ سے بنائے جاتے ہیں . یہ مادہ مکڑی کے پیٹ کے نیچے سوئی کے ناکے کے برابرنہایت چھوٹے چھوٹے خلیوں میں ہوتاہے . اس کی ساخت ایک خاص ترکیب سے ہو ئی ہے کہ وہ ہوا لگتے ہی سخت ہو جاتاہے ۔
مکڑی اس مادہ کو اپنی خاص طرح کی انگلیون سے ان خلیوں میں س ے باہر نکالتی ہے اور اس سے اپنا جالابناتی ہے ۔
علم الحیات کے ماہر ین کہتے ہیں مکڑی اس قلیل ترین مادہ سے پانچ سو میڑ تار بنا سکتی ہے ۔
بعض لوگون نے یہ بھی کہاہے کہ مکڑی کاتارا پنی غیرمعمولی نزاکت کی وجہ سے کمزور ہوتاہے وگرنہ اگر اتنا ہی باریک تارفولاد کا ہو تو اس سے مضبوط تر ہو ۔
عجیب بات یہ ہے کہ مکڑی کے جالے کاہر تار ، چار تارون سے مل کر بنا ہوتا ہے . پھر ان چار تاروں میں س ے ہر ایک ہزار تاروں سے مل کر بناہوتا ہے . جن میں س ے تار اس کے بدن کے نہایت چھوٹے سے سورخ میں سے نکلتا ہے .غور طلب یہ امر ہے کہ ان بافتوں کا ہر فتوں کاہر فرعی تار کس قدر باریک ، لطیف اورنازک ہوتا ہوگا ۔
مکڑی کے جالے کی ساخت میں جو مٹیر یل استعمال ہوتا ہے ، اس کے عجیب ہونے کے علاوہ اس کی ساخت اور مہندسی شکل بھی قابل توجہ ہے . اگرہم کسی مکڑی کے سالم گھر کو غور سے دیکھیں توان ہی نازک تاروں میں ہمیں آفتاب در خشاں کی طرح کاایک دلچسپ منظر نظر آئے گا . البتہ مکڑی کے لیے یہ گھر نہایت مناسب اور آئیڈیل ہے . لیکن بحیثیت مجموعی اس سے زیادہ کمزور مکان کاتصور بھی نہیں ہو سکتا اور وہ معبود بھی جن کی خدا کے علاوہ پرستش کی جاتی ہے ایسے ہی ہیں ۔
ا س چھوٹی سی مخلوق کی تخلیق میں قدرت الہی کی عظمت اس وقت اوربھی زیادہ آشکار ہوتی ہے ، جب یہ دیکھا جاتاہے کہ مکڑی صرف ایک ہی قسم کی نہیں ہوتی . بلکہ بعض ماہرین علم الحیات کادعویٰ ہے کہ اب تک بیس ہزار قسم کی مکڑی ہاں پائی گئی ہیں اور ان میں سے ہر نو ع کی خصوصیات الگ الگ ہیں ۔
آیت میں” اصنام “ (بتوں ) کے بجائے کلمہ ”اولیاء “ ( جمع ”ولی “ ) استعمال ہوا ہے .شاید اس کلمے کے استعمال میں یہ حکمت ہے کہ نہ صرف انسان کے خود ساختہ معبود ( بت ) بلکہ خداکے مقرر شدہ پیشوا اور رہبرکو چھوڑ کرجسے بھی پیشوا اوررہبربنا یاجائے وہ سب اسی حکم میں شامل ہیں ۔
جملہ ” لو کانو ا یعلمون “ (اگر وہ جانتے ہوں ) ،آیت کے اخیر میں آیاہے . اس کاتعلق نہ توباطل معبودوں سے ہے اور نہ خانہٴ عنکبوت کی کمزوری سے .کیونکہ اس کی کمزوری کوتوسب ہی جانتے ہیں . اس بنا ء پر اس جملہ کے معنی یہ ہوں گے کہ اگر وہ لوگ اپنے باطل معبودوں اور ان ہستیوں کی جن پروہ تکیہ کرتے ہیں ناپائیدار ی اور بے بقائی کو سمجھتے تووہ جان لیتے کہ یہ سب اپنے ضعف اورعدم قدرت میں تار عنکبوت کی مانند ہیں ۔
اس کے بعد کی آیت میں غافل اور بے خبرمشرکین کو تہدید آمیزتنبیہ کی گئی ہے . چنانچہ کہاگیاہے : خدا ہراس شے کو جسے وہ خدا کے علاوہ پکارتے ہیں جانتا ہے :( ان اللہ یعلم ماید عون من دونہ من شی ء ) ۔
ان کاشر ک جلی ہویا شرک خفی ہوئی بھی خداسے پوشیدہ نہیں ہے .وہی خدا قادر مطلق ، (لازوال اور حکم علی الاطلاقہے (وھوالعزیز الحکیم ) ۔
اگر خدا نے ان کفار کو مہلت سدے رکھی ہے تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ ان کے اعمال کو جانتا نہیں یااس کی قدرت محدود ہے بلکہ یہ اس کی حکمت کاتقاضا ہے کہ وہ انھیں کافی مہلت دے تاکہ ان سب پر اتمام حجت ہوجائے . اوران میں س ے جن افراد میںہدایت پانے کاصلاحیت ہے وہ ہدایت یافتہ ہو جائیں ۔
بعض مفسرین نے اس جملے کو مشرکین کے ان بہانوں کی طرف اشارہ سمجھا ہے جو وہ اپنی بت پرستی کے لیے تراشتے رہتے ہیں اور وہ یہ ہیں کہ : ۔ہم ان بتوں کی پرستش ان کی وجہ سے نہیں کرتے . بلکہ درحقیقت بت تو آسمان کے ستاروں ، پیمبروں اور فرشتوں کے مظہر او رعلاوہ ہیں اور سجدہ کرتے وقت ہمارے تصور میں وہی ہستیان ہوئی ہیں . یہ تو ہم انہی کے احترام میں کرتے ہیں اور ہمارا سود و زبان بھی ان ہی کے اختیار میں ہے ۔
مگر قرآن یہ کہتا ہے کہ تم جن ذاتوں کو پکارتے ہو خدانھیںخوب جانتا ہے .خود وہ کچھ بھی ہوں ... مگرخدا کے حکم اور قدرت کے مقابلہ میں تار عنکبوت کی مانند ہیں . ان کے پاس تمھیں دینے کے لیے کچھ نہیں ہے ۔
زیر نظر آیات میں س ے تیسری آیت دشمنان پیغمبرکے ان اعتراضات کاجوا ب ہے جووہ اس قسم کی مثالوں پر کیاکرتے تھے . وہ کہتے تھے بھلایہ کیسے ممکن ہے کہ وہ خدا جو زمین و آسمان کاخالق ہے ، مکڑی ، مکھی اوراسی طرح کے حشرا ت کی مثالیں دے ۔
قرآن میں اس کا یہ جواب دیا گیاہے کہ ہم لوگوں کے لیے یہ مثالیں بیان کرتے ہیں اور اہل علم کے سوا انھیں کوئی نہیں سمجھتا :
( و تلک الامثال نضرب ھاللناس و ما یعقلھا الاالعالمون ) ۔
کسی مثال کی اہمیت یاالطافت اس کے عظیم یاحقیر ہونے میں نہیں ہے . بلکہ ا س میں ہے کہ وہ اپنے مقصود پر کس طرح منطبق ہوتی ہے . بعض اوقات حقیر سی مثال سے اہم نتائج بر آمد ہوتے ہیں ۔
بطور مثال ... جس وقت کمزور اوربے اساس سہاروں کی بابت گفتگو ہو تو اس وقت مثال کے لیے ” تار عنکبوت “ کاانتخاب عین فصاحت و بلاغت ہے . کیونکہ یہ مثال اس بے اساس وناپا ئیدارے کو بہترین انداز سے واضح کرتی ہے ۔
اسی وجہ سے کہاگیاہے کہ اہل علم ہی قرآن میں بیان کردہ مثالوں کی لطافت و نزاکت کاادر اک کرتے ہیں ۔
زیربحث آیات میں س ے آخری آیت میں یہ اضافہ کیاگیا ہے کہ : خدانے آسمان اور زمین کوحق پر خلق کیا ہے . اس میں ایمان لانے والوں کے لیے عظیم نشانی ہے : ( خلق اللہ السموات الارض بالحق ان فی ذالک لایة للمئو منین ) ۔
خدا کاکوئی کام بھی باطل او رعبث نہیں ہے . اگر خدا کسی وقت مکڑی اورا س کے کمزور اور بے بنیاد گھر کی مثال دیتا ہے تو درست ہے اور اگروہ مثال کے لیے کسی حقیر سے وجود کاانتخاب کرتا ہے توحق کو بیان کرنے کے لیے ہے . وگرنہ اس کے لیے کسی بڑی چیز کی مثال کرنا کونسا مشکل و ہ تو عظیم کہکشا ؤں اور نظام مہائے آسمائے کاخالق ہے ۔
یہ امر بھی قابل غور ہے کہ ان چند آیات کے آخیر میں آیات الہٰی کے ادراک کامعیار علم و ایمان کو قرار دیاگیا ہے .ایک جگہ فرماتا ہے کہ ” لو کانوا یعلمون “ ( اگر وہ جانتے ) دوسری جگہ فرماتا ہے : ” ما یعقلھا الا العالمون “ ( ان مثالوں کی نزاکت کابجز عالمان آگا ہ کے کوئی ادراک نہیں کرسکتا ) ۔
اس آخر ی آ یت میں فر ماتا ہے :” ان فی ذلک الا یة للمئومنین
اس میں اہل ایمان کے لیے بڑی نشانی ہے ۔
ان تمام معیارات سے مراد یہ ہے کہ حق تو جمال آفتاب کی طرح روشن ہے مگر اہل اور بیدار دل ہی اس کی کرنوں سے مستفید ہوتے ہیں . وہ قلوب جو آگاہ ہیں او ر جو جستجوئے حق رکھتے ہیں . حق کو قبول کرنے کے لیے بیدار روح اور قلب سلیم کی ضرور ت ہے . اگر یہ کوردل مشرک جمال حق کو نہیں دیکھتے تواس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ مخفی ہے بلکہ سبب یہ ہے کہ وہ بصیرت سے عادی ہیں ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma